Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 19, 2011

مگر مچھ، کینچوا اور قومی بچت کا ادارہ

ان دنوں یہ کالم نگار ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وزیر دفاع راﺅ سکندر مرحوم کا فون آیا۔ (وہ پیار یا معصومیت سے جنرل صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے) انہوں نے بتایا کہ انکے دوست اشرف سوہنا صاحب ممبر پنجاب اسمبلی تشریف لانا چاہتے ہیں۔ سوہنا صاحب آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک بوڑھی بے بس بیوہ کو (جو غالباً سوہنا صاحب کے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھتی تھی) کچھ لاکھ روپے مرحوم شوہر کے سرکاری واجبات کے طور پر ملے۔ اس سے ایک شخص نے یہ رقم کاروبار کا لالچ دے کر ہتھیا لی۔ اس شخص کا تعلق ہمارے محکمے سے تھا۔

اس شخص نے بے بس بیوہ کی رقم واپس کی یا نہیں یہ الگ کہانی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس نے رقم واپس کرنے کے بجائے ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل اور اسکے آفس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کر دیا کہ یہ لوگ اسکے ”ذاتی“ معاملے میں دخل انداز ہو رہے ہیں اور اپنی سرکاری پوزیشن کا ”ناجائز“ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ موضوع سے غیر متعلق ہے۔ کالم نگار یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ ہے وہ سلوک جو معاشرہ بوڑھی بے بس بیواﺅں کےساتھ روا رکھ رہا ہے۔ کہیں کاروبار کا لالچ دے کر رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ کہیں رقم ”ڈبل“ کرنے کے چکر میں لے لی جاتی ہے اور کہیں ”ہمدرد“ رشتہ دار رقم کو ”حفاظت“ سے رکھنے کےلئے سامنے آ جاتے ہیں۔ کواپریٹو سوسائٹیوں نے جو تباہی مچائی اسکی یاد ابھی تک پسے ہوئے عوام کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی۔ ایک اور ادارہ جو کلام پاک کی طباعت کا مقدس کام کرتا تھا، اس نے بھی حسن ظن رکھنے والے وابستگان کو کہیں کا نہ رکھا۔ اس صورتحال میں حکومت پاکستان کا قومی بچت کا ادارہ بوڑھوں اور بیواﺅں کا واحد سہارا ہے۔ آپ تصور کیجئے ستر سال کا ایک بوڑھا ہے یا بیوہ ہے جو ملازمت کے قابل ہے نہ کاروبار کے اسکے پاس زندگی بھر کی کمائی دس بیس یا تیس لاکھ روپے ہیں اس رقم سے ایک کمرے کا مکان تک نہیں خریدا جا سکتا۔ فرض کریں وہ خرید بھی لے اور کرائے پر چڑھا دے تو اس عمر میں کرایہ داروں سے کیسے نمٹے گا؟ ہر ماہ کرایہ وصول کرنے کےلئے دستکیں دیتا رہے گا۔ ایسے میں اس کا واحد سہارا نیشنل سیونگ (قومی بچت) کا ادارہ ہے۔ وہ اپنی زندگی بھر کی کمائی یہاں جمع کرا کے بے فکری سے زندگی کے باقی دن گذار سکتا ہے۔ ہر مہینے اسے یہ ادارہ جمع شدہ سرمایہ کے معاوضہ کے طور پر ایک معقول رقم ادا کرتا ہے۔ جس سے وہ اپنی زندگی کے مصارف پورے کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج ہوئے بغیر زندگی کی شام گذار سکتا ہے!
دوسری طرف یہ بوڑھے اور یہ بے بس بیوائیں حکومت پر احسان بھی کر رہی ہیں۔ قومی بچت کا ادارہ جمع شدہ رقوم اکٹھی کر کے اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔حکومت کو جب قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس ادارے سے قرض لیتی ہے اگر حکومت پرائیویٹ بنکوں سے قرض لے تو بنک بھاری شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔ اسکے برعکس قومی بچت کا ادارہ کم شرح پر قرض مہیا کر دیتا ہے۔

چاہئے تو یہ کہ حکومت اس ادارے کو مزید مضبوط بنائے اور اسکی بہبود اور صحت و سلامتی کا خیال رکھے لیکن بدقسمتی سے حکومت ہمیشہ مفاد پرست گروہوں کے ہاتھ میں کھیلتی ہے اور کھیلتی رہی ہے۔ کبھی چینی چرانے والے اور عوام سے اربوں روپے ناجائز منافع کے طور پر لوٹنے والے کابینہ میں براجمان ہوتے ہیں کبھی آٹے کی قلت پیدا کرنےوالے پالیسی سازی پر قابض ہوتے ہیں۔ کبھی سیمنٹ مہنگا کرنےوالے اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی جعلی دوائیں بنانے والے عوام کی گردنوں پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اب ایک اور مافیا قومی بچت کے محکمے کے درپے ہو رہا ہے۔ قومی بچت کے مراکز میں افراد کے علاوہ ادارے بھی اپنی بچتیں جمع کرا سکتے ہیں۔ یہ صورتحال نجی بنکوں کو کسی طرح قابل قبول ہوسکتی تھی؟ چنانچہ گذشتہ ہفتے بنکوں کے مافیا نے وزارت خزانہ کے ارباب قضا و قدر سے ایک انوکھا فیصلہ ”کرایا“ ہے۔ اس انوکھے فیصلے کی رو سے افراد تو قومی بچت کے مراکز میںرقوم جمع کرا سکتے ہیں لیکن اداروں کو اسکی اجازت نہیں ہو گی چنانچہ اب ادارے اپنی رقوم مجبوراً بنکوں میں جمع کرائینگے۔ بنک جمع کرانےوالوں کو تو معاوضہ برائے نام دینگے لیکن جب یہ جمع شدہ رقوم حکومت کو قرض کے طور پر دینگے تو کئی گنا زیادہ منافع لیں گے! اس انوکھے فیصلے کی رو سے بنکوں میں رقوم جمع کرانےوالے اداروں کو بھی نقصان ہو گا۔
قومی بچت کے ادارہ کو بھی نقصان ہو گا اور حکومت کو بھی نقصان ہو گا۔ فائدہ صرف ایک فریق کو ہو گا اور وہ فریق ہے نجی بنک!اسے کہتے ہیں اسی شاخ کو کاٹنا جس پر بیٹھا جاتا ہے! اس ملک میں عوام اور عوامی اداروں کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے اور خودکشی کی یہ روایت بدستور جاری ہے۔ قومی بچت کے ادارے کے سربراہ ظفر شیخ ایک منجھے ہوئے بنکار ہیں اور پوری قوت سے مفاد پرست گروہوں کی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن وزارت خزانہ ایک ایسا مگر مچھ ہے جس کے دانت بہت تیز ہیں۔ یہ مگر مچھ عوام کو ایک کینچوے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ تاہم اگر ورلڈ بنک سامنے آ جائے یا نجی بنک اس مگر مچھ کی دم پکڑیں تو یہ خود ایک بے ضرر کینچوے کی شکل اختیار کر لیتا ہے!

2 comments:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

حضور!۔

آپ اسقدر باخبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہیں۔ آپکی لاعلمی حیرت اور افسوس ہوتاہے۔ آپ نت نئے روز ایک سے نیا ایک موضوع اس قوم کو باخبر رکھنے کے لئیے ڈھونڈ لاتے ہیں۔ اور مفت میں محنت شاقہ کرتے ہیں۔

آپ جن کو باخبر کرنے کے لئیے لکھتے ہیں ۔ان عوام نے بوٹی پی کر ایسی نیند لے رکھی ہے کہ وہ روز قیامت ہی آنکھیں کھولیں تو کھولیں ۔ اس سے پہلے عوام آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں۔

جبکہ ارباب اقتدار و اختیار کے بارے عرض ہے کہ مدتیں بیت گئیں کہ وہ پاکستان کا سودا کر چکے۔ اور آپ ہیں کہ بے خبر لکھے جارہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ سودے کو تکمیل دینے میں ابھی کچھ وقت ہے اور تب تک مہاجن ہمارے ارباب اقتدار و اختیار سے کم سے کم شرائط سے زیادہ سے زیادہ منافع بخش شرائط کے لئیے دن بدن نت نیا طریقوں سے دباؤ ڈال رہا ہے۔

انہیں تین سے زائد عرصہ ہوگیا ہے اور انکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسقدر بندر بانٹ کے بعد بھی وہ ایک سال سے آگے چل پائیں گے ۔ اسلئیے پہلے ہی سال انھوں نے دونوں دونوں ہاتھوں سے ملک قوم کے اثاثوں کو لوٹا ہے۔ باقی کے دو سال کا عرصہ انھیں بونس میں مل گیا ہے۔ اور باقی رہ جانے والے سال دیڑھ سال کا وہ بندوبست کئیے ہوئے ہیں۔ نیشنل سیونگ یا قومی بچت کا داراے سے پھر انھیں کیا لینا دینا ہوگا؟ جب وہ ننگ ملت ننگ قوم ننگ وطن مشرف کی طرح یہاں ہونگے ہی نہیں وہ اور انکے اکثر درباری اپنی بساط لپیٹ کر ادہر واپس جا چکے ہونگے جہاں یہ ہم پہ مقرر کئیے جاتے ہیں۔

بھولے بادشاہو!۔ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو ہر کوئی اپنا مال اسباب کی فکر کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ قسم قسم کی مافیا بھی اپنے مال و اسباب کی فکر کرہی ہیں۔ انکے پاس یہ سال دوسال کا باقی کا عرصہ ہے۔ جب یہ بادشاہ اور درباری پاکستان سے رخصت ہونگے تو پاکستان غریبی اور بدنظمی کے نشیب میں کچھ سیڑھیاں مزید اتر چکا ہوگا۔ ہماری خارجہ و داخلہ ، معاشی و قومی خود مختاری کے نٹ کو مزیڈ کچھ مزید کس دیا جا چکا ہوگا۔

مشرف گیا تو پتہ چلا ہماری قومی خود مختاری کے بولٹ پہ نٹ کو مذید کس دیا گیا۔ یہ بادشاہ اور درباری رخصت ہونگی ہماری خودمخترای یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کی زندگی کے بولٹ پہ نٹ کو کچھ مذید کس جائیں گے ۔ جو نئے بادشاہ اور درباری بیجھیں جائیں گے مہاجں انکے لئیے ، انکی مافیاز کے لئیے دی گئی مراعات کے بدلے میں پاکستان کے بولٹ پہ نٹ کو مزید کس دے گا۔

ہر نئے بادشا اور درباریوں کے ساتھ پاکستان کی خود مختاری کا بولٹ مزید کس دیا جاتا ہے۔

لیکن مسئلہ ہی ہے کہ ان چکر در چکر گھومتا نٹ بولٹ کے آخری سرے پہ آن پہنچا ہے۔ جسے مہاجن لوگ سودے کی تکمیل گردانتے ہیں۔

اس سودے میں داؤ پہ پاکستان لگا ہوا ہے۔ یہ وہ لاعلمی جس سے آپ ، میں اور قوم بے خبر غٹ سوئی ہے۔ جبکہ پاکستان کے لئیے صور اسرافیل بجا ہی جاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ توبہ کا دراوازہ بن ہوجائے۔ ہمیں آنکھیں کھول کر قسم قسم کے شعبدہ باز بادشاہوں اور درباریوں سے جان چھڑوا لینی چاہئیے۔

fareeda malik said...

جاوید گوندل صاحب کی بات صحیح ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لکھنے والے چُپ کر کے بیٹھ جائیں۔
ہر شخص کو اپنے حصّے کا کام کرتے رہنا چاہیے

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com