Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, October 31, 2010

جہاں پر جلتے ہیں

جب سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو پہلے سے زیادہ کرپٹ قرار دیا ہے اور بنگلہ دیش اور بھارت کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے ہم آہ و زاری میں مصروف ہیں۔ کالم نگاروں نے سر کے بال کھول لئے ہیں اور سینوں پر دوہتھڑ مار رہے ہیں۔ دانشور بین کر رہے ہیں اور تجزیہ نگار مرثیہ خوانی سے آسمان میں شگاف ڈال رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک ہم فقط آہ و زاری کریں گے اور سینے پیٹتے رہیں گے؟

آئیے! اس ملک کے ایک باشعور شہری کی حیثیت سے ہم اپنا فرض ادا کریں۔ ہم حکومت سے درخواست کریں کہ کم از کم تین ایسے معاملات جن میں کرپشن ثابت ہو چکی ہے اپنے منطقی انجام کو پہنچائے۔ یہ تین ایسے معاملات ہیں جن میں ملک کے طاقت ور افراد ملوث ہیں۔ یہ افراد ان قبیلوں، ان طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں آج تک سزا نہیں ملی۔ انہی طبقات کو دیکھ کر دوسرے لوگ کرپشن کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں اور مجبور بھی! اگر ہم چاہتے ہیں کہ آہ و فغان کرنے کے بجائے اس ضمن میں عملی طور پر بھی کچھ کریں تو ہم سے ہر ایک کو چاہئے کہ چار روپے کا لفافہ لیکر جناب وزیراعظم کی خدمت میں استدعا کریں کہ وہ ان معاملات کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ایک بار… صرف ایک بار… اگر اس کلاس کے افراد کو سزائیں دیدی جائیں تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے ہمارے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کر سکیں گے۔

اس ملک میں سیاستدانوں کو سزائیں ملی ہیں۔ لیکن آج تک کسی ریٹائرڈ جرنیل کا احتساب نہیں کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں جو ریٹائرڈ جرنیل دیانتدار ہیں اور اچھی شہرت کے مالک ہیں انہیں سب سے پہلے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ کالی بھیڑوں کو الگ کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی رپورٹ ثابت کر چکی ہے کہ این ایل سی کے ریٹائرڈ جرنیل اس ادارے کو تقریباً پونے دو ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ ان جرنیلوں نے اس وقت کے وزیراعظم کے واضح احکام کو پامال کرتے ہوئے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ انہوں نے ملازمین کا پنشن فنڈ بھی سٹاک ایکسچینج میں جھونک دیا اور پھر انہوں نے دنیا کا عجیب و غریب کام کیا۔ انہوں نے بینکوں سے دو ارب روپے ادھار لئے اور وہ بھی اس ’’سرمایہ کاری‘‘ میں ڈال دئیے۔ ادارہ آج تک ان قرضوں پر سود ادا کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایسے جرنیل بھی ہیں جنہوں نے اپنے عرصہ ملازمت میں پھونک پھونک کر قدم رکھا، قانون کا احترام کیا اور ریاست کو ایک پائی کا نقصان نہیں پہنچایا۔ لیکن ان نیک نام جرنیلوں کا فرض نہیں کہ ان جرنیلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں؟ تاکہ ان کا پورا طبقہ بدنام نہ ہو۔

دوسرا معاملہ ریلوے کا ہے۔ اس میں بھی ریٹائرڈ جرنیل ملوث ہیں۔ پارلیمنٹ کی بیس رکنی کمیٹی نے اس معاملے میں انکوائری کی۔ 2001ء میں ان جرنیلوں نے ریلوے کی قیمتی زمینوں پر گالف کورس بنوائے اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر معاہدے کئے۔ 2001ء میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے معاہدے کی دستاویزات طلب کیں تو رعونت کا یہ عالم تھا کہ ملک کے اس آئینی ادارے کو خطوط کے جواب تک نہ دئیے گئے۔ ریلوے کو 25ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس میں اس وقت کا ریلوے منسٹری کا وفاقی سیکرٹری بھی ذمہ دار تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریٹائرڈ جرنیل قانون سے ماورا ہیں؟ اگر ہم بین الاقوامی اداروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس کیٹیگری میں شامل نہیں ہونا چاہتے جس میں صومالیہ، افغانستان، چاڈ اور عراق ہیں تو ہمیں ان بڑے لوگوں کو سزا دینا ہو گی۔

تیسرا معاملہ اہل
(Deserving)
 کو محروم کر کے نااہل کو منصب پر بٹھانے کا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں اہم مناصب ان لوگوں کو تفویض کئے جاتے رہے ہیں۔ جو انکے اہل نہیں تھے۔ اس کی بدترین مثال بری فوج کے سربراہ کا انتخاب ہے۔ ججوں کی تقرریوں پر قیامت کا غوغا برپا ہے۔ وزیروں کے انتخاب پر باتیں ہو رہی ہیں تو کیا صرف چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ ہی اتنا غیر اہم ہے کہ حکومت وقت کسی قاعدے کے بغیر اپنی مرضی کے شخص کو چن لے اور اس چنائو کی وجہ بھی نہ بتائے؟ دو بار اس ملک کیساتھ یہ کھیل کھیلا گیا۔ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مرضی سے ایک شخص کو فوج کا سربراہ بنایا اور جو اس سے سینئر تھے، انہیں محروم کیا۔ اس کا خمیازہ قوم نے گیارہ سال بھگتا۔ آج ملک جس حالت جنگ میں مبتلا ہے اسکی بڑی ذمہ داری جنرل ضیاء کے دور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وہ وزیراعظم جس نے ضیاالحق کو فوج کا سربراہ بنانے کی دھاندلی کی تھی، اسی کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے تک پہنچا۔ دوسری بار میاں نواز شریف نے یہ ظلم کیا۔ ظلم کی تعریف ہی یہی ہے کہ ’’وضع شی ئِ فی غیرمحلّہ‘‘ یعنی کسی شے کو وہاں رکھنا جو اس کی جائز جگہ نہیں ہے۔ آج پرویز مشرف کے جرائم بیان کرتے وقت اخبارات کے صفحوں کے صفحے سیاہ کئے جا رہے ہیں۔ اسکی گردن مارنے کیلئے علماء کے فتوے لئے جا رہے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہرممکن کوشش ہو رہی ہے۔ امریکہ کو فروخت کئے جانیوالے پاکستانیوں کو واپس بلانے کیلئے ہزاروں افراد آئے دن سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں۔ قوم کا ناموس تک امریکہ کے ہاتھ گروی رکھا جا چکا ہے۔ لال مسجد کے سانحہ کی بازگشت ہر درودیوار سے سنائی دے رہی ہے لیکن جناب میاں نواز شریف اتنا بھی نہیں کر سکے کہ قوم کو وہ فارمولا ہی بتا دیں جس کیمطابق انہوں نے پرویز مشرف کو نیچے سے اٹھایا اور تخت پر بٹھا دیا۔ اگرانکے پاس کوئی فارمولا نہیں تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے زیادتی کی تھی تو اس زیادتی کا فراخ دلی سے اعتراف کرنا چاہئے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر عدالت میاں صاحب سے پوچھے کہ انہوں نے یہ زیادتی کیوں کی تھی یا میاں صاحب خود ہی قوم سے معافی مانگ لیں تو اس دھاندلی کا مستقبل میں دروازہ بند ہو سکتا ہے۔

رہی یہ دلیل کہ یہ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار تھا۔ ایک بودی اور بے سروپا دلیل ہے۔ صوابدیدی اختیار کیلئے لازم ہے کہ انصاف سے کام لیا جائے اور جس سینئر کو محروم کیا جا رہا ہے۔ اسے محروم کرنے کی وجہ ریکارڈ پر لائی جائے۔ کیا صوابدیدی اختیار کا یہ مطلب ہے کہ کسی ہوش و خرد سے عاری پاگل کو منتخب کر لیا جائے؟ نہیں تو پھر یہ کس طرح جائز تھا کہ جو شخص اپنے شب و روز لہوولعب میں گزار رہا تھا، جس کا کردار شرمناک تھا اور جس کے بارے میں ہر شخص کو معلوم تھا، اسے اس نازک منصب پر بٹھا دی گیا؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر ہم اتنی بلند آواز سے بین کر رہے ہیں کہ کان پڑی آوازنہیں سنائی دے رہی لیکن ہمارے بین سن کر کسی کی آنکھ سے آنسو نہیں نکل رہے نہ کسی کا دل پسیج رہا ہے۔ ہمیں کرپٹ افراد کو سزائیں دینا ہوں گی اور یہ کام پٹواری اور تھانیدار سے نہیں شروع ہو گا۔ اس کا آغاز وہاں سے ہو گا جہاں قانون کے پر جلتے ہیں۔

Saturday, October 30, 2010

خضاب کے رنگ دھنک پر

میں نے اخبار میں پڑھا تو یقین آیا اور اطمینان ہوا کہ اللہ کے دین کے سپاہی سو نہیں رہے ،جاگ رہے ہیں۔
 حضرت مولانا نے جو وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ ہیں فرمایا کہ ’’ نیلو فر بختیار کا بیان اسلام اور آئینِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ اس خاتون کو سینٹ کارکن ہونے کا کوئی حق نہیں اس کی رکنیت فوراً ختم کردینی چاہیے‘‘۔
مفتی صاحب نے بھی انہی خطوط پر قاف لیگ کی اس خاتون کی مذمت کی اور فرمایا کہ دستوری اور اخلاقی دونوں اعتبار سے نیلو فر بختیار پارلیمنٹ کی رکن ہونے کا حق کھو بیٹھی ہیں۔
خاتون نے وضاحت پیش کی ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر محکمۂ سیاحت کے سرکاری ہوٹلوں میں شراب پر پابندی ہے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں یہ پابندی نہیں ہے تو یہ قانون کا مساوی نفاذ نہیں ہے لیکن میں ذاتی طورپر یہ وضاحت قبول کرنے کے حق میں نہیں۔ ایک عورت کا بیان دو علماء دین کے بیان پر کس طرح حاوی ہوسکتا ہے؟ مجھے اطمینان ہوا ہے کہ اللہ کے دین کے یہ بے لوث اور بے غرض سپاہی جاگ رہے ہیں’’ ملک کا اسلامی تشخص مجروح‘‘ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔

یُو ٹیوب پر لاکھوں کروڑوں افراد نے دیکھا ہے اور ہر روز دیکھ رہے ہیں کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کس حالت میں تقریر کر رہے ہیں۔ وہ بار بار اٹکتے ہیں الفاظ اُنکی زبان سے لرز لرز کر نکل رہے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے بار بار خاموش ہوجاتے ہیں۔ خاموشی کے یہ وقفے طویل سے طویل تر ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لڑ کھڑا کر گرا ہی چاہتے ہیں کہ ہر طرف سے خدام اور جاںنثار بھاگ کر آتے ہیں اور صوبے کے حاکمِ اعلیٰ کو تھام لیتے ہیں۔ اسلام کے سپاہی چوکس ہیں‘ وہ اگر اس حرکت پر گرفت نہیں کرتے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حرکت خلافِ اسلام نہیں۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر جرم کا عملی ارتکاب کرنیوالا مر د ہو اور برسرِ اقتدار ہوتو مذہب کے سپاہیوں کا فیصلہ اور ہوتا ہے اور اگر خاتون ہواور اس نے عملی ارتکاب نہ کیا ہو، صرف بیان دیا ہو، اور پھروہ برسرِ اقتدار بھی نہ ہو تو اس سے مملکتِ خداداد کو جو خطرات پیش آسکتے ہیں ان کا تصور بھی محال ہے۔ اسلام کے سپاہی چوکس ہیں۔ وہ ایسا نہیں ہونے دینگے۔

کچھ جاہل لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں پنچایتیں پانچ پانچ دس دس سال کی بچیوں کی شادیاں ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کرنے کا جو حکم دیتی ہیں تو یہ اسلام کے اصولوں کیخلاف ہے۔ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بلوچستان میں عورتوں پر کتے چھوڑے گئے اور پھر انہیں زندہ دفن کردیا گیا۔ سندھ میں کاروکاری کے حوالے سے قبرستان ہی الگ بنے ہوئے ہیں‘ جہاں مقتول عورتوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ میانوالی کے علاقے میں ونی کی رسم ہے جسکی رُو سے جھگڑا چکانے کیلئے نابالغ بچیوں کے نکاح بوڑھوں سے کردئیے جاتے ہیں‘اگر یہ سب خلاف اسلام ہوتا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضرت مولانا اور حضرت مفتی صاحب خاموش رہتے۔ حضرت مفتی صاحب تو عام گفتگو بھی قرأت میں فرماتے ہیں اور اٹک پار نکلا ہوا چاند ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہو تب بھی وہ نہیں مانتے اس لیے کہ اس میں اسلام کو خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ رہے بچیوں کے نکاح اور خواتین کے قتل، تو وہ اگر خلافِ اسلام ہوتے تو حضرت ضرور فتویٰ دیتے!

مقتدر طبقات سے تعلق رکھنے والے با اثر افراد آئے دن کروڑوں روپوں کے قرضے معاف کرالیتے ہیں۔ یہ قرضے ٹیکس ادا کرنیوالے غریب عوام ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف کوئی سفید پوش بنک کے چند سو یا چند ہزار روپے واپس کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہوجائے تو پولیس اُسکے رشتہ داروں کا ناطقہ بند کردیتی ہے۔ گھر قرقی ہوجاتا ہے اور سامان اور بچے سڑک پر پھینک دئیے جاتے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ظلم اور یہ امتیازی سلوک اگر اسلام کیخلاف ہوتا تو دین کے یہ سپاہی آرام سے بیٹھے رہتے؟ نہیں آپ یقین کیجئے کہ یہ سب کچھ اسلام اور آئینِ پاکستان کے عین مطابق ہے اسی لیے تو حضرت خاموش ہیں!

لاکھوں ہاریوں کی بیویاں اور بیٹیاں زمینداروں کی حویلیوں میں قید ہیں‘اینٹوں کے بھٹوں میں نسل در نسل غلام بیگار میں مصروف ہیں۔ وہیں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کیلئے جلتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے۔ عورتوں کو وراثت میں اُن کا جائزحصہ کوئی نہیں دیتا۔ لاکھوں بچے اور بچیاں زیورِ علم سے محروم ہیں۔ پھول سے رخساروں والے بچے ریستورانوں میں برتن مانجھ رہے ہیں یا ورکشاپوں میں مشقت اور زیادتی کا شکار ہورہے ہیں جبکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا’’ علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘ عورتیں مزاروں کی مٹی چاٹ رہی ہیں یا خواہشِ اولاد پر’’ روحانی شخصیات‘‘ کے نرغے میں ہیں۔ جرائم پیشہ ملنگ دندناتے پھر رہے ہیں اور تقدیس کے لبادے اوڑھے ہیں‘ ٹیکس چوری کرنیوالے، ملاوٹ کرنیوالے ، جعلی دوائیں بنانے اور فروخت کرنیوالے، چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرنیوالے، اقربا پروری اور سفارش کے دروازوں سے داخل ہوکر حقداروں کا حق مارنے والے سب کھلے عام پھر رہے ہیں۔ مفتی اور مولانا ان سب سے کوئی تعرض نہیں کرتے۔یقینا یہ سب کچھ اسلام میں جائز ہوگا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عبائوں میں ارتعاش نہ پیدا ہوتا۔ دستاریں غصے سے کانپنے نہ لگ جاتیں، عصا ہوا میں نہ اُٹھ جاتے اور خضاب کے رنگ دھنک پر نہ جا لگتے!

پس جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے اور جونہیں جانتا وہ جان لے کہ حضرت کے اسلام میں اجتماعی عدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ طلبِ علم بیکار ہے، عورت کھاد اور بنولہ کی قسم کی جنس ہے‘ لڑکیاں لینے دینے کی چیز ہیں‘ ہاری مجرم ہیں‘ چیف منسٹر مقدس ہیں خواہ لڑ کھڑا کر گر رہے ہوں۔ہر وہ جرم جائز ہے جو اہلِ اقتدار کرتے ہوں اور ہر وہ جرم قابلِ گرفت ہے جو حکومت سے محروم افراد سے سرزد ہو، مرد پر سات خون معاف ہیں۔ عورت کی نگرانی واجب ہے۔ کہیں مذہب کو نقصان نہ پہنچا دے آخر پسلی سے نکلی ہے۔ناقص العقل ہے۔ خاص طورپر اگر یہ کہہ اٹھے کہ میں فلا ں سے شادی نہیں کرناچاہتی اور فلاں سے کرناچاہتی ہوں تو اس بات کا  پورا امکان ہے کہ زمین کسی سیارے سے ٹکرا جائے۔










Tuesday, October 26, 2010

دولت مند بھک منگے

میں حیران ہوں کہ تم لوگ کتنے بدقسمت ہو۔ تمہارے پاس خزانہ ہے اور تم لوگ خزانے سے بے خبر بھک منگوں کی زندگی گزار رہے ہو۔ تمہارے صحنوں کے نیچے سونے چاندی کے انبار دفن ہیں۔ تمہاری دیواروں کی بنیادوں میں وہ صندوق پڑے ہیں‘ جو ہیروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن تم لوگ ایک ایک پائی کیلئے ترس رہے ہو

ٹیٹو بولے جا رہا تھا اور میں کبھی حیرت سے اُس کا منہ دیکھتا تھا اور کبھی شرمندگی سے اپنے پاؤں پر نظریں جماتا تھا۔ یہ ٹیٹو یوگوسلاویہ کا آنجہانی حکمران مارشل ٹیٹو نہیں تھا۔ یہ جنوبی  امریکہ کے ملک بولیویا کا ٹیٹو تھا جو میرا ہم جماعت تھا۔ تیس سال پہلے اٹلی میں ہم دونوں اقتصادیات کے طالبعلم تھے۔ میرے ساتھ اسکی اس زمانے کی تصویر آج بھی میرے بچے دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں کیوں کہ وہ لمبی داڑھی اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک کلائون لگتا ہے پھر یوں ہوا کہ زمانے کی گردش ہمیں ادھر ادھر لئے پھری۔ میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا لیکن لاطینی امریکہ جانا میری قسمت سے باہر ہی رہا۔
تین سال پہلے گیا بھی تو میکسیکو گیا۔ ایک ہفتہ اتنا مصروف رہا کہ بولیویا جانے کا سوچ ہی نہ سکا۔ یہ تو دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ آسٹریلیا میں آوارہ گردی ہوئے میں نے اسے ایک پب سے نکلتے دبوچ لیا سوائے اسکے کہ اسکی لمبی داڑھی سفید تھی اور کوئی تغیر اس میں نہیں آیا تھا۔ وہ بھی میری ہی طرح  ملک ملک گھوم رہا تھا۔
اس زمانے میں بھی اسے عالم اسلام دیکھنے کا شوق تھا، یہ شوق اس نے اب پورا کیا۔ وہ مراکش، مصر، اردن، پاکستان اور ملائیشیا سے ہوتا ہوا آسٹریلیا آیا تھا اور یہاں سے چلی اور واپس بولیویا جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔

سب سے زیادہ مایوسی اسے پاکستان آ کر ہوئی۔ اس کے ذہن میں جو تصویر اس ملک کی بیٹھی ہوئی تھی، اصلیت اسکے برعکس نکلی، اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ترقی یافتہ ہو گی، لوگ پڑھے لکھے ہونگے، قانون کا احترام ہو گا اور یونیورسٹیاں اور کالج تحقیق میں ڈوبے ہوئے سائنس دانوں سے چھلک رہے ہونگے لیکن اس کا دس دن کا قیام اس کیلئے مایوسی کا باعث بنا۔

میں اسے ایک لبنانی ریستوران میں کھانا کھلانے لے گیا۔ وہ اپنے سفر کے تجربات سنانے لگ گیا، ایک مسحور کن گفتگو کرنا اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، مادری زبان ہسپانوی ہونے کے باوجود وہ انگریزی پر مکمل دسترس رکھتا تھا، کھانا کھانے کے بعد ہم نے کافی منگوائی اور یہ وہ وقت تھا جب اس نے مجھے حیرت اور شرمندگی سے دوچار کیا۔

’’مصر اور اردن میں قیام کے دوران میں نے تمہارے رسولؐ کی زندگی کا مطالعہ کیا پھر پاکستان کی موجودہ حالت دیکھی تو مجھے تعجب ہوا۔ دنیا کی پست ترین قوم بھی اگر پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرے تو آسمان پر پہنچ جائے لیکن افسوس! تم مسلمان اپنے رسول کے احکام کو خاطر ہی میں نہیں لا رہے! تم لوگوں نے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ تمہارے ہاں شہد بھی اسلامی ہے، طب بھی اسلامی ہے، تمہارے کالج بھی اسلامیہ ہیں، تمہارے ریستورانوں اور بیکریوں کیساتھ بھی مدینہ کا لفظ لگا ہوا ہے۔ تمہارے مدارس کے نام دیکھے جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم قرن اول میں آ نکلے ہیں۔ لیکن تمہاری زندگیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ تمہارے رویے کچھ اور بتاتے ہیں۔ تم اخلاقی لحاظ سے پستیوں میں ہو، علمی اعتبار سے قلاش ہو، تحقیق اور سائنس کے اعتبار سے مفلس ہو اور اقتصادی حالت گداگروں جیسی ہے اور وہ لوگ جو مسلمان نہیں، انہوں نے تمہارے رسولؐ کے احکام پر عمل کر کے دنیا کو مسخر کر لیا ہے۔ تمہاری مقدس کتاب نے تمہیں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا لیکن آج غیر مسلموں نے کائنات کا آخری سرا دریافت کیا ہے، مسلمان اس دریافت سے کوسوں دور ہیں۔
تمہارے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ لیکن آج دنیا میں سب سے زیادہ گندے مسلمان ہیں۔ سڑکیں، باغ، گھر، پارک، دکانیں کہیں بھی صفائی نہیں۔اسکے مقابلے میں غیر مسلموں کو دیکھو، انہوں نے یہ اصول اپنایا۔ آج ان کے ملک شیشے کی طرح چمک رہے ہیں،
 تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ صرف اہل (QUALIFIED)
 طبیب کے پاس جاؤ۔تمہارے ملک میں عطائیوںکی بھر مار ہے۔  تم علاج تعویذوں اور مزاروں کی مٹی سے کر رہے ہو۔‘‘

تمہارے رسولؐ کا فرمان ہے ’’کہ علم حاصل کرنے کیلئے چین (اس وقت دنیا کا کنارہ) بھی جانا پڑے تو جاؤ‘‘۔آج مسلمان ملک خواندگی کے تناسب میں ساری دنیا سے پیچھے ہیں۔ انہیں زبانوں پر عبور ہے نہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی واسطہ ہے‘ انکے حکمران معمولی بیماریوں کے علاج کیلئے بھی لندن اور ہیوسٹن جاتے ہیں۔ غیر مسلموں کے ہر محلے میں لائبریری ہے لیکن مسلمانوں کے ہاں خوراک کی دکانیں ہیں، کپڑے کے بازار ہیں، زیورات کی مارکیٹیں ہیں اگر نہیں تو لائبریریاں نہیں‘ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں سے فرمایا تھا کہ ہماری عورتوں اور مردوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تمہیں آزاد کر دیں گے  اس رسولؐ کے نام لیوا سکول جلا رہے ہیں۔
 جس رسولؐ نے اعلان فرمایا کہ:
’’جس نے اترنے کی جگہ تنگ کی یا راہ گیروں کو لوٹا اس کا کوئی جہاد نہیں۔‘‘ 
 ایک غزوے میں رسولؐ نے ایک مقتول عورت کو دیکھا تو فرمایا …

’’خالد کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ پیغمبر تمہیں حکم دیتے ہیں کہ بچوں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔‘‘

یہودیوں کے سردار ابن ابی الحقیق کو قتل کرنے کیلئے صحابہ کا دستہ بھیجا گیا اس دستے کو رسولؐ نے حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ اس دستے میں شریک ایک مجاہد کا بیان ہے کہ ’’ابن ابی الحقیق کی بیوی نے چیخ کر ہمارے خلاف مدد کیلئے پکارا، میں نے تلوار بلند کی لیکن پھر مجھے رسول اللہ ؐ کا حکم یاد آیا اور میں نے اپنی تلوار روک لی‘ اگر آپ کا حکم نہ ہوتا تو ہم اسکی بیوی کا قصہ پاک کر دیتے۔‘‘ جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ مشرکین کے تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے۔‘‘

آج اُسی رسولؐ کے نام لیوا ان ہدایات کے پرخچے اُڑا رہے ہیں اور  بچوں، عورتوں، بوڑھوں، غیر مسلح عوام یہاں تک کہ مسجدوں میں سجدہ کناں نمازیوں کوبھی قتل کر رہے ہیں اور پھر رسولؐ کی مخالفت میں اتنا دور جا رہے ہیں کہ قتل عام کو جائز بھی قرار دے رہے ہیں۔ جس رسولؐ نے فرمایا تھا کہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھو اس لئے کہ تمہیں رزق اس لئے دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد اس لئے کی جاتی ہے کہ تم اپنے ضعیفوں کا خیال رکھو۔اس رسولؐ کے نام لیوا ملکوں میں بوڑھے دھکے کھا رہے ہیں اور بے یارو مددگار مر رہے ہیں جب کہ غیر مسلم ممالک میں ہر بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کی خوراک، علاج اور رہائش کا انتظام ریاست کے ذمے ہے اور ٹرینوں، بسوں اور جہازوں میں وہ مفت سفر کرتے ہیں۔
تمہارے رسولؐ کا فرمان تھا کہ اگر اس کی بیٹی فاطمہؓ بھی جرم کرتی تو سزا سے نہ بچ سکتی،۔آج تمہارے ہاں سزا صرف انہیں ملتی ہے جو طاقتور طبقے سے تعلق نہیں رکھتے اور وہ جو رُولنگ کلاس سے ہیں انکے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، ان کیلئے قتل، چوری، جھوٹ، رشوت، ڈاکہ، ٹیکس کا ہیر پھیر، بدکاری خیانت، اسراف، تبذیر، نمائش، اقربا پروری، سفارش، ملاوٹ، ملکی قانون کی خلاف ورزی، دوسروں کا حق مارنا سب کچھ جائز ہے۔ جنہیں تم کافر کہتے ہو انہوں نے تمہارے خلفائے راشدینؓ کی پیروی کی ہے۔ صدارت کے عہدے پر فائز کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا بیٹا ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی اہلیہ جلدی میں ہونے کی وجہ سے ٹرین کا ٹکٹ نہیں خریدتی تو عدالت میں طلب کر لی جاتی ہے۔ خاتون وزیر سائیکل چلاتے ہوئے سرخ بتی کی خلاف ورزی کرتی ہے تو وزارت سے استعفی دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وزیر سرکاری کاغذ پر ذاتی خط لکھتا ہے تو اس پر اعتراض ہوتا ہے اور وہ معافی مانگتا ہے۔ یہ وہ اسلامی روایات ہیں جن کا مسلمان ملکوں میں سوچا تک نہیں جا سکتا۔‘‘

ٹیٹو کے مطالعے اور معلومات پر مجھے حیرت ہوئی۔ ’’یہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا؟‘‘ اس نے جیسے میرا ذہن پڑھ لیا۔ ’’میں تمہارے رسولؐ کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو سوچتا ہوں مسلمان ہو جاؤں، لیکن جب تم مسلمانوں کو دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ تم خزانوں کے مالک ہو اور بھک منگوں کی زندگی گزار رہے ہو۔‘‘


















Sunday, October 24, 2010

تین گھنٹے کی ’’اہم‘‘ ملاقات

بڑے شہر کے ہنگاموں سے جب دل گھبرا جاتا ہے تو میں شمال کے اس شہر کا رخ کرتا ہوں جو شہر ہے لیکن اس میں شہروں کی افراتفری نہیں اور جو شاہراہ قراقرم کا دروازہ ہے …؎

غمِ غریبی  و غربت  جو  بر   نمی   تابم

بہ شہرِ خود  روم  و   شہر یارِ خود باشم

ایبٹ آباد مجھے ہمیشہ اٹلی کے مشہور شہر نیپلز کی یاد دلاتا ہے وہی حسن، وہی پہاڑ شہر کو اپنے حصار میں لئے ہوئے۔ 1980
ء کے نومبر کی ایک سرد اندھیری رات جب نیپلز میں
 خوفناک زلزلہ آیا تھا اور میں وہیں تھا۔ زلزلے کا مرکز اُسی علاقے میں تھا۔ مکان گر گئے، لوگ بے گھر ہو گئے یہ پورا علاقہ زلزلوں کیلئے مشہور تھا۔ امریکہ نے بے گھر لوگوں کو پیشکش کی کہ یہ علاقہ ہی چھوڑ دو، امریکہ آ جاؤ، زمین بھی ملے گی اور وسائل بھی مہیا کئے جائینگے لیکن اطالویوں نے انکار کر دیا۔ زلزلے جتنے بھی آئیں گھر پھر بھی گھر ہے انکی قومی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ زلزلے سے خوفزدہ ہو کر امریکہ کے مرہون احسان ہو جائیں لیکن بابا حیدر زمان ہماری بدقسمتی سے اطالوی نہیں، ورنہ وہ امریکیوں کو بتا دیتے کہ وہ نئے صوبے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن امریکہ کا اس سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔

بڑے شہر سے گھبرا کر میں نے ایبٹ آباد کا رخ کیا اور دوست دیرینہ واحد سراج کے عشرت کدے میں فروکش ہو گیا۔ یہ ماہر تعلیم جو کئی تعلیمی ادارے چلا رہا ہے جسمانی معذوروں کے ایک بہت بڑے مرکز کا مدیر بھی ہے جہاں مصنوعی اعضاء حد سے زیادہ کم قیمت پر مہیا کئے جاتے ہیں۔

وہ وحشت ناک تصویر میں نے واحد سراج کے دفتر ہی میں دیکھی۔ ایبٹ آباد سے شائع ہونیوالے تمام مقامی روزناموں نے یہ تصویر پہلے صفحے پر شائع کی۔ امریکی قونصلر صوفے پر جلوہ افروز ہے اسکے ساتھ ایک صاحب دست بستہ بیٹھے ہیں اور سامنے صوبہ ہزارہ تحریک کے بطل جلیل بابا حیدر زمان تشریف فرما ہیں۔ اب خبر ملاحظہ کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔

’’تحریک صوبہ ہزارہ کے رہنماؤں سے امریکی قونصلر جنرل کی تین گھنٹے اہم ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات تحریک کے رہنما شہزادہ گستاسب خان کی رہائش گاہ ایبٹ آباد میں ہوئی۔ امریکی قونصلر سے تحریک کے رہنماؤں نے تین گھنٹے کی اس اہم ملاقات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ اخبار کے رپورٹر کو اندرونی ذرائع نے بتایا کہ امریکی قونصلر نے بابا حیدر زمان سے الگ صوبے کے مقاصد کے حوالے سے سوال کیا تو بابا حیدر زمان نے بڑی تفصیل کیساتھ صوبہ ہزارہ کے مقاصد امریکی نمائندے کو آگاہ کیا جس پر امریکی نمائندے نے تحریک کے دوران شہید کر دیئے جانیوالے ہزارہ کے سپوتوں پر اظہار افسوس کیا۔‘‘

اب ہم اتنے غیرت مند ہو گئے ہیں کہ ’’مقصد‘‘ کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ بات کتنی دلچسپ ہے کہ عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنیوالے امریکہ کو تحریک ہزارہ کے دوران شہید ہونیوالوں پر افسوس ہے! آج صوبہ بنانے والے تین تین گھنٹے ’’اہم‘‘ ملاقاتیں کر رہے ہیں تو کیا عجب کہ کل یونین کونسل کو تحصیل بنانے والے اور تحصیل کو ضلع بنانے والے بھی امریکی سفارت کاروں کے ساتھ اہم ملاقاتیں کریں اور تفصیل بتانے سے گریز کریں!

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

رہی حکومت  تو اس بیچاری کی کیا مجال کہ ان سفارت کاروں سے پوچھے کہ تم لوگ شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں کیوں گھوم رہے ہو اور الگ صوبے بنانے میں تمہاری کیا دلچسپی ہے؟

ہم صوبہ ہزارہ  یا کسی بھی نئے صوبے کے مخالف نہیں لیکن اس تحریک میں بہت سے چہرے ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اس تحریک سے ہمدردی کرنا مشکل کام ہے۔ نو سال تک جنرل مشرف کے دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد جن سیاست دانوں کو عوام نے سزا دی اور انتخابات میں ہار گئے وہ اب صوبہ ہزارہ کی ویگن میں بیٹھ گئے ہیں۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پختون خواہ کا نام ہزارہ کے بہت سے لوگوں کیلئے قابلِ قبول نہیں ہے ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ پختونخواہ کے بجائے نام ایسا ہونا چاہیے تھا جس سے ہزارہ ، ڈی آئی خان اور صوبے کی دیگر اکائیوں کے درمیان نفرت کے بجائے محبت بڑھتی اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا۔ افسوس پختونخواہ کے نام نے ہم آہنگی کو ختم کر دیا لیکن اسکے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ غیر ملکی طاقتوں کو ملوث کرنا اور ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر منصوبہ بندیاں کرنا حب الوطنی کے تقاضوں کیخلاف ہے۔ ہزارہ کے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ سنجیدہ حضرات کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد (پختونخواہ خیبر) پہلے ہی ایک چھوٹا صوبہ ہے وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے جو
Parameters
درکار ہیں کیا وہ موجود ہیں؟ اس لحاظ سے
 دیکھیں تو تحریک کا یہ دعویٰ کہ وہ ایک کروڑ افراد کی نمائندگی کر رہی ہے محل نظر ہے۔

محمد اسد کے بارے میں گزشتہ کالم کے بعد ہمیں دو حقیقتوں کا احساس ہوا۔ ایک یہ کہ نوائے وقت کا دائرہ اثر حیرت انگیز حد تک دنیا کے اطراف واکناف پر محیط ہے دوسرے یہ کہ محمد اسد جیسے محسنِ پاکستان کیلئے لوگوں کی محبت حیرت انگیز ہے۔ کالم کا فیڈ بیک اتنا زبردست تھا کہ کالم نگار کی ای میل کا ان بکس بھر گیا اور ٹیلی فونوں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پڑھنے والے محمد اسد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے اور انکی تصانیف اور انکے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں حاصل کرنے کیلئے بے قرار تھے۔ جناب اکرام چغتائی کی اجازت سے ہم قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ محمد اسد کے بارے میں چغتائی صاحب کی تصانیف مندرجہ ذیل ایڈریس سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔
دی ٹروتھ سوسائٹی
 81-A2
گلبرگ III
لاہور۔

بے شمار قارئین نے محمد اسد کی تصنیف ’’دی روڈ تو مکہ‘‘ کے اردو ترجمہ کے بارے میں استفسار کیا ہے اس کتاب کا ایک ترجمہ ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ شائع ہوا تھا لیکن وہ نامکمل تھا اس کا دیباچہ ابوالحسن علی ندوی نے تحریر کیا تھا۔ ایک اور ترجمہ ’’شاہراہ مکہ‘‘ کے نام سے چھپا لیکن وہ ایک بے رنگ اور پھیکا ترجمہ تھا۔ میں نے جناب اکرام چغتائی کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ انکی قیادت میں دو تین اصحاب اس کتاب کا ترجمہ کریں جن میں یہ فقیر بھی شامل ہو۔ چغتائی صاحب نے اس تجویز کو پسند کیا ہے لیکن …ع

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

Tuesday, October 19, 2010

محمد اسد؟ کون محمد اسد؟

پاکستان کو بنے تین سال ہو چکے تھے۔ یہ 1951 تھا‘ ابھی تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ قائم نہ ہو سکا تھا..مصر میں متعین پاکستانی سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتا تھا۔ جدہ میں ایک بے بضاعت سا قونصل خانہ تھا۔ !
 دوسری طرف بھارت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اتنا کامیاب تھا کہ سعودی عرب میں ’’رسول اسلام‘‘ (امن کا سفیر) کے نعروں سے اس کا استقبال کیا گیا۔

 مئی1951ء میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا جائے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی جس شخص کے سپرد تھی ان کا نام محمد اسد تھا۔ وہ وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ( یہ وہ زمانہ تھا جب گنتی کے چند جوائنٹ سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کا کام کرتا تھا یہ تو آدھے سے زیادہ پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے بعد وفاقی سیکرٹری روپے کے درجن ملنے لگے۔ رہے جوائنٹ سیکرٹری تو اب سینکڑوں کی تعداد میں ہیں)۔ آج کتنے تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ محمد اسد پاکستان کے کتنے بڑے محسن تھے اور کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے؟

محمد اسد سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کے منہ بولے بیٹے تھے۔ عربوں کی طرح عربی بولتے تھے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل (جو بعد میں بادشاہ بنے) محمد اسد کے پرانے دوست تھے۔ محمد اسد نے نہ صرف بھارتی لابی کو نیچا دکھایا۔ بلکہ بادشاہ سے سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت بھی حاصل کر لی۔ اس وفد میں آزاد کشمیر کی نمائندگی صدر آزاد کشمیر کے معاون یعقوب ہاشمی کر رہے تھے۔ انکے الفاظ میں ’’پاکستانی وفد کے قائد سمیت ہر ممبر نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر علامہ اسد ساتھ نہ ہوتے تو شاید وفد کو بادشاہ سے ملاقات کا موقع بھی نہ مل سکتا۔ علامہ کی گفتگو کا سعودی حکمران پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ نہ صرف انہوں نے سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دیدی بلکہ ہمیشہ کیلئے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو سلطنت عریبیہ سعودیہ کے انتہائی قریبی دوست کی حیثیت میں منتخب کر لیا۔ آج ملت اسلامیہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ جو گہرے بردرانہ مراسم ہیں وہ اسی وقت سے چلے آ رہے ہیں‘ ہم میں سے کتنوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ اس کا سارا کریڈٹ علامہ اسد کو جاتا ہے۔ (نوائے وقت 27 اگست 1982ئ)

محمد اسدآسٹریا کے ایک یہودی خاندان میں 1900ء میں پیدا ہوئے۔ انکے دادا یہودی عالم (ربی) تھے۔ محمد اسد کا اصل نام لپوپولڈ وائس تھا۔ 1922ء سے1925ء تک لپوپولڈ، جرمن اخبارات کے نمائندے کے طور پر مصر، اردن، شام، ترکی، فلسطین، عراق، ایران، وسط ایشیا، افغانستان اور روس کی سیاحت کر چکے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تمدن کو قریب سے دیکھا اور اسلام کا مطالعہ کیا۔ 1926ء میں انہوں نے برلن میں ایک ہندوستانی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اپنا نام محمد اسد رکھا۔ تقریباً چھ سال جزیرہ نمائے عرب میں رہے۔ انکی موجودگی ہی میں سعودی عرب کی مملکت قائم ہوئی۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود سے انکے ذاتی تعلقات تھے۔ وہیں انہوں نے ایک عرب خاتون سے شادی کی جس سے طلال اسد پیدا ہوئے۔ 1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے۔ ان کا قیام امرتسر، لاہور، سری نگر دہلی اور حیدر آباد دکن میں رہا۔ علامہ اقبال سے انہوں نے مجوزہ مملکت پاکستان کے قوانین کے متعلق طویل نشستیں کیں۔ اقبال کے زیر اثر ہی انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈ‘‘ لکھی پھر ’’عرفات‘‘ کے نام سے انگریزی رسالہ نکالا جس کے دس پرچے شائع ہوئے۔ صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ شروع کیا۔ پانچ حصے شائع ہو چکے تھے کہ جرمن شہری ہونے کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو رہائی ملی۔

پاکستان بنا تو لیاقت علی خان نے انہیں وزارت خارجہ میں مشرقِ وسطی کے امور کا انچارج مقرر کر دیا۔ سب سے پہلا پاکستانی پاسپورٹ انہی کو جاری کیا گیا، پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں سفیر مقرر ہوئے تو محمد اسد انکے نائب کے طور پر تعینات کئے گئے ۔ سر ظفر اللہ اس وقت وزیر خارجہ تھے۔ محمد اسد مسلمان ملکوں کے سفیروں میں حد درجہ مقبول تھے۔ عربی پر ان کا عبور اور وحدتِ اسلامی کا جذبہ انہیں ہر کام میں غیر معمولی کامیابی عطا کرتا لیکن پطرس بخاری ایک خود پسند اور متکبر شخص تھے۔ محمد اسد کی کامیابی انہیں ایک آنکھ نہ بھائی رہی سہی کسر سر ظفر اللہ خان نے پوری کر دی‘ نتیجہ یہ ہوا کہ محمد اسد نے پاکستانی حکومت کی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔

یہ پچاس کی دہائی تھی۔ نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی وہ کتاب تصنیف کی جس نے انہیں شہرت کے آسمان پر پہنچایا۔ ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ (شاہراہ مکہ) میں انہوں نے اپنا جسمانی اور روحانی سفر تفصیل سے بیان کیا۔ یہ کتاب دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے، بار بار شائع ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے کتنے ہی لوگ اسے پڑھ کر مسلمان ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
1982
ء (یا 1984ئ) میں صدر ضیاء الحق نے انہیں اسلامی قوانین کے متعلق مشاورت کے ضمن میں پاکستان بلایا۔ وہ انٹر کانٹیننٹل ہوٹل راولپنڈی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ کالم نگار بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ دیر انکے ساتھ رہا۔ افسوس! گفتگو کے نوٹس نہ لئے۔ آج کچھ یاد نہیں کہ کیا گفتگو ہوئی!
 سن انیس سو بیاسی میں ان کا قرآن پاک کا ترجمہ 
The Message of Qurran
شائع ہوا آج دنیا بھر میں یہ ترجمہ مقبول ہے۔ انیس سال محمد اسد مراکش کے شہر طنجہ میں رہے۔ 1992ء میں وہ جنوبی ہسپانیہ (اندلس) کے شہر ملاقہ میں تھے کہ ان کی وفات ہو گئی۔ وہ غرناطہ میں مسلمانوں کے قبرستان میں مدفون ہیں!

میں گذشتہ پانچ ماہ سے آسٹریلیا میں تھا۔ وہیں معلوم ہوا کہ معروف محقق اور دانشور محمد اکرام چغتائی نے محمد اسد پر اپنی کئی سالہ تحقیق کے نتیجے میں چار کتابیں لکھی ہیں جو چھپ گئی ہیں۔ برادر عزیز پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی (صدر شعبہ فارسی پنجاب یونیوسٹی) کی معرفت چغتائی صاحب سے رابطہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے پنجاب یونیورسٹی ہی میں ان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے کمال شفقت سے یہ کتابیں عنایت کیں۔ ’’محمد اسد: ایک یورپین بدوی‘‘ اور ’’بندہء صحرائی‘‘ اردو میں ہیں۔
Mohammad Asad: Europe's Gift to Islam
انگریزی میں دو جلدوں میں ہے‘ ان چار کتابوں میں اکرام چغتائی نے کوشش کی ہے کہ محمد اسد کے بارے میں جو کچھ وہ حاصل کر سکے ہیں سما جائے۔ محمد اسد کے اپنے مضامین کے علاوہ ابو الحسن ندوی، سید سلیمان ندوی، محمد اسحاق بھٹی، انگریزی زبان کے معروف صحافی خالد احمد، مریم جمیلہ اور دیگر مشاہیر نے جو کچھ محمداسد کے بارے میں لکھا، وہ بھی ان تصانیف میں موجود ہے۔
علامہ اسد، اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے…؎

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی، نہ صفاہاں، نہ سمر قند
ان کا کوئی وطن نہ تھا اور سارا عالم اسلام ان کا وطن تھا لیکن پاکستان سے انہیں خصوصی محبت تھی اور ایک قلبی تعلق تھا۔ ان کی بیوی پولا حمیدہ اسد کے الفاظ میں:

’’ انہیں پاکستان دل و جان سے عزیز تھا۔ وہ تصور پاکستان سے محبت کرتے تھے حالانکہ اس ملک نے انکے ساتھ معاندانہ رویہ اپنایا لیکن وہ کبھی اس طرز سلوک کے شاکی نہ رہے۔ وہ پاکستان کے پہلے شہری تھے اور آخری عمر تک انہوں نے پاکستان کے ساتھ اس گہرے تعلق کو قائم و دائم رکھا‘‘۔

پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کر چکے ہیں! کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ ا ور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسد کے نام کر دیا جائے؟ اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں تو آج ہی وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستانی کے نام الگ الگ خط میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے ’’جمہوریت پسند‘‘ حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ ’’محمد اسد؟ کون محمد اسد؟‘‘

Is Ruling Afghanistan the exclusive right of the Taliban?

2010 The Politics and Development Magazine
Is Ruling Afghanistan the exclusive right of the Taliban?
Oct 16th, 2010
By Izhar ul Haq
It seems the US has decided to quit Afghanistan, sooner or later. On September 1, President Obama announced withdrawal of troops from Iraq. This good work has been done by the US after a lot of blunders. In Iraq, 4,500 US soldiers died and the number of the injured is over 30,000. The Iraq left behind by the US has plunged into darkness, divided in ethnic groups and is suffering from sectarianism. There is an unending series of blasts from Karbala to Baghdad. This is the “freedom” and “democracy” given to Iraq by the US!
Has the US learnt any lesson from Iraq? Or it will leave Afghanistan after getting more of its troops killed? Till to date, 1200 coffins have been sent to the US from Afghanistan. The injured are more than that. The US has yet to achieve a single goal in Afghanistan – there are no traces of democracy!
Whether the US leaves today or after one year or after two years, the situation in Afghanistan will remain the same. The question is, what will happen in Afghanistan after it leaves – whose government it will be? How issues will be settled between the northern Afghanistan or former Northern Alliance and Pakhtuns of the southern Afghanistan? Will it be pro-Pakistan or pro-India? Another irony is that majority of the slogan-chanting people do not know the history of Afghanistan nor do they know as which ethnicities are settled there and what are their internal relations? How many people know that the northern Afghanistan is called ‘Minor Turkestan’ inhabited by Uzbeks? The second largest population is of Tajiks while Pakhtuns are settled in the southern and eastern part in a big majority.
Majority of historians agree that Ahmed Shah Abdali, who united Pakhtuns for the first time in history in 1747, is the founder of present Afghanistan. This officer of Nadir Shah Durrani had extraordinary intellect. One tradition is that while devastating Delhi, Nadir Shah had told Ahmed Shah Abdali he would succeed him as king. At the time, the present Afghanistan was a part of Khurasan and Afghanistan did not exist as a name. After the assassination of Nadir Shah in 1747, Ahmed Shah, however, took over as the king and united the Pakhtuns. Durranis, Qizalbash and Yusufzai, all were with him. He soon occupied Ghazni and then snatched Kabul while Herat too was under him after three years.
But Soviet Union entered Afghanistan from the north and first resistance was offered by Uzbeks and Tajiks of northern Afghanistan. Thus, the Uzbek and Tajik minorities came to fore after 230 years. They got leaders like Rashid Dostum and Ahmed Shah Masood and thus Burhanuddin Rabbani became the president after the Russian withdrawal and he was the first non-Pakhtun head of the state after Ahmed Shah Abdali. Burhanuddin Rabbani belonged to the Persian-speaking Tajiks. The northern Afghanistan also got other important positions for the first time.
Do you think that the Pakhtuns, who remained dominant for 250 years, can accept this situation? Their ancestor Ahmed Shah Abdali had founded this empire for Pakhtuns. So how was it possible that they would have offered the power in a plate to the party of Burhanuddin Rabbani, Jamiat-e-Islami, wherein Uzbeks and Tajiks were in majority.
When we analyze the history and international politics, our personal loyalties and emotional associations cannot interfere with it. Some people cannot tolerate analysis about the Taliban. There were very good characteristics of the Taliban but they were humans. And it is a historical fact that Arab, Chechen and Uzbeks of Uzbekistan were with them and still are but it merits thinking that Hazaras, Uzbeks and Tajiks of Afghanistan are not with them so it cannot be denied that ethnically Taliban are a group of Pakhtuns.
Are the Uzbeks and Tajiks of Afghanistan  not as good Muslims as Taliban? Has any single group hegemony over Islam in Afghanistan? Its answer in accordance with the logic and intellect is very clear. A graduate of Alazhar University, Burhanuddin Rabbani is one of the few Afghanistan who translated the books of Syed Qutab Shaheed in Persian for the first time. If the monopoly of Arabs over Islam is not possible, how can the monopoly of any other ethnic group is possible?
This is the ethnic war in Afghanistan. When the Uzbeks and Tajiks tasted the power for the first time after the Soviet withdrawal, would they accept being pushed to the background after departure of the Americans now? Or would they seek an equal share in the power? Whether the Taliban, who are today an important power again after nine-year struggle, will enter into a practical deal with the north? The past history shows that it is very difficult. This has been corroborated by Qazi Hussain Ahmed in his recent article. “Mulla Omar had refused to hand over Osama bin Laden to the Americans before the war. He is a person of such a sort that if talks are held with him, instead of inching towards any middle ground, he would insist on his earlier stance that all other parties in Afghanistan should accept him leader of the faithful and pledge allegiance to him.”

Qazi Hussain Ahmed has a stature and respect. Alas, instead of talking of the US withdrawal only, he would have offered such a formula that may make Afghanistan a better place in future. The children of Uzbeks and Tajiks, living in peaceful cities, have advanced much in the field of education during last nine years. After all, why the death and destruction is destiny of the Pakhtun children? Numerically, Taliban are elder brothers. They should once come forward and embrace the Uzbeks, Tajiks and Hazaras and suggest a practical solution to the power-sharing problem so that Afghanistan comes out of infighting. If this affection of the Taliban is not responded with affection, then no allegation could be leveled against the Taliban and the world would have to accept that Taliban want peace.

Tuesday, October 12, 2010

انڈے اور کوّے

گروہ کے سبب ارکان ایک دوسرے کے وفادار تھے۔ مفادات کی زنجیر نے اُن کے پائوں باندھے ہوئے تھے۔ مقصد سب کا ایک تھا۔ بنک کی تجوری توڑنا اور دولت آپس میں بانٹنا۔ جب مقصد پورا ہو گیا تو مفاد کی زنجیر غائب ہو گئی۔ اب انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانے لگے اور ایک دوسرے کے پول کھولنے لگ گئے۔ بات پھیل گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک کرکے سب پکڑے گئے۔

جرم و سزا کی ساری کہانیوں میں یہی ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی میں بھی ہم آئے دن اس حقیقت کو دیکھتے ہیں، یہی کچھ اس گروہ کے ساتھ ہو رہا ہے جو نو سال متحد رہا اور پاکستان کو ہر طرح کے نقصانات پہنچاتا رہا۔ اس گروہ کا رہنما پرویز مشرف تھا۔ آج یہ گروہ ایک دوسرے سے جھگڑ رہا ہے۔ سب کے پول کھل رہے ہیں، بہت کم لوگ مسئلے کے اس پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف بڑا مجرم ہے لیکن اکیلا مجرم نہیں ہے۔ دنیا میں مجرموں کے گروہوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے، وہی اس گروہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ہم پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرائیں گے، آج اپنے ممدوح کے مونہہ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اس مونہہ سے ہمارے خلاف اور کیا نکلے گا؟ پرویز مشرف این آر او کا الزام چوہدریوں پر لگا رہا ہے۔ امریکی سفیر طارق عزیز پر لگا رہی ہے، چوہدری پرویز مشرف پر لگا رہے ہیں۔

بزم ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے

پا بدستِ دگرے، دست بدستِ دگرے!

یہی دنیا کا دستور ہے، سازشوں میں شریک مخبر بن جاتے ہیں یا گواہ یا وعدہ معاف گواہ! لیکن افسوس! عبرت کوئی نہیں پکڑتا!

پرویز مشرف میں اتنا وژن نہیں تھا کہ بلوچستان سے ہزاروں سال پرانا سرداری نظام ختم کرتا۔ ایک کوتاہ نظر انسان کی طرح اس نے اکبر بگتی کو قتل کرا دیا۔ یوں سرداری نظام کو نیا خون مل گیا۔ اکبر بگتی کا قتل سراسر ناجائز تھا۔ اس کا حساب پرویز مشرف کو دینا پڑیگا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن غور کیجئے کہ اکبر بگتی کے فرزند ارجمند اعلان کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو دینا پڑیگا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن غور کیجئے کہ اکبر بگتی کے فرزند ارجمند اعلان کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کا سر پیش کرنے والے کو ایک ارب روپے کی زمین انعام میں دی جائیگی۔ یہ اعلان اُن حضرات کو آئینہ دکھا رہا ہے جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام جیسی کوئی شے نہیں نہ رہی زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے!

کیا ہمیں، من حیث القوم، پورا سچ راس نہیں آتا؟ یا آدھا سچ ہمارے مفادات کی کھیتی کو سیراب کرتا ہے اور یوں ہم آدھے سچ کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں! ہم میں سے کتنے ہیںجو یہ پوچھنے کی جرأت کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو فوج کا سپہ سالار کس بنیاد پر بنایا گیا تھا؟ کس نے بنایا تھا اور اس کا حساب کون دیگا؟ عدل کا بنیادی اصول ہے کہ صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے انصاف سے کام لیا جانا چاہئے۔

ہمارے ایک محترم کالم نگار دوست نے مطالبہ کیا ہے کہ نواز شریف اپنی اس زیادتی پر قوم سے معافی مانگیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قوم کو بتایا ہے کہ حق دار کو محروم کرکے جونیئر پرویز مشرف کو چیف کے عہدے پر فائز کیا گیا تو ڈاکٹر قدیر نے میاں نواز شریف کے والد گرامی کو کہا کہ ’’کس بدکردار کو آرمی چیف بنا دیا؟‘:‘ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کے کردار کے بارے میں فوج کے ہر افسر کو معلوم تھا! تاریخ دلچسپ واقعات کا مرقع ہے۔ ان واقعات کا ایک دوسرے سے تقابل کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے! مغرب کا پڑھا ہوا، ماڈرن، اور بظاہر مذہب سے بے پرواہ ذوالفقار علی بھٹو میرٹ کا خون کرکے ایک ایسے جونیئر کو آرمی چیف بناتا ہے جو دیکھنے میں کٹر مذہبی اور صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا۔ دوسری طرف ’’دیسی‘‘ میاں نواز شریف، جو خود نماز روزے کے پابند ہیں، ایسے شخص کو سپہ سالار بناتے ہیں جس کے ’’مشاغل‘‘ اور ’’شب و روز‘‘ کے بارے میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں تھی! میاں نواز شریف، پرویز مشرف کو سپہ سالار بنانے پر قوم سے معافی مانگتے ہیںیا نہیں اور قوم کو بتاتے ہیں یا نہیں کہ کس فارمولے کی بنیاد پر انہوں نے شراب و شباب اور رقص و سرور کے اس دلدادہ کو چُنا تھا، اس کا جواب وقت ہی دے پائے گا لیکن ایک حقیقت واضح ہے اور اس قدر واضح ہے کہ اس سے چشم پوشی کرنا اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ حق دار کو محروم کرکے نااہل کو منصب پر براجمان کرنا اُن گناہوں میں شامل نظر آتا ہے جن کا خمیازہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ (والدین کی نافرمانی اور اُن سے بے نیازی بھی اسی زمرے میں شامل ہے)۔ ذوالفقار علی بھٹو کو وہی شخص تختہ دار پر لٹکاتا ہے جس کو سپہ سالار بنانے کیلئے انہوں نے سینئر افسروں کو نظر انداز کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے جس نااہل کو نوازا، اس نے انہیں اقتدار سے محروم کیا، زنداں میں رکھا، جلا وطن کیا اور آج گیارہ سال بعد بھی وہ ان کیلئے پریشانی اور توہین کا باعث بنا ہوا ہے۔ چشم تصور سے دیکھئے، اگر بھٹو ضیاء الحق کو سپہ سالار نہ بناتے یا نواز شریف پرویز مشرف کے بجائے علی قلی خان کو (جو پرویز مشرف سے سینئر تھا) آرمی چیف بننے دیتے تو پاکستان کی تاریخ کتنی مختلف ہوتی!

ع … ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا!

دوسرا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ پوشیدہ کچھ بھی نہیں رہتا۔ زمین مُردے اُگل دیتی ہے اور تاریخ تلچھٹ کو گلی میں پھینک دیتی ہے! کیا کیا راز اطلس و کمخواب کے دبیز پردوں سے باہر آنے لگتے ہیں۔ کسی نے سوا دو ارب روپے خرچ کر ڈالے اور کام پھر بھی نہ بنا۔ اللہ اللہ ! کیا زمانہ تھا! اسلام آباد میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ افسر کے گھر شام کو سواری آتی تھی! رقص و سرود میں مہارت دکھانے والے اداروں کے سربراہ بن گئے۔ پورے ملک کا آڈٹ کرنیوالے ایک صاحب ایسے تھے کہ ترقی دیتے وقت ایک یا دو نہیں، پورے چھ افسروں کا صفایا کر دیا اور سبب بھی نہ بتایا۔ اس وقت عدلیہ بھی خانہ زاد تھی۔ حالات کروٹ لیتے ہیں تو وہ کچھ ہونے لگتا ہے جس کا تصور بھی محال تھا۔ آج ترقی سے محروم کئے جانے والوں نے عدلیہ کی زنجیر ہلائی اور باون ترقیوں کے بُرج اُلٹا دیئے۔

’’ہم دنوں کو پھیرتے ہیں لوگوں کے درمیان‘‘۔ کہاں شوکت عزیز جس کا حلقۂ انتخاب ہی نہ تھا! اور مصنوعی تنفس پر زندہ تھا! کہاں یوسف رضا گیلانی جس میں کئی کمزوریاں سہی، اس کا اپنا حلقہ انتخاب تو ہے جس کے آگے اس نے کل جواب دینا ہے!
 لیکن ان ساری باتوں کو چھوڑیے۔ میرٹ، جمہوریت، حق دار کو حق دینا، یہ سب فضول قصے ہیں۔ مجموعی طور پر مسلمان جس زوال سے دو چار ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسکے اسباب پر بھی غور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ یہ اصل مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹیلی فون پر ہیلو کہنا جائز ہے یا نہیں! مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک کے ستر علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ ہیل جہنم کو کہتے ہیں اور ہیلو کا مطلب جہنمی ہے‘ اس لئے ہیلو کہنا حرام ہے۔

لگتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بعد اب لسانیات میں بھی مسلمان صفر ہو رہے ہیں۔ ہیلو کا مطلب جہنمی ہے نہ ہی پیراڈائزو کا مطلب جنتی ہے۔ یوں بھی جب ایک لفظ اصطلاح بن جائے تو اس کا وہی مطلب لیا جاتا ہے جس کیلئے وہ استعمال ہو رہا ہو۔ اگر ہیلو کے بجائے السلام علیکم کہا جاتا تو یہ فتویٰ آ جاتا کہ غیر مسلموں پر سلامتی نہیں بھیجی جا سکتی! یہاں ہمیں انگریزی ادب کی مشہور کتاب ’’گلیور ٹریولز‘‘ یاد آ رہی ہے۔ اس کا مصنف
Jonathan Swift
طنز کا بادشاہ تھا۔ لکھتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کا بیشتر وقت اس بحث میں گزرتا ہے کہ انڈا کس طرف سے توڑا جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہلاکو خان بغداد کی طرف بڑھا رہا تھا تو بغداد کے اہل مذہب اس بحث میں مصروف تھے کہ کوّا حلال ہے یا حرام! نہ جانے فیصلہ کیا ہوا تھا لیکن تاریخ کا فیصلہ مختلف تھا۔ اہل بغداد کی لاشیں اتنی زیادہ تھیں کہ گدھ ناکافی تھے۔ کووّں کو ان کی مدد کیلئے آنا پڑا‘ جن کی حلت اور حرمت وجہ نزاع بنی ہوئی تھی، انہی کووّں کیلئے لاشیں حلال ہو گئیں!

وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے

نشیمنوںسے بجلیوں کا کاررواں گزر گیا


























Tuesday, October 05, 2010

وہ زلف ہے پریشاں ہم سب اُدھر چلے ہیں

میں یہ کالم تسمانیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں لاٹروب میں بیٹھ کر سپردِ قلم کر رہا ہوں، تسمانیہ آسٹریلیا کا ایک صوبہ ہے‘ آسٹریلیا ایک جزیرہ ہے اور تسمانیہ اس بڑے جزیرے کے جنوب میں واقع ایک اور چھوٹا سا جزیرہ ہے اگر یہ کہا جائے کہ تسمانیہ کا دنیا کے سب سے زیادہ خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ پورا جزیرہ کسی گالف کے میدان کی طرح ہے، درخت، جھلیں، سبزہ زار، وسیع و عریض چراگاہیں جن میں جانور کسی کھونٹے اور رسی کے بغیر آزادانہ چل پھر رہے ہیں۔
ڈھلانوں اور ترائیوں پر مخملیں سبزے کے قالین۔
 ایک ایک گاؤں صاف ستھرا، دُھلا ہوا، جیسے مرغزار کے درمیان زمرد ٹانک دیا گیا ہو۔
 جگہ جگہ چاکلیٹ کی فیکٹریاں،
 شہد اور پنیر کے فارم،
گل لالہ کے حدنظر تک سرخ کھیت،
 دریاؤں کیساتھ پیدل چلنے کے ٹریک، ذرا دور بحرالکاہل میں چلتے ہوئے جہاز …؎

اگر فردوس برروئی زمین است

ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح سائیکلوں کاروں اور بسوں میں اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں رہائش سے لیکر سیر تک سارے پروگرام پہلے سے طے شدہ ہیں۔ کوئی وعدہ خلافی نہ تاخیر، بحث نہ جھگڑا، بھاؤ تاؤ نہ گفتگو میں گرمی ۔ ہر شخص اپنے فرائض یوں انجام دے رہا ہے جیسے یہ مسرت کے حصول کا ذریعہ ہو۔

لیکن اس خوبصورت اور بہشت آسا  سیر گا ہ میں بھی غم کا ایک بادل ہے جو دل پر چھایا ہوا ہے؎

مزے        سارے  تماشا گاہِ دنیا   میں    اٹھائے

مگر اک بات جو دل میں ہے جس کا غم بہت ہے

رہ رہ کر ایک خیال آتا ہے اور تازیانہ لگا جاتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایبٹ آباد سے شمال کی طرف سفر کریں تو خوبصورت سبزہ زار، ڈھلانوں اور ترائیوں پر جھومتے ہوئے درخت، سرسبز و شادات چراگاہیں، دریا اور ندیاں، چشمے اور برفانی چوٹیاں سب کچھ موجود ہے لیکن سیاح کچھ اور بھی مانگتے ہیں۔ صفائی معیاری شاہراہیں باعزت ہوٹل، خوردونوش کی خالص اشیاء وعدے کی پابندی، قانون کا نفاذ، گفتگو میں شائستگی معاملات میں دیانت اور سب سے بڑھ کر سیکورٹی اور امن وامان افسوس! یہی تو وہ سب کچھ ہے جو نہیں ہے!

ایک گرداب ہے جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ ساحل دور ہے ناخدا جن کے ہاتھ میں پتوار ہیں فاترالعقل ہیں اور المیہ یہ ہے کہ چند ملاح سارے مسافروں کو غرقاب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں وہ جو ان ملاحوں کو معزول کر کے خود ناخدا بننا چاہتے ہیں وہ بھی اُسی قماش کے ہیں خیر سے ان کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ بقول حافظ شیراز …؎

راہی است راہِ عشق کہ  ہیچش کنارہ نیست

آنجا جُز آن کہ جان بسپارند، چارہ نیست

یا ظہور نظر کے لفظوں میں …؎

آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ

اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں

مریض جان بلب ہے لیکن علاج کے بجائے ساری توجہ پھولوں گلدستوں اور مٹھائیوں پر ہے جس کا مریض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اسے تو تشخیص کی ضرورت ہے اور پھر ایسی دوا کی جو بیماری کے سبب کو دور کرے۔
 ایک صاحب دل نے (نام کو چھوڑیے کہ فتوے لگیں گے اور خطوط اور ای میل میں ’’پھول‘‘ جھڑیں گے!) حال ہی میں ان بیماریوں کی فہرست پیش کی ہے جن میں مسلمانوں کی اکثریت بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص مبتلا ہیں۔ ’’جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی، سِفلی علوم سے اشتغال، ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق، قبروں کی پرستش، مشرکانہ رسوم، بے ہودہ تفریحات اور اس نوعیت کے دوسرے جرائم
…‘‘

سِفلی علوم سے اشتغال کا یہ عالم ہے کہ کالے جادو سے لیکر زائچہ بازی تک اور اعداد پرستی سے لیکر پیش گوئیوں تک قوم کو ہر قسم کا نشہ دیا جا رہا ہے تاکہ کچھ کرنا نہ پڑے اور سارے کام بیٹھے بٹھائے ہو جائیں۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے ’’اس سے آگے بتانے کی اجازت نہیں‘‘ اور کوئی بتاتا ہے کہ فلاں ہندسہ مقدس ہے۔ حیرت ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ اور حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ، سے لیکر طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور مجدد الف ثانیؒ تک اور اقبالؒ سے لیکر قائداعظمؒ تک کسی نے زائچوں کا سہارا لیا نہ مقدس ہندسوں کا اور نہ پیش گوئیوں کا نہ ہاتھ دکھائے نہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں نجومیوں کو رکھا اور نہ اپنے آپکو مشتہر کرنیوالی نام نہاد روحانی شخصیات سے مستقبل کی خبریں پوچھیں، تذلیل اور احتیاج کی یہی تو وہ زنجیریں ہیں جو اسلام نے توڑی ہیں اور انسان کو پیدا کرنیوالے کے سوا کسی کا محتاج نہیں کیا یہی وہ بُت ہیں جن کی پرستش سے اقبالؒ روکتے رہے …؎

ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا  
 وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار وزبوں!

مستقبل سے آگاہی اگر ہمارے لئے مفید ہوتی تو کیا سب کچھ عطا کرنیوالے پروردگار کو ہم سے کوئی دشمنی تھی کہ اس نے ہمیں مستقبل سے بے خبر رکھا؟ اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس نے کار کے حادثے میں مرنا ہے فلاں سال میں دنیا سے اٹھنا ہے تو اس کیلئے ہر لمحہ موت سے کم نہ ہو گا اور اسکی حالت اس قیدی کی سی ہو گی جسے معلوم ہوتا ہے کہ صبح اس نے پھانسی پر لٹکنا ہے! رہا یہ مسئلہ کہ ملک کی حالت کب بہتر ہو گی تو اللہ کی آخری کتاب نے بتا دیا کہ ’’انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔‘‘

حقائق سے بے نیازی اور اپنے آپکو حرفِ آخر سمجھنے کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔ گزشتہ ہفتے افغانستان اور پاکستان کے چند علماء کرام نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ سارے غیر مسلم ممالک سے برآمد کردہ گوشت اسلام میں ممنوع ہے کیونکہ ان ملکوں میں جانور اسلامی احکام کے تحت ذبح نہیں کئے جا رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے نامور علماء کو جن سے مسئلہ پوچھنا چاہیے تھا یہ فتویٰ بطورِ اطلاع بھیجا گیا ان میں جسٹس تقی عثمانی کے علاوہ اکوڑہ خٹک، جامعہ اشرفیہ اور بنوری ٹاؤن جیسے چوٹی کے اداروں کے علماء کرام شامل ہیں اب جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں کہ کیا چوٹی کے ان علماء کو فتویٰ بھیجنے کے بجائے ان کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ کیا غیر مسلم ملکوں میں رہنے والے کروڑوں مسلمان جو کئی کئی گھنٹے گاڑی چلا کر حلال گوشت مہیا کرنیوالوں کے پاس پہنچتے ہیں اور خرید کر واپس آتے ہیں حرام گوشت کھا رہے ہیں؟ خود پاکستانی علماء ان ملکوں میں تشریف لے جاتے ہیں تو انہی مسلمانوں کے مہمان بنتے ہیں اور یہی گوشت تناول فرماتے ہیں۔ کیا فتویٰ دینے والے علماء نے سارے غیر مسلم ممالک کے ذبح خانوں کا معائنہ کیا ہے؟ کیا انہوں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ گوشت درآمد کرنیوالے ملکوں (سعودی عرب، یو اے ای اور بہت سے دوسرے ممالک ) کے علماء سے اس ضمن میں مشورہ لیا جائے؟

علم اور تحقیق، اعداد وشمار اور حقائق، سائنس اور ٹیکنالوجی، تجربہ اور تجزیہ، بحث لیکن شائستگی سے، مباحثہ لیکن ذاتیات سے ماورا۔ یہ ہیں وہ بنیادیں جن پرترقی یافتہ ملکوں نے اپنی برتری کی بنیادیں کھڑی کیں۔ آہ وزاری اور شور وفغاں کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا نہ کوئی شارٹ کٹ ہے نہ کوئی پیشگوئی کام آ سکتی ہے۔ لائبریریاں اور یونیورسٹیاں، محنت اور سخت محنت دیانت اور وقت کی پابندی، یہ ہے وہ راستہ جس پر چلے بغیر چارہ نہیں۔ ترقی یافتہ اقوام اسی راستے پر چل کر منزل پر پہنچی ہیں اور ہمیں کہہ رہی ہیں …؎

وہ زلف ہے پریشاں ہم سب اُدھر چلے ہیں

تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں
 

powered by worldwanders.com