اشاعتیں

مئی, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کاش! مولانا فضل الرحمن ایسا کر دیں

لاکھ مخالفت کے باوجود، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ایسی بات کہی ہے جو متوازن ہے اور جس بات کی بنیاد توازن پر ہو، اسے سننا چاہئے اور اس پر غور بھی کرنا چاہئے۔   بدقسمتی سے ہم آج دو انتہاﺅں کا شکار ہیں اور سچائی ان دو انتہاﺅں کے درمیان چھپ گئی ہے۔ ایک طرف وہ فریق ہے جو امریکہ پر کئے جانےوالے کسی اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا، ہر خرابی کا ذمہ دار مذہبی حلقوں کو گردانتا ہے اور یہ ماننے کےلئے تیار نہیں کہ اگر ہم امریکہ کی چند باتیں مانتے اور اکثر باتیں نہ مانتے تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ وہ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ جنرل مشرف اور مسلم لیگ ق کی مشترکہ حکومت نے امریکہ کے وہ مطالبات بھی تسلیم کر لئے جن کی توقع خود امریکی بھی نہیں کر رہے تھے۔ دوسرا فریق ایک اور انتہا پر کھڑا ہے۔ اسکے نزدیک دھماکے کرنےوالے سب کے سب بھارتی اور اسرائیلی ہیں۔ وہ ایک لمحے کےلئے بھی اس موضوع پر بات کرنا تو درکنار، سوچنا بھی گوارا نہیں کر رہے کہ اگر اسامہ سے لےکر عمر خالد شیخ تک سب کے سب مطلوب افراد پاکستان سے برآمد ہونگے تو دنیا پاکستان کے بارے میں منفی رائے ضرور قائم کرےگی اگر اس فریق سے کہا جائ...

کیا وزیر اعظم گیلانی ایسا کریں گے ؟؟

صدر تو ایک حادثے کے نتیجے میں سیاست میں در آئے، سوال یہ ہے کہ مصیبت کے اس موسم میں کیا وزیراعظم عوام کے دکھ میں شریک ہیں؟ نہیں! بالکل نہیں! وزیراعظم کو اُس مصیبت کے دسویں تو کیا ہزارویں حصے کا بھی احساس نہیں جس میں ٹیکس ادا کرنےوالے بے بس عوام مبتلا ہیں! سوٹ اور نکٹائی‘ سوٹ اور نکٹائی‘ اسکے بعد پھر سوٹ نکٹائی اور صرف اور صرف سوٹ اور نکٹائی! دنیا کے تمام ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان اگر سوٹوں اور نکٹائیوں کا مقابلہ ہو تو پاکستان کے وزیراعظم کم از کم اس مقابلے میں فرسٹ پوزیشن ضرور حاصل کر لیں گے! حد سے بڑھے ہوئے اس شوق کی تہہ میں کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا کچھ اور؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جو وزیراعظم سوٹ اور نکٹائی کے بغیر خواب میں بھی نظر نہ آئے اُسے کیا معلوم کہ چالیس سے بڑھے ہوئے درجہ حرارت میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ عوام پر کیا قیامت ڈھا رہی ہے! کوئی مانے یا نہ مانے، لوڈشیڈنگ سے نجات پانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر اور وفاقی وزیروں کی رہائشی کالونی میں بھی اتنی ہی لوڈشیڈنگ ہو جتنی پاکستان کے عوام کےلئے ہے۔ ان مراعات یافتہ افراد کو صرف ایک جون اور...

اصل چہرہ

ہم پاکستانی عوام مزے میں ہیں۔ اُس خوش قسمت شخص کی طرح جسکے دل کی شریانیں بند ہو رہی تھیں لیکن اُسے معلوم ہی نہ تھا۔ وہ بکرے کے مغز سے لےکر بھینس کے پائے تک اور شیرے سے لبالب بھری ہوئی جلیبی سے لےکر گھی میں تیرتے سوہن حلوے تک سب کچھ کھا رہا تھا اور ڈٹ کر کھا رہا تھا اور وہ جسے اپنے دل کی بیماری کا علم تھا وہ علاج بھی کرا رہا تھا، پرہیز بھی کر رہا تھا اور ڈر بھی رہا تھا۔اس لیے کہ آگہی عذاب ہوتی ہےاور بے خبری میں عیش ہی عیش ہے۔  ہم پاکستانی عوام کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک تو خواندگی کا تناسب پندرہ بیس فی صد سے زیادہ نہیں اور اس پندرہ بیس فی صد میں بھی اُن لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی بین الاقوامی میڈیا تک رسائی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا سے مراد  صرف وہ ذرائع نہیں جو امریکہ کے نکتہ نظر کا پرچار کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے اب اُن ذرائع ابلاغ تک بھی پہنچا جا سکتا ہے جو امریکی استعمار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام کو اس کا اندازہ ہی نہیں کہ دوسرے ملکوں میں بڑے سے بڑا شخص بھی جرم کر کے بچ نہیں سکتا۔ ہمارے اخبارات اُن جرائم س...

پاکستان کی سرحدیں مقدس ہیں

پو پھٹنے سے لے کر سورج نکلنے تک کا وقت عجیب و غریب ہوتا ہے۔ سکوت، سکوت میں پرندوں کی چہچہاہٹ،  دروازوں پر کرنوں کی  دستک ۔ اُس نے تلاوت ختم کی تو آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ حج کی مٹھاس ابھی تک دل کی زبان پر تھی۔ اُس نے ایک سرد آہ کھینچی ”میرا دل کر رہا ہے کہ میں عمرہ کروں“ وہ قریب ہی بیٹھا تھا، بیوی کی سرد آہ اُس نے سُنی اور حسرت بھی۔ اُسی دن دوپہر کو وہ ٹریول ایجنٹ کے پاس پہنچ گیا۔ ”مجھے عمرہ کےلئے دو ٹکٹ چاہئیں، اپنا اور بیوی کا۔ ہم کل ہی روانہ ہونا چاہتے ہیں۔“ ”کیا آپکے پاس عمرہ کے ویزے ہیں؟“ ٹریول ایجنٹ نے پوچھا۔  اُسے غصہ آ گیا۔ ”ہمیں کسی ویزے کی ضرورت نہیں، ہم نے اللہ کے گھر میں جانا ہے اور رسول کی چوکھٹ پر حاضری دینا ہے۔ یہ ہمارا حق ہے۔ اس میں ویزے کہاں سے آ گئے؟“ ٹریول ایجنٹ نے بات سُنی اور مسکرایا، اُس نے چائے منگوائی اور آرام اور پیار کے ساتھ سمجھانے لگا ”چودھری صاحب! آپکی بات بالکل صحیح ہے لیکن اس کے باوجود صحیح نہیں۔ دنیا کے سارے ملک قانون کے سہارے چل رہے ہیں، یہ درست ہے کہ آپ کو اللہ کے گھر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن سعودی قانون کی رو سے آپ کو ...

خضاب ، پلاسٹک سرجری اور فائبر گلاس کی ٹانگیں.

وہ دیکھتی تھی اور خون کے آنسو روتی تھی۔ اُسے ہر طرف اندھیرا     نظر آرہا تھا۔یوں لگتا تھا اُس کی آنکھیں رو رو کر بینائی کھو دیں گی۔اس کا جُھریوں سے اٹا چہرہ آنکھوں سے بہتے پانی کی گذر گاہ بن کر رہ گیا تھا۔ہاتھ مُڑ گئے تھے۔بال جو کسی زمانے میں ریشم کے لچھے تھے۔اب اس طرح ہوگئے تھے جیسے شاعر نے انہی کے بارے میں کہا تھا.... برگد کی جٹائیں بال اس کے زنبورِ سیاہ خال اس کے وہ دیکھتی تھی اور روتی تھی۔ حالات دگرگوں تھے۔ہر آنے والا دن، گذرے ہوئے دن سے بدتر تھا۔ ملک تھا یا غارت گردی کا عشرت کدہ تھا۔کبھی خبر آتی تھی کہ حکومت نے حاجیوں کی رقم سے سینکڑوں معززین کو حج کرایا ہے۔کبھی خبر آتی تھی کہ ڈاکوﺅں نے ناکہ لگا کر درجنوں شہریوں کو لوٹ لیا۔کسی کے گھر سے سولہ لاکھ، کہیں سے ستر لاکھ اور کسی فیکٹری سے کروڑوں روپے کا سامان ، کبھی بیس گاڑیوں اور دس موٹر سائیکلوں کی چوری کی خبر آتی اور کبھی دن دیہاڑے بسوں کو لوٹ کر مسافروں کو نذرِ آتش کردینے کے واقعات رپورٹ ہوتے۔چالیس ارب روپے کی سرکاری املاک چند کروڑ میں فروخت کی جارہی تھیں۔مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ کرائے ہف...