Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 27, 2011

ہم کم از کم اتنا تو کریں

قصور اعجاز الحق کا بھی اتنا نہیں، انصاف کی بات یہ ہے کہ شروعات جناب وزیراعظم نے خود کیں۔ قائداعظم کے یوم ولادت کے سلسلے میں ادارہ ثقافتِ پاکستان اسلام آبادمیں تصویری نمائش کا انعقاد تھا۔ وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی تشریف فرما تھے۔ ملٹی میڈیا پر تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔ قائداعظم کی زندگی کے مختلف ادوار ایک ایک کر کے سامنے آ رہے تھے، اچانک سکرین پر جنرل ضیاالحق فوجی وردی میں ملبوس نمودار ہو گئے۔ نوائے وقت کی اطلاع کے مطابق وزیراعظم برہم ہو گئے، منتظمین پر برس پڑے، کابینہ ڈویژن کی سیکرٹری سے بازپُرس کی اور پھر اسی پر بس نہیں کیا، خطاب کے دوران برہمی ہی میں پوچھا کہ قائداعظم کی تصاویر کے ساتھ ضیاالحق کا کیا تعلق ہے؟
یوں تو یہ خبر پڑھتے ہوئے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات آئی ہو گی کہ آخر ضیاالحق کے زمانے میں بھی تو  یوسف رضا گیلانی اقتدار ہی میں تھے، تاہم جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے جناب اعجازالحق اس خبر کو کس طرح پی سکتے تھے۔ یوں بھی وہ ان دنوں اقتدار سے باہر ہیں اور میڈیا کے حوالے سے پس منظر میں ہیں، اس لئے ایسا موقعہ اللہ دے اور بندہ لے۔ چنانچہ حسبِ توقع انہوں نے وزیراعظم کی برہمی کا نوٹس لیا اور باقاعدہ بیان جاری کیا۔ جناب اعجازالحق کا کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم وہ وقت بھول گئے جب ’مردِ مومن مردِ حق ضیاالحق ضیاالحق‘ کے نعرے لگاتے تھے اور یہ نعرے لگاتے وقت ضیاالحق کی تصویریں بھی اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ اس وقت جناب یوسف رضا گیلانی ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین تھے، انہوں نے ضیاالحق کے ریفرنڈم کےلئے بھرپور مہم بھی چلائی تھی۔
لیکن اصل بات جو جناب اعجازالحق نے کی وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ دلچسپ اگر نہیں تو چشم کشا ضرور ہے۔ اعجازالحق صاحب نے جناب وزیراعظم کو یاد دلایا ہے کہ وہ وفاقی وزیر بننے کےلئے اُن کے پاس یعنی اعجازالحق کے پاس آئے تھے اور اُنہی کی سفارش پر انہیں وفاقی وزیر بنایا گیا تھا۔
ہمارا جناب اعجازالحق اور جناب وزیراعظم کے باہمی تنازعے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس ضمن میں مکمل غیر جانبدار ہیں، بات وزیراعظم کی بھی غلط نہیں۔ آخر قائداعظم کی تصویروں کے درمیان باوردی ضیاالحق کی تصویر کا کیا جواز تھا؟ لیکن اس سارے جھگڑے میں عبرت کا پہلو جو نکلتا ہے وہ ایک اور ہی ہے۔ ذرا میرٹ کا نظام ملاحظہ کیجئے۔ مردِ مومن مردِ حق نے وزیر بنایا تو کس کی سفارش پر؟ اور اب بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ضیاالحق کے دور اقتدار میں اُسکے بیٹے نظر نہیں آتے تھے۔ صاحبزادے خود تو اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ اُس زمانے میں باقاعدہ ”وزیر گر“ تھے۔
لگے ہاتھوں قوم کو یہ بھی بتا دیتے کہ سفارش انہوں نے کس میرٹ پر کی تھی؟ جناب یوسف رضا گیلانی نے انہیں کس طرح قائل کیا تھا اور اپنے والد محترم سے سفارش کرتے وقت جناب اعجازالحق نے وہ کون سی دلیل دی تھی جس سے جنرل ضیاالحق سفارش ماننے پر مجبور ہو گئے تھے؟ اگر جناب اعجازالحق ظفراللہ جمالی کی طرح بہادر ہوں تو کہہ اُٹھیں کہ آخر جنرل ضیاالحق خود کون سے میرٹ پر آئے تھے؟ ظفراللہ جمالی صاحب کا قصہ یہ ہے کہ قاضی حسین احمد نے جمالی صاحب کو، جب وہ وزیراعظم تھے، نصیحت کی کہ میرٹ پر کام کیا کریں۔ اس پر صدق گو جمالی صاحب نے برملا کہا کہ میں خود کون سے میرٹ پر رکھا گیا ہوں!
آخر عالم اسلام ہی میں یہ کیوں ممکن ہے کہ وزیر بننے کے لئے حاکم وقت کے بیٹے کو پکڑا جائے؟ کیا برطانیہ، امریکہ، سنگاپور یا آسٹریلیا میں سیاست دان وزیر بننے کےلئے وزیراعظم یا صدر کی آل اولاد کے پاس  جاتے ہیں؟ لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عالم اسلام میں ایسے بہت سے کام ہو رہے ہیں جن کا ترقی یافتہ یا مغربی ممالک سوچ بھی نہیں سکتے۔ دو دن پہلے اس کالم نگار نے ٹیلی ویژن پر خبر دیکھی کہ تبوک سے کوئٹہ آنے والے طیارے کے پہیے نہیں کُھل رہے اس لئے ایمرجنسی لینڈنگ کےلئے طیارے کا رُخ کراچی کی طرف کر دیا گیا ہے۔ کالم نگار خوش ہُوا کہ چلیں، اپنے زوال کے زمانے میں بھی پی آئی اے اتنا تو کر رہی ہے کہ تبوک میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو کراچی یا لاہور لانے کے بجائے کوئٹہ لا رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ لوگ کوئٹہ کے اور کوئٹہ کے قرب و جوار کے ہوں گے، یوں انہیں سہولت بہم پہنچائی جا رہی ہے، لیکن بعد میں منکشف ہُوا کہ یہ تو قصہ ہی اور تھا۔ جہاز پی آئی اے کا تھا نہ مسافر پاکستانی تھے ۔ اخبار کی خبر کے مطابق جہاز تبوک کے گورنر کی ملکیت تھا۔ [ ملکیت کا لفظ قابل غور ہے ] اس میں ”شکار کا سامان، خیمے اور ذاتی ملازمین“ سوار تھے اور ان سواروں کی تعداد 72 تھی۔ اگر جہاز کے عملے کے پانچ چھ افراد اس تعداد سے منہا کر لیں تو پھر بھی خدام کی تعداد پینسٹھ چھیاسٹھ سے کم نہیں! کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے صدر یا برطانیہ کے وزیراعظم کے ذاتی ملازموں کی تعداد ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہو گی؟ بی بی مارگریٹ تھیچر تو کھانا بھی اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی۔
ہماری ہر تقریر اور ہر تحریر میں اہل مغرب پر لعن طعن ہوتی ہے۔ مثالیں ہم خلفائے راشدینؓ کی دیتے ہیں۔ کبھی ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیزؓ نے ذاتی کام کرتے وقت سرکاری چراغ بُجھا دیا۔ کبھی ہم یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کو اپنی قمیض بنانے کےلئے اپنے بیٹے سے کپڑا لینا پڑا اور پھر برسرِ منبر اس کی وضاحت بھی کرنا پڑی، لیکن حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے صدر بیماری کے دوران دبئی میں قیام پذیر تھے تو اُن کا سرکاری سٹاف کئی قسطوں میں اسلام آباد سے دبئی گیا، حالانکہ ملک میں قائم مقام صدر موجود تھے اور صرف صدر ہی کا تذکرہ کیوں؟ جو لوگ حزبِ اختلاف میں ہیں اُن کا انداز بھی اس سے مختلف نہیں۔  میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار ملا کر اگر حساب لگایا جائے کہ اُن کے لاہور آنے جانے پر سرکاری خزانے کا کتنا حصہ صرف ہُوا تو جو اعداد و شمار سامنے آئیں گے حیران و پریشان کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ گھٹ کوئی بھی نہیں  کر رہا۔حسبِ توفیق سب لگے ہوئے ہیں اور چُھریاں کانٹے ہاتھوں میں پکڑ کر لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے تو کم از کم پوری دنیا کو نصیحتیں کرنا  تو چھوڑ دیں۔!

Tuesday, December 06, 2011

عظیم ترین ائر لائن

دنیا کی تمام بڑی بڑی ائر لائنوں نے مجھے اپنے جہازوں میں سفر کرنے کی پیشکش کی ان میں روانڈا، گھانا، نائجر، چاڈ، صومالیہ اور افغانستان کی ائر لائنیں نمایاں تھیں۔ ان ائر لائنوں نے گارنٹی دی تھی کہ ان کے جہازوں میں سفر آرام دہ ہوگا، کسی معاملے میں تاخیر نہیں ہوگی اور معیار عالمی سطح کا ہوگا لیکن میں نے ان کی پیشکش ٹھکرا دیں، میں نے دنیا کی عظیم ترین ائر لائن سے ٹکٹ خریدا۔

دنیا کی عظیم ترین ائر لائن کے عظیم جہاز سے جب میں بنکاک کےلئے کئی گھنٹوں کی تاخیر سے روانہ ہوا تو اس جہاز کا لاہور رُکنے کا کوئی پروگرام نہ تھا لیکن جب یہ جہاز لاہور سے گزر رہا تھا تو کچھ مسافروں نے راستے میں کھڑے ہو کر زور زور سے ہاتھ ہلائے اور جہاز کو رُکنے کا اشارہ کیا، جہاز نے جواب میں زور زور سے ہارن بجائے اور انہیں راستے سے ہٹ جانے کےلئے کہا لیکن گٹھڑیاں سروں پر لادے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے مسافر کہاں ماننے والے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ جی ٹی ایس کی اس بس کو، نہیں، معاف کیجئے، میرا مطلب ہے عظیم ترین ائر لائن کے اس جہاز کو لاہور رکنا پڑا۔ یہ اسلام آباد سے کئی گھنٹے تاخیر سے چلا تھا۔ دو گھنٹوں کی تاخیر مزید جمع ہوگئی۔

ہانگ کانگ جانے والا یہ جہاز بنکاک رُکا تو کئی مسافر نیچے اترے۔ ان مسافروں نے بنکاک سے سنگاپور، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کئی دوسرے ملکوں کےلئے جہاز پکڑنے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ سارے جہاز جا چکے ہیں، ان گستاخ جہازوں نے عظیم ترین ائر لائن کے جہاز کا انتظار ہی نہیں کیا۔

ان واماندہ مسافروں کو بنکاک کے ہوائی اڈے کے ملازمین دیکھتے تھے اور روتے تھے۔ دیکھتے اس لئے تھے کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے ملک کی ائر لائن دنیا کی عظیم ترین ائر لائن ہے اور روتے اس لئے تھے کہ عظیم ترین ائر لائن کا کوئی نمائندہ ان کی رہنمائی کے لئے موجود نہیں تھا۔ بالآخر ایک تھائی بی بی نمودار ہوئی اُس نے عظیم ترین ائر لائن کا نام لے کر قہقہہ بلند کیا اور کہا کہ اس ائر لائن کے جہاز ہمیشہ تاخیر سے آتے ہیں اور اس کے مسافر ہمیشہ بدحال اور خراب ہوتے ہِیں۔

ان مسافروں کو پورے چوبیس گھنٹے بنکاک رُکنا پڑا، دوسرے دن یہ مختلف جہازوں مےں بیٹھ کر سنگاپور اور دوسرے شہروں میں پہنچے۔ نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور دوسرے ملکوں کو جانے والے جہاز بھی جا چکے تھے چنانچہ انہیں کئی شہروں میں کئی بار رُکنا پڑا۔

عظیم ترین ائر لائن کا جہاز جب بنکاک سے اُڑا تو یہ گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں کے حساب سے تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔ اسکی منزل ہانگ کانگ تھی، یہ ہانگ کانگ اُترا تو اسکے مسافروں کی شکلیں بدل چکی تھیں۔ عورتیں بوڑھی ہو چکی تھیں، مرد کبڑے ہوگئے تھے۔ بچے شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔

ہانگ کانگ اتر کر کچھ مسافروں نے جاپان کا جہاز پکڑنا تھا اور کچھ نے کوریا کا، معلوم ہوا کہ یہ سارے جہاز بھی جا چکے ہیں، چنانچہ ان مسافروں کو کئی گھنٹے، ہانگ کانگ میں رُکنا پڑا۔ جب یہ مسافر ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے پر، بنچوں پر بیٹھے، اپنی قسمت کو رو رہے تھے تو عظیم ترین ائر لائن کے افسر اور ملازمین ہانگ کانگ کے بازاروں میں سیر اور شاپنگ کر رہے تھے۔

میں پچھتا رہا ہوں کہ کاش روانڈا یا صومالیہ کی ائر لائن سے سفر کر لیتا۔ سنا ہے کہ رونڈا، گھانا، چاڈ اور صومالیہ کی ائر لائنوں میں بھرتی سفارش سے نہیں ہوتی۔ وزارت دفاع چلانے والے جرنیل ان ائر لائنوں کے انچارج نہیں ہوتے۔ انکے جہاز وقت پر روانہ ہوتے ہیں اور اگر تاخیر ہو جائے تو مسافروں کو ٹیلی فون پر باقاعدہ مطلع کیا جاتا ہے کہ فلاں وقت کے بجائے فلاں وقت پر پہنچیں۔ عظیم ترین ائر لائن نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی مسافر کو ٹیلی فون پر تاخیر کی اطلاع نہیں دی۔ ہاں! اُن شخصیات کو ضرور اطلاع دی جاتی ہے جو منیجنگ ڈائریکٹر کا تبادلہ کر سکتی ہیں۔!

روانڈا، گھانا، چاڈ اور صومالیہ کی ائر لائنوں میں کام کرنے والی میزبان خواتین کے چہرے جھریوں سے اَٹے ہوئے نہیں ہوتے، نہ ہی ان کے عملہ کے مرد حضرات ریش ہائے دراز اور ریش ہائے سفید کے مالک ہوتے ہیں، ان ائر لائنوں کے ملازمین خوش اخلاق ہوتے ہیں اور جس سے بات کریں اُس کے پیٹ میں سات ٹیکے نہیں لگانے پڑتے۔ گھنٹی بجانے پر ان ائر لائنوں کی ائر ہوسٹسیں کہیں نہ کہیں سے ضرور ظاہر ہوتی ہیں اور آکر یہ نہیں کہتیں کہ بار بار کیوں بلاتے ہو، ہمیں بھی تو پرواز کے دوران آرام کرنا ہوتا ہے! سنا ہے کہ یہ ائر لائنیں مسافروں کو تازہ کھانا فراہم کرتی ہےں جسے کھا کر قے ہوتی ہے نہ اُبکائی آتی ہے! ان ائر لائنوں کے ملازمین سمگلنگ کر کر کے ارب پتی بھی نہیں ہوئے۔

روانڈا، گھانا، چاڈ اور صومالیہ کے ہوائی جہازوں میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ان کا عملہ بین الاقوامی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہوتا ہے، مثلاً بین الاقوامی فضائی اصول یہ ہے کہ ہر تین مسافروں کے استعمال کرنے کے بعد بیت الخلا کو صاف کیا جائےگا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان ائر لائنوں کے جہازوں میں بیت الخلا پورے سفر کے دوران صاف ستھرے رہتے ہیں، پانی ختم ہوتا ہے نہ فرش پر کھڑے ۔ہونے سے ٹخنے پانی میں ڈوبتے ہیں!

میں نے تو عہد کیا ہے کہ آئندہ روانڈا، گھانا، چاڈ یا صومالیہ کی ائر لائن سے سفر کروں گا۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟




















Tuesday, November 29, 2011

فال اور اُلّو

اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا۔سفید فام انگریز! جسے ہم پاکستانی عام طور پر گورا کہتے ہیں۔وہ بہت انہماک سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اسے ملا اور چند دنوں میں ہم دوست بن چکے تھے۔اکثر اسکی سفیدفام بیوی بھی مسجد میں اسکے ساتھ ہوتی۔اس نے بتایا کہ دونوں ایک ساتھ اسلام کی پناہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی ڈاکٹر تھی اور وہ خود بزنس مین۔

ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا کہ وہ دارالحکومت کے فلاں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔میں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور فوراَ  آنے کی فرمائش کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ میں اسکے ہوٹل آﺅں کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ شام کو اس کی فلائٹ تھی۔ وہ گلوسٹر واپس جارہا تھا۔میں تین گھنٹے اسکے پاس بیٹھا ۔ ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کیوں آیا تو پہلے تو وہ طرح دے گیا لیکن جب میں نے اصرار کیا اور اس نے  لگی لپٹی رکھے بغیر وجہ بتائی تو سچی بات یہ ہے کہ میرے ہوش اُڑ گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔

اس نے بتایا کہ وہ پاکستان مستقل رہنے کےلئے آیا تھا۔ لیکن چھ ماہ یہاں گذارنے کے بعد اپنا ارادہ بدل کر واپس جا رہا ہے۔ ا سکی تفصیل یہ تھی کہ وہ کئی سال سے کسی مسلمان ملک میں آباد ہونے کا سوچ رہا تھا۔ اسکی نگاہِ انتخاب پاکستان پر اس لئے پڑی کہ یہ واحد مسلمان ملک تھا جو ایٹمی طاقت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا میں یہ ملک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا ۔ یہ ترقی اسکے اندازے کےمطابق ذ ہنی بھی ہوگی اور معاشی بھی۔

وہ یہاں آگیا۔ اس نے اپنا کاروبار بھی شروع کیا لیکن افسوس اسکے سارے اندازے غلط اور سارے خواب جھوٹے نکلے۔ جب وہ اپنی ناکامی کی داستان سنا رہا تھا تو مجھے نظیری نیشا پوری کا شعر یاد آرہا تھا :

یک فالِ خوب راست نہ شُد بر زبانِ ما

شومئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط

یعنی کوئی ایک فال بھی درست نہ نکلی۔ اُلّو کی نحوست تو ثابت ہو گئی لیکن ہما کی برکت والی بات غلط تھی !

پہلا بڑا جھٹکا اُسے اُس وقت لگا جب اس نے اپنی بیوی کی ہمراہی میں لاہور سے پشاور تک سفر کیا۔ مسلمان ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی ترکی ، سعودی عرب اور چند دوسرے مسلمان ملکوں میں سیر و تفریح اور مشاہدے کیلئے گئے تھے۔ لیکن پاکستان میں یہ سفر ان کیلئے ایک عجیب و غریب تجربہ تھا جو دلچسپ تو خیر کیا ہونا تھا، خوفناک ضرور تھا جو انہی کی زبانی کچھ یوں تھا :

” ہم جس مسلمان ملک میں بھی گئے ، وہاں میری بیوی کو
 نماز پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ترکی اور سعودی عرب میں میری بیوی مسجد ہی میں نمازیں پڑھتی تھی۔ دوسری خواتین بھی ہر نماز میں موجود ہوتی تھیں۔ برطانیہ کی مسجدوں میں بھی یہی معمول تھا۔ یہاں تک کہ قرطبہ اور غرناطہ کی مسجدوں میں بھی میری بیوی دوسری خواتین کےساتھ نمازیں ادا کرتی رہی۔ پاکستان میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہم سخت خوف زدہ ہو گئے۔ ہم نے لاہور سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر سفر کیا۔ ہم یہ تاریخی شاہراہ دیکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے بزنس کیلئے کچھ مشاہدہ اور تجزیہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا اور ہم ایک مسجد میں رکے ۔ معلوم ہوا کہ مسجد میں خواتین کی نماز کا تصوّر ہی نہیں۔ وضو والی جگہ مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کسی عورت کا وضو کرنا ناممکن تھا۔ ہم یکے بعد دیگرے راستے میں سات مسجدوں میں رکے۔ کسی ایک میں بھی خواتین کیلئے نماز پڑھنے کی سہولت نہیں تھی ۔ ترکی میں خواتین مسجد کے ہال ہی میں مردوں کے پیچھے صفیں بنا لیتی ہیں لیکن یہاں وہ بھی ممکن نہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ان مسجدوں میں سالہا سال سے کوئی عورت داخل نہیں ہوئی اور اگر ہو جائے تو یہ ایک عجوبہ ہو گا۔

رہے ریستورانوں کے باتھ روم تو وہ اس قدر گندے اور عفونت زدہ تھے کہ وہاں وضو کرنے کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی تھی۔ اکثر باتھ روموں کے فرش پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فلش ٹوٹے ہوئے تھے اور جو سلامت تھے ان میں پانی نہیں تھا۔ کموڈ جن پر بیٹھا جانا تھا ان پر جوتوں کا کیچڑ لگا تھا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان پر پاﺅں کے بل بیٹھا جاتا رہا ہے حالانکہ اس مقصد کیلئے دیسی سٹائل کی ڈبلیو سی موجود تھیں ۔ دنیا کی واحد ایٹمی اسلامی طاقت میں صفائی کے اس ماتمی معیار پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ راولپنڈی گذری تو کچھ دیر کے بعد ہم نے اٹک کا پُل پار کیا۔ اٹک پُل سے لے کر پشاور تک میری بیوی کہیں بھی وضو نہ کر سکی اور تیمّم کر کے نماز گاڑی میں سیٹ پر بیٹھ کر پڑھتی رہی۔

یوں تو سارے سفر ہی کے دوران میری بیوی کو ہر جگہ انتہائی ” غور “ سے دیکھا جاتا رہا تاہم اٹک کے پار اس سرگرمی میں اضافہ ہو گیا۔ پشاور سے واپس ہم نے ہوائی جہاز سے آنا تھا۔ پی آئی اے کے ایک اہلکار سے ہم کوئی بات کر رہے تھے۔ آن کی آن میں ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ وہ سب میری بیوی کو اور اسکے لباس کو اس قدر غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہ سخت خوفزدہ ہوگئی۔ ایک سمجھ دار اہلکار کا بھلا ہو وہ اس صورت حال میں ہمارا خوف بھانپ گیا اور جلدی سے ہمیں ایک دفتر نما کمرے میں لے گیا۔

ہمیں انگلینڈ میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی ایک بات رہ رہ کر یاد آرہی تھی ۔ ہم نے جب اسلام قبول کیا تو بہت سوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اسلام قرآن پڑھ کر قبول کیا ہے لیکن جب تم مسلمان ملکوں میں جاﺅ گے تو اکثر میں تمہارا تجربہ افسوسناک ہو گا۔

افسوس انکی یہ بات صحیح نکلی۔ ہم اپنا بزنس سنٹر اسلام آباد میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک عمارت اس مقصد کیلئے کرائے پر لی۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس قدر عجیب و غریب ہے کہ کبھی کبھی تو خود ہم میاں بیوی کو ناقابل یقین لگتا ہے۔ اگر ایک جملے میں اسے بیان کرنا پڑے تو وہ یہ ہے کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو وعدہ پورا کرتا ہو یا سچ بولتا ہو۔ ہم نے اپنی عمارت میں جن لوگوں سے فرنیچر کا کام کرایا وہ وعدہ کرنے کے باوجود کئی کئی دن غائب ہوتے رہے۔ گارنٹی زبانی تھی۔ یہاں لکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ فرنیچر کو چند ہفتوں میں ہی کیڑا لگ گیا۔ وہ لوگ کہتے رہے کہ آکر ٹھیک کر دینگے یا تبدیل کر دینگے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ تنگ آ کر ہم نے کہنا ہی چھوڑ دیا۔ جس پارٹی نے لوہے کا کام کیا وہ مشہور لوگ ہیں اور ان کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے۔ تینوں باپ بیٹے متشرّع ہیں۔ لیکن سارا کام ناقص نکلا۔ گیٹ، بل کھاتی سیڑھیاں، ریلنگ، کچھ بھی اسکے مطابق نہ تھا جو طے ہواتھا۔ پانچ بار آنے کا وعدہ کیا گیاکہ آ کر دیکھیں گے اور نقائص دور کرینگے ۔ لیکن نہ آئے۔ آخری بار میں خود انکے پاس گیا صرف یہ پوچھنے کہ کیا ان کا اس حدیث پر یقین ہے کہ لا ایمانَ لمن لا عہدَ لہُ۔ جو وعدہ خلافی کرے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ میری بات کو سنجیدگی سے سننے کے بجائے وہ لوگ صرف یہ کہتے رہے کہ کوئی بات نہیں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ جن ڈسٹری بیوٹرز نے ہمیں مال پہنچانا تھا ان میں سے سوائے ایک کے، کوئی بھی طے شدہ وقت پر نہیں آیا۔

گیس اور بجلی والے، کارپٹ والے، ائر کنڈیشننگ والے، کسی کے ہاں وقت کی پابندی کا تصور ہے نہ وعدہ ایفا کرنے کا۔ یہاں تک کہ نناوے فیصد لوگ ٹیلیفون کرنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ طے شدہ وقت پر نہیں آئینگے اس لئے ان کا انتظار نہ کیا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے اور وعدہ پورا نہ کرنےوالے ان لوگوں نے اپنی دکانوں کے اوپر کلمہ اور قرآنی آیات لکھ کر لٹکائی ہوئی ہیں اور ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبات میں ان لوگوں کو معاملات اور حقوق العباد کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ ظاہری شکل و صورت اور لباس کیسا ہو۔ہمیں اس بات پر بھی سخت حیرت ہوئی کہ یہاں بھاری اکثریت مذہب کے معاملے میں سخت پُرجوش اور جذباتی ہے لیکن تقریباَ پچانوے فیصد لوگ قرآن پاک کے مطلب اور مفہوم سے مکمل طور پر نابلد ہیں بلکہ اکثریت پانچ وقت کی نماز میں جو کچھ پڑھتی ہے اس کا مطلب بھی نہیں سمجھتی ! “

میں نے کھانے کی دعوت دی لیکن اس نے ایک المناک اداسی کے ساتھ معذرت کر دی۔ ان کی پرواز کا وقت ہو رہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ جن کے اسلام میں صرف ظا ہر پر زور ہو اور باطن اسلام سے مکمل طور پر محروم ہو ان کے ہاں کھانا کھانا جائز ہی نہیں!

Tuesday, November 22, 2011

گٹھری اور تھیلا

کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔

” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔

 مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟ “

وہ کبھی اپنی نئی گاڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھتا اور کبھی بچے کو دیکھتا ۔ بالآخر اس نے بچے سے پوچھا “ کہاں ہے تمہا را بھائی ؟ “ بچہ اسے گاڑیوں کے پیچھے لے گیا ۔ ایک نوجوان جو ٹانگوں سے معذور تھا بے بسی سے زمین پر پڑا تھا۔اس نے اور بچے نے ملکر اسے اٹھایا اور ویل چیئر پر بٹھایا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرف دیکھے بغیر ویل چیئر کو دھکیلتا ایک طرف چلا گیا۔

یہ کہانی ایک دوست نے ای میل کے ذریعے بھیجی ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین کو یہ پہلے ہی معلوم ہو لیکن اصل مسئلہ کہانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو اس کہانی سے نکلتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسے سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم سب تیز رفتاری کا شکار ہیں۔نئی گاڑیاں ہیں۔ تازہ جوانیاں ہیں۔ ترقی کرنے کے ہدف ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہشات ہیں۔دولت کمانے کی دھن ہے۔ شہرت پانے کی آرزو ہے۔ بڑے سے بڑا منصب حاصل کرنے کیلئے تگ و دو ہے۔ اولاد کیلئے بہت کچھ چھوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔ زمین ، محلات ،گاڑیاں ، زیورات ، جواہرات اور ساز و سامان اکٹھا کرنے کی فکر ہے۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے ہم بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں۔ خدا کا نہ مخلوقِ خدا کا۔دوسروں کے حقوق کا نہ اپنے فرائض کا۔ یہاں تک کہ کہیں سے ایک زور کی اینٹ آتی ہے ۔ کار کا دروازہ ٹوٹتا ہے ۔ تب ہم رکتے ہیں اور اس ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اینٹ لگنے سے پہلے رُک جائیں ۔ یا کم از کم اپنی رفتار ہی کم کر دیں؟ کیا ہم اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دنیا میں دولت، منصب ، شہرت اور چکا چوند کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ آخر ہم اینٹ ہی کا کیوں انتظار کرتے ہیں ؟

یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت تیز رفتار لوگوں کے پنجے میں بلکہ شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ گٹھڑیاں انکے سروں پر ہیں۔ تھیلے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ گٹھڑیاں ، یہ تھیلے سونے اور جواہرات سے بھرے ہیں۔ یہ لوگ مزید سونے اور مزید جواہرات کیلئے بھاگے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ایک اینٹ زور سے لگنے والی ہے جس کے بعد انہیں ہر حال میں رُکنا پڑےگا۔

لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ عام طور پر ہمارا تائثر یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کا شکار یہ لوگ دنیا دار ہیں ، دنیا پرست ہیں اور دین کے نام لیوا ان میں شامل نہیں ۔ کاش ایسا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ گٹھڑیاں سروں پر اُٹھائے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے ان لوگوں میں سیاست دان ہیں، بیوورو کریٹ ہیں ،جرنیل ہیں، تاجر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی باقاعدہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان لوگوں سے مختلف بلکہ برتر ہونے کا گمان رکھتے ہیں جن کا شمار بقول ان کے سگانِ دنیا میں ہے۔اس المیے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے۔

یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ 1981ءکا سال تھا۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو جنرل ضیا کا فرمان وصول ہوتا ہے : ”میں نے منظوری دےدی ہے کہ ”آئی پی ایس “ کو، جو اس وقت F-6/1
 میں واقع ہے ، ایک مناسب عمارت بنانے کیلئے متعلقہ سائز کا پلاٹ دیا جائے۔ یہ وہی سائز چاہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس اعلیٰ کام کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ پہلے سے کر رہا ہے اور سہولیات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پلاٹ اس طرح کی الاٹمنٹوں کی نارمل قیمت کی ادائیگی پر دیا جا ئےگا

یہ ” تحقیقاتی" ادارہ [ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز]ایک ایسے پروفیسر صا حب کا ہے جو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے ممتاز رہنما ہیں اور طویل عرصہ سے اسکی نمائندگی سینیٹ میں بھی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پلاٹ سیکٹر ایچ ۔ نائن میں دئیے جاتے تھے۔ یہ پلاٹ لیز پر ہوتے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کےمطابق ناقابل فروخت اور ناقابلِ انتقال ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو بھی پلاٹ ایچ نائن سیکٹر ہی میں دیا جا رہا تھا لیکن جنرل ضیا نے ایک بار پھر مداخلت کی اور دو کنال کا یہ پلاٹ جناح سپر مارکیٹ میں دیا گیا جہاں کوئی اور تعلیمی یا تحقیقاتی ادارہ کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ مارکیٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ پھر یوں ہوا کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ملنے والے اس پلاٹ پر تین منزلہ پلازہ بن گیا جس میں مشہور بین الاقوامی برانڈز کی دکانیں کھُل گئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا ۔ 2009ءمیں ترقیاتی ادارے نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کو اجازت دے دی کہ پلاٹ پر بنے ہوئے عالیشان پلازے کو ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام منتقل کر دیا جائے۔ اور یہ انتقال ہو بھی گیا۔

یعنی ملکی قوانین صرف پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ یا جرنیلوں ہی کیلئے نہیں بدلتے۔ یہاں گٹھری سر پر رکھے اور تھیلا ہاتھ میں پکڑے بھاگنے والوں میں ماشا ءاللہ وہ بھی حسب توفیق شامل ہیں جو اقامت دین کے دعویدار ہیں۔ پہلے تو صدارتی طرفداری سے پلاٹ وہاں الاٹ کرایا گیا جہاں تعلیمی مقاصد کے لیے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمارت کا ایک حصّہ خالص منافع آور استعمال میں رکھ دیا گیا۔ پھر اس پلاٹ کو جو لیز پر ہے اور ناقابلِ فروخت اور ناقابلِ انتقال ہے بیچ دیا گیا۔ اس ” تحقیقاتی “ کار و بار سے کتنے ارب روپے کا منافع ہوا اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو جناح سپر مارکیٹ کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ کہا یہ جائےگا کہ یہ سب کچھ ترقیاتی ادارے کی اجازت سے کیا گیا۔ اب یہ کس کی مجال ہے کہ پوچھے کہ ترقیاتی ادارے نے یہ غیر قانونی اجازت کیوں دی اور کس کے دباو پر دی؟ اگر ترقیاتی ادارہ یہی حرکت کسی اور کیلئے کرتا تو سینیٹ میں قانون شکنی کےخلاف ایک دھواں دھار تقریر کی جاتی اور ترقیاتی ادارے کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا !

معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو اور بھی ہے۔ اس پر بھی غور فرما یئے ۔ جب جنرل ضیا نے ترقیاتی ادارے کو پلاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت یہ ادارہ ایف سکس سیکٹر میں واقع تھا ۔ اب پلاٹ اور پلازہ فروخت کر کے یہ ادارہ اسی سیکٹر یعنی ایف سکس میں دوبارہ واپس چلا گیا ہے ! ! ! ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا ....

سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب

ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی

تو جناب ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ....

صبح ہو تے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ

گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی

اور اس میں سب شامل ہیں۔ کسی ایک پر الزام نہ لگائیے۔ دنیا کے پیچھے صرف وہی نہیں بھاگ رہے جنہیں ہم آپ دنیا دار سمجھتے ہیں !

Tuesday, November 15, 2011

صرف دو قومیتیں

تلخ نوائی



بزرگ پڑھا رہے تھے۔

وہ عالم بھی بہت بڑے تھے اور استاد بھی کمال کے تھے۔دور و نزدیک سے علم کے شائقین آتے اور فیض یاب ہوتے۔اُس دن وہ ذرا بے تکلّفی کے مُوڈ میں تھے۔ انہوں نے دستار اتار رکھی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں لمبی کر لی تھیں۔شاگرد عبارت پڑھتا۔ وہ تشریح کرتے۔ تشریح کیا کرتے، علم اور حکمت کے موتی رولتے۔

اسی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ ایک دراز قد وجیہ شخص مسجد میں داخل ہئوا۔اس کی شخصیت بارعب تھی۔لباس سے بہت بڑا عالم لگتا تھا۔سفید دستار،اس پرطُرّہ۔ بزرگ محتاط ہو گئے۔اتنا بڑا عالم غلطی بھی نکال سکتا ہے، اعتراض بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ پگڑی سر پر رکھ لی اور زیادہ توجّہ سے پڑھانے لگ گئے۔ دراز قد بارعب شخص نے وضو کیا اور مسجد کے اندر آ گیا۔پڑھنے والے طالب علم خاموش ہو گئے۔قریب آیا تو پڑھانے والے بزرگ نے بہت احترام سے پوچھا  ” جناب کا اسم گرامی ؟ “ اس پر اُس نے اپنی بتیسی کی نمائش کی اور کہا ” مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی “ اب کے بزرگ نے پوچھا ” آپ کا نام کیا ہے ؟ “ اس پر اس نے پھر بتیسی کی نمائش کی اور بتایا ” جی میرا نام محمد جوسف ہے “ استاد نے پگڑی اتار کر ایک طرف رکھی ، ٹانگیں پھر پھیلا لیں اور شاگردوں سے فرمایا ” تم سبق پڑھنا جاری رکھو بھئی ۔ یہ تو جوسف ہے “

یہ واقعہ ہمیں اُس سیاسی پارٹی نے یاد دلایا ہے جو زور و شور سے تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ پٹواری کا کلچر بھی بدلے گی تھانیدار کا کلچر بھی بدلے گی اور اُس کی حکومت میں فوج اور آئی ایس آئی بھی وزیر اعظم کو جوابدہ ہو ںگی۔ اس پر سب محتاط ہو گئے۔ پھیلی ہوئی ٹانگیں سمٹ گئیں۔ لوگ پگڑیاں سروں پر رکھ کر با ادب ہو گئے۔ لیکن جب ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے اس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی کہ پارٹی کے سربراہ نے اس نووارد کے ہمراہ با قاعدہ پریس کانفرنس کی تو معلوم ہئوا کہ یہ سای احتیاط بیکار تھی ۔ اندر سے وہی بات نکلی کہ جی میرا نام جوسف ہے! یہ صاحب پیپلز پارٹی میں ضرور تھے لیکن انہوں نے کوئی الیکشن جیتا نہ ان کی کسی اور حوالے سے کوئی اہمیت ہے۔ اگر کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہو جو پیروکاروں کا حلقہ رکھتی ہو یا کوئی دانشور ہو یا قومی اہمیت کا حامل فرد ہو تو اس کی شمولیت پر ایک بھرپور تقریب کا انعقاد تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک جاسوسی ادارے کے سابق سربراہ کی شمولیت پر اتنا ہنگامہ ! یہ تو وہی بات ہوئی کہ بقول ظفر اقبال

دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے

شور کر اور بہت ، خاک اُڑا ا ور بہت

رہا اثاثوں کا مسئلہ تو یہ ایک خوش آیند امر ہے۔ آخر کسی نے تو اسے اہمیت دی ہے۔ آخر کچھ لوگوں نے تو سوچنا شروع کیا ہے کہ یہ ایک بنیادی اور فیصلہ کن امر ہے۔ آخر کچھ لوگوں نے تو ڈرنا شروع کیا ہے۔اب تک تو اس غریب ملک کے بدقسمت عوام نے یہی دیکھا ہے کہ جس کسی کے ڈالر، محلات، اور فیکٹڑیاں بیرون ملک جتنے زیادہ ہیں وہ اتنا ہی ملک وقوم کا بڑا خادم ہے۔
 لیکن ایک ضمنی سوال اس سلسلے میں اور بھی ہے۔ کیا اثاثے صرف سیاست دانوں ہی کے باہر ہیں؟اور کیا صرف سیاست دان ہی ناجائز اثاثوں کے مالک ہیں؟ کیا سرکاری ملازم ، کیا سول اور کیا خاکی ، سارے کے سارے ، دُھلے دھلائے ہیں؟ ایک انگریزی معاصر میں ایک مغربی خاتون صحافی نے کس کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کا معیارِ زندگی جنوبی امریکہ کے ڈکٹیٹروں کو ماند کرتا ہے ؟

1988
 اور 1991 کے درمیانی عرصہ میں کراچی میں منعقد ہونے والا شادی خانہ آبادی کا وہ فنکشن بے شمار لوگوں کو یاد ہو گا جس کی وسعت اور ہمہ گیری کا مقابلہ شاید ہی کوئی تقریب کر سکے اور جس میں بڑے بڑے صالحین کچّے دھاگے سے بندھے چلے گئے تھے!
دلچسپ سوالات اور بھی ہیں۔ شہرِ ” عدل و انصاف “ اسلام آباد میں چودہ محلات کس کے بنے تھے؟ سونے سے بنے ہوئے جوتے کس نے تحفے میں دیے تھے؟ جنوب کے کس شہر میں ایک گھر کے اندر سے اربوں روپے نکلے تھے؟ وہ کون تھا؟ یہ اور اس قبیل کے کئی مقدس معززین ابھی تک اتنے ہی معزز ہیں اور اقتدار بدستور ان کے اور ان کے خاندانوں اور ان کی نسلوں کی دہلیز پر سر بسجود ہے۔
ہماری جذباتی قوم سوالات اٹھانے والوں کو دھمکیاں تو دے سکتی ہے لیکن سوالات دلوں سے کھرچ تو نہیں سکتی ! اس ملک کے لوگ جانور تو نہیں جنہیں کچھ بھی پتہ نہ ہو ! کیا وہ نہیں جانتے کہ سائنس دان عبد الکلام کے پہلے کیا اثاثے تھے اور اور اب اس کے پاس کیا کچھ ہے؟ وہ تو ایوان صدارت میں بھی کئی سال گذار کر آچکا!  کیا محسنِ پاکستان سے اثاثے پوچھے جا سکتے ہیں؟ عبدالکلام  نے یقینا ایسا کوئی دور نہیں دیکھا جب تعیناتیاں ، ترقیاں ، تبادلے سب کچھ اس کی مرضی سے ہوتا تھا۔ کاش اس ملک کے سادہ دل پرستاروں کو معلوم ہوتا کہ اس نے تعلیم کے میدان میں کیا کیا کام کیے ہیں؟ بات اثاثوں کی ہو رہی تھی۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں! سیاست دان فرشتے نہیں ، ان کے جرائم ریت کے ذرّوں سے زیادہ ہیں لیکن وہ جو سیاست دان نہیں ، اور تقدیس کے ریشمی پردوں کے پیچھے چھُپے بیٹھے ہیں ان کا حساب کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟

اثاثوں کا ہنگامہ اُ ٹھا تو اس سے لطیفے بھی نکلے۔ جو عوام عزتِ نفس رکھتے ہیں وہ انہیں لطیفے نہیں کہتے۔ وہ ایسے لطیفوں کو اپنے چہرے پر تھپّڑ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے تھپڑوں کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ کیا عزت نفس رکھنے والے عوام ایسا مذاق برداشت کر لیتے ہیں کہ ہمارے نام پر تو کوئی اثاثہ ہے ہی نہیں اور یہ کہ ہم نے تو سب کچھ اپنے بچوں کے نام منتقل کر دیا ہے۔ یہ تو اتنا دردناک مذاق ہے کہ اس پر ہنسا بھی نہیں جا سکتا۔

ویسے یہ خوب ہے کہ خونی انقلاب کا نعرہ بھی لگتا رہے اور اثاثے بھی اولاد کے نام منتقل ہوتے رہیں۔ انقلابی شاعروں کی نظمیں بھی گائی جائیں اور سیکنڈری بورڈ پر ایسے ” دیانت دار “ کارندوں کو بھی مسلط کیا جائے جو یونی ورسٹی میں اپنی ” دیانت “ کی دھاک بٹھا چکے ہوں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر بھی ڈسے گئے۔ اس لیے کہ ان کی قسمت ایسے ذاتی خدمت گاروں کے حوالے کر دی گئی جو اس کے اہل ہی نہیں تھے۔ اگر سرکاری ڈیوٹی سے طویل رخصت لے کر اپنے سرپرستوں کی فیکٹریوں میں ملازمت کی جائے تو بعد میں انعام و اکرام تو ملتا ہی ہے۔ اس چکر میں اگر چند ہزار ڈاکٹروں کے ساتھ ظلم ہو جائے تو اسے برداشت کر لینا چاہیے!

یہاں کئی دلچسپ معاملے اور بھی ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو خلق خدا نے سکھ کا سانس لیا سوائے ان کے جن کے ذاتی مقدر ملوّث تھے ! اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ذہنی لحاظ سے نمو نہیں پا سکتے۔ وہ اسی سطح پر رہتے ہیں جس پر سال ہا سال پہلے تھے۔ سنٹرل لندن لندن کا ایسا حصّہ ہے جو دل کو موہ لیتا ہے ۔ جو وہاں کا باسی ہو اسے کوئی اور جگہ کبھی پسند نہیں آسکتی۔ فرض کیجیے سنٹرل لندن کا کوئی باسی پورے انگلینڈ کا صوبیدار بن جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ذہنی طور پر پر وہ سنٹرل لندن سے باہر ہی نہ نکلے۔ وہ ترقی کی طرف جو قدم بھی اُٹھائے سنٹرل لندن ہی سے متعلق ہو۔ سڑکیں، پُل، پارک ، مواصلات اطلاعات سب کچھ اسی حوالے سے ہو تو آپ کا کیا خیال ہے انگلینڈ کے باقی شہروں کا رد عمل کیا ہو گَ َا؟ آج وزیر اعلی پنجاب عملی طور پر وزیر اعلی  لاہور بنے ہوئے ہیں۔ لوگ الگ صوبے نہ مانگیں تو کیا کریں 

لیکن بے زبان ملکوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں جو کام بھی کیا جائے اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے میسّر آ جاتے ہیں۔ اس ملک میں خدمت گار کثرت سے ملتے ہیں اور ہر قبیل کے ملتے ہیں۔ مجموعی طور پر دو قومیتیں ہی یہاں آباد ہیں : خدمت گار اور خدمت لینے والے۔ باقی جو کچھ ہے حشو و زوائد میں آتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خدمت گار کہلانا پسند نہیں کرتا تو جو نام بھی رکھ لے رہے گا خدمت گار ہی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, November 01, 2011

اذانیں دینے کا وقت

اس کے سر میں ایک سو آنکھیں ہیں
مونہہ میں اڑتالیس دانت ہیں
جسم میں تین دل ہیں۔
ناک کے اندر چھ چاقو ہیں اور ہر چاقو کا استعمال مختلف ہے۔ جسم کے دونوں طرف تین تین پَر ہیں۔ اسی جسم میں جدید ترین ایکس رے مشین نصب ہے۔
یہ کوئی سمندری بلا نہیں، نہ کسی عفریت کی داستان ہے۔ نہ جادو پری کا قصّہ ہے۔ یہ اُس مچھر کا ذکر ہے جو ہمارا خون چوستا ہے لیکن ابھی حیرت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔
مچھر کے جسم میں ایک خاص دوا ہے جو انسانی بدن کے اُس حصّے کو سُن کر دیتی ہے جہاں یہ اپنے دانت گاڑتا ہے تاکہ جس کا خون چوسا جا رہا ہے اسے کم سے کم احساس ہو! اسکے اس ذرا سے جسم میں خون ٹیسٹ کرنے کی ایک جدید مشین بھی لگی ہوئی ہے تاکہ یہ انسانی خون کو ٹیسٹ کرے اور اپنی پسند کا خون پی سکے۔ پھر یہ خون پینے کے عمل کو تیز تر بھی کر سکتا ہے تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خون پی سکے۔
 یہ آ ج مچھروں کی خصوصیات کے بارے میں ہم آپ کو کیوں بتانے بیٹھ گئے۔ اس کا جواب تھوڑی دیر میں عرض کرتے ہیں لیکن پہلے ایک ایسی خبر سنیے جو عبرت کا مرقّع ہے۔
ملک میں کرائے کے بجلی گھروں کے ضمن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور جس طرح بجلی کے صارفین کو دن دہاڑے لوُٹا جا رہا ہے اس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور اسی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے اپنی حکومت کےخلاف کروڑوں اربوں کے کرپشن کے نہ صرف الزامات لگائے بلکہ ان الزامات کے بارے میں ثبوت پیش کر کے الزامات کو درست بھی ثابت کردیا۔
وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ”نیپرا سمیت متعلقہ اداروں نے منصوبوں میں شفافیت کیلئے بنائے گئے رولز کو فالو نہیں کیا ۔ جو دعوے کیے گئے کہ ان منصوبوں میں بین الاقوامی نیلامی رولز کو فالو کیا گیا وہ غلط موقف ہے “ وفاقی وزیر نے عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا کہ ”نیپرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ اس نے آٹھ کمپنیوں کے ٹیرف طے کیے تو کوئی اشتہار شائع نہیں کیا۔ اسکی وجہ بھی معلوم ہونی چاہیے۔ “
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نیپرا کس چڑیا کا نام ہے؟ در حقیقت یہ چڑیا نہیں بلکہ ہاتھی ہے اور وہ بھی سفید ہاتھی ! یہ وفاقی حکومت کا ایک محکمہ ہے جو واپڈا اور وفاقی وزارتِ بجلی سمیت تمام اداروں سے بالا تر ہے اور بجلی کے تمام معاملات طے کرتا ہے۔ اس کی اپنی وضع کردہ تعریف کے مطابق ”یہ ایسا تنظیمی ڈھانچہ مہیا کرےگا جو پاکستانی صارفین کو قابل اعتماد ، محفوظ اور مناسب قیمت پر بجلی میسر کرنے کا انتظام کرےگا “
آ پکا کیا خیال ہے کہ اتنے اہم اور ٹیکنیکل ادارے کا سربراہ کون ہے؟
ایک بار پھر اپنے ذہن میں یہ بات جاگزین کر لیجیے کہ یہ ادارہ پورے ملک کی بجلی کا مائی باپ ہے۔ بجلی پیدا کرنےوالی کمپنیوں کو کنٹرول کرنا، قوانین بنانا ،ان قوانین پر عمل کرانا ، بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور قیمت کو متوازن رکھنا ۔ یہ سب اس ادارے کا یعنی نیپرا کا کام ہے۔
آپ کہیں گے کہ اس ادارے کا سربراہ یقینا کوئی انجینیر ہو گا جو بجلی کے سارے تکنیکی معاملات کا ماہر ہو گا۔ اس ٹیکنو کریٹ کی ساری زندگی بجلی کے امور سر کرنے میں گذری ہو گی اور وہ یقینا اتنا علم اور تجربہ رکھتا ہو گا کہ رینٹل پاور منصوبے چلانے والے خرّانٹ انجینئروں اور سائنسدانوں سے معاملات مہارت سے طے کرے!
کاش ایسا ہوتا !
 لیکن ایسا نہیں ہے۔
 آپ کا اندازہ سراسر غلط ہے۔ آپ بھول گئے ہیں کہ آپ کس ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ وہ ملک نہیں جو امانتوں کو انکے سپرد کرے جو انکے اہل ہیں۔ یہاں تو مناصب ان کو دیے جاتے ہیں جو نہ صرف نا اہل ہیں بلکہ متعلقہ شعبے سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے۔
نیپرا کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے جس نے زندگی نوکرشاہی میں گذاری۔ یہ صاحب پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے سیکرٹری تھے۔ شوکت عزیز کے ذاتی معاون ہونے کے ناطے اختیارات انکے سامنے بچھے ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے کا وقت آیا تو ان صاحب نے اپنے آپ کو ورلڈ بنک میں تعینات کرا دیا ۔ اتنے میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی اور ورلڈ بنک کی اُس گھی سے چُپڑی پوسٹ پر کسی اور کو بھیج دیا گیا۔ یہ صاحب نیپرا کے سربراہ بن گئے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ نیپرا چلے اور بجلی کے مسائل حل ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ریٹائر ہو کر بھی یہ پانچ سال کیلئے ٹیکس دہندگان کے خرچے پر پرورش پاتے رہیں۔ اہل پاکستان گرانی کے سیلاب میں غوطے کھا رہے ہیں۔ بجلی ناپید ہے۔ کئی کئی گھنٹے شہر ،قصبے اور گاوں اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور بجلی کے ادارے ، یعنی نیپرا ، کا سربراہ وہ شخص ہے جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ کیا ٹیکس دینے والے عوام کو بتایا جائےگا کہ نیپرا کے سربراہ کو اب تک خزانے سے کتنی رقم بطور تنخواہ، اور کتنی رقم بطور سفر خرچ ادا کی گئی ہے؟ کیا کیا مراعات مل چکی ہیں اور بدستور مل رہی ہیں؟ اور انکی وہ کون سی اہلیت اور خصوصیت تھی جس کی بنیاد پر اس ٹیکنیکل اسامی پر انہیں تعینات کیا گیا؟
اب آئیے مچھر کی اُن ”صفات “ کی طرف جو ہم نے اس تحریر کے آغاز میں بیان کی ہیں۔ اگر آپ غور کریں اور انصاف سے کام لیں تو یہ ساری صفات آپ کو نوکرشاہی میں ملیں گی۔جی۔ او ۔ آر کے کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل محلات میں مستقل رہنے والے اور ریٹائر ہو کر بھی پانچ پانچ سال جونک کی طرح ریاست کا خون پینے والے نوکر شاہی کے ان اہلکاروں کو غورسے دیکھیے۔ انکے دہانوں میں اڑتالیس اڑتالیس دانت ہیں۔ انکے ایک ایک نتھنے میں چھ چھ چاقو ہیں۔ یہ انسانی کھال کو خوب پہچانتے ہیں اور اس کھال کو اتارنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انکے جسموں کے اندر خون ٹیسٹ کرنے کی جدید ترین مشینیں نصب ہیں جن کی مدد سے یہ اپنی پسند کا خون پیتے ہیں۔ میٹھا ، گاڑھا اور لذیذ خون ! کوئی نیپرا میں بیٹھا ہے ، کوئی پیمرا میں بھنبھنا رہا ہے، کوئی زندگی کے آخری سانس تک اسلام آباد کے حکومت خانوں میں بیٹھ کر اپنی ”مہارت “ کو ”استعمال“ کرنا چاہتا ہے اور کچھ پیرانِ تسمہ پا لاہور اور کراچی کے بابو خانوں میں  بےزبان ٹیکس دہندگان کی گردنوں پر بیٹھے بیٹھے ملکِ عدم کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو قبروں کے اندر میز کرسیاں لگوا لیں !
ان   موذیوں پہ  قہرِ الٰہی  کی شکل  میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
اسی لیے تو یہ ملک ایڑیاں رگڑرہا ہے۔ بین الاقوامی حوالے سے ہم پستی کی اُس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ آئے دن ہماری عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے جاپانی سرمایہ کاروں نے ہمارے رخساروں پر زنّاٹے کا تھپڑ رسید کیا ہے۔ پاکستان نے انہیں کراچی میں دو ہزار ایکڑ پر مشتمل معاشی زون کی پیشکش کی تھی لیکن اسے مسترد کرتے ہوئے وہ بھارت پہنچ گئے ہیں جہاں وہ چھ بڑے شہروں میں کاروبار کرینگے۔ دو سال میں جاپان کی پاکستان میں سرمایہ کاری131 ملین ڈالر سے کم ہو کر 26 ڈالر رہ گئی ہے۔ پانی گیس بجلی کا بحران، انفرا سٹرکچر کا نہ ہونا اور بے پناہ کرپشن ! ایسے میں سرمایہ کاری وہی کرےگا جو اندھا بھی ہو اور بہرا بھی۔ جاپان کو تو چھوڑیے اُس پاکستانی کا عزم صمیم دیکھیے جس نے بریڈ فورڈ میں اعلان کیا ہے کہ اب وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئےگا۔ وہ اپنے ملک آیا تھا کہ راولپنڈی سے اسے اغوا کر لیا گیا۔ بیس دن تک اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا اور پندرہ ہزار پائونڈ لے کر چھوڑا گیا۔ اگر پولیس کا کام صرف حکمرانوں کا باڈی گارڈ بننا ہے تو اغوا کنندگان تاوان دے کر ہی چھوٹیں گے !
 اڑتالیس اڑتالیس نوکیلے دانت،
 چھ چھ چاقو اور پسند کا خون تلاش کرنے کیلئے دہانوں کے اندر لیبارٹریاں !
چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے کا وقت ہے۔

Tuesday, October 25, 2011

مگر اک بات جو دل میں ہے

یہ رباط تھا۔ مراکش کا خوبصورت خوابیدہ دارالحکومت۔ ہم کاسا بلانکا کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ کاسا بلانکا جو مراکش کا نیویارک ہے۔ پرتگالی میں کاسا بلانکا کا مطلب سفید محل ہے۔ عرب اسے دارالبیضا کہتے ہیں۔
محل نما مکان کے ساتھ بہت بڑا لان تھا۔ لان کے درمیان ایک شخص آلتی پالتی مارے زمین پر بیٹھا گھاس سے جھاڑ جھنکار نکال رہا تھا۔ مناسب فاصلے پر ایک خاتون بیٹھی یہی کام کر رہی تھیں۔ یہ قاضی رضوان الحق تھے۔ مراکش میں پاکستان کے سفیر۔ خاتون ان کی بیگم تھیں۔ یہی ہمارے میزبان تھے۔ میرے یارِ دیرینہ قاضی عمران کے برادر خورد۔
 قاضی رضوان تغلقوں کے دارالحکومت دیپالپور کے اس خاندان سے ہیں جسے ترکوں اور مغلوں نے قاضی مقرر کیا تھا۔ قاضی تو اب یہ لوگ نہیں رہے لیکن درویشی باقی ہے۔ قاضی عمران بھی بڑے بڑے عہدوں پر رہے مگر ہر رمضان کے آخری دس دن دیپالپور کی مسجد کے سخت فرش پر گزارتے تھے۔
میری بیگم بھی لان کی صفائی پر لگ گئیں اور میں آڈیٹر جنرل آف مراکش سے ملنے چلا گیا۔ ایک سال پہلے میکسیکو میں دنیا بھر کے ملکوں کے آڈیٹر جنرل اکٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ملک کی ٹوٹی پھوٹی نمائندگی میں کر رہا تھا۔ وہیں ڈاکٹر احمد المداوی سے ملاقات رہی تھی۔ خدا میرے والد کی قبر کو اپنے نورِ رحمت سے بھر دے‘ میں ان سے عربی میں گفتگو کرتا اور وہ خصوصی شفقت سے پیش آتے۔ ان کا اصرار تھا کہ مراکش جب بھی آوں ملاقات ضرور ہونی چاہئے۔ اب جب میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ شیشے کے خوبصورت گلاس نما مراکشی پیالوں سے پودینے کا قہوہ پیتے ہوئے ہم گفتگو کرتے رہے۔ جب انہوں نے میرے مراکش کے قیام کے دوران اپنے ایک سینئر افسر کو میرا معاون مقرر کیا اور گاڑی بھی مختص کرنے کا حکم دیا تو میں نے معذرت کی کہ میں سرکاری دورے پر نہیں‘ ذاتی حوالے سے سفر کر رہا ہوں۔ لیکن احمد المداوی آڈیٹر جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ عرب بھی تھے۔ میرے احتجاج کو ان کی عرب مہمان نوازی نے قطعی طور پر نامنظور کر دیا۔
رباط سے فاس تک کے سفر کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے یورپ میں سفر کر رہے ہیں۔ وہی صفائی‘ وہی نظم و ضبط‘ ویسے ہی صاف ستھرے ریستوران‘ حدِ نگاہ تک زیتون کے باغات جو بہت کچھ یاد دلا رہے تھے۔ فاس وہی شہر ہے جسے انگریزی میں فیز (FEZ) کہتے ہیں۔ پرانا فاس دنیا کے ان معدودے چند شہروں میں سے ایک ہے جس کے گلی کوچوں اور ثقافت میں گذشتہ بارہ سو سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہزاروں تنگ گلیاں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئیں‘ چمڑے کی مختلف مراحل سے ہوتی ہوئی صفائی اور کاروبار‘ کہیں اونٹ کا گوشت بِک رہا ہے‘ کہیں گدھے پر سامان لادا جا رہا ہے۔ کہیں کھجوروں کے ڈھیر لگے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی‘ جو مسلسل چل رہی ہے‘ یہیں ہے۔ مدرسوں کی پرشکوہ عمارات جابجا راستہ روکتی ہیں۔ فاس کی وجہ شہرت پھُندنے والی وہ سرخ ٹوپی بھی ہے جسے ترکی ٹوپی کہتے ہیں۔ عربی میں اسے تربوش کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعد کے زمانے میں یہ ٹوپی یورپ سمیت مختلف مقامات پر بننے لگی لیکن اس کا اصل وطن فاس ہی ہے اور اس کا رنگ فاس کے ارد گرد پائے جانے والے ایک خاص قسم کے بیری کے درخت سے نکالا جاتا تھا۔ تاہم میرے لئے زیادہ اہم کام اس گھر کو تلاش کرنا تھا جہاں ابنِ خلدون نے زندگی کے بہت سے سال گزارے تھے۔ کئی لوگوں سے پوچھتے اور کئی چھوٹی بڑی گلیوں میں کئی گھنٹے چلنے کے بعد ہم نے وہ گھر تلاش کر لیا۔ یہ آج تک اسی حالت میں ہے۔ درمیان میں چھوٹا سا صحن اور اس کے ارد گرد تین منزلہ عمارت جس میں بہت سے کمرے تھے۔
میں سوچ رہا تھا کہ یہیں اس نے فلسفہ تاریخ پر وہ معرکہ آرا کتاب تصنیف کی ہو گی جو دنیا میں آج بھی اس موضوع پر معتبر ترین حوالہ ہے۔ اس تاریخی مکان کا موجودہ مالک ایک چھوٹا موٹا تاجر تھا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور پہلی نظر میں ڈراونا لگتا تھا۔ مکان کے باہر‘ بازار کے ایک کنارے پر اس نے دستکاریوں اور تحائف نما اشیاءکا سٹال لگایا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے چند تحائف خریدے۔ وہ قیمت ذرا بھی کم کرنے پر تیار نہ تھا۔ میں نے اسے رام کرنے کیلئے کہا کہ وہ ابنِ خلدون کے گھر میں رہتا ہے اسلئے کچھ تو رعایت کرے۔ اس سے اس کی شانِ ملکیت پر زد پڑی اور وہ جلال میں آ گیا۔ تب اس نے وہ فقرہ کہا جو مجھے زندگی بھر نہیں بھولے گا۔ ”ابن خلدون کا تو کبھی رہا ہو گا۔ اس وقت اس مکان کا مالک میں ہوں“
مراکش شہر جو ملک کے جنوبی صحرا میں واقع ہے‘ سرخ شہر کہلاتا ہے کیونکہ اس میں ساری عمارتیں سرخ رنگ کی ہیں۔ یوسف بن تاشفین کا مزار اسی شہر میں ہے۔ اصل میں مراکش اس شہر کا نام ہے۔ ملک کیلئے مراکش کا لفظ صرف ہمارے ہاں ہی استعمال ہوتا ہے ورنہ عرب اس ملک کو المغرب اور دوسرے لوگ مراکو کہتے ہیں۔
طنجہ اور اس میں واقع ابن بطوطہ کے مزار پر اس سے پہلے ایک کالم  لکھا جا چکا ہے۔ طنجہ سے بحرِ روم پار کرنے میں آدھ گھنٹہ لگتا ہے۔ ہم نے مسجد قرطبہ میں نوحہ خوانی کی‘ غرناطہ میں الحمرا کے محلات میں کھڑے ہو کر دل ہی دل میں سینہ کوبی کی اور جبرالٹر (جبل الطارق) کے کہیں نزدیک ہی سے بحرِ روم کو دوبارہ پار کر کے مراکش پلٹ آئے۔
رباط پہنچے تو قاضی رضوان صاحب نے بتایا کہ ان کا تبادلہ ہو چکا ہے اور چند دنوں میں وہ ہسپانیہ کے دارالحکومت میڈرڈ میں سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے چلے جائیں گے۔ اس رات ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ صبح سویرے ہماری روانگی تھی۔ پراسرار طور پر گم ہو جانے والے شبیر شاہد کے اشعار یاد آ رہے تھے
مئے فراغت کا آخری دور چل رہا تھا
سبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھا
نگاہیں دعوت کی میز سے دور کھو گئی تھیں
تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا
میں نے رضوان سے کہا کہ وہ اپنے کیریئر کے عروج پر ہے اور بڑے بڑے ملکوں میں پاکستان کی سفارت کاری کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ اس عروج کے بعد ظاہر ہے ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ کیا اتنے خوبصورت ملکوں اور پرامن شہروں کو چھوڑ کر وہ پاکستان واپس جائے گا یا بہت سے دوسرے سفیر حضرات کی طرح باہر ہی آباد ہو گا۔ میرا سوال سن کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس خاموشی میں بہت کچھ تھا۔ غم اور افسوس‘ واپسی کی خواہش اور محبت۔ بے بسی اور ارادے کی پختگی بھی۔
جب رضوان بولا تو یوں لگا جیسے اس کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے۔ اظہار بھائی! پوری دنیا دیکھ لی‘ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا۔ ترقی یافتہ شہروں میں ہر جدید سہولت آزمائی لیکن اصل بات وہی ہے جو آپ ہی کے شعر میں بیان ہوئی ہے
مزے سارے تماشا گاہِ دنیا میں اٹھائے
مگر اک بات جو دل میں تھی جس کا غم بہت تھا
میں اب شامِ غریباں کے اس طلسم سے رہائی چاہتا ہوں اور ان گھروندوں ان محلوں اور ان مکانوں میں واپس جانا چاہتا ہوں جہاں میں نے اپنی زندگی کے پہلے پندرہ برس گزارے۔ جہاں میرے بچپن کے دوست ہیں‘ جہاں ہم نئے کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھا کرتے تھے اور کوئی نہیں پرواہ کرتا تھا کہ شیعہ کون ہے اور سنی کون۔ جہاں میں نے کبھی کہیں اپنی سائیکل کو تالہ نہیں لگایا تھا۔ جہاں ہم بے خطر بازاروں میں گھومتے تھے جہاں ماں باپ جب یہ نصیحت کرتے تھے کہ مغرب کی اذان کے ساتھ گھر واپس آنا ہے تو اس کی وجہ جان کا خطرہ نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ تہذیبی تربیت کا ایک جزو ہوتا تھا۔ میرے خواب انہی گلیوں میں گردش کر رہے ہیں‘ جہاں میرے اجداد کی قبریں ہیں اور جہاں میرا خاندان سینکڑوں سال سے رہتا چلا آ رہا ہے۔ جہاں ہاتھاپائی کرنے کا تصور بھی ناپید تھا۔ جہاں بحث ہوتی تھی لیکن کوئی ناراض ہوتا تھا نہ جھگڑتا تھا۔
اب وہاں گولیاں چل رہی ہیں‘ دھماکے ہو رہے ہیں‘ بارودی جیکٹس فیشن بنتی جا رہی ہیں‘ کبھی مذہب کے نام پر‘ کبھی امریکہ کی حمایت میں‘ کبھی امریکہ کی مخالفت کے حوالے سے اور کبھی اپنی ذاتی رائے کو اسلام قرار دیتے ہوئے ہماری زندگیوں میں زہر گھولا جا رہا ہے۔ امن و امان قصہ پارینہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ میرے بچے وہاں جانے سے خوفزدہ ہیں لیکن میں وہیں جاوں گا اور وہیں رہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان دہشت گردوں کو‘ اسلام کے ان نام نہاد علم برداروں کو اور امریکہ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے والوں کو شکست دیں گے۔ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں! میں نے انہی گلیوں میں واپس جانا ہے اور وہیں اپنے بڑھاپے کی چاندی بکھیرنی ہے!

Tuesday, October 18, 2011

بوجھو تو جانیں

میرا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ سے ”بوجھو تو جانیں“ کھیلوں لیکن کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میرا آئیڈیل کون لوگ ہیں؟مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بوجھ سکیں گے۔ آپ کا خیال ہو گا کہ دانشور، ادیب، سائنسدان یا فنکار میرا آئیڈیل ہیں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں!

میرا آئیڈیل اِس ملک کے تاجر ہیں اس لئے کہ انکے اعصاب مضبوط ہیں۔ یہ گروہ ارادے کا پکا ہے۔ جو چاہے، حاصل کر کے رہتا ہے۔ کسی سے ڈرتا ہے نہ کسی کی پرواہ کرتا ہے۔ ملک میں سیلاب آئے یا زلزلہ، طوفان آئے یا آندھی، عید ہو یا رمضان، خوشی ہو یا غم، تاجر برادری پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اپنے اہداف ہر حال میں جیت کر رہتے ہیں۔ یہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں نہ کسی رکاوٹ ہی کو خاطر میں لاتے ہیں۔

آپ دکانیں صبح جلد کھولنے اور سرِشام بند کرنے ہی کی مثال لے لیجئے۔ جن ملکوں میں بجلی کی کمی کا مسئلہ نہیں اور خوشحالی کا دور دورہ ہے، وہاں بھی دکانیں صبح نو بجے کھُل جاتی ہیں اور شام پڑتے ہی بند ہو جاتی ہیں۔ میں اِن دنوں آسٹریلیا میں ہوں۔ حال ہی میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں۔ سورج پونے آٹھ بجے غروب ہو رہا ہے لیکن دکانیں ساڑھے پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں۔ یعنی غروبِ آفتاب سے دو گھنٹے پہلے۔ کسی تاجر نے احتجاج نہیں کیا کہ میں سہ پہر ہی کو کیوں دکان بند کر دوں۔ یہ لوگ صبح نو بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ آبادی کا وہ حصہ جس نے دوپہر کو اپنے کام پر جانا ہے، یا وہ لوگ جو چھٹی پر ہیں، یا خواتین خانہ، سب صبح صبح بازار جاتے ہیں اور سودا سلف خرید کر دس گیارہ بجے تک فارغ ہو جاتے ہیں۔ آپ اسکے مقابلے میں پاکستان کی تاجر برادری کا ”انصاف“ ملاحظہ کیجئے اُنکے پاس صبح دکان نہ کھولنے کی کوئی دلیل نہیں، سوائے دھاندلی کے۔ یہ ”خدا ترس“ لوگ دن کے بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں اور وہ بھی بصد مشکل۔ آپ نے اگر دفتر سے چھٹی لی ہے کہ بچوں کو جوتے یا کپڑے دلانے ہیں یا نئے سال کی کتابیں خریدنی ہیں یا پورے مہینے یا ہفتے کا سودا سلف لینا ہے تو بارہ بجے تک آپ کو انتظار کرنا پڑے گا اور یوں آپ کا نصف دن ضائع ہو جائےگا۔ جو خریداری ظہر کے وقت شروع ہو گی وہ شام کے بعد تک جاری رہے گی۔ آپ بازار سے دس گیارہ بجے رات کو لوٹیں گے۔ یہ ایک خرابی کئی خرابیوں کو جنم دےگی۔ کھانا دیر سے کھائینگے۔ بچے تھکے ہوئے ہونگے۔ سب لوگ دیر سے سوئیں گے۔ صبح دیر سے اٹھیں گے۔ اس طرح ایک دائرہ بن جائےگا۔ خرابی ¿ اوقات۔ تصنیعِ اوقات کا دائرہ۔ جس سے باہر نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔

اس برادری میں جو لوگ خواتین سے لین دین کر رہے ہیں وہ اخلاق میں ”بہترین“ ہیں۔ سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، کام طے شدہ معاہدے کےمطابق کرنا، یہ سب کچھ ان لوگوں کی لغت میں مکمل ناپید ہے۔ اُن تاجروں کو دیکھ لیجئے، جن سے خواتین شادی بیاہ کا کام.... بالخصوص ملبوسات کا کام کراتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے کلچر میں شادی بیاہ کی تیاری ایک عذاب سے کم نہیں اور یہ عذاب خواتین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مرد حضرات رقم دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اسکے بعد ان کا ایک ہی کام ہے کہ خواتین کو ڈانٹتے رہیں کہ تم نے فضول خرچی کی۔ انہیں تصور ہی نہیں کہ خواتین کس عذاب سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس شعبے کے ننانوے فیصد تاجر کھُلی وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کھلی وعدہ خلافی کو وہ کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ یہ ظالم لوگ خواتین کو کئی کئی پھیرے ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ تاریخ جو یہ کاغذ یا رسید پر لکھ کر دیتے ہیں، اُسے مذاق سمجھتے ہیں، پھر ان میں اتنا اخلاق بھی نہیں کہ ٹیلی فون کر کے اطلاع دےدیں کہ آپ فلاں تاریخ کے بجائے فلاں تاریخ کو آئیں۔ ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی۔ خواتین اس قدر زچ ہوئیں کہ انہوں نے مجھے ساتھ آنے کو کہا۔ یہ ایک بہت بڑے حاجی صاحب کی دکان تھی۔ وہ کئی پھیرے ڈلوا چکے تھے اور ہر بار کام اُس تخصیص سے مختلف کرتے تھے جو کاغذ پر لکھ کر دیتے تھے۔ میں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا کہ آپ اتنی بار وعدہ خلافی کر چکے ہیں، کیا آپکی آمدنی جائز ہے؟ پہلے تو منت کی کہ آہستہ بولئے، باقی گاہک سُن لیں گے، پھر دبک کر اُوپر والی منزل پر چھپ گئے۔ آتے ہوئے میں نے انہیں دس روپے اضافی دئیے، پوچھنے لگے، یہ کیوں؟ میں نے کہا، میرے بعد جس گاہک سے وعدہ خلافی کریں گے، اُسے کم از کم فون کر کے بتا دیجئے گا کہ فلاں تاریخ کو آئے۔ یہ اسی ٹیلی فون کے پیسے ہیں!

اِس معاشرے میں جہاں مرد غالب اور حاوی ہیں، خواتین.... یہاں تک کہ تعلیم یافتہ خواتین بھی.... ان تاجروں کی بداخلاقی کا شکار ہیں اور احتجاج کا رویہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ ”حاجی“ صاحبان، اُس حدیث سے لگتا ہے ناواقف ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امانت اسکے سپرد کی جائے تو خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کسوٹی پر پرکھیں تو ہم سب منافق ہیں۔ خاص طور پر تاجر اور سیاستدان.... حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ جنہیں ہم کافر عیسائی اور یہودی کہتے ہیں وہ معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں نہ وعدہ خلافی کرتے ہیں، آپ نے اکثر اپنے بڑوں سے سنا ہو گا کہ ہندو دکاندار بچے کو بھی وہی بھاﺅ دیتا تھا جو بڑے کو دیتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، تاجروں کی اکثریت شکل صورت سے متشرع ہے۔ نمازی ہیں اور حج کر کے حاجی کہلواتے بھی ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز نفع خوری، کم تولنا اور کم ماپنا عام ہے۔ جعلی دوائیں، جعلی غذائیں ۔ اور پھر بیچتے وقت مال کا نقص نہیں بتایا جاتا اور ہوس اس قدر کہ رمضان آتے ہی قیمتیں دوچند بلکہ کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں۔ پوچھنے پر جواب ملے گا کہ پیچھے سے ہی مہنگی آ رہی ہیں۔ حالانکہ جو مال حاجی صاحب نے پرانی قیمت پر خرید کر رکھا ہوا ہے، اسکی قیمتِ فروخت بھی بڑھا دی ہے۔ اقبال نے شیخِ حرم کے بارے میں کہا تھا ....

یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیمِ بوذر   و   دَلقِ اویس      و چادرِ زہرا

شیخِ حرم میں اب شیخِ تجارت کو بھی شامل کر لیجئے!

پوری مہذب دینا میں یہ ایک معمول کی بات ہے کہ آپ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ پالیسی لکھ کر لگا دی جاتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں آپ تین ماہ تک مال واپس یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ اعزاز صرف پاکستانی صارفین کو حاصل ہے کہ وہ ”خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل“ نہیں کر سکتے۔ آپ تاجر کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ جناب لے جائیے اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی ۔ بھائی جان  شکایت کیسے آئے گی ؟پاکستان میں تو صارف اس قدر دب چکا ہے اور اتنا مظلوم اور خوفزدہ ہے کہ شکایت کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ جس معاشرے میں ایک تاجر کا جرم۔ کھُلا جرم بخشوانے کےلئے سارے تاجر ہڑتال کر دیں اور گاہکوں اور انتظامیہ کو دھمکیاں دیں وہاں شکایت کون مائی کا لال کرےگا۔
اور آخری بات.... کیا ہماری تاجر برادری ٹیکس ادا کر رہی ہے اور کیا اتنا ہی ادا کر رہی ہے جتنا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! رہا یہ اعتراض کہ حکومت ٹیکس کی رقم کو غلط خرچ کرتی ہے تو یہ اعتراض اُسی وقت کیوں اٹھتا ہے جب ٹیکس پورا جمع کرنے کی مہم چلتی ہے؟ آپ دیانتدار نمائندے اسمبلیوں میں بھیجئے تو ٹیکس صحیح جگہ خرچ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس اور محصولات جمع کرنےوالے اہلکاروں کو کرپشن کون سکھاتا ہے؟ بوجھو تو جانیں!

Tuesday, October 11, 2011

وہ میرا شعلہ جبیں موجئہ ہوا کی طرح

اکتوبر کی تیسری صبح تھی جب تعمیلِ حکم کےلئے فرشتہ گھر میں داخل ہوا اور زندگی پروں کو پھڑپھڑاتی دریچے سے باہر نکل گئی۔ فاروق گیلانی اپنے پروردگار کے حضور پہنچ گئے۔ سب سے بے نیاز۔ جیسا کہ رومی نے کہا تھا ....
بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد
گماں مبر کہ مرا فکرِ این و آن باشد
مرگ کے دن جب میرا تابوت جا رہا ہو گا تو یہ نہ سوچنا کہ مجھے اِدھر اُدھر کی فکر ہو گی۔
وہ اِس عصر میں اُن اہلِ کمال کی تصویر تھے جن کے گزرے زمانوں کو لوگ یاد کر کے حیران ہوتے ہیں۔ 36 سال سروس کے اعلیٰ عہدوں پر یوں رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تلوار کی طرح تیز اور کھرے۔ کتنی ہی دفعہ سزا کے طور پر او ایس ڈی بنائے گئے لیکن کبھی اتنی مصلحت کیشی بھی پسند نہ کی جسے بڑے بڑے صالحین بھی جائز سمجھتے ہیں۔ نصف درجن کے قریب کتابیں آغازِ جوانی ہی میں تصنیف کر چکے تھے۔ گفتگو ایسی کہ ادب اور تاریخ کا، دانش اور حکمت کا مرقع۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انکے سامنے فارسی یا اردو کا کوئی مصرع یا قرآن پاک کی کسی آیت کا حصہ پڑھا گیا اور انہوں نے اسے مکمل نہ کر دیا۔ اردو اور انگریزی پر یکساں مہارت۔ خیال کو پوشاک پہنانے کا ارادہ کرتے تو لفظ غلاموں کی طرح حاضر ہونا شروع ہو جاتے۔
پشاور کے سرکاری تربیتی ادارے میں لیکچر دینے گئے تو معروف شاعر ڈاکٹر وحید احمد نے، جو وہاں تعینات تھے، بتایا کہ انہوں نے زیر تربیت افسروں کو مٹھی میں لے لیا۔ آج کے کئی سیاستدان اور قلم کار اُنکے بابِ دانش سے فیض یاب ہوئے لیکن گیلانی صاحب نے کبھی ذکر کیا نہ جتایا۔ استغنٰی کا یہ عالم تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی ساتھی بیورو کریٹ ”قندِ مکرر“ کےلئے دوڑ دھوپ میں لگ گئے لیکن فاروق گیلانی نے دامن جھاڑا، گھر کو روانہ ہو گئے اور پلٹ کر نہ دیکھا۔ کئی بار کہا کہ شاہ جی! اداروں کو آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔ ہر بار ایک ہی بات کہتے ”لیکن اظہار بھائی! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں“۔ شام کو اسلام آباد کلب میں دوستوں کی بزم برپا کرتے۔ جہاں بیٹھتے ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے۔ ہر جا کہ رفت، خیمہ زد و بارگاہ ساخت! لامحدود دستر خوان۔ گھر ہو یا کلب۔ مہمانوں کا ہجوم۔ خود کم کھانے والے فاروق گیلانی کی وسعتِ قلب پر حیرت ہوتی۔ دوست تو دوست تھے، واقف کاروں کو بھی پکڑ کر لاتے اور ضیافتوں میں شریک کرتے۔
جب تک مکان زیرِ تعمیر  رہا  ہر ہفتے مزدوروں اور کاریگروں کی دعوت کرتے اور دوستوں کو بھی شریک کرتے۔ خوشحالی اللہ نے جتنی دی اُس سے زیادہ ہی خرچ کیا۔ اس میں رمق بھر مبالغہ نہیں کہ ہر قدم پر بٹوہ کھولتے اور خسروانہ بخشش کرتے۔ انکے جانے سے کتنے ہی ملازم، کتنے ہی دربان اور کتنے ہی سفید پوش سرپرستی سے محروم ہو گئے۔ مال کو بکری کی چھینک سمجھنے کا محاورہ پڑھا تو تھا لیکن خدا کی قسم! فاروق گیلانی کو دیکھنے اور انکے ساتھ رہنے سے سمجھ میں آیا۔
آسٹریلیا میں اُس وقت شام کا سرد دھندلکا پھیل رہا تھا جب سکائپ پر میرا بیٹا معاذ نمودار ہوا۔ اُس کا چہرہ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا اور جب اس نے بتایا تو جو کیفیت ہوئی اُس کیفیت کا کوئی نام نہیں تھا۔ سکتہ نہ ہوش نہ بے ہوشی۔ ہر ہفتے طویل فون کرتے اور ہر بار واپسی کی تفصیل پوچھتے۔ دو سال پہلے جب بیٹے کے اصرار پر میں کچا پکا بیرون ملک منتقل ہوا تو سخت ناخوش تھے۔ چھ ماہ بعد واپس آیا تو ہر شام اکٹھی گذرتی اور جب بھی موقع ملتا باہر نہ جانے کی ترغیب دیتے۔ اب خبر ملی تو احساسِ جرم، صدمے کے علاوہ تھا۔ اُن کے گھر، ظاہر ہے، فون اٹھانے کا ہوش کسے ہونا تھا! مشترکہ دوستوں کو فون کرنے شروع کئے۔ آکہ وابستہ ہیں اس حُسن کی یادیں تجھ سے۔ ہارون الرشید فون اٹھا نہیں رہے تھے۔ پروفیسر معظم منہاس ملے تو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے۔ اپنے گھر فون کیا تو حسان سسکیاں بھر رہا تھا۔ پھر دوستوں کی میلز آنا شروع ہو گئیں۔ جاوید علی خان نے لکھا کہ اسلام آباد اب کبھی پہلے جیسا نہیں ہو گا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سعید صاحب نے اطلاع دی۔ یہ سانحہ ہر شخص کے لئے ذاتی المیہ تھا۔
نماز کی پابندی تو تھی ہی، نمازِ باجماعت کی حرص شدید تھی۔ یہ فقرہ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے ”اظہار بھائی! جماعت کے ساتھ پڑھنے میں پچیس گنا زیادہ ثواب ہے“۔ اسلام آباد کلب کے اندر گراﺅنڈ فلور پر مردوں کےلئے اور بالائی منزل پر خواتین کےلئے نماز کی جگہ بنوائی۔ بیٹیوں کو پڑھاتے تو سبھی ہیں انہوں نے تربیت بھی کی۔ تینوں کو انگریزی ادب میں ماسٹر کرایا اور نماز کا پابند بھی بنایا۔ مدتوں پہلے میں نے مریم کا کالم پڑھا اور مبارک دی تو فون نمبر لکھایا کہ بھتیجی کو خود مبارک دو۔ پھر وہ سول سروس کے لئے منتخب ہو گئی۔ ریلوے میں سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر بھرتی کی کوشش ہوئی تو مریم متعلقہ شعبے کی انچارج تھی۔ پہاڑ کی طرح رکاوٹ بن گئی۔ اکثریت۔ مجھ سمیت۔ اپنے بچوں کےلئے گوشہ عافیت تلاش کرتی ہے لیکن فاروق گیلانی نے بیٹی کو ڈٹ جانے کےلئے کہا۔ وہ دن سخت آزمائش اور ابتلا کے تھے۔ معطلی ہوئی۔ پھر برطرفی ہو گئی۔ گیلانی صاحب ایک لمحہ کےلئے بھی پریشان نہ ہوئے۔ ایک ہی بات زبان پر رہتی تھی کہ انشاءاللہ آخر کار مریم کی جیت ہو گی۔ اسعد گیلانی کی پوتی اور فاروق گیلانی کی بیٹی نے عدالت اور ٹریبونل میں اپنے مقدمے کی پیروی زیادہ تر خود کی۔ دھمکیاں ملیں تو سید زادی نے بندوق چلانا سیکھ لی۔ آخر کار اس کا موقف درست مان کر اُسے بحال کر دیا گیا۔ چند ہفتے پیشتر گیلانی صاحب نے فون کر کے بتایا۔ مبارک دی تو مسلسل اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔
اپنی شریکِ حیات کےساتھ فاروق گیلانی کا سلوک دیکھ کر وہ حدیث مبارکہ یاد آ جاتی تھی کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےساتھ اچھا ہے۔ فرزانہ بھابھی کےساتھ جو تعلق تھا وہ شرکتِ حیات اور دوستی سے کہیں آگے کا تھا۔ سفر و حضر میں اکٹھے رہے۔ ہمیشہ اکٹھے۔ ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی۔ کسی ضروری کام سے تھوڑی دیر کےلئے بھی کراچی لاہور یا پشاور جانا ہوتا تب بھی اکیلے نہ جاتے۔ سب کچھ خواب و خیال ہو گیا ....
خوش بود لبِ آب و گُل و سبزہ و نسرین
افسوس کہ آن گنجِ روان رہگذری بود
فاروق گیلانی پکے اور سچے پاکستانی تھے۔ پاکستان کی بقا پر پختہ یقین تھا۔ ہم کئی دوست بلوچستان کے حالات سے پریشان ہو کر وسوسوں کا شکار ہوتے اور ہمیں مشرقی پاکستان کا حادثہ یاد آ تا تو گیلانی صاحب دلائل کا انبار  لگا کر  ثابت کرتے کہ  مشرقی پاکستان کے ساتھ تطابق غیر منطقی ہے۔ انہیں سیاسی حرکیات  کا قابل رشک ادراک تھا۔اور اسے پیش کرنے کا اس سے بھی زیادہ قابل رشک فن رکھتے تھے۔ وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حیرت انگیز حوصلہ رکھتے تھے۔ سخت پابند صوم  و صلوٰۃ ہونے کے باوجود ان کے قریبی حلقئہ احباب میں دوسرے مذہب اور دوسرے مسالک رکھنے والے احباب شامل تھے اور مہمان نوازی، قربت اور محبت ان کے ساتھ بھی غیر مشروط تھی۔

اسلام آباد میں دو قبرستان ہیں۔ ایک میں میرے والد گرامی  اور میرا  چار ماہ کا بیٹامحو استراحت ہیں ۔ اب دوسرے میں فاروق گیلانی نے ڈیرہ   ڈال لیا ہے۔ وہ ہر روز فون کرکے پوچھتے  اظہار بھائی  کلب کس وقت آرہے ہیں؟ مجھے لگتا ہے اب بھی پوچھیں گے اظہار بھائی آج میرے پاس چکر لگائیں گے؟ شاہ جی  آپ چھ ماہ فون کر کر کے واپسی کاپوچھتے رہے ۔اور واپسی سے چودہ دن پہلے خود وہاں چلے گئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ آپ نے خوب سزا دی۔

اِذا  زُرتُ ارضاَ َ بعدَ طولِ اجتنابا بہا
فَقدتُ  صَدیقی   و البلادُ   کما      ھیا

  میں طویل غیر حاضری کے بعد وطن واپس آیا تو  شہر تو وہی تھے لیکن میرا دوست غائب تھا۔

وہی مکاں  وہی گلیاں  مگر وہ لوگ نہیں
یہی  مراد  تو    ہے بستیاں اجڑنے سے     
فاروق گیلانی چلے گئے۔ ہائے صادق نسیم مرحوم کا شعر یاد آ رہا ہے ....
وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہوا کی طرح
دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا

Tuesday, October 04, 2011

پاگل لڑکے سے ٹاکرہ



میں جب کسی کام کا بیڑہ اٹھاتا ہوں تو پھر محنت ، احساسِ ذمہ داری اور کار کردگی کی انتہا پر پہنچ کر دم لیتا ہوں۔ اب کُل جماعتی کانفرنس [ اے پی سی ] ہی کو لے لیجیے، میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جہاں تک میرا بس چلے گا ہر پاکستانی کو اس کانفرنس کی اہمیت سے آگاہ کروں گا۔ آخر ملک کا مستقبل اسی کُل جماعتی کانفرنس ہی پر تو منحصر ہے۔
یہی احساس ذمہ داری تھا جس نے مجھے اس نوجوان لڑکے سے گفتگو کرنے پر مجبور کیا جو سخت گرمی میں مکان کے باہر تھڑے پر بیٹھا تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور اُس گندی چھوٹی گلی کے دوسری طرف اُس کے پاس باقاعدہ چل کر گیا۔ پسینے سے اس کی قمیض اس کے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ اس سے بو آرہی تھی۔ پھر بھی میں اس کے نزدیک ہئوا اور پوچھا ۔" نوجوان تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ کُل جماعتی کانفرنس ہو رہی ہے جو ملک کی سلامتی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔"
اُس نے قمیض کے بازو کے ساتھ ماتھا پونچھا اور عجیب ہونق انداز میں کہنے لگا " کون سی کُل جماعتی کانفرنس؟"
پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گیارھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پھر بھی اسے کانفرنس کے بارے میں کچھ علم نہیں
" کیا اخبار نہیں پڑھتے ؟ ٹیلی ویژن پر خبریں نہیں سنتے؟"
" چاچا اخبار ہمارے ہاں نہیں آتا۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ اب اخبار کا بل بھی ادا کرنا شروع کر دیں۔ رہا ٹیلی ویژن تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اس شدید گرمی میں باہر کیوں بیٹھا ہوں ؟ دو گھنٹوں سے بجلی غائِب ہے۔ اور دن میں کئی بار ایسا ہوتا ہے۔ جب ٹی وی چلتا ہی نہیں تو خبریں کیسے دیکھیں اور سنیں۔ لیکن یہ بتائو کہ کل جماعتی کانفرنس میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کیا فیصلہ ہئوا ہے؟ مہنگائی کم کرنے کے کے متعلق ہمارے رہنمائوں نے کیا کہا ہے؟ اور یہ جو دن دہاڑے چوریاں ہو رہی ہیں اور ڈاکے پڑ رہے ہیں اس کا کل جماعتی کانفرنس نے کیا حل سوچا ہے؟"
مجھے اس پر غصّہ آیا۔ ایک تو اس نے مجھے چاچا کہہ کر مخاطب کیا جو عجیب سا لگا۔ میرے بچوں کے دوست تو مجھے انکل کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ چاچا ماما خالہ ماسی کے الفاظ پڑھے لکھے لوگ نہیں استعمال کرتے۔ اوپر سے وہ کُل جماعتی کانفرنس کو لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں نے اُس سے مغز ماری جاری رکھی۔
" یہ جو کانفرنس ہو رہی ہے یہ امریکی دھمکیوں اور ممکنہ امریکی حملے کے پیش نظر منعقد کی جا رہی ہے۔ کیا تم امریکی دھمکیوں سے پریشان نہیں۔؟"
اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں دنیا کا احمق ترین انسان ہوں۔
" چا چا امریکہ کا دماغ نہیں خراب جو ہم پر حملہ کرے حملہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ ملک کو تباہ کر دیا جائے ۔ تو تباہ تو ہم امریکی حملے کے بغیر ہی ہو رہے ہیں۔ رہی کل جماعتی کانفرنس تو اس کا فاِئدہ صرف یہ ہئوا کہ کچھ امیر لوگوں کو اپنی خوش پوشی دکھانے کا موقعہ مل گیا۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم کے ایک ایک سوٹ کی قیمت لاکھوں روپے میں ہے۔کیا کانفرنس میں دعوت اڑانے والے "عقل مند" رہنمائوں کو نہیں معلوم کہ ملک کی کیا حالت ہے؟ کیا ہمارے ملک کا مسئلہ نمبر ون امریکہ ہے؟ ریلوے موت کے گھاٹ اتر رہی ہے۔ پی آئی اے بد عنوانی اور نا اہلی کا گڑھ ہے۔ واپڈا کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ اپنے ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرے۔ سیلاب زدگان جانوروں کی سی زندگی گذار رہے ہیں۔ ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیلاب آنے سے پہلے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ۔ڈینگی سے لوگ مر رہے ہیں۔ سپرے جعلی ہو رہے ہیں۔ رہائشی علاقے گائے بھینسوں اور ان کے گوبر پیشاب سے معمور ہیں۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں مویشی شہروں سے باہر مخصوص علاقوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اور جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے بھی مخصوص علاقے ہیں۔ یہاں ہر گھر کے سامنے گوبر ہے اور آنتیں اور اوجھڑی بھی پڑی ہے۔ یہ مسخرے جو امریکہ کا نام لے کر آئے دن جلوس نکالتے ہیں اور شاہراہیں بند کر کے رہگیروں کو اذیت پہنچاتے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام کیوں نہیں پیش کرتے؟ اور حکومت سے اس ضمن میں بات کیوں نہیں کرتے؟ ایک عام پاکستانی کا مسئلہ امریکہ ہے نہ طالبان۔ اس کا مسئلہ بجلی اور گیس ہے ۔ روٹی ہے ۔ امن و امان ہے اور انصاف ہے۔"
اب میں اس پاگل لڑکے سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور وہ خاموش ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سانس لینے کو رکا تو میں نے اس سے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے اور میں جا رہا ہوں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیااور کہنے لگا " مجھ سے تو تم پوچھ رہے ہو کہ کیا مجھے کل جماعتی کانفرنس کا علم ہے یا نہیں۔ تو کیا تمہیں بھی معلوم ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں حرام کھانے والے پاکستانیوں کے ستانوے ارب ڈالر جمع ہیں؟"
میں نے اس خبر سے بے علمی کا اظہار کیا تو تو اس نے تقریباَ َ میرا مونہہ چڑاتے ہوئے کہا کہ قیمتی لباس پہننے والے مسخروں کی کانفرنسوں سے اگر فرصت مل جائے تو وہ خبریں بھی پڑھ لیا کرو جن کا اس ملک کی تباہی سے براہ راست تعلق ہے۔ سئوٹزر لینڈ کے بنکوں کے ڈائرکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے ستانوے ارب ڈالر پڑے ہیں۔
اس رقم سے تیس سال تک پاکستان کا ٹیکس فری بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔ چھ کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔ پورے ملک کے گائوں سڑکوں کے ذریعے اسلام آباد سے جُڑ سکتے ہیں۔ سینکڑوں عوامی منصوبوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ اور پاکستان کے ہر شہری کو ساٹھ سال تک ہر ماہ بیس ہزار روپے دیے جا سکتے ہیں۔"
اس نے بات جاری رکھی " چاچا میں نے اور میرے دوستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آدھی رات کو اُٹھ کر وضو کر کے خدا کے حضور سر بسجود ہوں گے اور دعا کریں گے کہ اگر یہ ڈاکو ملک کی یہ رقم واپس ملک میں نہیں لاتے تو یہ اس رقم کو استعمال کرنے سے پہلے ہلاک ہو جائیں، ان کی قبریں آگ ، دھوئیں ، بچھئووں اور سانپوں سے بھر جائیں اور آخرت میں ان کے ناپاک جسموں کو انہی ڈالروں سے داغا جائے۔ چاچا تم اپنے اخبار میں لکھو کہ سب پاکستانی رات کو اُٹھ کر خدا کے حضور یہی دعا کریں۔"
میں نے عافیت اسی میں جانی کہ وہاں سے بھاگوں۔ میں گلی پار کرنے ہی والا تھا کہ وہ پیچھے سے تقریباَ َ چیخ کر بولا
" اور ہاں چاچا میں تمہارے دل کی بات جان گیا تھا۔ اپنے بچوں کو بتائو کہ آنکلوں اور آنٹیوں کے علاوہ چاچوں ماموں ماسیوں اور پھپھیوں کے رشتے بھی ہوتے ہیں"

Tuesday, September 27, 2011

انوری کا گھر کہاں ہے؟

مشہور شاعر انوری نے کہا تھا کہ ہر بلا آسمان سے اترتے ہوئے میرے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ لگتا ہے انوری بیچارے کا گھر بھی پاکستان جیسا تھا۔ جب بھی شمعِ حوادث کی لَو تھرتھراتی ہے مصیبتوں کا ایک نیا سلسلہ پاکستان پر ٹوٹتا ہے۔ غریب کی جورو.... طالبان کا زور بھی پاکستان پر ہے، امریکہ بھی اپنی شکست کا غصہ پاکستان پر اتارنا چاہتا ہے۔ کرپٹ انسانوں کا ایک مکروہ طائفہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے دنیا بھر میں جائیدادیں خرید رہا ہے، کارخانے لگا رہا ہے اور بنکوں کی تجوریاں بھر رہا ہے، طبقہء علماءکے بڑے حصے کو  بھی اقتدار کا ذائقہ راس آگیا ہے!
آپ پاکستان اور اہل پاکستان کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ پرویز مشرف جیسے شخص میں بھی یہ حوصلہ ہے کہ وہ برملا پاکستان واپس آکر اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے عمران خان کو اپنا حلیف قرار دیا ہے۔ کہا تو اس نے یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم بھی اس کا ساتھ دے گی لیکن ایم کیو ایم کے ماضی اور ہر لحظہ موقف بدلتے حال کے پیش نظر، اس کا پرویز مشرف کی حمایت کرنا حیرت انگیز بالکل نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پرویز مشرف نے عمران خان کو بھی اپنا حلیف ظاہر کیا ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عمران خان نے (تادم ایں تحریر) اس کی کوئی تردید نہیں کی۔ گویا خاموشی نیم رضا!
پرویز مشرف 8 سال تک اس مجبور، مظلوم اور مقہور قوم کی گردن پر پیرِ تسمہ پا کی طرح سوار رہے، شام اور شب کے ”مشاغل“ کا خرچ قومی خزانے سے چلتا رہا، کراچی جب بھی جاتے، شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے اموات واقع ہوتیں اور سکولوں کے بچے رات تک پھنسے رہتے اور کراچی کے ٹھیکیدار چوں تک نہ کرتے۔ پرویز مشرف نے 8 سال شہنشاہوں کی طرح گزارے، مزے سے ٹینس کھیلتے رہے، چار چار لاکھ کے سوٹ پہن کر دنیا کی سیر کرتے رہے، ریس کھیلنے والے قمار باز سرکاری بابوﺅں کو ملک کی تقدیر سے کھیلنے پر مامور کئے رکھا اور اعصاب کی مضبوطی دیکھئے کہ اب پاکستان واپسی پر ایک لاکھ افراد کے استقبال کی توقع کر رہے ہیں۔ قوم کے احسانات کا بدلہ چکانے کا یہ طریقہ خوب ہے کہ ایک بار پھر قوم پر سواری کی جائے۔ خیر، احسان فراموشی کا تو یہ عالم ہے کہ موصوف نے ایک بار بھی میاں نواز شریف کے اس احسان کا ذکر تک نہیں کیا کہ انہوں نے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے آرمی چیف بنایا حالانکہ ڈاکٹر قدیر خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پرویز مشرف کی ”نیک نام“ شہرت کے پیش نظر (غالباً بڑے میاں صاحب مرحوم کے ذریعے) منع کیا تھا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کے اس احسان کا شکریہ ادا کیا نہ نواز شریف ہی نے قوم سے آج تک اس جرم کی معافی مانگی کہ انہوں نے جانتے بوجھتے، لوگوں کے منع کرنے کے باوجود، میرٹ کُشی کر کے پرویز مشرف کو عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سالار مقرر کیا حالانکہ پرویز مشرف کے ”مشاغل“ اور ”روز و شب“ کا چرچا اس وقت بھی چار دانگِ عالم میں تھا!
آپ اس قوم کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کیسے کیسے لوگ کیا کیا لبادے اوڑھ کر اسکی"" خدمت"" کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف سے حال ہی میں کسی پاکستانی صحافی نے پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سابق رہنما کے بارے میں پوچھا اور اس نے یہ کہا کہ میں ان سے نہیں ملا تو اس سابق رہنما نے (جو بہرحال کسی نہ کسی طرح، ریٹائرمنٹ کے باوجود ”اِن“ رہنا چاہتے ہیں) ایک اخبار میں زور و شور سے مضمون لکھ کر پرویز مشرف کو یاد دلایا کہ میں تو آپکے اقتدار کے اوائل میں آپ کو اڑھائی اڑھائی گھنٹے تک ملا تھا۔ یہ سابق رہنما ترکی اور عرب دنیا سے لےکر، پرویز مشرف تک ہر موضوع پر لکھتے ہیں لیکن حسرت ہی رہی کہ انکی کوئی تحریر پاکستان کے عوام کے مسائل پر بھی نظر آ جائے۔ یوں لگتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام، ملکیت زمین کے فرسودہ ڈھانچے ،تعلیمی نظام اور عوام کی معاشی بدحالی پر لکھنا قابل دست اندازیء  پولیس ہے!
”جمہوریت پسندی“ کا یہ عالم ہے کہ پرویز مشرف نے جب جمہوریت پر شب خون مار کر منتخب وزیراعظم کو قید کر دیا تو یہ سابق رہنما پرویز مشرف کو اسکے محل میں تنہا ملے یعنی اپنی  جماعت کا کوئی فرد بھی ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔خود لکھتے ہیں....”میں وزیراعظم ہاﺅس کے اسی میٹنگ روم میں اکیلا بیٹھا ہوا چیف آف آرمی سٹاف ا ور ان دنوں چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کی آمد کا منتظر تھا“۔
اس خفیہ ملاقات کا ذکر جماعت کے سابق رہنما اب بھی نہ کرتے‘ وہ تو پرویز مشرف نے کہہ دیا کہ میں ان سے نہیں ملا تو انہیں اس ملاقات کا ذکر کرنا پڑا تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ تو اس سے ملے تھے! ورنہ دس سال تک یہ طویل ملاقات پردہ راز میں رہی اس لئے کہ ا نکے اپنے الفاظ میں ”میٹنگ کے اختتام پر باہر نکلتے ہوئے انہوں نے (یعنی پرویز مشرف نے) دبی آواز میں خواہش ظاہر کی کہ میں پریس میں اس کا ذکر نہ کروں۔ اس ملاقات کو اب دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے“۔
اس خفیہ ملاقات کا سبب بھی سابق رہنما خود ہی بتاتے ہیں۔”جب انکی ٹیم کےساتھ مذاکرات کے دوران ہم نے ان سے فوجی عہدہ ترک کرنے کا مطالبہ کیا تو انکی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو “۔ سیاق و سباق سے یہ تاثر واضح ہے کہ ”ٹیم کےساتھ مذاکرات“ یہ سابق رہنما تنہا نہیں کر رہے تھے۔ اور لوگ بھی ہوں گے لیکن جب پرویز مشرف کی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو تو یہ تن تنہا ہی ملاقات کیلئے محل میں پہنچے، اکیلے بیٹھ کر ”چیف ایگزیکٹو“ کی آمد کا انتظار کرتے رہے اور اڑھائی کھنٹے تک ”ملاقات“ کرتے رہے۔ یہ سابق رہنما اقبال کے اشعار بہت سناتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ بھی کہا تھا ....
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
اگر پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کا خفیف سا امکان بھی ہے تو اسے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ میں تو آپ سے ملا تھا۔ یوں بھی اگرمنتخب اداروں کےلئے خواتین کی نامزدگی کا وقت آئے تو اپنی لخت جگر کو نامزد کرنا عین جمہوریت ہے حالانکہ  جماعت میں ایسی ایسی خواتین موجود ہیں جنہوں نے ساری زندگی دین کی جدوجہد میں گزار دی اور اب بھی فقیری اور مسلسل خدمت اور دعوت و تبلیغ میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن  جماعت کے ارباب قضا وقدر کی نظر جب بھی پڑی اپنے ہی کنبوں پر پڑی۔
سادہ لوح اور مخلص ارکان پر مشتمل اس مذہبی سیاسی  جماعت کے رہنماﺅں کی رفاقت لشکریوں کے ساتھ قدیم ہے۔ یحییٰ خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان کی قتل و غارت میں جرنیلوں کا ساتھ دیا۔ ضیاءالحق کے پورے دور میں یک جان دو قالب رہے اور ماموں بھانجا جالندھری نیٹ ورک پر کھل کر کھیلے۔ پرویز مشرف کو سترھویں ترمیم پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس پرانی رفاقت پر ایک معتبر صحافی نے بھی گواہی دی ہے۔ ہوا یوں کہ اس سابق رہنما نے کچھ عرصہ قبل ایک تھنک ٹینک نما مجلس برپا کی۔ صحافی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں....”اگلے روز اخبارات میں جو تصویر شائع ہوئی اس میں ان کے ساتھ ریٹائرڈ جرنیل ہی نظر آ رہے تھے تصویر دیکھ کر میری زبان پر یہ شعر آیا کہ.... میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب ادراک بولے میر ہرگز سادہ نہیں۔ پچاس سالہ رفاقت ہے۔ میر ا ور عطار کا ایک دوسرے کے بغیر وقت ہی نہیں گزرتا“۔
بات پرویز مشرف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہش سے چلی تھی۔ پاکستان بھی انوری کا گھر بن گیا ہے
ہر بلائی     کز آسمان آید
گرچہ بردیگری قضا باشد
برزمین نارسیدہ می پرسد
خانہء  انوری    کجا باشد
یعنی جو بلا بھی آسمان سے اترتی ہے۔ راستے ہی میں پوچھنے لگتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے؟

Tuesday, September 20, 2011

میں پرتھ یونیورسٹی سے متاثر کیوں نہیں ہوا؟

اٹھانوے برس پہلے جب یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کا پرتھ میں آغاز ہوا تو اُسکے طلبہ کی تعداد صرف 184تھی۔ یونیورسٹی کی عمارت کیا تھی، دیواریں لکڑی کی تھیں اور چھتیں ٹین کی چادروں کی تھیں۔ یونیورسٹی کی قسمت اچھی تھی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی طرح پرتھ یونیورسٹی کو بھی ایک سرسید میسر آگیا۔ اس کا نام وِن تھراپ تھا۔ سَر جان ونتھراپ روزنامہ ویسٹ آسٹریلیا کا مالک اور مدیر تھا۔ اس نے یونیورسٹی کےلئے دن رات ایک کر دئیے۔ یہ بانی چانسلر بھی تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سوا چار لاکھ پاﺅنڈ کا عطیہ دیا جو آج کے تین کروڑ ڈالر بنتے ہیں! آج یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد اکیس ہزار ہے جن میں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکی ہیں۔ اساتذہ کی تعداد ایک ہزار چار سو ہے لیکن یونیورسٹی کی وجہ شہرت تحقیق اور تحقیقی کام کی تربیت ہے۔ آسٹریلیا میں تحقیق کے حوالے سے یونیورسٹی دوسرے نمبر پر ہے۔

مجھے گذشتہ ہفتے یونیورسٹی میں منعقد کی جانےوالی کانفرنس اور سمپوزیم کےلئے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ سرگرمیاں تین دنوں پر محیط تھیں۔ کانفرنس نائن الیون کے حوالے سے تھی اور سمپوزیم آسٹریلیا کے مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں تھا جس میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ ملائیشیا سے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر کی بیٹی مرینہ مہاتیر آئی ہوئی تھیں اور کینبرا سے فارسی کی ایرانی پروفیسر ڈاکٹر زہرہ طاہری بھی تھیں۔ زہرہ کو دیوان حافظ ازبر ہے۔ کوئی شعر پڑھا جائے، پوری غزل سنا دیتی ہیں۔ خدا میرے والد گرامی کی لحد پر نور کی بارش کرے، میری فارسی کی گفتگو سن کر پوچھنے لگیں ”ایران میں رہے ہو؟“ میں نے جواب دیا کہ ہاں! لیکن یہ ایران میرے گھر میں تھا!
کانفرنس سے جب امریکی خاتون علیشہ نے خطاب کیا جو پرتھ میں امریکی کونسلر ہیں تو ردِعمل دیکھ کر حیرت ہوئی۔ سب سے زیادہ سوالات عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں تھے اور سوالات کرنےوالے سب سفید فام اور غیر مسلم تھے۔ کیا عراق اور افغانستان نائن الیون کے ذمہ دار تھے؟ اب تک دونوں ملکوں میں کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں؟ امریکی پالیسیوں کا کیا جواز ہے؟ امریکہ نے نائن الیون کے ردِعمل میں جو کچھ کیا، کیا آج دنیا اسکی وجہ سے زیادہ محفوظ ہے یا زیادہ خطرناک؟ امریکی کونسلر کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے اسکے کہ وہ گفتگو کو اِدھر اُدھر لے جاتی تھی۔ مرینہ مہاتیر کی لکھی ہوئی تقریر، اعتدال اور حسنِ بیان کی خوبصورتی سے لبریز تھی۔ اس نے امریکہ پر بھرپور تنقید کی اور شائستگی سے کی۔ ملائیشیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر اس نے سوالوں کے جواب حیران کن مہارت اور علم سے دئیے۔ اُس شام جب ایک چرچ میں تینوں مذاہب کے لوگ اکٹھے ہوئے اور مسلمان عالمِ دین جب کلامِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے تو میرے ساتھ بیٹھی ہوئی مرینہ مہاتیر رو رہی تھیں۔ پوچھا تو کہنے لگیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ چرچ میں قرآن پاک کی تلاوت سنی اس لئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔
تین دن کے قیام میں سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ یونیورسٹی کی مجموعی فضا تھی۔ علم، متانت، برداشت، بے خوفی، شائستگی، دھیما پن، یہ اِس فضا کے اجزا تھے۔ میں نے کسی طالب علم کو بلند آواز میں بات کرتے ہوئے، کسی کو چیخ کر بلاتے ہوئے، کسی سے مذاق میں بھی ہاتھا پائی کرتے ہوئے اور کیفے اور کینٹین میں ہنگامہ برپا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سمپوزیم میں جب آسٹریلوی مسلمانوں کے مسائل پر بحث مباحثہ ہوا تو سوال کرنےوالے طلبہ کا ڈسپلن قابلِ دید تھا۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ دو طلبہ بیک وقت بولے ہوں۔ اِن دنوں نقاب پر پابندی کا موضوع پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ کئی غیر مسلم طلبہ نے پابندی کی مخالفت کی کہ یہ ذاتی پسند پر قدغن لگانے والی بات ہے۔ اکثر مسلمان طالبات کی رائے یہ تھی کہ مسلمان علما چہرہ چھپانے پر متفق نہیں ہیں۔ اور یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لئے نقاب پر پابندی کی مخالفت ہم اسلام کے حوالے سے نہیں بلکہ ذاتی پسند کے حوالے سے کرینگی۔ پابندی کی حمایت کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ پبلک مقامات پر سیکورٹی کے لحاظ سے چھُپے ہوئے چہرے کی شناخت کس طرح ہو گی؟ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ آخر پچپن سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے ایک ملک بھی ایسا کیوں نہیں جہاں مسلمان اِس طرح ہجرت کر سکیں جس طرح امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دوسری مغربی ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر کروڑوں مسلمان اِن غیر مسلم ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں؟ یہ صرف اقتصادیات کا مسئلہ نہیں، بہت سے مسلمان اپنے اپنے ملک کو چھوڑ کر اِن ملکوں میں اس لئے آئے ہیں کہ یہاں شخصی اور مذہبی آزادی ہے، امن و امان ہے، انصاف ہے، معیارِ تعلیم بلند ہے اور زندگیاں محفوظ ہیں؟ یہ سب کچھ مسلمان ملکوں میں کیوں نہیں میسر آ رہا؟ آج آسٹریلیا میں لاکھوں ترک، لبنانی، مصری اور ایرانی آباد ہیں، انکی اپنی مسجدیں ہیں، اپنے سکول ہیں اور اپنے بازار ہیں، آخر تیل برآمد کرنےوالے امیر مسلمان ملک اپنے دروازے دوسرے مسلمانوں کےلئے اس طرح کیوں نہیں کھولتے جس طرح مغربی ملکوں نے کھولے ہوئے ہیں؟
پاکستانی نژاد ڈاکٹر ثمینہ یاسمین یونیورسٹی کے اساتذہ میں ممتاز مقام رکھتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے یہ پابندِ صوم و صلوٰة خاتون طلبہ میں اپنا حلقہ اثر رکھتی ہیں۔ لشکرِ طیبہ (جماعت الدعوة) کے ماہانہ رسالہ سے لے کر جاوید غامدی صاحب کی کتابوں تک .... سب کچھ ڈاکٹر یاسمین کے زیرِ مطالعہ ہے۔ کلکتہ میں پیدا ہونےوالی منحنی سی ڈاکٹر کرشنا سین فیکلٹی آف آرٹس کی ڈین ہیں اور انڈونیشیا کے مسلمانوں کی ثقافتی زندگی پر طویل تحقیق کر چکی ہیں۔
لیکن جب میں نے یونیورسٹی آف پرتھ کا موازنہ اپنے ملک کی یونیورسٹیوں سے کیا تو ایک کھرا اور سچا پاکستانی ہونے کے ناطے سے میں اِس یونیورسٹی سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوا۔ مجھے پرتھ کے طلبہ پر رحم آیا۔ یہ بے چارے اتنے پِسے ہوئے ہیں کہ جلوس نکال کر امتحان کی تاریخ تک نہیں بدلوا سکتے۔ آپ آسٹریلیا کی اس دوسری بڑی یونیورسٹی کی بے بسی کا اندازہ لگائیے کہ داخلے کی تاریخ، انٹرویو کی تاریخ، امتحان کا دن، نتیجے کا اعلان، سب کچھ مقرر ہے اور ملک کا وزیراعظم بھی ایک دن کی تاخیر و تقدیم نہیں کر سکتا! یونیورسٹی کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کا سٹوڈنٹ وِنگ یہاں موجود نہیں! کتاب میلے کے پردے میں یونیورسٹی پر کسی گروپ کا قبضہ نہیں۔ آج تک کسی پروفیسر پر حملہ نہیں ہوا نہ کسی وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراﺅ کیا گیا۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن طلبہ کا روپ دھار کر کسی ہوسٹل پر قابض نہیں نہ ہوسٹلوں کے وارڈن طلبہ کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ کوئی جلوس ہے نہ ہڑتال، نعرے ہیں نہ کلاسوں کا بائیکاٹ، نئے طلبہ آتے ہیں تو ”رہنمائی“ کے پردے میں کوئی انہیں قابو کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ آپ اس یونیورسٹی کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آج تک اِسے کسی جرنیل وائس چانسلر کے نیچے زندگی گزارنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ آج تک کوئی واقعہ ایسا نہیں ہوا کہ پولیس کو کیمپس کے کسی حصے یا کسی ہوسٹل کا محاصرہ کرنا پڑے۔ کسی سیاسی جماعت میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اپنے حامیوں کو لیکچرر بھرتی کروائے یا مخالف لیکچراروں کو قتل کروا دے۔ اس یونیورسٹی نے ایسا کوئی سٹوڈنٹ لیڈر بھی نہیں پیدا کیا جس کی مہارت تو پراپرٹی کی خرید و فروخت میں ہو لیکن رہنما وہ سیاسی جماعت کا ہو۔ اس یونیورسٹی کے اجتماعات میں ایسے دانشور، صحافی اور اہلِ قلم بھی نہیں مدعو کئے جاتے جنہوں نے کسی یونیورسٹی میں تعلیم تو کیا حاصل کی، یونیورسٹی کی شکل بھی کبھی نہیں دیکھی۔
مجھے فخر ہے کہ یہ یونیورسٹی مجھے متاثر نہیں کر سکی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے میری درخواست ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے حامی ”طلبہ“ کو اس یونیورسٹی میں درآمد کیا جائے!!

Wednesday, September 07, 2011

مائینڈ سیٹ

اس کالم نگار کی جاوید ہاشمی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ظاہر ہے کہ ایک سست الوجود اور عافیت پسند شخص کسی بھی سیاست دان سے ملنے کا شرف نہیں حاصل کر سکتا۔ سیاست دانوں کو ملنے کیلئے تو بہت دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے‘ یا پھر کالم نگاری اس ”پائے“ کی ہو کہ سیاست دان خود آکر ملیں‘ وقتاً فوقتاً فون کریں اور بعض مواقع پر ڈھونڈتے بھی رہیں لیکن اس ”پائے“ کی کالم نگاری ہر کہہ و مہ نہیں کر سکتا۔ یہاں بنیادی شرط ”پائے“ کی ہے‘ مشتاق احمد یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ جو پائے کھائے جاتے ہیں‘ بکری کے یا گائے کے‘ تو ان سب میں صرف چارپائی کے پائے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ پائے کے حوالے سے اپنا ہی ایک شعر بھی یاد آرہا ہے....
کسی سے شام ڈھلے چھن گیا تھا پایہء تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
جاوید ہاشمی نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چند سالوں بعد لاہور کا حال بھی کراچی جیسا نہ ہو جائے۔ جاوید ہاشمی کو اس وقت بھی پارٹی ترجمان قسم کی مخلوقات نے غیردانشمند قرار دیا تھا‘ جب اٹھارہویں ترمیم منظور ہوتے وقت اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر سیاسی جماعتوں میں موروثی بادشاہت کی مذمت کی تھی۔ ہو سکتا ہے لاہور کے بارے میں اسکے خدشے کو بھی تنقید یا مذاق میں اڑا دیا جائے لیکن اگر حکومت کے گردن بلندوں میں ذرا بھی وژن ہو تو ہاشمی کی یہ تنبیہہ ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے....ع
بارہا گفتہ ام و بارِد گرمی گویم
کہ کراچی اس وقت جس سرطان کا شکار ہے‘ اسکی ایک وجہ وہاں مختلف لسانی گروہوں کی الگ الگ آبادیاں بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے کچھ حصوں سے لوگ مسلسل نقل مکانی کرتے رہتے ہیں اور وسطی پنجاب یا کراچی کی طرف یہ ہجرت جاری رہتی ہے۔ یہ رجحان کئی سو سال سے چلا آرہا ہے‘ شمالی ہندوستان میں روہیل کھنڈ اور رامپور کی ریاستیں نقل مکانی کے اسی رجحان کی وجہ سے وجود میں آئی تھیں اور ان علاقوں کے لوگ جنہیں آج اردو سپیکنگ کہا جاتا ہے‘ شروع میں ایک اور زبان بولتے تھے۔ شیرشاہ سوری جدی پشتی سہسرام کا نہیں تھا‘ اس کا خاندان نقل مکانی کرکے وہاں آباد ہوا تھا‘ نقل مکانی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اسکے عوامل تاریخی بھی ہیں اور اقتصادی بھی‘ اسے روکا جا سکتا ہے نہ روکنا درست ہے۔ لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ لاہور جیسے عظیم الجثہ شہر میں نقل مکانی کرکے آنیوالوں کو لسانی بنیاد پر کسی ایک جگہ یا چند مخصوص جگہوں پر آباد ہونے سے روکا جائے۔ نئے آنیوالوں کو بسانے کیلئے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی اور اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اگر کراچی کے رہنماﺅں اور حکام میں کل وژن ہوتا تو آج وہاں لیاری یا سہراب گوٹھ جیسے علاقے ایک زبان بولنے والوں کا گڑھ نہ ہوتے۔ اس تناظر میں جاوید ہاشمی کی تنبیہہ سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے‘ ہم اس موضوع پر تفصیل سے اظہار رائے کرتے لیکن سرطان کی جڑ اور ہے‘ ہم اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
کل صبح اخبار پڑھ کر ہم قہقہے لگا رہے تھے کہ سب گھر والے پریشان ہو کر پوچھنے لگے کہ اخبارات پڑھ کر رویا جاتا ہے‘ تم ہنس کیوں رہے ہو اور وہ بھی اس فیاضی سے؟ چین میں ایشیائی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس ہو رہی ہے‘ اس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ قاف کی نمائندگی مشاہد حسین کر رہے ہیں‘ چین روانہ ہونے سے پہلے مشاہد حسین صدر پاکستان سے ملے‘ (ملاقات میں انکے ساتھ حسب معمول چودھری شجاعت بھی تھے) اخبار کی خبر کے مطابق ملاقات کے دوران جناب صدر نے مشاہد حسین کو حکم دیا (یافرمائش کی) کہ کانفرنس کے دوران وہ بلاول کی سیاسی تربیت کرنا نہ بھولیں۔ کالم نگار یہ سوچ رہا تھا کہ اگر مونس الٰہی قید میں نہ ہوتے تو کیا عجب قاف لیگ کی قیادت وہ کرتے۔ اسکے ساتھ ہی اخبار نے یہ دلچسپ خبر بھی دی کہ مشاہد حسین کے فرزند ارجمند بھی کانفرنس میں ان کا ساتھ دینگے۔ یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں اور کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پیپلز پارٹی کے وفد میں جہانگیر بدر جیسے رہنماءبھی شامل ہیں‘ جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ کوڑے کھائے لیکن پارٹی سے اپنی وفاداری پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ صدر پاکستان‘ جہانگیر بدر کو بھی تو یہ حکم دے سکتے تھے کہ نوجوان رہنماءکی تربیت کا خیال رکھیں لیکن پھر یاد آیا کہ جہانگیر بدر میں جتنی خصوصیات بھی ہوں‘ ایک چیز کا تجربہ انہیں بالکل نہیں ہے اور وہ ہے وفاداریاں بدلنا۔ ظاہر ہے تربیت وہی کر سکتا ہے جس کا تجربہ زیادہ ہو گا اور تجربہ اس کا زیادہ ہو گا جس نے ”مختلف“ حالات میں کام کیا ہو گا۔ پہلے نوازشریف کے ساتھ‘ پھر پرویز مشرف کے ساتھ اور پھر آصف علی زرداری کے ساتھ۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا قاف لیگ کے نوخیز سیاسی رہنماﺅں کی تربیت کا کام بھی بزرگوں نے شاہ صاحب ہی کے سپرد کیا تھا؟ اس موضوع پر بھی ہم خواہش کے باوصف زیادہ نہیں لکھ رہے کیونکہ سرطان کی جڑ اور ہے اور ہم اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ 29 اگست کا واقعہ ہے‘ یعنی آج سے آٹھ دن پہلے کا۔ دارالحکومت کے ہوائی اڈے سے قومی ایئرلائن کی پرواز دن کے تین بجے کراچی کیلئے روانہ ہونا تھی‘ ساری تیاری مکمل تھی‘ بریفنگ ہو چکی تھی کہ جہاز کے عملے کو ایک وفاقی وزیر کے عملے کا حکم پہنچا کہ جب تک وزیر موصوف نہیں پہنچتے‘ پرواز کو روانہ نہ کیا جائے۔ اسکے ساتھ دوسرا حکم یہ تھا کہ تاخیر کا سبب سیکورٹی کا مسئلہ قرار دیا جائے‘ طیارہ رکا رہا‘ مسافر انتظار کرتے رہے‘ یہاں تک کہ وزیر صاحب پہنچے اور جہاز تین بجے کے بجائے ساڑھے تین بجے روانہ ہوا۔
یہ ہے وہ اصل سرطان جو اس ملک کو چاٹ رہا ہے اور سرطان پھیلانے والے وہ لوگ ہیں‘ جو کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ اس لئے بڑا ہے کہ اس سے ذہنی سطح کا‘ سوچ کا اور مائنڈ سیٹ کا پتہ چلتا ہے۔ اہل پاکستان کو جو چند بڑی بیماریاں لاحق ہیں‘ ان میں سے ایک بڑی بیماری یہی ہے۔ آپ نے بہت دفعہ دیکھا ہو گا کہ جہاں بھی ٹریفک کا حادثہ ہو‘ آناً فاناً لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور جس کی غلطی ہو‘ فوراً اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑی دلیل یہی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں‘ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کر دیکھیں‘ چھوٹی سے چھوٹی قانون شکنی کا دفاع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف یہاں ہوتا ہے‘ ہمارے ایک دوست کے بھائی کو ڈاکٹر نے پرانی دوائیں دیں‘ اس کا انتقال ہو گیا‘ ڈاکٹر کی ایک ہی دلیل تھی کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ پورا محلہ غم زدہ خاندان کو سمجھانے آگیا کہ مقدمہ نہ کریں۔ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو ہر جانے میں ایک کروڑ روپیہ دینا پڑتا تو پاکستان میں کوئی ڈاکٹر اگلے دس سال تک اتنی ظالمانہ لاپروائی نہ کرتا۔ یہ رویہ جب منتخب اداروں اور سرکاری محلات میں پہنچتا ہے تو اس کا نقصان بھی اسی حساب سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ سفارش سے حقداروں کی حق تلفی ہوتی ہے لیکن وزیر یا ایم این اے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں۔ آخر ہم نے ووٹروں کو جواب دینا ہوتا ہے اور یہ کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
دنیا کے کسی مہذب ملک میں وزیر تو کیا‘ وزیراعظم یا صدر کیلئے بھی پرواز کو لیٹ نہیں کیا جاتا۔ ایک منٹ کی تاخیر بھی ناممکن ہوتی ہے‘ اگر ایسا کیا جائے تو ایئرلائن ہر مسافر کو لاکھوں روپے کا ہرجانہ دیتی ہے‘ عدالتیں ایسے معاملات میں ملزم کمپنیوں کا جینا محال کردیتی ہیں‘ پی آئی اے یوں بھی ایک بیمار کمپنی ہے‘ جو ملک کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ کھانے سے لے کر مسافروں کےساتھ برتاﺅ تک‘ ہر معاملے میں اسکی کارکردگی صفر ہے۔ یہ ان چند بدقسمت اداروں میں سے ہے‘ جس میں بھرتیاں ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہیں‘ اسکی فضائی میزبانوں کو دیکھ کر خالائیں اور دادیاں یاد آتی ہیں اور دوسرے عملے کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ کتنی بڑی بدبختی ہے کہ خود پاکستانی پی آئی اے سے گریز کرتے ہیں‘ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر جہاز تاخیر سے روانہ ہوتا ہے اور اگلی منزل پر مربوط (Connected) پرواز چھوٹ جاتی ہے۔
پی آئی اے نے اگر اپنے آپ کو اس شرمناک اور عبرتناک صورتحال سے نکالنا ہے تو آغاز اسی واقعہ سے کرے اور وزیر صاحب کے عملے کا فون سن کر جن لوگوں نے پرواز کو موخر کیا‘ انہیں نشانِ عبرت بنائے ورنہ یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ یہ نام نہاد قومی ایئرلائن ہماری پست سوچ کا نشان ہے۔

Tuesday, August 30, 2011

سفید چادرِ غم تھی

میں ہملٹن کے جزیرے میں ہوں۔
 میلبورن سے اڑھائی ہزار کلو میٹر شمال کی طرف--- تین میل لمبا اور دو میل چوڑا یہ جزیرہ صرف اور صرف سیاحت کےلئے ہے اور گنتی کے چند لوگ یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جزیروں کی ایک قطار ہے جو سمندر میں دور تک نظر آتی ہے۔ بادل نیلے پانیوں کو چُھو رہے ہیں اور جزیرے کی شفاف سڑکوں پر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ آلودگی سے بچنے کےلئے کاریں چلانے کی اجازت نہیں۔ بجلی سے چلنے والی بگھیاں ہیں جو سیاح خود چلاتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ تنکا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ تنظیم، قانون کی حکمرانی اور شہریت کا شعور۔ ان  تین چیزوں نے اس جزیرے کو جنت کا ٹکڑا بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا اربوں ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جزیرے میں کوئی پولیس کا افسر، کوئی فوجی، کوئی داروغہ نہیں دکھائی دیتا۔ گورنر ہاوس ہے نہ وزیراعظم کےلئے کوئی مخصوص رہائش، نہ کسی کےلئے کوئی مفت کھاتہ ہے نہ کوئی وی آئی پی ہے اور سچ پوچھئے تو ہر شخص وی آئی پی ہے۔ دُھند، ساحل کی ریت، شفاف نیلگوں پانی، دلرُبا ہَوائیں، سکیورٹی اور دھیما پن، اس قدر کہ کسی شخص کا چیخنا تو درکنار، بلند آواز سے بات بھی کوئی  نہیں کرتا۔ احمد ندیم قاسمی نے شاید کسی ایسے ہی جزیرے کےلئے کہا تھا
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے
میں بندرگاہ کی طرف جا نکلتا ہوں۔ دخانی کشتیوں کے جھنڈ کے جھنڈ کھڑے ہیں۔ پوری دنیا کے سیاح جمع ہیں۔ میں ایک ریستوران میں کافی کا ایک کپ لے کر بیٹھتا ہوں۔ رش اس قدر ہے کہ خالی میز کوئی نہیں،  سامنے والی کرسی پر ایک نوجوان رنگ اور چہرے کے نقوش سے پاکستانی یا ہندوستانی لگتا ہے۔ میں اس سے گفتگو شروع کر دیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں کا ہے؟ وہ بتاتا ہے کہ سنگاپور کا ہے۔ اگر وہ چینی ہوتا تو میں اس کے جواب سے مطمئن ہو جاتا لیکن میں اب اُس کی ”اصل“ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ مخصوص پاکستانی سٹائل کا سوال۔ ”پیچھے سے کہاں کے ہیں؟“ اب کے اس نے جواب دیا کہ وہ پیچھے سے بھی سنگاپور کا ہے۔ میرے چہرے پر عدم اطمینان کا اضطراب دیکھ کر اُس نے مہربانی کی اور یہ خبر بہم پہنچائی کہ اُس کے ماں باپ نے مدراس (موجودہ چنائی) سے اُس وقت سنگاپور کو ہجرت کی تھی جب وہ پرائمری سکول میں پڑھتا تھا، لیکن  اس نے ایک بار پھر کہا”میں سنگاپور کا ہوں۔ میرا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔“
یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں، مجھے بنگلہ دیش اور بھارت کے کئی لوگ ملے جو اپنے آپ کو سنگاپور یا فجی کے شہری کہتے ہیں اور تو اور ملائشیا میں بسنے والے چینی بھی اپنے آپ کو ملائشین کہتے ہیں! آج تک کوئی ایک چینی مجھے ایسا نہیں ملا جس نے اپنے آپ کو ہانگ کانگ کا یا بیجنگ کا یا شنگھائی کا کہا ہو۔ ملائشیا ہی ان کا وطن ہے۔
اسکے مقابلے میں آپ کراچی کے باشندوں کا جائزہ لیجئے، سالہا سال سے کراچی میں رہ رہے ہیں۔ پانی کراچی کا پی رہے ہیں، ہَوا کراچی کے ساحلوں کی ہے جس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دھوپ کراچی کے سورج کی ہے جو ان کےلئے زندگی کا سامان بہم پہنچا رہی ہے لیکن ان میں سے کوئی اپنے آپ کو کراچی کا نہیں کہتا۔ کوئی پٹھان ہے، کوئی ہزارے کا ہے، کوئی مہاجر ہے اور کوئی شکارپور سے تعلق رکھتا ہے، چند دن پہلے ایک کالم نگار دوست کی تحریر نظر سے گزری کہ وہ ”شاہی سیّد“ سے ملنے ”مردان ہاوس“ پہنچے۔“ مردان ہاوس یا لاہور ہاوس نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ہمیں مردان یا لاہور اتنے ہی عزیز ہیں تو ہم مردان یا لاہور ہی میں کیوں نہیں رہتے؟ ہم اپنے آپ کو کراچی ہی کا کیوں نہیں کہتے؟ فیس بُک پر ایک خاتون کا تعارف یوں تھا : پیدائش کراچی، تعلیم کراچی، تعلق (FROM) حیدر آباد، آندھرا پردیش! بندہ پوچھے  بی بی آپ نے آندھرا پردیش تو دیکھا ہی نہیں، اُس سے آپ کا کیا تعلق؟

کراچی کے مسئلے کا حل فوج ہے نہ رینجرز، یہ سب عارضی حل ہیں۔ یہ ڈسپرین سے بخار کو چند گھنٹوں کےلئے دبانے والی بات ہے۔ اصل علاج اینٹی بیاٹک ہے اور وہ یہ کہ کوئی مردان کا ہو نہ آندھرا پردیش کا، مانسہرے کا ہو نہ اٹک کا، شکار پور کا ہو نہ لاڑکانے کا نہ لاہور کا، سب کراچی کے ہوں۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ اے این پی میں سارے پٹھان ہیں اور ایم کیو ایم میں سارے لوگ ایک اور لسانی پس منظر سے ہیں! کراچی کو ایسی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو لسانی اور علاقائی حوالوں سے اپنا تعارف نہ کرائیں۔ ایسی سیاسی جماعتوںکی ضرورت ہے جن میں ساری زبانوں اور ساری قومیتوں کے لوگ شامل ہوں۔

ایک بار پھر سنگاپور کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس کالم نگار نے کئی سال پہلے تجویز پیش کی تھی کہ کراچی کے ہر محلے اور ہر حصے میں ملی جُلی زبانوں اور نسلوں کے لوگ رہائش رکھیں۔ سنگاپور میں آج تک نسلی فسادات نہیں ہوئے اسکی وجوہ بہت سی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کے ہر حصے میں یہاں تک کہ ہر بلاک میں مختلف نسلوں کی رہائش لازم ہے۔ آپ بھارتی تامل ہیں تو آپ کا پڑوسی بھارتی تامل نہیں ہو سکتا۔ وہ چینی ہو گا یا ملائے، یہ قانونی تقاضا ہے اور اسکی خلاف ورزی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
چنانچہ سنگا پور میں کوئی علاقہ ایسا نہیں جو چینیوں کا ہو یا تامل کا یا ملائے کا! کوالالمپور کی مثال لے لیجئے، 1969ءمیں وہاں چینیوں اور مقامی باشندوں (ملائے) کے درمیان نسلی فسادات ہوئے۔ ملائشیا کی سیاسی قیادت سرجوڑ کر بیٹھی، قیادت میں اتنا وژن تھا اور ایسی صلاحیت تھی کہ اُس نے اپنے فیصلوں سے ملک کی قسمت بدل ڈالی۔ بیالیس سال ہو گئے ہیں کہ نسلی فسادات کا شائبہ تک نہیں گزرا۔ صرف دو فیصلے دیکھئے۔ چینیوں اور ملائے کے درمیان باہمی شادیاں رچانے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ مالی فائدے پہنچائے گئے اور یوں دونوں نسلیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسرا فیصلہ یہ تھا کہ چینی کارخانہ دار، مقامی لیبر کے لئے منافع میں حصہ رکھیں گے۔

غالباً اصلی اور بڑا پاکستانی وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی تاریخ سے تو کیا، اپنی تاریخ سے بھی کوئی سبق نہ سیکھے۔ مشرقی پاکستان میں یہ ہولناک غلطی کی گئی کہ اردو بولنے والے اصحاب مقامی آبادیوں میں گھل مل کر رہائش پذیر نہ ہو سکے۔ محمد پور اور میرپور کے نام سے الگ بستیاں بسائی گئیں۔ جب فسادات ہوئے تو ان الگ بستیوں کو تباہ و برباد کرنا بہت آسان ثابت ہوا! اب یہ غلطی کراچی میں دہرائی جا رہی ہے۔ سہراب گوٹھ فلاں کا ہے، کٹی پہاڑی فلاں کی ہے اور ناظم آباد فلاں کا ہے۔ کراچی کے حکام میں وژن ہوتا تو لیاری کے باشندوں کی مالی مدد کر کے انہیں پورے شہر میں پھیلا دیتے۔ یوں لیاری پر ایک مخصوص چھاپ نہ رہتی، لیکن جو قیادتیں لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا نہ رکھتی ہونے، اُن سے کس وژن کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ آج کراچی کا ہر مظلوم باشندہ زبانِ حال سے دعا مانگ رہا ہے کہ
اِن ظالموں پہ؛پ۰قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
نمرود کی شکل میں آئے یا کسی اور صورت میں۔ قہرِ الٰہی نے آنا ہے اور ضرور آنا ہے۔ کراچی سے اربوں کھربوں کے حساب سے سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے۔ کاروبار کرنےوالے ملائشیا اور کینیڈا کو ہجرت کر رہے ہیں اور ملک کے وزیراعظم کا ارشاد ہے کہ میں تو اتنے سال سے کراچی میں لاشیں گرتی دیکھ رہا ہوں! !
ہملٹن کے جزیرے پر بادل اُتر آئے ہیں۔ سمندر دھند میں گم ہو گیا ہے۔ کشتیوں کے سفید بادبان برآمدے کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ میری بیوی مصرع پڑھتی ہے.... ع
سفید صبح کو منظر وہ بادبانوں کا
اور پوچھتی ہے ”تمہارے اس شعر کا پہلا مصرع کیا ہے؟ “
لیکن میں تو ہملٹن کے ساحل پر بیٹھا کراچی کیلئے رو رہا ہوں اور دور سے۔ بہت دور سے۔ پہلا مصرع پڑھ کر اور زور سے رونے لگتا ہوں.... ع
سفید چادرِ غم تھی۔ سفید طائر تھے!
 

powered by worldwanders.com