شہر کی دیواریں اشتہاروں سے اٹی پڑی تھیں۔ ’’ہم اپنے لیڈر کو ووٹ دینگے‘‘۔ لیڈر کی جیت ’’انتخابات‘‘ میں اتنی یقینی تھی کہ ’’فتح‘‘ کے بعد کے پروگراموں کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ ’’نوے فیصد ووٹ ہر حال میں ملیں گے‘‘۔ تین اپریل کو لیڈر حسبِ پروگرام جیت گیا۔ قزاقستان کے ’’منتخب‘‘ صدر نور سلطان کو مزید دس سال مل گئے۔ گذشتہ بائیس سالوں سے وہ قوم کی ’’قیادت‘‘ کر رہے ہیں۔
چھ سو افراد شہر کے سٹی ہال کے سامنے نعرے لگا رہے تھے ’’ہمیں آئینی اصلاحات چاہئیں۔ بدعنوانوں پر مقدمے چلائو‘‘۔ یہ چار دن پہلے کی بات ہے۔ ابھی یہ چھ سات سو لوگ نعرے لگا ہی رہے تھے کہ پچاس ساٹھ افراد اردن کے بادشاہ کی تصویریں لہراتے اُنکے مقابلے میں آ گئے۔ وہ بادشاہ کیساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر رہے تھے۔ سینکڑوں پولیس والے ’’ڈیوٹی‘‘ پر تھے۔ اور چار ہی دن پہلے قاہرہ اور سکندریہ میں ہزاروں افراد نے جلوس نکالے۔ ’’حسنی مبارک پر مقدمہ چلائو‘‘۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جلوس نکالنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن مسلح افواج کی سپریم کونسل لوٹ مار کرنیوالوں کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ لوٹ مار کرنیوالوں میں سرفہرست حسنی مبارک، اسکی بیوی اور دو بیٹے ہیں۔ یہ بڑے بڑے اسلامی ممالک ہیں۔ انہیں دنیائے اسلام کے رہنما ممالک بھی کہا جا سکتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے جب یورپ بھر کے متحدہ لشکر کو بیت المقدس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا تھا، اُس وقت اُس کا دارالحکومت قاہرہ ہی تو تھا!
عالمِ اسلام کے ان رہنما ممالک کے مقابلے میں اُن ملکوں کو دیکھئے جن کا نام سنتے ہی ہر مسلمان کا خون جوش میں آ جاتا ہے۔ برطانیہ، امریکہ، جاپان، سوئٹزرلینڈ، کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے سینوں پر گولیاں کھانی پڑتی ہوں۔ تین سال… یا زیادہ سے زیادہ دو بار انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ جتنے عرصہ میں ایک حسنی مبارک، ایک قذافی، ایک نور سلطان، ایک بشارالاسد، ایک ضیاء الحق اور ایک پرویز مشرف بھگتایا جاتا ہے، اتنے عرصہ میں مغربی ملکوں میں دس دس بار حکومتیں بدلتی ہیں۔ پرامن طریقے سے، ایک ضابطے کیساتھ، قاعدے قانون کی رُو سے۔ پھر یہ قذافی، یہ حسنی مبارک منوں اور ٹنوں کے حساب سے سونا اور جواہرات اکٹھے کر چکے ہوتے ہیں اور کسی دوسرے ’’مقدس‘‘ ملک میں بقیہ زندگی آرام سے گزارتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں مارگریٹ تھیچر ہو یا ٹونی بلیئر، انکے اثاثے ہر شخص کو معلوم ہوتے ہیں!
ہماری کٹ حجتی کا یہ عالم ہے کہ جب سائنس، ٹیکنالوجی، علم، آئیڈیاز اور جمہوریت کے میدانوں میں ہماری پسماندگی اور شکست خوردگی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ مغرب صنفی بے راہروی کا شکار ہے اور اخلاقی میدان میں پیچھے ہے۔ اگر خلط مبحث کی اجازت دے بھی دی جائے تو اسکے باوجود ہم بھول جاتے ہیں کہ صنفی بے راہروی ہمارے اپنے ہاں مغرب سے شاید ہی کم ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں سب کچھ چھُپ کر کیا جاتا ہے‘ جس ملک کی ہر دیوار پر ہر ریلوے اسٹیشن پر اور بادامی باغ سے پیرودھائی تک ہر بس سٹاپ پر جنسی بیماریوں کے نام واضح اور خوشخط لکھے ہوئے ہوں، لاکھوں ہاری عورتیں جاگیرداروں کی حویلیوں میں صنفی بربریت کا نشانہ بن رہی ہوں۔ گلبرگ، ڈیفنس اور حیات آباد کے ہر چوتھے گھر میں ’’کاروبار‘‘ ہو رہا ہو اور لاکھوں مزاروں پر اولاد ’’عطا‘‘ ہوتی ہو وہ ملک دوسروں کو اخلاقی برتری کا سبق دیتا ہے! اور ظلم یہ ہے کہ اسے اپنی خبر ہی نہیں! یا خبر تو ہے لیکن تکبر اجازت نہیں دیتا کہ سچ کو سچ مانا جائے۔
منافقت کا یہ عالم ہے کہ مدارس کو چھوڑ کر، سب سے زیادہ مذہب لوگ تاجروں اور دکانداروں میں ہیں، تبلیغ سے لیکر صدقہ خیرات اور چندے دینے تک، ہماری تاجر برادری، ہماری بزنس کلاس، سب سے آگے ہے۔ انکی اکثریت متشرع ہے اور صوم و صلوٰۃ کی پابند ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹ بھی اسی طبقے میں ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ، ناروا منافع خوری، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا، وعدہ خلافی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیکس چوری کرنا اور محکمہ ٹیکس کے اہلکاروں کو خوش رکھ کر ریاست کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانا اس طبقے کا ایسا عنوان ہے جو جلی حروف میں لکھا ہے اور جس کا انکار کوئی اندھا ہی کرے تو کرے!
مستقبل قریب میں ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے جو اس طرزِعمل کو بدلنے کی نشاندہی کرتے ہوں۔ اپنا محاسبہ کرنے اور میدانِ عمل میں کچھ کر دکھانے کے بجائے قومی سطح پر وتیرہ یہ بن گیا ہے کہ ہر الزام دوسروں کو دیا جائے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، سب کچھ سازش کا نتیجہ قرار دیا جائے تاکہ خود کچھ نہ کرنا پڑے۔ یوں لگتا ہے کہ پوری قوم مالیخولیا اور خفقان کی مریض ہے۔ جو کام ہم نے جان بوجھ کر، کرپشن کی وجہ سے، نہ کیا ہو اس کا الزام بھی یہود و ہنود کو دیا جاتا ہے اس لیے کی یہ آسان ترین کام ہے۔ یہی رویّہ انفرادی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر تیسرے شخص کو یہ وہم بلکہ یقین ہے کہ اُس پر تعویذ کئے جا رہے ہیں، اُس پر جادو ہو رہا ہے، اُسے کسی کی نذر لگ گئی ہے، اُس پر آسیب کا سایہ ہے اور سب لوگ اُسکے دشمن ہیں۔ ناکامی، انفرادی ہے یا قومی، اُس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا، ایسے اسباب نہیں تلاش کئے جاتے جو کامیابی سے ہمکنار کریں اور انہیں اپنا لیا جائے، اس رویے کا نتیجہ یہ ہے کہ نجومیوں، فال نکالنے والوں، تعویذ فروشوں، خلافِ شریعت استخارے کی دکانیں لگانے والوں اور کالے جادو کا توڑ کرنیوالوں نے پوری قوم کو اپنے ناپاک پنجوں میں جکڑ رکھا ہے!
احساسِ کمتری اور ظاہری ٹھاٹھ کا یہ عالم ہے کہ ناموں کیساتھ سابق جرنیل، سابق وزیر، سابق ناظم، سابق ایم این اے، یہاں تک کہ سابق امیدوار بھی لکھنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ مدتیں گزریں ایک قبرستان میں ایک کتبہ دیکھا تھا جو آج تک بھولتا نہیں، مرحوم کے نام کیساتھ چیف انجینئرریلوے پورے طمطراق سے لکھا تھا۔ اب تو ای میل ایڈریسوں میں جرنیلی ڈالی جا رہی ہے۔ صائبؔ تبریزی نے ہمارے عہد ہی کیلئے کہا ہو گا …؎
پیش ازیں بر رفتگاں افسوس می خوردند خلق
می خورند افسوس در ایامِ ما بر ماندگان
ایک زمانہ تھا کہ رفتگاں کا افسوس کیا جاتا تھا۔ آج وہ وقت آ گیا ہے کہ لوگ پسماندگان پر افسوس کر رہے ہیں۔
3 comments:
باقی ملکوں کو چھويئے ۔ بات صر اپنیة کرتے ہيں ۔ جرنيل تو ڈنڈے کے زور سے آتے ہيں مگر دوسرے لُٹير تو عوام ہی ووٹ دے کر منتخب کرتے ہيں ۔ عوام ميں سے کتنے ہيں جو ووٹ کو اپنا قومی يا انسانی فريضہ سمجھ کر استعمال کرتے ہيں اور کتنے ہيں جو ووٹ دتے ہيں ۔ 60 فيصد تو ووٹ ڈالنے کی بجائے سونے کو ترجيح ديتے ہيں ۔ اللہ کا فرمان تو غلط نہيں ہو سکتا
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ترجمہ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
آپ کو معلوم ہی ہے کہ بارہ سنگھا صاحب ہر جگہ انگلی کرتے ہیں۔جہاں موقع ملا انگلی کردی۔تو ایک بار یہ بارہ سنگھا صاحب اپنے ایک نہایت ہی مخلص اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے سائینس دان قسم کے دوست کے گھر تبادلہ خیال کیلئے تشریف لے گئے۔
بارہ سنگھا صاحب کو بیت الخلا کی حاجت محسوس ہوئی تو اپنے سائینس دان دوست سے پوچھا کہ بیت الخلاء کہاں ہے؟
۔اعلی تعلیم یافتہ سائینسدان صاحب کو بیت الخلاء کی سمجھ نہ آئی تو بارہ سنگھا صاحب نے وضاحت کی کہ واش ڑوم جہاں صفائی دھلائی کی جاتی ہے وہ کہاں ہے۔ دوسٹ صاحب سمجھ گئے اور انہیں واش ڑوم کا رستہ دکھایا۔اور ساتھ ہی سائینسی طریقے سے سمجھایا ۔
کہ واش ڑوم میں دو بٹن لگے ہیں ایک سبز بٹن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسرا۔۔۔۔۔۔۔سرخ بٹن۔۔۔۔۔۔۔آپ نے صرف سبز بٹن دبانا ھے!۔
بارہ سنگھا صاحب سمجھ گئے اور واش روم جاکر فارغ الپیٹ ہونے کے بعد سبز بٹن دبایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فوراً ہی تیز رفتار پانی آیا اور صفائی ہوگئی۔ بارہ سنگھا صاحب منہ ہاتھ دھو کر ہٹنے لگے تودل میں کھجلی ہوئی جیسے کہ ان کی عادت ہے انگلی پنگا کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرخ بٹن دبا کر دیکھوں آخر ہوتا کیا ہے۔
بارہ سنگھا صاحب نے نہایت بیچینی اور اشتیاق سے سرخ بٹن پر انگلی رکھی۔۔۔۔۔۔۔ بٹن دبانے کی دیر تھی کہ بجلی کی رفتار سے سامنے کی دیوار سے ایک مکہ نکلا اور پوری قوت سے بارہ سنگھا صاحب کے منہ پر پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارہ سنگھا صاحب کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔وہ تیورا کر فرش پر گرے۔۔۔دل کی ڈھرکنیں بے ترتیب ہو گئیں۔۔۔نبض ڈوبنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔۔۔ جسم پر کپکپی طاری ہوگئی اور کانوں میں سیٹیاں تے شیٹیاں بجنے لگیں۔۔۔ کافی دیر تک وہ اسی عالم میں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر دس پندرہ منٹ بعد جیسے ہی کچھ ہوش آیا۔۔۔وہ اٹھے۔۔۔۔۔۔۔گال تھپتھپائے۔۔۔۔۔ آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارے ۔۔۔۔۔۔خود کو سنبھالا اور لباس درست کرتے ہوئے باہر آکر بڑی خاموشی سے صوفے پربیٹھ گئے۔
دوست نے پوچھا۔۔۔۔۔۔بارہ سنگھا صاحب!!۔۔۔۔سرخ بٹن تو نہیں دبایا تھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بارہ سنگھا صاحب فوراً بولے۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔۔سرخ بٹن دبا کر میں نے منہ تڑوانا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!
یاسر خامخواہ جاپانی صاحب، یہ سنا سنایا واقعہ ہے یا آپ نے ذاتی تجربہ بیان کیا ہے؟ :)۔
Post a Comment