دارالحکومت کے قریب فائیو سٹار ہوٹل میں ان دنوں غیب کی خبریں بتانے والے ایک منجم فروکش ہیں‘ عوامی نمائندے‘ سیاست دان‘ صحافی اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کیا ناخواندہ اور کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات انکے کمالات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان میں سیاست دان سرفہرست ہیں۔ خاص کر ایک ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد‘ جو ایک نوخیز جماعت ہے۔ سچ پوچھئے تو اس خبر سے دل کو اطمینان نصیب ہوا ہے۔ یہ ’’اسلامی‘‘ شغل مردِ مومن ضیاء الحق کے زمانے میں بھی کافی مقبول تھا۔ آپ قوم پر کوئی بھی احسان کرنے سے پہلے نجومیوں اور پامسٹوں سے ضرور آشیرباد لیتے تھے‘ لگتا ہے کہ نوے دن کو گیارہ سالوں پر پھیلانے کی وعدہ وفائی بھی کسی نجومی ہی کا مشورہ ہو گی۔
سیاست دانوں ہی پر کیا موقوف ہے‘ اطمینان بخش امر یہ ہے کہ تقریباً پورا ملک ہی نجوم‘ پامسٹری‘ فن پیشگوئی‘ تعویز فروشی‘ کالے جادو‘ قبر پرستی اور پیروں فقیروں کی ’’روحانیت‘‘ میں مگن ہے۔ ماشاء اللہ‘ یہ ہماری تاریخ اور روایات کے عین مطابق ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کرنے سے پہلے نجومی سے زائچہ بنوایا تھا اور ہاتھ کی لکیریں بھی دکھائی تھیں۔ طارق بن زیاد نے کشتیاں جلانے سے پہلے فائیو سٹار ہوٹل میں حاضری دی تھی اور ستاروں کا علم رکھنے والے بزرگوں کی اجازت سے حملے کا دن مقرر کیا تھا۔ شیرشاہ سوری نے گرانڈ ٹرنک روڈ بنوانے سے پہلے‘ شاہ ولی اللہ نے مرہٹوں کے مقابلے میں احمد شاہ ابدالی کو بلانے سے پہلے‘ سرسید احمد خان نے علیگڑھ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے‘ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کرنے سے پہلے اور قائداعظم نے تحریک پاکستان کا رہنماء بننے سے پہلے نجومیوں کے درو درازوں پر حاضری دی تھی‘ یہ جو کچھ منکر قسم کے لوگ علامہ اقبال کا شعر پیش کرتے ہیں کہ…؎
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی ٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
تو انہیں اس شعر کا حقیقی مفہوم معلوم ہی نہیں!
نجوم اور پامسٹری کا ذکر ہم شکرانِ نعمت کے طور پر کرنے پر بیٹھ گئے‘ کالم کا موضوع کچھ اور ہے ۔ ملک میں ایک سراسیمگی اور یاس کا ماحول ہے۔ ایسے میں کوئی مثبت پیش رفت نظر آئے تو جی چاہتا ہے کہ قارئین کے گوش گزار کی جائے تاکہ بے اطمینانی کی فضا کم ہو اور عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ اہل وطن کو معلوم ہونا چاہیے کہ حال ہی میں منظر عام پر آنیوالے حقائق کی رو سے گزشتہ برس قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سینیٹروں نے قومی اسمبلی کے ارکان سے ساٹھ کروڑ روپے میں ووٹ خریدے۔ اس میں کابینہ کے دو ارکان بھی شامل ہیں۔ یہ معاملہ کبھی سامنے نہ آتا‘ لیکن ووٹ خریدنے والوں اور ووٹ فروخت کرنے والوں نے باہمی معاہدے پر عمل نہ کیا اور حسب وعدہ ادائیگیاں نہ کی گئیں‘ یہ بات ناقابل برداشت تھی۔ ہم پاکستانی سب کچھ معاف کر سکتے ہیں لیکن جہاں روپوں کا مسئلہ ہو‘ وہاں حساب کتاب سخت ہوتا ہے۔ ایک وفاقی وزیر اور ایک سینیٹر کے درمیان معاملات خراب ہو گئے۔ سینیٹر صاحب نے جتنی رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ نہ ادا کر سکے‘ معاملہ جرگے تک پہنچا۔ جرگہ کے ارکان کو فریقین نے چھ لاکھ روپے انکی خدمات کے معاوضے کے طور پر ادا کئے‘ جرگہ کے چھ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں‘ لیکن تاحال کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے جو دونوں طرف یکساں طور پر قبول ہو۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کے علاوہ جرگہ کے سامنے ایک اور مسئلہ بھی پیش کیا گیا‘ وہ یہ کہ ووٹ خریدنے کے ضمن میں وزیر صاحب کے بھائی کو یہ ’’اختیار‘‘ بھی دیا گیا تھا کہ وہ ترقیاتی فنڈ خرچ کرلیں۔ اخبار کی خبر کے مطابق وزیر صاحب کے بھائی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
آپکا کیا خیال ہے کہ روشنی کی یہ کرن موجود گھٹن میں ایک نعمت کی طرح ہے یا نہیں؟ ہمارے جرگہ نظام کو خدا قیامت تک سرسبز و شاداب رکھے۔ ووٹ خریدنے میں کوئی برائی نہیں‘ سینیٹ کا امیدوار کروڑوں روپے رشوت دیتا ہے اور ایم این اے اسے ووٹ دیتا ہے تو اس پر جرگے کو اعتراض نہیں لیکن جرگہ اس بددیانتی کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا کہ رشوت جس قدر طے کی گئی تھی‘ اس سے کم دی جائے۔ ہم کور چشموں کو پاکستان میں برائیاں تو نظر آتی ہیں‘ روشن پہلو نہیں دکھائی دیتے۔ اب بہاولپور ہی کی خبر لے لیجئے‘ وہاں اپنی پسند کی شادی کرنیوالی بائیس سالہ لڑکی کو پنچائت کے حکم پر بجلی کا کرنٹ لگا کر قتل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو پتھر کے زمانے کا ملک کہنے والے عقل کے اندھے یہ نہیں دیکھتے کہ کس جدید طریقے سے سزا دی گئی ہے۔ اندازہ لگایئے پہلے تو پنچایت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عورت کو قتل کیا جائے‘ پھر وہ کسی دقیانوسی طریقے پر عمل پیرا نہیں رہتی‘ تلوار سے یا پھانسی سے‘ یا آگ میں جلا کر‘ قتل کرنے کے سارے طریقے فرسودہ ہیں‘ پنچایت نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں سائنس کی ایک ایجاد کو قتل کیلئے استعمال کیا۔ صوبے کی حکومت کو چاہیے کہ پنچایت کے روشن خیال ارکان کو انعام و اکرام اور اعزاز سے نوازے۔ ہم یہاں یہ بھی تجویز کرینگے کہ عدالتوں اور ججوں پر زرِکثیر صرف کرنے کے بجائے پنچایت اور جرگے کا نظام پورے ملک میں پھیلا دیا جائے۔ سابق ججوں اور سابق جرنیلوں کو گھیر گھار کر اپنی نومولود پارٹی میں جمع کرنیوالے عمران خان بھی جرگہ سسٹم کے ازحد دلدادہ ہیں۔
کالم کے آخر میں ہم ان کوتاہ نظروں کی مذمت کرنا چاہتے ہیں جو وزیر اعلی ا پنجاب کے "" دانش "" سکولوں والے عالی شان منصوبے سے حسد کر رہے ہیں۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے زیر انتظام لاکھوں سرکاری سکولوں میں اساتذہ ہیں نہ چھتیں ، پینے کا پانی ہے نہ بیٹھنے کے لیے ٹاٹ۔ چند طلبہ کے لیے دانش سکولوں کے نام پر گیارہ ارب روپے خرچ کرنے والے وزیر اعلی ا کو سسکتے ، بلکتے، بدحال، ویران اور دہائی دیتے لاکھوں سکول کیوں نظر نہیں آتے؟ ہم چیف منسٹر کے حوصلے کی داد دیتے ہیں کہ ایسے حاسدوں کی باتوں پر وہ کوئی توجّہ دیے بغیر اپنے راستے پر چلے جا رہے ہیں۔ رہے بغیر چھتوں اور بغیر اساتذہ کے سرکاری سکول تو ان کی اہمیت ہی کیا ہے؟ ہمارے وزیروں افسروں سیاست دانوں اور عمائدین کے بچے تو ان سکولوں میں پڑھتے ہی نہیں ۔ یہ سرکاری سکول یوں بھی سرکاری خزانے پر ناروا بوجھ ہیں۔ انہیں بند ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ عام لوگوں کے بچّوں نے پڑھ کر کرنا بھی کیا ہے۔ ملازمتیں تو یوں بھی سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر بانٹی جا رہی ہیں۔ علامہ اقبال کے اس شعر کا ہمارے آج کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں مگر یاد آگیا ہے‘ تو سن ہی لیجئے…؎
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدان چند
بہرِ تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند
(مجھے تو اتنا ہی معلوم ہے کہ کچھ کفن چوروں نے قبریں آپس میں تقسیم کرنے کیلئے ایک انجمن بنائی ہوئی ہے)