نہیں میرے دوست! نہیں! پاکستان ترکی نہیں بن سکتا۔
ترکی نہ ملائیشیا نہ ہی متحدہ عرب امارات! بھلا صومالیہ اور زمبابوے جیسے ملک ترکی اور ملائیشیا کی سطح پر کیسے آ سکتے ہیں؟ آج اگر کوشش شروع بھی کر دی جائے تو کئی دہائیاں لگیں گی اور کوشش شروع ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں!
یہ کسی دور افتادہ پس ماندہ گائوں کا واقعہ نہیں، یہ واقعہ دارالحکومت سے نصف گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک جدید اور ترقی یافتہ ٹائون کا ہے اور یہ برسوں پہلے کا واقعہ نہیں، چند ہفتے پہلے کا ہے۔ مسجد بھری ہوئی تھی، جمعہ کا خطبہ دیا جا رہا تھا ۔ تیس سے چالیس فیصد نمازی پتلونوں میں ملبوس تھے اس لیے کہ وہ دفتروں اور کارخانوں میں ڈیوٹی دیکر سیدھے مسجد آئے تھے۔ خطبہ دینے والے مولانا نے اعلان کیا ’’پتلون پہننا حرام ہے‘‘ ۔ کسی نے چوں تک نہ کی۔
ایک ایسا عالم دین بھی نمازیوں میں بیٹھا تھا جو آٹھ دس سال مغربی ملکوں میں گزار کر آیا تھا۔ نماز کے بعد اس نے حضرت سے پوچھا کہ جو برازیل یا میکسیکو یا امریکہ میں پیدا ہوا اور اس کا لباس ہی پتلون ہے تو کیا مسلمان ہونے سے پہلے وہ پاکستان سے یا سعودی عرب سے لباس منگوائے گا اور پھر کلمہ پڑھے گا؟ عینی شاہد کہتا ہے کہ یہ بات سن کر مولانا کا منہ کھلا رہ گیا اور بات کرنے والے کو کھلے منہ کے ساتھ دیکھتے رہنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔
یہ ہے مذہب کا تصور جو اہل مذہب پیش کر رہے ہیں۔ آپ یہ کہہ کر اس واقعے سے آگے نہیں گزر سکتے کہ کسی ایک مولانا نے کہہ دیا ہو گا۔ جو مائنڈ سیٹ تیار ہو رہا ہے اور جو ذہنی سطح ایک مخصوص ماحول میں آٹھ دس سال محصور رہ کر پیدا ہوتی ہے، اس کا حاصل اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا!
اب معاملے کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ اسلام آباد کا کاروباری مرکز بلیو ایریا ہے۔ قطار درقطار کرنسی تبدیل کرنیوالوں (منی چینجرز) کی دکانیں ہیں، لوگ آ رہے ہیں، جا رہے ہیں، بیرون ملک سے آنیوالا ایک غیر ملکی صحافی اور اس کی پاکستانی بیوی ایک دکان میں دخل ہوتے ہیں۔ کائونٹر پر ایک لڑکی بیٹھی ہے۔ ساتھ والے کمرے میں باریش مالک ایک چھوٹے سائز کی کتاب پڑھ رہا ہے۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی لڑکی زر مبادلہ کا نرخ بتاتی ہے۔ بھائو تائو کرنے کے بعد ایک نرخ طے ہو جاتا ہے۔ سودا ہونے لگتا ہے۔ غیر ملکی صحافی اور اسکی بیوی دو منٹ کی اجازت لے کر باہر جاتے ہیں۔ شاید وہ اپنی گاڑی سے کرنسی یا کوئی اور شے نکالنا چاہتے ہیں۔ واپس آ کر کرنسی کائونٹر پر پیش کرتے ہیں لیکن کائونٹر والی لڑکی انہیں بتاتی ہے کہ پہلے مالک کو مل لیں۔ مالک معذرت کرتا ہے کہ میں وظیفہ پڑھ رہا تھا۔ کائونٹر والی لڑکی نے آپ کو نرخ غلط بتایا ہے۔ اس نرخ پر کرنسی کا تبادلہ نہیں ہو گا۔
گاہک میاں بیوی وظیفہ خواں دکاندار کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارا نمائندہ ہمارے ساتھ ایک معاملہ طے کر چکا ہے اور اب اس سے روگردانی کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ کروڑ پتی دکاندار نہیں مانتا۔ تنگ آ کر عورت اسے بتاتی ہے کہ غلام نے جنگ کے دوران کافر کو پناہ دے دی تھی اور مسلمانوں کے کمانڈر اور خلیفہ دونوں نے اس پناہ کا احترام کیا تھا۔ اور یہ تو تمہاری اپنی منیجر ہے لیکن اس نے انکار کر دیا۔
یہ ہے ہمارے معاشرے میں مذہب کا تصور۔ اکثریت کو ہر روز پڑھے جانیوالے وظائف کا مطلب ہی معلوم نہیں۔ انکے نزدیک اسلام کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک خاص لباس پہنیں، وظائف کریں اور پھر وہ سارے کام کریںجن سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔
وعدہ خلافی، بددیانتی، جھوٹ یہ وہ تین ستون ہیں جن پر پاکستانی معاشرہ قائم ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی کو وعدہ خلافی نہیں سمجھا جاتا، بددیانتی معمول کی کارروائی ہے اور جھوٹ؟ جھوٹ صبح سے شام تک ہوا میں اڑتے ہوئے کروڑوں ذروں سے زیادہ بولا جاتا ہے۔ بچے ماں باپ سے بیوی شوہر سے، شوہر بیوی سے، ماں باپ بچوں سے دکاندار گاہک سے، ماتحت افسر سے، افسر ماتحت سے، مالک نوکر سے، نوکر مالک سے، اعزّہ و اقربا ایک دوسرے سے، سب جھوٹ بول رہے ہیں، مسلسل بول رہے ہیں اور جھوٹ کو جھوٹ کوئی بھی نہیں سمجھ رہا!
اوراد و وظائف کو اسلام سمجھنے والے ناخوندہ اور نیم خواندہ عوام کے مقابلے میں دوسرا گروہ دوسری انتہا پر کھڑا ہے۔ اس گروہ کا اسلام سے یا ملک سے ظاہری تعلق ہے نہ باطنی۔ یہ شاعری اور آرٹ سے لیکر تاریخ اور اخبارات تک مغربی ملکوں کے پڑھتے ہیں۔ انکی خوراک بھی مغربی ہے اور رگوں میں دوڑنے والا خون بھی صرف اٹلانٹک کے مغربی یا مشرقی ساحلوں کیلئے جوش میں آتا ہے۔ انکی جائیداد اور خاندان سب باہر ہیں اور ملک کو صرف ہیلی پیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وکی لیکس نے خبر دی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں، جو اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، سینکڑوں شہزادوں اور جوان لڑکوں اور لڑکیوں نے چھپ کر ہیلو وی کی تقریب برپا کی اور ہر وہ کام کیا جو اس ملک میں رائج قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ اعلانیہ کیا جاتا تو شاید اتنا بُرا نہ لگتا۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ کیا جاتا ہے اسے تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟
ہر کوئی رو رہا ہے کہ دہشت گردی کے ہاتھوں مارے گئے، ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
کتنے ہیں جو سوال اٹھا رہے ہیں کہ باسٹھ سالوں میں وزیرستان، سوات اور قبائلی علاقوں کو کیا دیا گیا؟ کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟کتنے کارخانے لگے؟ کتنی لائبریریاں قائم ہوئیں؟ خواندگی کا تناسب باسٹھ سال بعد کتنا زیادہ ہوا؟ چند ملکوں اور خانوں کو سیکرٹ فنڈ سے کتنا کچھ دیا گیا؟ جو سرکاری اہلکار پولیٹیکل ایجنٹ تعینات ہوتے رہے، انکے اثاثے کیا ہیں؟ کوئی تجزیہ نہیں، کوئی نقد و تبصرہ نہیں! مریوں اور بگتیوں کی آبادیاں قبائلی ایجنسیاں، وزیرستان، شمالی اور جنوبی…کیا یہ سارے علاقے آج کے زمانے کے لگتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں! یہ سارے علاقے پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ انکے حقوق انہیں نہیں دیئے گئے، ان پر خود غرض سردار اور جرائم پیشہ خان مسلط کیے گئے اور اب بھی لوگ ہوش میں نہیں آ رہے کہ آئندہ کیلئے ہی مطالبہ کریں‘ اگر افغانستان کا بحران نہ ہوتا، اگر جنرل مشرف امریکہ کے سامنے رکوع میں نہ چلا جاتا، تب بھی حالات مختلف نہ ہوتے جن ہاتھوں میں قلم نہیں ہوتا یا ٹریکٹر کا سٹیئرنگ نہیں ہوتا یا کارخانے کے اوزار نہیں ہوتے، ان ہاتھوں میں جلد یا بدیر‘ بندوق ضرور آتی ہے اور آنے کے بعد چلتی بھی ہے! جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف کراچی لاہور/اسلام آباد اور پشاور کا نام ہے، وہ اپنی عقل کا ماتم کریں اور ایسی عینک ڈھونڈیں جو کراچی لاہور اسلام آباد کے پار بھی دیکھ سکے۔
6 comments:
حیرت ہے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ جن علاقوں کی حالت پہ آپ کف افسوس مل رہے ہیں۔ انکی اس حالت پہ ملک کا ایک بڑا گروہ فخر کرتا ہے۔ انکی عزت، غیرت اور حمیت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان جیسا غیور مسلمان ہونے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو کراچی، لاہو اور پشاور میں رہتے ہیں۔ جنہیں یہ افسوس ہے کہ ہم ان لوگوں سے کیوں مختلف ہو گئے۔ اے کاش ہم بھی اس پائے کے مسلمان بن سکیں کہ ہمارے ہاتھوں میں بندوق ہو اور پھر دے دھنادھن۔
وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال جس مرد مومن اور مجاہد کا تذکرہ کرتے ہیں وہ بھی وزیرستان، سوات اور قبائلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ پھر آپ نے ایسی دل دکھانے والی باتیں کیوں لکھ ڈالیں۔
اسی گروہ کی نظر میں کراچی، اسلام آباد اور لاہور وغیرہ اس حالت کو اس لئے پہنچے کہ یہاں اب بھی کچھ کواندگی ہے، کارخانے ہیں ۔ کچھ یہ کہ یہ شہر پتھر کے زمانے کے نہیں لگتے۔ اگر یہ پتھر کے زمانے کو پہنچ جاتے تو ہی انکے بیان کردہ مذہبی فلسفے کو صحیح سے سمجھ پاتے۔ ابھی تو ان سب کو ٹھیک کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ تاکہ سارا ملک وزیرستان کی مثالی حالت اختیار کر سکے۔
میرا خیال ہے آپ عینک کا مشورہ تو دے رہے ہیں مگر عینک کا مقصد بدلنا ہوگا۔
ایک طبقے کے بارے آپ کی بیان کردہ رائے تو فورا ہی درست ثابت ہوگئی
اب دیکھیے دوسرے طبقے والے کب تشریفتے ہیں
لو جی ہم حاضر ہوگئے۔
لیکن یہ کیا؟
آپ نے بات ہی ہماری بین القوامی انجمن انتہا پسند اردو بلاگستان کی کردی۔
بس جی ہمارے علاقے کے لوگوں کو آپ نے انگریزی کی تعلیم نہیں دی۔
اور کچھ نہیں ملا یہی الزام آپ پر لگا دیتے ہیں۔
کسی بزرگ کا قول ھے کہ وہ شرابی جو ایک کونے میں بیٹھا شراب پی رہا ھے وہ بہتر ھے اس مولوی سے جو مسجد کے منبر پہ بیٹھھ کر تفرقہ پھیلا رہا ھے، کیوں کے شرابی کم از کم اپنی ذات سے کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا۔
Greeting Azhar sahib, i agree with you some thing sharing with you last year i was on vacation in pakistan, went to eid prayer heard imam i never heard any thing quran base or hidyah base just focus was america, isreal and india after that if got time then zardari, nawaz sharif this that,,,
Now tell is there any place in khutab for politics?? Did we went for current affair!!! Some more in our neibhor mosque imam beats alot to children during quran study i could not take it i went and talk to imam and jewery they said should be hard way to study quran... I told them how dare it is, they are human childs and just kids can not be like that then they said my mind become like american, anyway cut short i made there mouth shut with refrences they are not much educated so just shutup..
I just wish for religion some scholar come forwered and guide us all for today world and practice of religion
Anyway i appriating you for good sharings
Tariq
Izhar Sahib, just as the political thugs are destroying the country while pretending to be the politicians, similarly the there is no end to the number of ignorant molvis, mullahs and other religious leaders pretending to be the self proclaimed Islamic priests or scholars. So now, some of them have declared the use of the European style pants to be haram. I wonder if the mullah had referenced the Quranic verses to support his decree. He could not have, because there is nothing in the Quran to support this nonsense. However, numerous Urdu books have been produced both in Pakistan and India which are full of man made stories, mostly their personal likes and dislikes based upon ahadith (the validity of which may be questionable). But has little to do with the Quranic teachings.
The mosque Imams, should know that the Quranic teaching does not support the Islamic priesthood which has flourished so well in Pakistan. The function of an Imam is to lead the prayer, which can be performed by any one who is knowledgeable about the function and is a Muslim. The Imam’s are appointed in mosques only as a convenience for the mosque goers so that some one is always present to perform the function without having to look for some one to lead the prayer five times a day.
Islam according to the Quran does not prescribe a specific Islamic dress. It has however, described a dress code emphasizing on modesty. The dress related guidance is simple to follow and it allows all sorts of garments used throughout the world. Islam does not revolve around a Shalwaar 3 inch higher than man’s ankles and a shirt, hanging 12 inch below the knees. Similarly, burqa or niqab are not Islamic dress codes for women, such notions are the consequence of socio-cultural values developed over the centuries and have nothing to do with Islam. Islam does not require us to look like cartoons – it has more lee-way than the Pakistani semi-literate mullahs would care to understand or admit. If the mullah likes to wear a Shalwar, that is his personal choice, but it is not necessarily an Islamic dress, but allowed in Islam, along with thousands of others garments meant to cover the lower part of the body.
No matter which way you turn in Pakistan, you see backwardness, confusion, disorder, narrow mindedness, extremism and intolerance. The source of all this is indeed the lack of education, social and economic problems and a lack of suitable political culture.
Javed
Post a Comment