Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 01, 2011

جنازہ گاہ اور لنڈن سکول آف اکنامکس

جنازہ گاہ لوگوں سے بھر چکی تھی۔ بہت سے ابھی تیز تیز قدموں سے آ رہے تھے۔ امام کے مصلے پر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ مولوی صاحب نے شرکائے غم کو بتایا کہ یہ نوجوان مرحومہ کا پوتا ہے اور اپنی دادی کی نماز جنازہ خود پڑھائے گا۔

مرکزی حکومت کے سینئر بیوروکریٹ عبدالبصیر کا یہ سعادت مند فرزند ’نعمان‘ پیشہ ور نماز پڑھانے والا نہ تھا۔ وہ لندن سکول آف اکنامکس کا فارغ التحصیل ہے اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اس نے نماز جنازہ پڑھا کر یہ ثابت کیا کہ اس کام کیلئے کسی مخصوص فرد کی احتیاج قطعاً ضروری نہیں۔ یہ کام تو ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو مسلمان ہے اور اپنے فرائض سے آگاہ ہے۔ مو لوی صاحب نے اس کا تعارف کراتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ اصولی طور پر جنازے کی نماز وارث کو پڑھانی چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے خود ’’مو لوی‘‘ پر انحصار کیا ہوا ہے اور پھر لعن طعن بھی مولوی ہی کو سننا پڑتی ہے۔ اس انحصار بلکہ محتاجی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ان پڑھ قسم کے ملا یہ دھمکی عام دیتے ہیں کہ آخر مولوی سے بچ کر کہاں جائو گے؟ نکاح اور جنازہ تو مولوی ہی نے پڑھانا ہے! سنجیدہ علماء کرام نے ہمیشہ عوام کو یہی تلقین کی ہے کہ اپنے بچوں کو دین کی بنیادی باتوں کا علم دو تاکہ انہیں کسی ’’پیشہ ور‘‘ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس سے پہلے جسٹس رمدے نے اپنی مرحومہ اہلیہ کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی تھی۔ اسلام میں کوئی پوپ ہے نہ پنڈت۔ یہ تو دین اور دنیا کے علم کے درمیان ایک خود ساختہ لکیر ہے جس نے ہمارے ہاں بھی پوپ اور پنڈت کی طرح ’’مولوی‘‘ کا باقاعدہ ادارہ قائم کر لیا ہے ورنہ مولوی کیلئے ضروری نہیں کہ روٹی کمانے کیلئے مسجد اور مدرسے ہی کا سہارا لے۔ اور غیر مولوی کو نماز اور نکاح پڑھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر ابوحنیفہؒ ریشم کی تجارت کرکے اور عالم اسلام میں پہلی سپر مارکیٹ بنا کر امام ابوحنیفہ بن سکتے ہیں تو آج کے علماء کرام بھی کسبِ معاش کیلئے مذہب کا استعمال ترک کر سکتے ہیں۔

یہ وہ دوراہا ہے جہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا علم صرف مذہب کا علم ہے؟ جب اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے تو کیا اس سے مراد صرف مذہب کا علم ہے؟ تاریخ اسکا جواب ’’نہیں‘‘ میں دیتی ہے۔ اگر علم صرف مذہب کے مطالعہ تک محدود ہوتا تو مسلمان جیومیٹری اور الجبرا نہ ایجاد کرتے۔ طب میں ترقی نہ کرتے۔ مغرب نے مسلمانوں ہی سے سیکھا کہ علم مشاہدے اور تجربے سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ ریاضی دان اور طبیب ہونے کیلئے پادری ہونا لازمی نہیں۔ ایسا ہوتا تو عرب قطب نما نہ بناتے۔ یہ عربوں کا اصطرلاب ہی تھا جس سے عیسائی جہاز رانوں نے عرض بلد کا شمار کرنا سیکھا۔ اگر علم صرف مذہب کا علم ہوتا تو الادریسی جغرافیہ دان کس طرح بنتا اور ابوحنیفہ ریشم کے اتنے بڑے ماہر کیسے بنتے کہ کوفہ اور بغداد میں جو بھی ریشم فروخت کرنے کیلئے آتا۔ منڈی میں ایک ہی بات کہی جاتی کہ اس ریشم کے بارے میں ابوحنیفہ کی رائے کیا ہے؟

ستم ظریفی یہ ہے بلکہ سچی بات اور دھاندلی یہ ہے کہ جب بھی مدارس میں سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کی بات کی جاتی ہے تو چند برخود غلط قسم کے خود ساختہ نمائندے ایک بات کی ضرور تکرار کرتے ہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جدید علوم پڑھانے والوں نے کیا تیر مار لئے؟ جب کہ سنجیدہ اور متین علماء کرام جن کا مدرسوں کی سیاست اور کھڑپینچی سے کوئی تعلق نہیں اور جو وزارت مذہبی امور کی تقاریب میں شرکت کیلئے مارے مارے نہیں پھرتے۔ اس قسم کے الزامی جوابات نہیں دیتے بلکہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ جدید علوم مسلمانوں پر فرض ہیں اور اگر مسلمانوں پر فرض ہیں تو اہل مدرستہ ان سے مستثنیٰ کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دیا کہ ’’تیار کرو انکو لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع ؒلکھتے ہیں ’’قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے‘ اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت ٹینک اور لڑاکا طیارے سے آبدوز کشتیاں جمع کرنا چاہیں۔‘‘

شبیر احمد عثمانی ؒ اس آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں‘‘ آج بندوق توپ ہوائی جہاز آبدوز کشتیاں آہن پوش کروز وغیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنون حربیہ کا سیکھنا سب سامان جہاد ہے‘‘ ظاہر ہے کہ یہ آلات جدید فزکس، کیمسٹری، دیگر سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سیکھے بغیر تیار نہیں کئے جا سکتے۔ دوسرے لفظوں میں مدارس کے اصحابِ قضا و قدر، دین کا علم سیکھنے والوں کو اس علم سے دور رکھے ہوئے ہیں جس کا سیکھنا فرض قرار دیا گیا ہے! رہی یہ دلیل کہ آخر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں نے کون سے تیر مار لئے ہیں تو یہ ایک بودی دلیل ہے جس پر صر ف ہنسا جا سکتا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والوں نے کوئی تیر نہیں مارا تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ’’ہوائی جہاز، آب دوز کشتیوں اور آہن پوش کروزر‘‘ بنانے کے علوم سے مدارس کے طلبہ کو محروم رکھا جائے؟

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں۔ نہ ہی اس کا عمل حجت ہے جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں یا مدارس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حجت اللہ اور رسول کے احکام ہیں۔ یہ احکام کسی کی جاگیر ہیں نہ وراثت۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک خاص وضع قطع رکھنے والوں کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہا جائے یا انکی ہر بات کو رد کر دیا جائے۔ دین اور دنیا کے علوم کی تخصیص کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دین کا علم ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔ اسی طرح دین کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کو سیکھنا بھی ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

اللہ کے رسولؐ نے طوافِ کعبہ کے کچھ چکروں میں اکڑ کرچلنے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ کفار پر دھاک بیٹھے۔ یہ حکم علامت ہے اس بات کی کہ وضع قطع ہو یا علم یا معیشت یا کچھ اور شے مسلمانوں کی حالت پست نہ ہو بلکہ ایسی ہو کہ اس پر فخر کیا جا سکے۔ آج جو جتنا مسکین، مجہول، دبا ہوا اور ضعیف نظر آئے، اتنا ہی اچھا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ یہی حال ملکوں اور قوموں کی برادری میں ہے۔ چوّن مسلمان ملکوں میں ایک مسلمان ملک بھی ایسا نہیں جہاں لوگ بلند معیارِ زندگی کیلئے ہجرت کرنا پسند کریں۔ بلند معیارِ زندگی کو اگر چھوڑ بھی دیں تو پھر بھی کوئی ایسا مسلمان ملک پیش نہیں کیا جا سکتا جہاں نظام انصاف، نظام تعلیم اور نظام معیشت مثالی ہے۔ وعظ کرنے والی مسلمان عورتیں اور شیخ الاسلام کہلانے والے بڑے بڑے واعظ مغربی ملکوں میں جا بیٹھے ہیں اور اپنے معتقدین سے ٹیلی فونوں کے ذریعے خطاب کر رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک رہائش کے قابل بھی نہیں ہیں۔اس کے باوجود ہم مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں لیکن اپنی حالت سنوارنے کی فکر نہیں

دین اور دنیا کے سارے علوم قدرت نے پیدا کئے ہیں۔ اسلام نے ان میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ لنڈن سکول آف اکنامکس کے پڑھے ہوئے نعمان بصیر نے نماز جنازہ پڑھا کر ثابت کیا ہے کہ مخصوص دائرے اہل غرض نے خود کھینچ رکھے ہیں!














5 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی يہی ہے کہ
لوگوں نے خود ’’مو لوی‘‘ پر انحصار کیا ہوا ہے اور پھر لعن طعن بھی مولوی ہی کو کی جاتی ہے

مجھے ايک واقعہ ياد آيا ۔ ايک جگہ مرحوم کے ايصالِ ثواب کيلئے قرآن خانی کی گئی اس کے بعد انتظار کيا جا رہا تھا کسی کو اُٹھ کر جانے بھی نہيں دئ رہے تھے ۔ ميں نے واجہ پوچھی ۔ معلوم ہوا کہ کسی علم والے کی انتظار ہے کہ آ کر دعا کہے ۔ ميں نے اپنے آپ کو پيش کيا تو منظوری نہ ہوئی اور کہا گيا کہ آپ تو مولوی نہيں ہيں

ہمارے لوگ يہ بھی نہيں سوچتے کہ نبی کريم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم تاجر بھی تھے

محمد سعید پالن پوری said...

مدارس کے اصحابِ قضا و قدر، دین کا علم سیکھنے والوں کو اس علم سے دور رکھے ہوئے ہیں جس کا سیکھنا فرض قرار دیا گیا ہے

بیشک فرض قرار دیا ہے لیکن کونسا فرض?فرض کفایہ نہ کہ فرض عین!اور جدید علوم ہی کو نہیں علماء نے دین کے تفصیلی علم کو بھی فرض کفایہ ہی قرار دیا ہے، فرض عین صرف اسلام کے بنیادی ارکان اور ان سے متعلق ابتدائی معلومات ہے، پس جب علوم جدیدہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد لگی ہوئی ہے تو ان کے لگنے سے نہ لگنے والوں کے اوپر سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے جیسے دین کے تفصیلی علم میں مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد کے لگنے سے نہ لگنے والوں کے اوپر سے فریضہ ساقط ہوجاتا ہے، پس ایک فرض کفایہ کو اہل مدارس پکڑے ہوئے ہیں اور دوسرے کو دوسرے، اب دونوں پر لازم ہے کہ دونوں اپنے اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیں اور اپنے حصہ کے کام دوسرے پر نہ تھوپیں۔

نبی پاک صلی اللی علیہ و سلم کو یہودیوں سے خط و کتابت کر نے کے لئے زبان یہود کے جاننے والے کی ضرورت تھی اور مسلمانوں میں کوئی ایسا نہیں تھا تو حضورص نے ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر سارے صحابہ کو زبان یہود سیکھنے میں نہیں لگایا جتنے سے ضرورت پوری ہوسکتی تھی اتنے لگائے اور میرے علم کی حد تک وہ صرف ایک صحابی تھے، ایسے ہی آج مسلمانوں کو ماہرین سائنس و ٹکنالوجی کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سارے ہی مسلمانوں کو اس میں لگانے کی ضرورت نہیں ہے جتنے سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے اتنے لگائے جائیں گے، اور بھائی صاحب فی الوقت جتنے لگے ہوئے ہیں اگر ہم اس کے دسویں حصہ کو بھی کامیاب بنالیں تو وہی مسلمانوں کی ضرورت سے زائد ہوجائیں گے، خلاصہ یہ ہے ہمیں اہل مدارس کو گھسیٹ کر تعداد بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو لگے ہوئے ہیں انہی کو قابل بنانے کی ضرورت ہے

Anonymous said...

Islam has been turned into a complex concoction of rituals. Islam does not recognize an official or mandatory position of an Imam. It is simply an administrative activity providing a practical way of making certain services readily available to the general public on demand.
The concept of prayer in Islam is strictly an establishment of direct contact between man and God that does not require the intervention of a 3rd party to achieve the connection.
Any prayer can be lead by any person. There is no restriction for the ceremony of Nikkah either. The parents, friends or any one from the neighborhood can perform Nikkah as long as mandatory religious and legal requirements have been met.
The education and knowledge in areas other then religion is as important as the religion.

Javed

fikrepakisatan said...

بہت خوبصورت تحریر ھے، آپ نے جو دینی اور دنیاوی علم کی بات کی ھے وہ بلکل ٹھیک ھے کہ علم صرف علم ھے ہم نے اسے دین اور دنیا کا نام دے دیا ھے، فرمان علم کے حصول کا ھے، جنگ بدر میں جب مشرکیں قیدی بنا کے لائے گئے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کے، جو پڑھا سکے دس مسلمانوں کو وہ قیدی آزاد ھوگا، ظاہر سی بات ھے حضور پاک نے مشرکین سے دین پڑھانے کے لئیے تو نہیں کہا ھوگا نا۔ یہ ہمارے کم علم والے مولوی حضرات ہیں جنھوں نے اسطرح کی غلط تشریحات کر کے اسلام کو دین سے مذہب بنا دیا ھے۔

jameela malik said...

سعید پالن پوری صاحب کا کمنٹ خوب ہے۔ یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جس کی وجہ سے آج مسلمان اپنی موجودہ حالت کو پہنچے ہیں۔ان سے کوئی پوچھے کہ فرض کفایہ اور فرض عین کی تقسیم انہوں نے کہاں سے لی ہے ؟اور یہ حضرات اُن فقہی آرا سے باہر کیوں نہیں نکلتے جو ایک خاص زمانے کی لیے تھیں۔جس اسفل سافلین میں مسلمان آج کل گرے ہوئے ہیں اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر مسلمان مرد عورت بچہ بڑا سائنس اور ٹیکنالوجی میں لگ جائے اور اُس وقت تک لگا رہے جب تک مسلمان دنیا پر غالب نہ ہو جائیں
پھر یہ حضرات ہمیشہ یہ بات کرتے ہیں کہ جو لوگ سائنس اور تیکنالوجی میں لگے ہوئے ہیں وہی ٹھیک ہو جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹھیک نہیں ہیں تو اہل مدرسہ کیوں نہیں آگے آتے ؟؟؟
یہ کون سا ""فرض کفایہ "" ہے کہ اہل مدرسہ سینکڑوں سال پرانی لکھی ہوئی کتابِیں طوطوں کی طرح رٹتے چلے جائیں ؟بیرسٹر ظفراللہ نے جو مدرسہ کے پڑھے ہوئے ہیں اپنی کتاب
way out
میں بتایا ہے کہ درس نظامی میں پڑھائی جانے والی تازہ ترین کتاب تین سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com