Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 02, 2010

کراچی کے گڈریے

اگر یہ سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا!
 کراچی کی طرح سنگاپور میں بھی کئی زبانیں بولنے والے اور کئی قومیتیں رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ انگریزوں نے 1819ء میں جب یہاں تجارتی چوکی قائم کی تو سنگاپور کی آبادی نو سو دس افراد پر مشتمل تھی جس میں سے 880 ملایا کے باشندے اور تیس چینی تھے۔ 2009ء کے اعداد و شمار کیمطابق موجودہ آبادی 45 لاکھ ہے جس میں 74 فی صد چینی، ساڑھے تیرہ فیصد ملائی اور تقریباً 9 فی صد انڈین ہیں۔ سنگاپور کی نسلی ہم آہنگی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ گھروں کے کسی بلاک میں کسی ایک قومیت کی اجارہ داری نہیں ہو گی۔ فرض کریں ایک بلاک میں ایک سو گھر یا فلیٹ ہیں تو اس میں چینیوں، ملائے اور انڈین کی تعداد متعین ہو گی جب یہ تعداد پوری ہو جائیگی تو کسی صورت اس قومیت کے لوگوں کو اس بلاک میں گھر نہیں دئیے جائینگے۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ پورے سنگاپور میں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں محلہ انڈیا کا ہے اور فلاں جگہ صرف چینی رہتے ہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی نسلی یا مذہبی بنیادوں پر اپنے ووٹروں کا استحصال نہیں کر سکتی، اسے کامیابی حاصل کرنے کیلئے ایسا پروگرام دینا ہو گا جو چینی بُدھ، ملائی مسلمان اور تامل ہندو‘ سب کیلئے قابل قبول ہو.
 اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان قومیتوں کی انفرادیت مجروح ہو رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اگر انگریزی زبان لازمی اور ’’اول زبان‘‘ ہے تو ہر قومیت کے بچے اپنی مادری زبان کو ’’ثانوی زبان‘‘ کے طور پر پڑھنے کے پابند ہیں۔

آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ اگر چینی آبادی 74 فی صد ہے تو یہ تو چینیوں کا ملک ہوا لیکن یہی وہ نکتہ ہے جس پر آپ نے کراچی کو ذہن میں رکھ کر غور کرنا ہے۔ سنگاپور کی حکومت نے ہر قومیت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ آپکا بچہ انگریزی کیساتھ ساتھ اپنی مادری زبان سیکھے گا اور اپنے گھر میں جو چاہے کریگا لیکن گھر سے باہر وہ چینی ہو گا نہ انڈین نہ ملائی اور نہ کچھ اور … وہ صرف اور صرف سنگاپوری ہو گا۔ جدید سنگاپور کے معمار ’’لی کوان پیو‘‘ نے ایسے سکول قائم کئے جن میں چینیوں کو یہ تربیت دی گئی کہ اب وہ چینی نہیں بلکہ سنگاپوری ہیں۔ خود لی نے اپنے بچوں کو انہی سکولوں میں تعلیم دلوائی۔ سنگاپوری ہونے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ سنگاپور میں بولی جانے والی انگریزی زبان کو انگلش کے بجائے سنگلش کہا جانے لگا ہے۔

ان ساری پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ سنگاپور کے تمام لسانی اور نسلی گروہوں میں مفاہمت بھی ہے اور رفاقتِ کار بھی۔ مفاہمت کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ پچھلے دس سال سے ایک انڈین (تامل) سنگاپور کی صدارت کے عہدے پر فائز ہے حالانکہ کُل آبادی میں انڈین صرف 9 فی صد ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے سنگاپور دنیا کے اُن دس ملکوں میں شمار ہو رہا ہے جو کرپشن سے پاک ہیں۔ رشوت، اقربا پروری، سفارش اور انتخابات میں دھاندلی کا تصور تک مفقود ہے۔ مسجدیں بھی ہیں، گرجا بھی اور مندر بھی، بُدھ مت کے پیروکار بھی بس رہے ہیں اور وہ بھی جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ کوئی کسی کو ختم نہیں کرنا چاہتا، نہ مذہب، زبان یا نسل کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔

یہ سب کچھ اگر سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم کراچی کو اس آگ سے نجات دلانا چاہتے ہیں جس کے شعلے آسمان کو چُھو رہے ہیں؟
اگر ہم سنگاپور کا ماڈل اپنے سامنے رکھیں تو ہمیں ہر قیمت پر مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہونگے :

اول ۔ ہمیں ان آبادیوں سے جان چھڑانا ہو گی جو لسانی حوالوں سے بنائی گئیں یا بن گئیں۔ آخر کوئی ایسی آبادی کیوں ہو جس میں صرف اردو، صرف سندھی یا صرف پشتو بولنے والے رہتے ہوں۔ ہمارے خونریز ماضی کے پیش نظر ہمیں کسی کو ایسا موقع ہی نہیں دینا چاہیے کہ وہ لسانی بنیاد پر کسی آبادی کو نشانہ بنائے۔ کراچی کی شہری حکومت (سٹی گورنمنٹ) کو ایسا قانون بنانا ہو گا جسکی رُو سے ہر نیا بلاک یا پلازا بنانے والا مختلف لسانی اکائیوں کے حساب سے گھر بیچے۔ پرانے کراچی کی عمارتیں جلد یا بدیر نئی عمارتوں میں ڈھلیں گی۔ بند روڈ، کھارادر، برنس روڈ، ریگل اور بے شمار دوسرے علاقوں کی عمارتیں بوسیدگی کا شکار ہو کر گرنے کی منتظر ہیں۔ یہاں نئے بلاک، نئی اپارٹمنٹ بلڈنگیں اور نئے پلازے تعمیر ہونگے۔ کراچی شمال کی طرف بھی پھیل رہا ہے۔ یہ پابندی ہر نئی تعمیر پر عائد کی جائے، رہیں وہ آبادیاں جو پہلے سے بسی ہوئی ہیں تو انکے مکینوں کو نئی آبادیوں میں نئے فلیٹ خریدنے کیلئے مالی ترغیب دینا ہو گی۔مثلاَ َ َ اگرنئے گھر کی آدھی قیمت حکومت ادا کرے تو لسانی گوشوں میں مقیّد لوگ ویاں سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو جاَئیں گے۔اگر دس سال میں پندری بیس  ارب روپے اس ترغیب پر خرچ ہو جائیں اور نئی آبادیاں لسانی ہم آہنگی سے ہم کنار ہو جائیں تو سودا مہنگا نہیں۔
 دوم ۔ ہر لسانی اکائی کو یہ حق حاصل ہو کہ اسکے بچے لازمی اردو کے بعد اپنی مادری زبان ’’دوسری زبان‘‘ کے طور پر پڑھیں اس کیلئے وسائل اور اساتذہ مہیا کرنا حکومت کا فرض ہو گا۔ کراچی میں بسنے والے ہر شہری کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ اپنے گھر سے باہر صرف کراچی کا شہری ہے اور صرف پاکستانی ہے۔ وہ دہلی سے آیا ہے یا حیدر آباد دکن سے یا سکھر سے یا ایبٹ آباد سے یا مردان سے، وہ جہاں سے بھی آیا ہے، یہ اس کا ماضی ہے۔ اب وہ کراچی کا ہے اور صرف کراچی کی ترقی اور کراچی کا امن اسے عزیز ہونا چاہیے‘ اس کیلئے ثقافتی، تعلیمی، اطلاعاتی، سماجی سارے میدانوں میں جدوجہد کرنا ہو گی۔
سوم۔ایسی سیاسی جماعتیں جو لسانی یا مذیبی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں، پیش منظر سے ہٹانا ہوں گی۔آخر عوامی نیشنل پارٹی میں صرف پٹھان کیوں ہوں ؟ اور ایم کیو ایم میں سرف اردو بولنے والے کیوں ہوں؟ اگر ان جماعتوں کے اپنے ذہن اس قدر چھوٹے ہیں کہ  تنگ دائرے سے نہیں نکل سکتے  تو حکومت اپنا کردار ادا کرے  اور ایسا قانون بنائے جس کی رو سے کوئی سیاسی پارٹی کسی مخصوص لسانی یا مذہبی گروہ تک محدود نہ رہے۔ 

یہاں ملائیشیا کا حوالہ دینا نامناسب نہ ہو گا۔ 1969ء میں وہاں ہولناک نسلی فسادات برپا ہوئے۔ اسکے بعد جو پالیسیاں وجود میں لائی گئیں ان میں مختلف اکائیوں کے درمیان شادیاں بھی تھیں یعنی اگر ایک گروہ کا فرد دوسرے گروہ میں شادی کرتا ہے یا کرتی ہے تو حکومت اسکے اخراجات کا ایک حصہ ترغیب کے طور پر ادا کرتی ہے۔ پاکستان بھی اس کی تقلید کر سکتا ہے لیکن اصل سوال پھر بھی یہی ہے کہ کیا کراچی کے رہنما اور عوام کو مختلف سمتوں میں ہانکنے والے گڈریے خلوص دل سے کراچی میں برپا قتل و غارت ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ اگر سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا؟










43 comments:

Anonymous said...

"اگر یہ سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا"

Singapore is secular that's why.

افتخار اجمل بھوپال said...

ايک بات جو ميرے کچھ ہموطنوں کو سمجھ نہيں آتی يہ ہے کہ دنيا ميں کوئی ملک سيکولر نہيں ہے يہ صرف ايک نعرہ يا ليبل ہے ۔
ہمارے ملک کا مسئلہ يہ ہے کہ يہاں وہ ليڈر ہيں جو حرام پر پلتے ہيں [بھتہ خوری] اگر مساوات قائم کرنے کی کوشس کی گئی تو ان کی ليڈری ختم ہونے کا خدشہ ہے

Anonymous said...

ajmal is talking gibberish, even Nepal and Bangladesh have in recent times declared themselves secular states and trying to act the same. Secularism is the best system, all others have failed. Feel free to give examples to the contrary.

sadia saher said...

سلام اظہار جی

اچھی سوچ ھے --- تبدیلی سبھی چاھتے ھیں مگر تبدیلی آئے گی کیسے جن لوگوں کو ووٹ لسانی بنیاد پہ ملتا ھے کیا وہ تبدیلی لائیں گے ؟؟؟
اور وہ نسل جو تعصب اور لسانی نفرتوں کے درمیان پلی بڑھی ھے کیا اس کی سوچ اتنی جلدی تبدیل ھو سکتی ھے ؟؟؟
اس کے لیے مستقل مزاجی سے کام کرنے کی ضرورت ھے ۔ دلوں سے گرد صاف ھونے پہ وقت لگتا ھے اگر کوئ اسے صاف کرنا چاھے تو

Anonymous said...

Very nice comparison.

عثمان said...

بہت خوب

Abdullah said...

مضمون اچھا باندھا آپنے مگر چند جگہوں پر مات کھاگئے اور اس کی وجہ غالبا یہی ہے کہ آپ کراچی کے رہنے والے نہیں ہیں،
کراچی میں عام لوگ اسی طرح مل جل کر ایک محلے میں رہتے ہیں جیسے کہ آپنے لکھا ہے یہاں زیادہ تر قتل و غارت گری یا لوٹا ماری کرنے والے جھونپڑ پٹیون مین پلنے والے بچے ہیں جنہیں نہ تو تعلیم ملتی ہے نہ روزگار،
اور ایک کیو ایم میں صرف اردو بولنے والے نہیں ہین ہاں ان کی ایک بڑی تعداد ہو سکتی ہے مگر اب ایک بہت بڑی تعداد پٹھانوں سندھیوں بلوچیوں اور پنجابیون کی بھی ان میں موجود ہے جن میں سے کئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں،اور ابھی حالیہ اورنگی ٹاؤن میں ہونے والے الیکشن کی ٹی وی چینلز پر وڈیو دیکھ کر بھی آپ اس طرح کی گفتگو فرمائیں گے تو حیرت ہوگی جس میں ایم کیو ایم کے جلسے میں ایک بہت بڑی تعداد دوسری زبانیں بولنے والوں کی بھی نمایاں تھی،اور اورنگی کا علاقہ کثیر السانی علاقوں میں شمار ہوتا ہے پھر بھی وہان سے ایک بار پھر ایم کیو ایم کے بندے کا اکانوے ہزار ووٹوں سے جیتنا اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ ایم کیو ایم کو اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں،مگر کراچی سے باہر رہنے والوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی!
لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں بھی کررہے ہیں اور یہ معاملات پنجاب سے کہیں بہتر کراچی میں ہیں کہ جہاں ایک برادری کا دوسری برادری میں شادی کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ لڑکا لڑکی کے علاوہ ان کا پورا خاندان بھی بعض اوقات اس کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے!
اور کچھ ایسے ہی معاملات اندرون سندھ سرحد اور بلوچستان میں بھی سننے میں آتے رہتے ہیں،
اصل مسئلہ حکومتوں اور ان جاگیرداروں کا ہے جو ایم کیو ایم سے خوفزدہ ہیں جو جانتے ہیں کہ واحد ایم کیو ایم ہی ایسی پارٹی ہے جو انکے اقتدار کے لیئے خظرہ ثابت ہوسکتی ہے جو مزید مڈل کلاس کو اسمبلی میں لاکر طاقت کا توازن خراب کرسکتی ہے اور اسمبلی مین ان کے بجائے عوام کے مفادات میں پالیسیاں تشکیل پاسکتی ہیں اوراسکی جڑیں کراچی میں ہیں سو وہ ان ملک دشمن عناصر کی طرف سے انکھیں بند کر لینے میں ہی بہتری سمجھتے ہیں کہ دشمن کا دشمن میرا دوست!!!!

Abdullah said...

مختصر یہ کہ سنگاپور اور کراچی یا پاکستان میں فرق عوام کا نہیں حکمرانوں کا ہے،مخلص اور مفاد پرست حکمرانوں کافرق!!!!!

خاور کھوکھر said...

آپ نے بات تو ٹھیک لکھی هے
اور غالباً حکومتی بزرجمہروں کو بھی اتنی سی بات کا علم هی هو گا
لیکن
وهاں پیرس ميں میرا ایک دوست قیصر کہا کرتا تھا که کسی بھی سسٹم ، مذيب ، ملک یا کسی بھی چیز کیو چلانے کے لیے سب سے ضروری چیز هوتی ہے
خلوص نیت
جی هاں
خلوص نیت
جی که پاکستان میں نہیں هے

Abdullah said...

ویسے جتنا شور و غوغا کراچی کے لیئے مچایاجاتا ہے ان بلاگس پر اتنا بلوچستان کے لیئے کیوں نہیں ہوتا؟؟؟؟؟؟؟
http://www.voanews.com/urdu/news/Baluchistan-Situation-01Nov10-106449163.html

عنیقہ ناز said...

شاید آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کراچی میں کوئ ایک علاقہ بھی ایسا نہیں جسے خالصتا اردو اسپیکنگ علاقہ لہا جا سکے۔ البتہ یہاں ایسے علاقے ضرور پائے جاتے ہیں جنہیں پٹھان، سندھی اور بلوچ علاقہ کہا جا سکے۔ سندھی آبادیوں کے گوٹھ ہیں، پٹھان آبادیاں زیادہ تر پہاروں پہ آباد ہیں اور بلوچ اور سندھیوں کی مخلوط آبادی لیاری میں موجود ہے۔
آپکو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ وہ علاقے جہاں اکثریتی آبادی اردو اسپیکنگ کی ہے وہاں پنجابی پٹھان اور سندھی بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ،گر دیگر زبانوں کے جو علاقے ہیں وہاں اردو اسپیکنگ عام طور پہ نہیں موجود۔
دیگر لسانی بنیادوں پہ موجود علاقوں میں اکثریت ان عوام کی ہے جو معاشی اسکیل پہ سب سے نیچے آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آبادیاں زیادہ تر غیر قانونی طور پہ قبضہ کی گئ زمینوں پہ آباد ہیں۔ بیرون کراچی لوگوں کی مسلسل آمد کی وجہ سے یہ قبضہ گروپ قبضہ مافیا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ سیاسی بنیادوں پہ ان قبضہ گروپس کی سرپرستی کون کرتا ہوگا۔
یہ کچی آبادیاں جو کہ معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ عوام سے بھری ہوئ ہیں۔ یہاں ہر قسم کے جرائم کو پنپنے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ ان علاقوں کا کوئ نقشہ نہیں ، یہاں پولیس پولیس فوج کے لئے بھی کس قسم کی تلاشی لینا آسان نہیں۔ انہی علاقون سے ڈرگز اور اسلحے کے کاروبار چلتے ہیں۔
حتی کہ ذرا بھی بہتر پس منظر کے حامل انہی کے ہم زبان بھی ان علاقوں میں جا کر رہنا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ ایسے علاقوں میں جا کر رہنا چاہیں گے کہاں اردو اسپیکنگ اکثریت میں ہوں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے۔ چاہے آپ جذبات کی بنیاد پہ کتنی تقریریں کریں لیکن کس مہذ شخص میں ہمت ہے کہ وہ منشیات فروشوں اور اسلحے کی مافیاز کے درمیان جا کر رہے۔
چونکہ ان علاقوں کے باشندوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔ تاکہ لسانیت کی بنیاد پہ انہیں بوقت ضرورت شہر میں ہلے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ تو یہاں کے باشندے اپنا تحفظ اس میں سمجھتے ہیں کہ وہ ان لسانی تخریب کار طاقتوں کے ساتھ جڑے رہیں۔
دوسری طعف ان لوگوں کے اندر یہ جذبہ نہیں پیدا ہو پاتا کہ اس شہر کی خرابی انکی خرابی ہو گی۔
اس شہر کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب دوسرے علاقوں کے لوگ یہاں روزگار کے لئے آتے ہیں تو وہ یہاں آ کر اسے اپنا سمجھنے کے بجائے اپنی اپنی لسانی وابستگیوں کے ساتھ زیادہ سختی سے جڑ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ شہر کے اندر پارکوں اور ہسپتالوں کی زمین پہ جب قبضہ ہو، روڈز شکستہ حال ہوں، یا کوئ اور شہری مسئلہ اس پہ احتجاج کرنے والے اسکے خلاف درخواستیں لکھنے والے، اسکی طرف توجہ دلانے والے یہاں کہ پرانے میمن، پارسی اور گجراتی بولنے والے لوگ تو ہو سکتے ہیں مگر پنجابی، پٹھان یا سندھی نہیں ہونگے۔
آپ نے سنگا پور کی مثال دی۔ کراچی اس پلاننگ سے آگے نکل چکا ہے۔ پونے دو کروڑ کے شہر میں اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اسکا صرف ایک علاج ہے اور وہ ہے تعلیم۔ تعلیم ان گوٹھوں اور پہاڑوں پہ پہنچے جہاں پہ لوگوں کو پسماندہ رکھا گیا ہے۔ انہیں شعور اور آگاہی حاصل ہو۔ انہیں پتہ ہو کہ معیشت کی جنگ سب سے بڑی جنگ ہے اور وہ اتنی ہی انسان ہیں جتنے کہ کراچی کے دوسرے لوگ انسان ہیں۔ لیکن ان تک یہ روشنی پہنچانے کے لئے انہی کے درمیان سے لوگوں کو اٹھنا ہوگا۔ تاکہ یہ جو مختلف قومتیوں پہ ایک مخصوص کلچر کی چھاپ ہے وہ ختم ہو۔

افتخار اجمل بھوپال said...

محترم مبصر جنہيں اپنا نام ظاہر کرنے ميں بھی پس و پيش ہے مگر دعوے آفاقی ہيں ۔ ميں نے پہلے ہی لکھ ديا تھا ليبل ۔ ليبل لگانا آسان کام ہے جس طرح ہمارا ملک اسلامی جمہوريہ پاکستان ہے مگر اسلام کی راہ پر چلنے والے نہ عوام ميں اکثريت رکھتے ہيں اور نہ حکمرانوں ميں اور نہ قوانين اللہ کے فرمان کے مطابق ہيں جبکہ ملک کا آئين ايسے قانوں کو حذف قرار ديتا ہے جو اسلام کے منافی ہو ۔
ساری سيکولر حکومتوں کا يہی حال ہے کہ چلتے تعصب پر ہيں اور ماتھے پر سيکولر کا ليبل سجا رکھا ہے

ايک مبصر نے محمد اظہرالحق صاحب کو ہی غيرکراچی والا قرار دے ديا ۔ جہاں تک ميرے علم ميں ہے محمد اظہرالحق صاحب کراچی ہی ميں پيدا ہوئے پلے بڑھے تعليم حاصل کی ملازمت کی پھر جب روزگار اُن پر تنگ کر ديا گيا تو چند سال قبل دبئی روزگار کيلئے گئے اور وہاں سے مشرقِ بعيد بھی روزگار کيلئے ہی گئے ہيں ۔ اگر دوسرے لوگ جو عرصہ دراز سے ملک سے باہر ہيں وہ اپنے آپ کو کراچی والا کہتے ہيں تو محمد اظہرالحق صاحب ان سے زيادہ کراچی والے ہيں

جعفر said...

جناب والا، کراچی کا مسئلہ تو کچھ تبصروں سے واضح ہورہا ہے
خود کو کراچی کا ماما سمجھنے والے کبھی بھی ان تجاویز کو نہ تو قبول کریں گے
نہ ہی کسی اور کو یہ حق دیں گے کہ وہ ان تجاویز پر عمل کرے۔۔

Anonymous said...

Pakistan in general and Karachi in particular is passing through difficult phase. There are no two opinions on the need and imfportance of harmonizaiton in the society, but the suggestions made by the columnist are impracticable and are likely to worsen the problems. One possible way out could be a condition on the winning parties to obtain a prefixed percentage of popular votes in all the provinces failing which they will not be allowed to retain their seats in National Assembly. The elections on such seats will be held again and only those parties be allowed to contest on such 'vacated' seats, who already have obtained the prefixed percentage of votes in all the provinces. This will eliminate the regional parties and encourage national parties who are likely to be above the regional politics. Some countries have followed this practice which may be a good start for Pakistan too. But while formulating and adoping this system, it may be ensured that it may not be used exclusively to eliminate certain parties.

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

اتنا کچھ پڑھ آپ کی ابھی حیرت دور نہیں ہوئی کہ کراچی میں جتنے دہشت گرد ، جاہل، انپڑھ، بے وقوف ، کچی آبادیوں کو رواج دینے والے ، غیر قانونی قبضہ کرنے والے ۔ پسماندہ ذہنیت لوگ کون ہیں؟۔ کراچی کو فتح کرنے والے ،کراچی کو برباد کرنے والے، غیر قانونی کاروبار کرنے والے ، اسلحے کے ڈیلر ۔ منشیات فروش کون ہیں؟۔ چور مچائے شور، حضور یہ سب پٹھان ، سندھی، بلوچی، مکرانی، پنجابی اور وہ سارے مہاجر ہیں جو کراچی کی بھائی لوگوں کی بھتہ مافیا سے تعلق نہیں رکھتے۔ البتہ کراچی میں اسی فیصد قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ میں ملوث، مظلوم مہاجروں کو یرغمال بناے والی، اور ٹیلی فونک خطاب پہ بگلے کی طرح گردن ہلوا ہلوا کر سیاسی مرثیے سنوانی والی قائد بھائی مافیا تو دودھ کی دھلی ہوئی اور انہائی پاک صاف اور کراچی کو باپ دادا کی جاگیر سمجھنے والی مافیا تو بے چاری کراچی کی اسقدر ہمدرد اور بے لوث تنظیم ہے کہ کراچی میں انھوں نے ہر مطلوم کو چھاتی سے لگا رکھا ہے ۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے کہ پستول اور بندوق کی نوک سے یہ معصومانہ کام لے رکھا ہے۔ کیا کمال نہیں کہ انہوں نے اپنی ہی طرح کے تین چار نسل قبل مہاجر ہوانے والوں کی اولادوں کو اسطرح قابو کر رکھا ہے کہ مجال ہے کہ وہ عقیدت سے سر جھکا کر بھائی کا ٹیلی فونک خطبہ نہ سنیں کیا ہوا کہ انھیں عبرات دلوانے کے لئیے انھی کے دو چار سو بندے ہر دوسرے تیسرے سال پھڑکانے پڑ جائیں۔

کیا آپ کو نہیں پتہ کراچی میں عالم، فاضل، اہل دانش کون ہیں ۔ یہ سارے منررجہ بالا پٹھان ، سندھی، پنجابی، بلوچی، مکرانی، قائد بھائی مافیا کے اچر سے آزاد اہل مہاجر یہ پتھر کے دور کے لوگ کیسے انسان ہوسکتے ہیں ۔ کیسے علم سے واسطہ رکھ سکتے ہیں ؟ ۔ کراچی کے عالم ، فاضل، اور دانشور تو ہم ہیں ہم ۔ کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ علم ہمارے انگ انگ سے پھڑک رہا ۔ ایک ایک لفظ سے اُمنڈ رہا ہے ۔ دیکھ نہیں رہے آپ کسقدر اعلٰی نمونہ ہم نے ڈنکے کی چوٹ پہ پیش کیا ہے۔ ابھی تو آپ نے ہمارے دیگر بس "زرا" سے کم پڑھے لکھے نہیں دیکھے ورنہ آپ مان جاتے کہ علم کی آمد تو انکے ٹی ٹی پستولوں کی نال سے بھی برآمد ہوتی ہے۔

اور ہاں انکی آبادیاں کراچی میں کہیں بھی کسی طور بھی نہیں ہیں۔ وہ دن کو آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ بھلا خون آشام چگادڑوں کا بھی کوئی ٹھکانہ ہوا کرتا ہے؟۔ انھیں بھلا آبادیوں سے کیا کام ؟۔ ہاں البتہ کبھی بربادیوں کا ذکر کریں تو انکا کوئی حوالہ دیا جاسکتا ہے۔

کیا ابھی بھی آپ کو حیرت نہیں ہوئی؟۔ کراچی ہمارے باپ دادا کا ہے ہم جو بھی بیان فرما دیں اسے درست سمجھا جائے۔ اور آپ چلے ہیں کراچی کو ہی درست کرنے اور وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر ۔ قائد بھای مافیا کی آشیر باد کے بغیر؟۔

Abdullah said...

اگر اظہار الحق صاحب واقعی کراچی کے رہائشی رہ چکے ہیں تو پھر ان کی معلومات پر حیرت ہے یا پھر وہ ان ہی علاقوں میں رہیں ہوں گے جنکا ذکر عنیقہ نے کیا ہے!!!!
اور عنیقہ نے کراچی کی بالکل صحیح تصویر کشی کی ہے!
باقی جاہلوں کا انداز گفتگو ہی بتا دیتا ہے کہ وہ وہ کون سے اور کس کے چاچے مامے ہیں اور انکا مقصد کیا ہے!!!!!
جن کے پیٹوں میں کراچی کے ہر معاملے پر مروڑ اٹھتے ہیں اور اپنے ارد گرد کی کاٹا ماری انہیں نظر نہیں آتی اور نہ ہی بلوچستان کی صورت حال پر ان کے کان پر جوں رینگتی ہے تو وہ شائد اس لیئے کہ بلوچستان پر قبضہ پکا ہے مگر کراچی والے کراچی پر قبضہ پکا ہونے نہیں دیتے بس اس ہی کی کھندس نکالی جاتی ہے موقع بے موقع!!!!!
رہی پڑھے لکھےاور جاہلوں کی بات تو انسانوں کو غلام بنائے رکھنا،جاہلانہ رسوم و رواج کو مزہب بنائے رکھنا اور عورت کو بھیڑ بکری سمجھنا کن علاقون کے لوگوں کا نصب العین ہے یہ دو انکھیں اور ایک دماغ رکھنے والا ہر شخص اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے ہمین سبق سکھانے کے بجائے اپنے علاقوں سے جہالت دور کرو اور اپنے جاہلوں کو کراچی آنے سے روک دو تو کراچی کے حالات کچھ عرصے میں ہی بہتر بلکہ بہترین ہوجائیں گے،آئی سمجھ!!!!!!!

Abdullah said...

اب میں سمجھا یہ اجمل صاحب محمد اظہار الحق اور اظہر الحق کو ایک بنائے دے رہے ہیں،یہ وہ دوبئی والا اظہر الحق نہیں ہیں بھائی،
شاباش ہے آپ کی سمجھداری کو ایک سطحی انداز گفتگو رکھنے والے کو ایک پڑھے لکھے شخص سے کہاں جاکر ملایا ہے!!!!!!!

Abdullah said...

اظہار صاحب آپ بھی تو کچھ بولیئے،یا اگلے کالم میں بولیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

لیں صاحب ایک اور "حیرت" آپکی منتظر ہے ۔ اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو "کراچی والے" کہتے ہیں اور باقیوں کو نہیں کہتے۔ کراچی کچھ لوگوں کی باوا جی کی جاگیر ہے جہاں جانے، رہنے اور بسنے کے لئیے انکے باواجی سے "ویزا لینا پڑے گا۔ منافقت کی گلکاریاں ملاحظہ ہوں۔ بلوچستان کا مسئلہ بلوچ سرداروں کو بیان کرتے کرتے بات دوسروں کے قبضے تک جسے یہ فوجی قبضہ قرار دیتے ہیں، لے آئے ہیں ۔
جب ننگ ملت ، ننگ قوم ، ننگ وطن جرنیل پاکستان کے سیاہ سفید کا مالک تھا تب سارا قصور سردار اکبر بگٹی سمیت بلوچستان کے سرداروں کا تھا ۔ وہ اسلئیے کہ وطن فروش "پڑھے لکھوں" سے تھا جی ۔ اب چونکہ موجودہ جرنیل کا " بے چاری علم کے بوجھ سے دوہری ہوتی پڑھی لکھی منافقت " سے تعلق نہیں رکھتا ۔اب نیا شوشہ ہے کہ بلوچستان پہ اس جرنیل اور باقیوں کا قبضہ ہے۔

ان عقل کے اندھوں کو کوئی یہ عام سی بات بتائے کہ جو نفرت کا بیج بوتے ہیں آخر کار نفرت کی فصل بھی انھی کو کاٹنا پڑتی ہے۔
ویسے بارہ سنگھا بھی دلچسپ شئے ہے۔

Abdullah said...

جاہل اور گدھے کو عقل کی بات سمجھانے سے بڑی حماقت کوئی اور ہو نہیں سکتی مگر ان لوگوں کے لیئے جو عقل سلیم رکھتے ہیں میری بات سمجھنااتنی مشکل بھی نہیں ہوگی،سردار ہوں یا جاگیردار ہیں تو سب ایک ہی تھیلی کے چٹےبٹے اور ان کے مفادات کے نگہبان فوج میں ہوں یا ایجینسیوں میں یا پولس میں!!!!!
پنڈی بھٹیان ٹرک سے سومن چرس برآمد،ملزمان فرار

http://www.jang.com.pk/jang/nov2010-daily/04-11-2010/u51647.htm

یہ اسلحے اور منشیات کے کاروبار میں کونسی قوموں کے افراد ملوث ہیں کیا بتانے کی ضرورت ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
اور یہ ملزمان ہمشہ فرار ہی کیوں ہوجاتے ہین؟؟؟؟؟؟؟

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

یہ باری سنگھا بھی نادر قسم کی شئے ہے۔
ہھس گئے سینگ۔ :) ):

Abdullah said...

جاہل گدھوں سے جواب نہ بن پڑے تو وہ ایسے ہی گھٹیا پن سے اپنی جان چھڑاتے ہیں!!!!!!
:)

عنیقہ ناز said...

جاوید صاحب، کیا ہوا کسی نے آپ سے کراچی آتے ہوئے ویزہ طلب کر لیا تھا۔ میرے محلے میں کافی سارے پنجابی، سرائیکی اور سندھی رہتے ہیں انہوں نے کبھی اس ویزے کا تذکرہ تو نہیں کیا۔ لیکن آپنے سابقہ بیانات کو دیکھتے ہوئے میں اس پہ یقین کرتی ہوں۔ اگلی دفعہ جب کراچی کا قصد کریں تو ہمیں ضرور اطلاع دیجئیے گا تاکہ موقع کے ثبوت حاصل کر کے آپکے حق میں کچھ تحریر کر سکیں۔
گو کہ مجھے یقین ہے آپ جب کراچی آئیں گے تو لیاری، بنارس کالونی، پٹھان کالونی اور سہراب گوٹھ کے بجائے ناظم آباد، طارق روڈ اور کلفٹن کو رہائیش کے لئے ترجیح دیں گے۔ لیکن پھر بھی ایک دفعہ ان علاقوں کی زیارت کو ضرور جائیے گا۔
امریکہ میں کالے پسماندہ قوم کہلاتے ہیں۔ جب ہمارے پاکستانی امریکہ جا کر رہائیش پذیر ہوتے ہیں تو کالوں کے علاقے سے عام طور پہ دور رہتے ہیں۔ شہروں میں واقع کالوں کے علاقوں سے رات کو لوگ گذریں تو اپنی بہادری سمجھتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ صرف گوروں کی نسلی برتری ہے یا اس میں کالوں کی بھی کچھ حرکت ہوتی ہے۔ اگر یہ گوروں کی نسلی برتری ہے تو پاکستانی اور دیگر لوگوں قوموں کے لوگ کیوں ان سے گھبراتے ہیں۔ کیا یہ پسماندگی انکی جینز میں ہے یا اسکی دوسری وجوہات بھی ہیں۔ اسکی دوسری ممکنہ وجوہات کیا ہیں؟
جب آپ اس بات پہ چراغ پا ہوتے ہیں کہ فلاں قوم کو پسماندہ کہہ دیا تو کیا آپ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ کہنے والے نے غلط کہا ہے۔ کیا آپ یہ اس قوم کی محبت میں کہتے ہیں؟ کیا آپ کسی اور قوم سے نفرت کی بنیاد پہ کہتے ہیں؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دراصل یہ بیان محض نفرت میں دیا گیا ہے اور اصل میں ایسا کچھ نہیں ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ افراد میں جرائم کی پشت پناہی اور ان سے فخریہ وابستگی ایک عام سی بات ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جن قوموں کو میں پسماندہ کہہ رہی ہوں وہ تو دراصل پسماندہ نہیں بلکہ اس میں میرا ہی تعصب ہے تو ایکدن کا کراچی کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔
کراچی میں جتنے بچے بھی پچھلے ایک سال میں پولیو کا شکار ہوئے۔ ان میں سے کوئ بھی بچہ کسی اردو اسپیکنگ یا پنجابی پس منظر سے شاید ہی تعلق رکھتا ہو۔ کراچی میں جن گھرانوں نے اپنے بچوں کو پولیو ڈراپس پلانے سے انکار کیا ان میں سے کوئ ایک بھی اردو اسپیکنگ پس منظر سے تعلق نہیں رکھتا۔ کراچی کے اخباروں میں بیوی کو بد چلنی کی بناء پہ قتل کرنے کی خبریں آتی ہیں۔ ان میں سے کوئ ایک بھی شاید ہی کسی اردو اسپیکنگ خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔ کراچی میں عورتوں کو کلہاڑیوں کے وار سے مارے جانے والی خواتین اردو اسپیکنگ پس منظر سے تعلق نہیں رکھتیں۔ کراچی میں والدین کی مرضی کے بغیر شادی کرنے والے جوڑے اپنی حفاظت کے لئے پولیس کی مدد چاہتے ہیں ان میں سے شاید ہی کوئ اردو اسپیکنگ پس منظر سے تعلق رکھتا ہو۔
یہ کوئ اردو اسپیکنگ ہونے کا احساس برتری نہی ہے۔ کیونکہ انکے اندر بھی بڑی برائیاں اور کرپشن پایا جاتا ہے مگر انکی برائیاں اور کرپشن اس نوعیت کے نہیں ہوتے مختلف ہوتے ہیں۔
پسماندگی کے نتیجے میں لوگوں کا رویہ اور کرپشن مختلف ہوتا ہے اور آگاہ ہونے کے نتیجے میں انکے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔
لیکن یہ وہ نکتہ ہے جسے آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اس سے انکاری ہوتے ہیں۔ اور اسکی نشاندہی کرنے والے کو آپکا بس نہیں چلتا ہے کہ ختم کر ڈالیں۔
میں اس سلسلے میں آپ سے مزید بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ کیونکہ آپ ہر دفعہ اس بات کو تعصب کے رنگ میں مزید رنگتے ہیں لیکن آپ کے قلم سے پھوٹے منہ کبھی یہ نہیں نکلتا کہ ان بے شعور لوگوں کو شعور دینے کی کوشش ہو۔
آپ اس بے شعوریت پہ فخر محسوس کرتے ہیں اور جس کسی میں اسکا ذرہ بھی پاتے ہیں اسکے خلاف صف آراء ہوتے ہیں اور پھر کہتے ہیں پاکستان تباہی سے کیوں دوچار ہے۔ پاکستان تباہی سے شتر مرغ سوچ کی وجہ سے دوچار ہے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بارہ سنگھا کی شان میں
بارہ سنگھے کی فریاد(بچوں کا ڈفرستان)
بھیجا ہے جعفر نے مہمان خانہ میں

ندی پر اک بارہ سنگا
پانی پینے کو جب پہنچا
پانی میں سینگوں کو دیکھا
دیکھ کے ان کو دل میں سوچا
کتنے پیارے سینگ ہیں میرے
کاش کہ ہوتے پیر بھی ایسے
سینگ ہیں میرے جتنے اچھے
پیر ہیں کچھ اتنے ہی بھدے
سوچ رہا تھا سر کو جھکائے
چند شکاری اس دم آئے
دیکھ کے ان کو بارہ سنگا
تیز ہوا کی صورت بھاگا
اس کی اس بھاگا بھاگی میں
اُلجھے سیکنگ گھنی جھاڑی میں
اب تو بے چارہ گھبرایا!
پورا اپنا زور لگایا
پھر بھی اس کے سینگ نہ نکلے
خوف سے چھوٹا سا دل دھڑکے
آ پہنچے اتنے میں شکاری!
پاؤں میں اس کے رسی باندھی
سوچ رہا تھا بارہ سنگا
جن سینگوں پر ناز تھا اتنا
بن گئے آخر کو وہ مصیبت
مجھ پہ انہی سے آئی آفت
بات گرہ میں باندھ لو بچو
اک اک چیز کو اچھا سمجھو
قدرت نے جو چیز بنائی
اس میں نکالو تم نہ برائی
(سلیم فاروقی)
بارہ سنگھے کے بارے مزید جاننے کے لئے وقتا فوقتا اردو بلاگستان پر آتے رہیے، کہیں نہ کہیں سینگ پھنسائے، زور لگاتا ہوا مل جائے گا
از جعفر بشکریہ ڈفرستان ، مزید جانچ کاری کے لئیے لنک ذیل میں ہے۔

http://www.dufferistan.com/?p=1132

Abdullah said...

ایسے ہوتے ہیں جاہل اور گدھے جو دلائل کا جواب دلائل سے نہیں دے پاتے ہیں!!!!!
:hahah

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بی بی!
قربان جاؤں آپ کے اس وارے نیارے کے ۔ یہ ایک لنک ذرا ملاحظہ فرما لیں اور باقی قارئین کو بھی آگاہ کر دی جئیے گا کہ آپ جن کے گُن گاتی ہیں مانا کہ وہ کلھاڑی استعمال نہیں کرتے مگر سفاکیت اور دردنگی میں کس طرح کلھاڑی استعمال کرنے والوں سے کتنے ہاتھ آگے ہیں ۔

اور ایک بات آپ پہ واضح کر دوں آپ لوگ مفت میں سارے اردو اسپیکنگ لوگوں کا غم اپنے سینے میں مت پالا کریں کہ ہم اردو اسپیکنگ لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ کیونکہ سبھی قائد نامی بھتہ گیر مافیا کے کارکُن نہیں ۔ اس لئیے کراچی کے سارے اردو اسپیکنگ نہ تو اسطرح کے ہیں اور نہ انھیں ڈھٹائی سے کوئی واسطہ ہے ۔ کہ اکثریت شرفاء کی ہے جو بجائے خود قائد بھائی بھتہ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔

مگر ذیل کے ذیل کے لوگوں کے بارے میں اب وضاحت بھی آپ پہ ادھار ہے کہ اپ انھیں انسانیت کی کونسی معراج پہ بٹھاتے ہوئے دوسروں کے بارے میں کیسے اپنی متعصب رائے ٹھونسنے کی کوشش کرتی ہیں۔ نیز یہ کونسے شعور رکھنے والے کس طبقے کے لوگ ہیں اور آپ اب اپنے بیان میں کونسا پینترا بدلتی ہیں ۔ واللہ انتظار رہے گا ۔ آخر ہم بھی دیکھیں کہ اس کی حد کیا ہے۔

اگر اس سے بھی آپ کے جھوٹے زعم کی تسلی نہ ہو تو فرما دی جئیے گا تو ایک نہیں سینکڑوں کی تعداد میں مواد مہیاء کر دونگا ۔ اور فیصلہ قارئین اکرام پہ چھوڑ دیتے ہیں کہ شتر مرغ کون لوگ ہیں جو کمال فریب سے کسی اڑے ہوئے ریکارڈ کی طرح ایک ہی دُھن بجاتے چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ باقی لوگ عقل سے عاری ہیں ۔۔ قربان جانے کو دل کرتا ہے ۔ آپ نے کتنی سادگی سے کہہ دیا کہ کراچی کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ۔ یہ ذیل کے رابطہ لنک کراچی کے ایک اخبار کے ہیں ۔
http://www.ummat.com.pk/2010/08/28/news.php?p=story3.gif


http://www.ummat.com.pk/2010/08/30/news.php?p=story4.gif

Arsalan khan said...

I think Muhammad Izhar ul Haq ,the columnist, is not from Karachi.I have gone through his biographical sketch on this website.According to this he was born in a village of Attock District.The biography also indicates that he was in Civil Service and has been a Federal Secretary. In that case he must have lived, mostly, in Islamabad.

Abdullah said...

اس چیتھڑے کو اخبار کہنا کسی بھی اخبار کی توہین ہے بے وقوف!!!!!
ارسلان خان آپکی وضاحت کا شکریہ!!!!
اب بات کچھ کچھ میری بھی سمجھ میں آرہی ہے!!!!!
اظہار صاحب آپ اب بھی کچھ نہیں بولیں گے؟؟؟؟؟؟

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

تو ثابت یہ ہوا کہ بارہ سنگا واقعی دلچسپ شئے ہے۔ نیز بارہ سنگھا کی مذید خصوسیات پہ تحقیق جاری ہے کہ اس میں مزید کون کون سی خصلتیں پائی جاتی ہیں۔

Abdullah said...

اور ہاں گدھوں ابھی تک تو ان جاہلانہ ہتھکنڈوں سے ایم کیو ایم کے ووٹ بنک پر کوئی اثر پڑانہیں ہے بے چاروں کی ساری محنت ضائع ہی گئی،دیکھ لو ایک بار پھر اورنگی سے متحدہ ہی جیت گئی!!!!!
lolz
ایسی جھوٹی رپورٹنگ سے کراچی سے باہر رہنے والے چند احمقوں کو تو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے سمجھدار لوگوں کو نہیں کیا سمجھے بے وقوف!!!
:)

Abdullah said...

http://www.youtube.com/watch?v=YL8vPt_Kz8A

Abdullah said...

http://www.youtube.com/watch?v=DgCFNG9aqPY&feature=related

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

میری جان یہ کراچی کی بھتہ گیر مافیا کا اصل چہرہ ہے ۔ امید ہے کہ افاقہ ہوگا۔

http://www.youtube.com/watch?v=77_4ZTK_qCw
یہ اسی ناظم کی بدمعاشی کی ویڈیو ہے http://www.youtube.com/watch?v=KQ6A1sJEgbs&feature=related

MQM nazim beating woman in city council
http://www.youtube.com/watch?v=Bjbb4EpLdF4&NR=1

عنیقہ ناز said...

جاوید صاحب، آپکی بیماری وہی پرانی ہے یعنی میرے کسی بیان کو ایم کیو ایم کے ترجمان کا بیان سمجھنا اور کراچی سے متعلق کسی بھی بات کو چاہے وہ یہاں کی سڑکوں کے کنارے ریسٹرنٹ کا تذکرہ ہو اسے ایم کیو ایم کی طرف لے جانا۔ اسکا علاج میرے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے بعد ہی آپکی معلومات کا پٹارہ کھلتا ہے جس میں اسکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مجھے تو صرف یہ بتائیے کہ کراچی کے تذکرے پہ کسے فوقیت ہونی چاہئیے۔ مجھے جو اپنی پیدائیش سے اب تک یہاں موجود ہے یا آپکو جو کبھی کراچی نہیں آئے، اور آپکی معلومات، امت، جسارت اخبار یا یو ٹیوب کی ویڈیوز ہیں۔میں جو کراچی کے ہنگاموں اور کرفیو کے دوران اپنی تعلیم کا اور دیگر سلسلہ ہائے زندگی پوری کرتی رہی یا آپکا جو محض اخبارات پڑھ کے دہلتے رہے۔
جناب یہ فوقیت مجھے حاصل ہے آپکو نہیں۔ اگر آج اس پوسٹ پہ تبصرہ کرنے والے وہ لوگ جو کبھی کراچی نہیں آئے، کراچی میں اپنی رہائیش کے لئے کوئ جگہ لینا چاہتے ہیں تو میری رائے آپکے مقابلے میں صائب ہوگی۔
گذارش ہے کہ ہر معاملے کو اسکے پس منظر میں دیکھنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں۔ کراچی اور میں ایم کیو ایم کا دوسرا نام نہیں۔ یہاں اور بحی قابل ذکر باتیں ہیں۔ جنہیں دیکھنے اور سمجھنے سے آپ نے اپنے آپکو محروم رکھا ہوا ہے۔ اور وہ زیادہ دلچسپ ہیں۔ باقی اللہ بہتر کرنے والا ہے۔

جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین said...

اوہ ۔ہو۔۔ بی بی! آپ تو مفت میں ہی تپ گئیں ہیں۔ یہ لنکس تو آپ کے سیارچے بارہ سنگھا کی معلومات میں اضافہ کے لئیے تھیں ۔ ویسے آپ کے لئیے کراچی کے ہی ایک موقر اخبار کی معلومات تھیں کیونکہ آپ نے بڑے دھڑلے سے سب کو "حیرت ذدہ" کیا تھا ۔ یہ اسی پوسٹ پہ آپ کے سابقہ تبصرے کے یہ الفاظ تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن قوموں کو میں پسماندہ کہہ رہی ہوں وہ تو دراصل پسماندہ نہیں بلکہ اس میں میرا ہی تعصب ہے تو ایکدن کا کراچی کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ از عنیقہ ناز۔

تو بی بی! آپ نے دھڑلے سے ڈنکے کی چوٹ پہ رائے عامہ کو ورغلانے کی کوشش کی تو ہم نے آپ کی حدایت کے مطابق کراچی کا اخبار ٹھا کر دیکھا اور جو اس میں پایا بعین اس کا لنک لگا دیا ۔ یہ تو آپ غنیمت جانیں کہ آپ نے ضد نہیں کی ورنہ ہم نے تو سینکڑوں حوالے آپ کے لئیے اکھٹے کر رکھیں تا کہ چوری اور سینہ زوری سے یعنی غلط بیانی سے جو کہ بہت سے لوگوں کا وطیرہ ہے وہ رائے عامہ کو ورغلانے کی بے سُود کوشش نہ کر سکیں اور سند رہے۔

بی بی! ہم ہر معاملے کو سائنٹیفک طریقے سے لیتے ہیں اور اسے اس کے درست پس منظر میں ہی بیان کیا ہے ۔ اسلئیے لازم ہے کے دروغ گوئی سے باز آنے کی کوشش کریں پھر جا کر اور دوسروں کو مختلف قسم کےسرٹیفکیٹ جاری کرنے کوشش کیا کریں۔
وہ کیا مثال ہے کہ مرغی اگر انڈا دینا جانتی ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ اسے آمیلٹ بنانے کا طریقہ بھی آتا ہو۔ کراچی میں مستقل رہنے سے محدود ، متعفن اور متعصب ذہنیت کی پرورش کی وجہ سے ایک ہی رنگ سے ایک ہی طرح کے منظر صبح و شام دیکھتے رہنا اس ذھنی محدودیت کی ایک وجہ ہوسکتی ہے ۔ مگر اسکا یہ مطلب قطعی طور پہ نہیں نکلتا کہ اگر مرغی انڈا دینا جانتی ہے تو وہ آملیٹ بنانا بھی جانتی ہے ۔ یعنی باالفاظ دیگر آپ اپنے مخصوص تعصبی چشمے کو اتار کر دیکھیں تو شاید آپ کو کراچی میں اور بھی بہت سی تلخ حقیقتیں نظر آئیں۔ مگر یہ آپ کے بس کا روگ نہیں۔اسلئیے جب کڑوا اور کسیلا سچ سامنے آجائے تو تپنا چھوڑ دیں اور دھیرج رکھا کریں ابھی تو شروعات ہیں۔۔

Anonymous said...

It is evident that Mr. Izharulhaq does not view his column after it is published. Had he read, he would have noticed certain peculiar errors in each column which are made by the IT person responsible to upload the column. He would have got corrected such obvious errors. Hence, it is not expected of him to have gone throuogh the comments on his columns. May be he follows the politicians who confine themselves to making statements and then observing silently idiots who debate such statements, argu and counter argu, quarrel as if all that is said is the final word of wisdom.

Abdullah said...

عنیقہ آپ کسی آنکھوں کے اندھے کو تو سچ کی روشنی دکھاسکتی ہیں مگر کسی عقل کے اندھے کو۔۔۔۔۔۔
ناممکن!!!!!
سو میرے اور آپکے دیئے ہوئے دلائل کے جواب میں اس شخص کی لایعنی گفتگواورایک چیتھڑے کو جنگ اور ایکسپریس کے مقابلے میں موئقر اخبار کہنے سے اس کی ذہنی اپروچ اور قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے!!!!!!
ان عقل کے اندھوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں!!!!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

عبداللہ پیارے آپ کس کھاتے میں ہو؟ بڑوں کی باتوں میں اپنی بولتی نہیں کھولتے یارا۔۔ جس طرح آپ پرائی شادی میں دیوانہ بنے ہو اسی طرح میرے کچھ جاننے والے بھی اپنے اندر دلِ بے تڑپ بھی رکھتے ہیں کہ آپ سے دو دو ہاتھ یعنی دو دو الفاظ کر ہی لیں کہ وہ بھی آپ جیسی اخلاقیات کی اچھی طرح سوجھ بۃجھ رکھتے ہیں اور ہیں بھی کچھ دل بے تاب مگر میں انھیں روک دیتا ہیں کہ مجھے آپ کی عزت خوا وہ کیسے بھی بیست کئی گئی پھر بھی عزیز ہے ۔ اسلئیے پیارے سوچ لو۔

Abdullah said...

ہے ایم کیو ایم اور یہ ہے اس کی کراچی میں اہمیت!
تم کتنے ایم کیو ایم کے کارکن ماروگے؟؟؟؟؟؟

http://ejang.jang.com.pk/11-7-2010/pic.asp?picname=407.gif

http://ejang.jang.com.pk/11-7-2010/pic.asp?picname=01_04.gif

Daniyal Danish said...

کراچی کے تمام مسائل کا حل لسانی وقوم پرست جماعتوں پر پابندی میں مضمر ہے۔

Abdullah said...

صرف کراچی نہیں پورے پاکستان کے مسائل کا حل لسانیت پر پابندی مین ہی چھپا ہوا ہے مگر کس کس کو سدھاروگے میاں یہاں تو آوے کا آواہ ہی بگڑا ہواہے!!!

Unknown said...

Abdullah Bhai aur Aneeqa.
Assalam-o-Alikum
Jo kuch Izhaar Sahab ne likha us par aap Comments denay ki bajay aapas mein yani apnay ham watno se olajh paray aur is kaam mein Javed Bhai bhi shmil ho gae.
1 baat aap ko bta rha hoon {pta nhi is baat par ap mere oper kia comments dain} Jab ap logon ko 1 baat par ittifaq hi nhi, ap log 1 doosray ko bardasht hi nhi kar saktay, ap 1 doosray ko samajh hi nahi rahay to ap log Amman kaise lain gay.
Kia main ye keh sakta hoon k Karachi aur Balochistan aur Pakistan mein jahan jahan amman-o-amaan ki kharab soorat-e-haal hai wo aap logo ki waja se hai.
Kia aap log apnay aap ko kisi Developed Country ki awam k saath compare kar saktay hain.
Mera khayal hai nahi. Is liay aapas ki laraai ko yahan hi khatam karo aur is Pakistan ki taraqi k liay us tarah socho,us trah ta'aleem hasil karo jis trah Zinda Qaumen socha karti hain.
From Faisal Ghauri
0331-5601372

Raja said...

جاوید لنگڑا، فہیم کانا، اجمل پہاڑی ، شاکر لنگڑا، قمر ڈیڈی جیسے دانشور کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں، بوری بند لاشیں، انسانوں کو زندہ جلانا کس اعلی درجہ کی تہزیب یافتہ قوم کے تحفے ہیں۔ مراثیوں اور ہیجڑوں کی طرح قوم سے خطاب کرتے ہوئے گنگنا کس پڑھی لکھی تعلیم یافتہ قوم کے رہنما کی ادایئں ہیں ؟

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com