Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 31, 2010

بٹیرے اور بارود

سب دائرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
 کچھ آلتی پالتی مارے،
 کچھ اُکڑوں،
 کچھ پائوں کے بل
 لیکن سب زمین پر ہیں۔
 کچھ جو نوجوان ہیں۔ پیچھے کھڑے ہیں۔
 کچھ نے پشاوری چیلیں پہنی ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر ہوائی چپلوں میں ہیں
 ٹوپیاں تقریباً سب کے سروں پر ہیں۔
 سب شلوار قمیض پہنے ہیں۔
 کچھ باریش ہیں، کچھ نہیں
یہ سب ایک تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
آگے چھوٹا سا میدان ہے۔ اس میں دو شخص آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ دونوں کے ایک ایک ہاتھ میں سرکنڈوں سے بنا ہوا۔ پنجرہ ہے۔ دونوں کے درمیان نیچے، زمین پر دو بٹیرے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ٹھونگیں مار رہے ہیں۔ ہر ٹھونگ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں اور مجمع فرطِ جذبات سے بے حال ہو جاتا ہے۔ اگر ایک بٹیرہ پیچھے ہٹتا ہے تو آدھا مجمع خاموش رہتا ہے لیکن دوسرا آدھا فتح کی خوشی میں سرمست ہو جاتا ہے پھر شکست خوردہ بٹیرا ہمت مجتمع کرتا ہے اور آگے بڑھنے لگتا ہے اب مدمقابل کے پیچھے ہٹنے کی باری ہے۔ مجمع کا آدھا حصہ جو خموش تھا، اب ہاہاکار سے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ مقابلہ کئی گھنٹے جاری رہتا ہے۔ بالآخر ایک بٹیرا ہمت ہار جاتا ہے۔ اس کے پر بھی ادھڑنے لگتے ہیں۔ مالک جلدی سے اسے اٹھا لیتا ہے۔ ہار جیت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ جیتنے والے کے ساتھی آسمان پر اڑ رہے ہیں۔ نعرے لگ رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ مجمع بکھرنے لگتا ہے۔

کالم نگار کو اس موقع پر مسدس حالی یاد آتی ہے۔ مسدس حالی جو ہمارے زوال کا نوحہ ہے اور ہماری کامیابی کی کنجی لیکن افسوس، ہم یہ کنجی بھی گم کر بیٹھے، کہاں سر سید احمد خان کا یہ کہنا کہ قیامت کے دن اعمال کا پوچھا جائیگا تو مسدس حالی پیش کر دوں گا کہ داورِ حشر! یہ دیکھ! میں نے حالی سے یہ لکھوائی تھی! اور کہاں یہ وقت کہ اب کتاب فروشوں کیلئے بھی یہ نام اجنبی سا ہے۔ مہنگے انگریزی سکولوں سے لیکر ٹاٹ اور چھت کے بغیر والے سرکاری سکولوں تک… کسی طالب علم سے پوچھ لیں۔ اگر کسی نے مسدس حالی کا نام سنا ہو تو سمجھیں سورج مغرب سے نکلنے والا ہے۔ رہے مدارس تو وہاں تو کیا مسدس اور کیا اس قبیل کا دوسرا قومی ادب، سب شجر ممنوعہ ہے۔ اس لئے کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی ’’تازہ ترین‘‘ کتاب بھی تین سو سال پرانی ہے اور مسدس حالی کی عمر تو مشکل سے سو ڈیڑھ سو سال کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے دوست نامور وکیل ظفر اللہ خان نے مدارس کے نصاب کی تفصیل لکھی ہے۔ یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہئے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک معزز اور معروف عالم دین نے کچھ عرصہ قبل ایک مضمون میں فرمایا کہ مدارس میں علم ہیت
(Astronomy)
پڑھایا جا رہا ہے۔اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ…؎

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

بات دور نکل گئی۔ واپس آتے ہیں۔ بٹیروں کی لڑائی دیکھ کر کالم نگار کو مسدس حالی یاد آ گئی ۔…؎

شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے

تبہ ان کی حالت، بری ان کی گت ہے

کسی کو کبوتر اڑانے کی لت ہے

کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے

چرس اور گانجے پہ شیدا ہے کوئی

مدک اور چنڈو کا رسیا ہے کوئی

پھر کالم نگار کا  ذہن بحراوقیانوس پار کرتا ہے۔ سیاہ فام امریکیوں کا شجرۂ نسب تلاش کرنے و الا شہرۂ آفاق مصنف ایلکس ہیلے یاد آتا ہے جس کی تصنیف روٹس
(Roots)
 جب شائع ہوئی تھی تو امریکہ کے طول و عرض میں کتاب فروشوں کے سامنے گاہکوں کی طویل قطاریں تھیں۔
ہیلے کالے امریکیوں کی اس نسل کا نقشہ کھینچتا ہے جو غلامی سے تو آزاد ہو گئی تھی لیکن کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ تعلیم تھی نہ روز گار اور نہ ہی معاشرے نے قبول کیا تھا۔اس صورت حال میں ان کا ایک مشغلہ مرغوں کی لڑائیاں منعقد کرنا تھا۔ باقی مشاغل کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔

 بٹیروں کی یہ لڑائی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے گزشتہ ہفتے کا بل میں ’’منعقد‘‘ہوئی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا نے اس واقعے کو کور کیا ہے۔

افغان دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔ آپ اندازہ لگائیے سوویت یونین اور امریکہ کا ظلم تو آج کی بات ہے۔ افغانوں پر قتل و غارت اور دربدری کا یہ ظلم صدیوں سے ہو رہا ہے۔ چند لیڈر، چند خوانین، چند سیاست دان، چند جنگجو، چند طالع آزما، چند سازشی، ہمیشہ سے افغانوں کے در پے رہے ہیں۔ تاریخ کا صرف ایک ورق دیکھئے،بابر نے فرغانہ کے نقصان کا بدلہ کابل سے لیا اور اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔  ہمایوں کا زمانہ دیکھیے اور کابل کی قسمت پر ماتم کیجئے۔ کبھی ایک بھائی کابل پر قبضہ کرتا ہے تو کبھی دوسرا، یوں بھی ہوا کہ ہمایوں نے شہر پر گولہ باری کی تو اس کے بھائیوں نے اسکے ننھے بیٹے اکبر کو (جو چچا کے قبضے میں تھا) فصیل پر بٹھا دیا!

امریکہ کا غاصبانہ قبضہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ شکست سے دوچار ہو رہا ہے۔ ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد، دو ماہ بعد یا دو سال بعد۔ اس نے اور اسکے حواری ملکوں کی افواج قاہرہ نے ذلت سے دوچار ہو کر بھاگنا ہے۔ لیکن پھر کیا ہو گا؟ افسوس! کسی نے کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا!

تو کیا پھر وہی کچھ ہو گا جو روسیوں کے جانے کے بعد ہوا تھا؟ وہی قتل و غارت… وہی طوائف الملوکی… وہی افراتفری اور وہی لاقانونیت… افسوس تو یہ ہے کہ افغانستان پر دانشورانہ مضامین اپنے نام سے چھپوانے والے ارب پتی ریٹائرڈ جرنیل  اپنے محبوب افغانستان کیلئے عملی طور پر کچھ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ میں قندھار میں یونیورسٹی بنوائوں گا یا خوست میں ماڈرن کالج کھولنے کے لئے اتنی رقم دیتا ہوں۔ رہے ہمارے سرمایہ کار اور صنعتی زار، تو جدہ سے لے کر ویت نام تک اور کینیڈا سے لے کر ہسپانیہ تک کارخانے لگا رہے ہیں اور لگائے جا رہے ہیں لیکن افغانستان میں آٹے کی ایک مل، کپڑے بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری، بچوں کیلئے دوائیں بنانے والا چھوٹا سا پلانٹ نہیں لگا سکتے۔ اس لئے کہ وہاں سے آمدنی کم ہو گی یا نہیں ہو گی۔ جو حاتم طائی اپنے ملک کو پانچ ہزار روپے انکم ٹیکس دیں گے وہ برادر ملک کو کارخانہ کیا دیں گے۔!

نہیں! افغانستان کو غربت اور جہالت کے جہنم سے نکالنا ہو گا۔ اگر آج تک افغانستان کا بنا ہوا کپڑا اور جوتا عالمی منڈی کے کسی گوشے میں نہیں نظر آیا تو کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو؟ آج اگر دنیا میں افغانستان کی شناخت شٹل کاک برقع، بڑا سا پگڑ، بارود، بندوق اور تار تار لباس ہے تو کیا لازم ہے کہ کل بھی ایسا ہو؟ یہ ایک پامال شدہ ثقافت کی نشانیاں تو ہو سکتی ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

آخر افغان عورتوں اور افغان پھول سے بچوں کی قسمت میں دربدری اور بھوک کیوں ہو؟ افغانستان میں پختہ سڑکیں ہونی چاہئیں۔ جدید سکول کالج اور یونیورسٹیاں ہونی چاہئیں۔ شاپنگ مال اور پلازے تعمیر ہونے چاہئیں۔ جدید ہسپتال ہونے چاہئیں۔ کارخانے فیکٹریاں اور صنعتی پلانٹ لگنے چاہئیں ۔بسیں کاریں اور ریل کی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ افغانستان میں کالج  اور یونیورسٹیاں ہونی چاہییں اور ان کالجوں اور یونیرسٹیوں سے فارغ ہو کر نکلنے والے طلبہ و طالبات کو آکسفورڈ اور ہارورڈ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جانا چاہیے۔۔ ان ساری چیزوں  میں  کچھ بھی خلافِ اسلام نہیں۔
 رہا افغان علما کا یہ موقف کہ فرنگیوں کی زبان اور علوم جائز نہیں تو ان کے اساتذہ، بڑے بڑے دیوبندی علماء کرام، انگریزی سیکھنے کو لازمی قرار دے چکے ہیں۔ آج سے نوے سال پہلے سید سلیمان ندوی کے وہ خطبے جو انہوں نے مدراس میں دیئے شائع ہوئے۔ اس کتاب کا نام خطبات مدراس ر کھا گیا۔ نامور عالم دین اور کئی مشہور کتابوں کے مصنف مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ  علماء پر انگریزی سیکھنا لازم ہے۔ اگر یہ آج سے نوے سال پہلے کی تلقین ہے توآج یہ ضرورت کس قدر شدید ہو گی!

یہ کسی آسمانی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ افغانستان میں بندوق اور بارود کے سوا کچھ نہ ہو، افغانستان کو ایک جدید ریاست بننا ہے۔ جدید زندگی کی سہولیات، خدا کی نشانیاں ہیں۔ افغانوں کو بھی باقی دنیا کی طرح یہ حق حاصل ہے کہ وہ جدید سہولیات سے آراستہ زندگی گذاریں اور افغانستان کو ایک جدید، بہتر اور پرامن افغانستان بنانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری، افغانوں کے بعد پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔


Tuesday, August 17, 2010

محمد بشیر کا محل

نام محمد بشیر، گاؤں پیر کوٹ، تحصیل ہجیرہ، ضلع راولا کوٹ۔ لیکن ٹھہریے۔ اُدھر دیکھئے، خیبر پختون خواہ شکایت کر رہا ہے۔

خیبرپختون خواہ کا شکوہ یہ ہے کہ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی
National Disaster Management Authority 

(
این ڈی ایم اے) ایک قومی ادارہ ہے لیکن اُسکے طرزِ عمل سے جانبداری کی بو آرہی ہے۔ اکلوتے فرزند کی شدت پسندوں کے ہاتھوں شہادت پر بہادری اور صبر دکھانے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار نے تو صاف کہا ہے کہ این ڈی ایم اے سیلاب زدگان میں امدادی اشیاء بانٹنے کے ضمن میں خیبرپختون خواہ کو محروم رکھ رہا ہے اور اس کا زور کسی ’’اور‘‘ جانب ہے! پشاور کی وادی میں سات لاکھ افراد تو اٹھائیس جولائی ہی کو بے گھر ہو گئے تھے لیکن این ڈی ایم اے ہوائی جہازوں کی مدد سے امدادی اشیاء ملتان اور سکھر بھیجتا رہا۔ خیبرپختون خواہ کے پاس جو دستاویزات ہیں وہ بتا رہی ہیں کہ بیس بڑے جنریٹر اور دواؤں کی بڑی مقدار 4 اگست کو سکھر اور ملتان بھیجی گئی، پھر 7 اگست کو لوبیا کے ایک سو چالیس بیگ، دودھ کے ایک سو پچاس کارٹن، چاول کی ایک سو بوریاں، دال کے دو سو چوبیس بیگ، خوردنی تیل کے ایک سو کنستر، پانی کی بوتلوں کے نوے کارٹن اور اس کے علاوہ خیمے، ترپال اور ادویات ملتان روانہ کی گئیں۔

خیبرپختون خواہ کے الزام کے جواب میں این ڈی ایم اے نے اپنا مؤقف پیش کیا۔ پھرخیبر پختون خوہ کی صوبائی حکومت نے جواب دیا‘ اس باہمی مکالمے اور مجادلے میں سیلاب زدگان پر کئی دور آئے اور گئے …؎

وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے

نشیمنوں سے بجلیوں کے کارواں گزر گئے

ایک صوبائی حکومت این ڈی ایم اے پر اتنے سنجیدہ الزامات لگا رہی ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں تھوڑی دیرکو اپنے پڑوسی ملک بھارت جانا پڑیگا۔

دسمبر 2005 میں پارلیمینٹ کے ایکٹ کے ذریعے بھارت کا این ڈی ایم اے (یعنی آفات سے نمٹنے والا قومی ادارہ) وجود میں آیا۔ وزیراعظم کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ اسکے نیچے نائب چیئرمین اور آٹھ ممبر بنائے گئے جو وفاقی وزراء کی سطح کے برابر رکھے گئے، جو بات غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان آٹھ ممبران کو ملک کے مختلف حصوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ساتھ ہی صوبائی سطح پر ادارے بنائے گئے اور ہر صوبائی وزیر اعلیٰ کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ پھر اس ادارے کو ضلعی سطح پر منظم کیا گیا۔ ساتھ ہی مرکزی سطح پر ادارے کو ’’فورس‘‘ دی گئی جس میں آٹھ بٹالین شامل ہیں۔ کل افرادی قوت ایک ہزار سے زیادہ کارکنوں کی ہے جن میں انجینئر، ٹیکنیشن، ڈاکٹر اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ یہ فورس ملک میں نو مختلف مقامات پر متعین ہے۔ سیلاب، زلزلہ یا کسی دوسری آفت سے نمٹنے کیلئے مرکز کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے اپنے علاقے پر متعین فورس کام فوراً شروع کر دیتی ہے۔ نو کے نو مقامات ضروری سامان سے لیس ہیں، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بھارت کی اس این ڈی ایم اے میں دس میں سے صرف دو افراد ریٹائر جرنیل ہیں باقی سب سول ماہرین ہیں۔ ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ممبر اپنے اپنے شعبے میں ساری زندگی کام کر کے عروج پر پہنچا ہے۔ کوئی سائنس دان ہے کوئی انجینئر اور کوئی کسی اور شعبے کا ماہر۔ اب فرض کریں بہار کے صوبے میں سیلاب یا زلزلہ آتا ہے سب سے پہلے تو اُن نو مقامات میں سے نزدیک ترین مقام پر متعین فورس حرکت میں آ جائیگی اور چند گھنٹوں کے اندر ابتدائی کام شروع ہو جائیگا۔ ممبران میں سے جو ممبر بہار کے علاقے کا ذمہ دار ہے وہ دہلی سے چل پڑیگا۔ اُدھر صوبے میں وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں صوبائی ڈی ایم اے متحرک ہو جائیگی۔

اب آپ پاکستان واپس تشریف لے آئیں۔ 2005 میں زلزلہ آیا تو اس سے نمٹنے کیلئے زلزلے کا محکمہ
ERRA
 وجود میں آیا جسے ایک جرنیل کے ماتحت رکھا
 گیا۔ 2007 میں ایک آرڈیننس (ایکٹ نہیں) کے ذریعے این ڈی ایم اے (یعنی آفات سے نمٹنے کیلئے قومی ادارہ) بنایا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زلزلے سے نمٹنے کیلئے ایک الگ ادارہ
(ERRA)
 اور باقی آفات سے نمٹنے کیلئے  ایک الگ ادارہ این ڈی ایم اے ہو گا؟ عقل کہتی ہے کہ زلزلے والے ادارےہی کو این ڈی ایم اے میں تبدیل کر دینا چاہیے تھا۔

صوبائی سطح پر بھی یہ ادارے بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن رفتار یہ ہے کہ دو سال بعد 2009 کی رپورٹ جو 2010 میں سامنے آئی بتا رہی ہے کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر این ڈی ایم اے کے دفاتر قائم کرنے کیلئے ’’نئی تاریخ‘‘ یکم جولائی 2009 مقرر کی گئی۔ پاکستان کا سارا این ڈی ایم اے ایک اور صرف ایک ریٹائرڈ جرنیل کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہی چیئرمین ہیں اور وہی سب کچھ ہیں۔ سرکاری ویب سائٹ پر اُنہیں کی تصویر ہے اور انہیں کے کوائف اور تمغوں کا ذکر ہے۔ آج اگر این ڈی ایم اے میں، پاکستان کے ہر علاقے کیلئے ذمہ دار ممبر ہوتا اور صوبائی سطح پر وزیر اعلیٰ سربراہ ہوتا تو جو لڑائی خیبرپختون خواہ  اور این ڈی ایم اے کے درمیان ہو رہی ہے وہ نہ ہوتی۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ این ڈی ایم اے کے صوبائی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ خیبرپختون خواہ میں کام کرنیوالی این ڈی ایم اے کی شاخ صوبائی وزیر اعلیٰ کے ماتحت کیوں نہیں؟ آخر صوبوں کو کب تک سوئی سے لے کر خیمے تک وزیراعظم اور این ڈی ایم اے کے جرنیل صاحب کی طرف دیکھنا پڑیگا۔ این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو خوش کرنے کیلئے ملتان کو زیادہ اشیاء دیں یا نہیں، یہ سوال ہی اس لئے اٹھا ہے کہ صوبائی حکومتیں بے بس ہیں۔ اُدھر شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ مرکز پنجاب کیلئے کچھ نہیں کر رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ادارے مضبوط نہیں ہو رہے، کوئی ادارہ بنتا بھی ہے تو ون مین شو ہوتا ہے۔ این ڈی ایم اے ون مین شو ہے‘ اسی لئے تو کینیڈا کے ایک پاکستانی سلیمان مہتاب نے دو دن پہلے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی مدد سے اُس نے دس ماہ لگا کر اور پانچ سو ماہرین کی مدد سے فائر سیفٹی یعنی آگ لگنے کے حوالے سے جو پالیسی رپورٹ پیش کی اور جس میں موجودہ سسٹم کو بہتر کرنے کیلئے تجاویز دی گئیں وہ این ڈی ایم اے کے سابق چیئرمین جنرل ریٹائرڈ فاروق احمد خان نے کوئی وجہ بتائے بغیر مسترد کر دی۔ کینیڈا کے اس پاکستانی ماہر کا کہنا ہے کہ اگر یہ رپورٹ نافذ ہو جاتی تو مارگلہ کے جہاز کے حادثے کے بعد قوم اتنی بے بسی کا شکار نہ ہوتی۔

اور اب سر دُھنیے کہ زلزلے کے ادارے اور این ڈی ایم اے کے بعد ایک تیسرا ادارہ بھی قائم کیا جا رہا ہے! میاں نواز شریف نے، وزیراعظم کے بقول، تجویز دی ہے کہ متاثرین کی بحالی کیلئے ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس پر ملکی اور عالمی سطح پر اعتماد کیا جا سکے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ این ڈی ایم اے، جسے غیر ملکی ادارے کروڑوں اربوں ڈالر کی امداد دے رہے ہیں، خدانخواستہ اعتماد کے قابل نہیں؟ اس کا جواب تو این ڈی ایم اے ہی دے سکتا ہے، فائدہ یہ ہے کہ جتنے ادارے ہونگے اتنے ہی سربراہ ہونگے اور ’’اپنے‘‘ لوگ کھپائے جا سکیں گے! رہے سیلاب زدگان ۔۔۔ تو انکی مدد کیلئے ان تین کے علاوہ ایک اور ادارہ بنایا جا سکتا ہے! جو ادارے پہلے سے بنے ہوئے ہیں انکی کارکردگی دیکھنے کیلئے آپ کو محمد بشیر کی کہانی سننا ہو گی۔ گاؤں پیر کوٹ تحصیل ہجیرہ ضلع راولا کوٹ، 2005 کے زلزلے میں اس کا مکان پورا گرا گیا اُسے پچیس ہزار روپے دے گئے۔ دو سال بعد دوسری قسط پچھتر ہزار روپے ملی۔ ایک لاکھ میں مکان کس طرح بنتا؟زلزلے سے نمٹنے والا ادرہ 
(ERRA)
تیسری اور آخری قسط پچاس ہزار روپے کی   دے نہیں رہا۔ اس ادارے کے ایک بہت بڑے افسر میرے شناسا تھے۔ فرض کریں ان کا نام اختر یا احسن تھا، میں بشیر کو ان کی خدمت میں لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ انکے پی اے سے رابطہ کیا جائے۔ جب صاحب ہی نے گھاس نہ ڈالی تو پی اے کیا اہمیت دیتا۔ کہتے ہیں کہ سانپ، مگرمچھ اور بیوروکریٹ کسی  کا دوست نہیں ہوتا۔ ویسے تو بچھو بھی کسی کا دوست نہیں ہوتا مگر بچھو کا نام اس فہرست میں اس لئے نہیں ہے کہ اُسکے کاٹے سے موت واقع نہیں ہوتی!
 یہ ایک بشیر، ایک پیر کوٹ اور ایک راولا کوٹ کا قصہ نہیں، یہاں پوری قوم بشیر بنی ہوئی ہے۔ کیا آپ یقین کرینگے کہ زلزلہ زدگان کو امداد ’’دینے‘‘ والا یہ ادارہ اپنے افسروں کو ایک سال میں آٹھ اضافی تنخواہیں ’’بونس‘‘ کے طور پر دیتا ہے‘ یعنی ایک سال میں بیس ماہ کی تنخواہیں! گاڑیوں کی فوج ظفر موج اسکے علاوہ ہے۔ یہ سب کچھ اُس ’’امداد‘‘ سے ہو رہا ہے جو زلزلہ زدگان کیلئے دی گئی تھی!
 این ڈی ایم اے اپنے ملازمین کو کتنی اضافی تنخواہیں بونس کے طور پر دے رہا ہے اور کتنی لینڈ کروزر اور دوسری قیمتی گاڑیاں سیلاب زدگان کی ’’مدد‘‘ کیلئے افسرانِ کار کو دی گئی ہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں! ہو سکتا ہے بونس نہ دیا جا رہا ہو۔ ویسے بونس اُن اداروں میں دیا جاتا ہے جہاں پیداواری کام ہو رہا ہو۔

جہاں زلزلے سے نمٹنے کے بجائے زلزلہ زدگان سے نمٹا جا رہا ہو، وہاں پیداواری کام نہ بھی ہو تو بونس کا جواز تو آخر بنتا ہے! آئیے دعا کریں کہ پیر کوٹ کے محمد بشیر کا محل ایک لاکھ روپے میں بن جائے اور ’’ایرا‘‘ کسی طرح تیسری قسط دینے سے بچ جائے تاکہ کسی مستحق کو اضافی تنخواہ یا بونس دیا جا سکے!

Saturday, August 14, 2010

After the deluge:disaster begets dissent begets disaster

( published in  daily  The Age  Australia   on 14 August 2010 )

THERE were still two hours before daybreak. The town was swept over by a silence filled with heat and humidity. Four hundred thousand human beings were sleeping in their homes. Almost the same number were sheltered in the refugee camps in and around the town. They had been displaced from their homes in the surrounding villages, which had been inundated.

Two hours before daybreak the pitch-dark silence was pierced by loud announcements relayed from the mosques dotted all around. The people were being asked to vacate the town. The flood was approaching them fast. The two rivers, guarding the town on its right and left, had swelled.

In no time, all types of vehicles from cars, trucks and wagons to horse-driven carts, had choked the road to Multan, the nearest city. In South Asia, on all such occasions two things happen: traffic lawlessness that makes the caravan move at snail's pace and victimisation from raised transport fares.

This happened on August 9 in Muzaffargarh, a town almost in the middle of Pakistan and south of Punjab, the largest province. It was one of hundreds of towns and thousands of villages that faced a similar exodus of panic-stricken inhabitants during the current unprecedented floods, which have turned the people speechless.

The disaster started out in Khyber Pakhtunkhwa, formerly known as North-West Frontier Province, bordering Afghanistan and a long-time victim of bomb blasts masterminded by religious extremists. After ravaging a substantial part of the land, drowning hundreds and making thousands destitute, the flooding crossed the provincial borders, devastating the fertile plains of Punjab and Sindh, two other provinces, and it is not over yet.

The impact has been horrendous. One-third of the country is inundated. More than 100 towns have been wiped out. The number of affected people, according to a United Nations report, exceeds 14 million. Millions have lost their homes, shops and factories. Many are waiting, on their roofs, to be rescued. Roads, railway tracks and bridges are no more. Social and economic infrastructure has been annihilated. A careful estimate quantifies the loss as 45 billion Pakistani rupees ($A580 million) but it is certainly an understatement as destruction of millions of hectares of arable land and standing crops is simply not possible to be computed. In any case the magnitude of loss is far greater than that caused by the colossal earthquake five years ago.

But the bigger tragedy is the myopic political leadership and the inability of state apparatus to confront the challenge. Community-based disaster preparedness is completely lacking mainly because of a high rate of illiteracy. Add to this the dissipation of the British administrative set-up by General Pervez Musharraf's despotic regime.

The real misfortune, however, is the quality of leadership. The President should not have embarked on a foreign trip, but those who are present have not shown any commendable performance either. Of four chief ministers, only one, that of Punjab, can be seen struggling to reach the needy. The army chief has also worked tirelessly.

The disaster is too big to be handled by a couple of enthusiasts. Most political leaders have not been able to make it to their constituencies. The few who did, could not rise above petty parochial considerations. Some are reported to have been more active about saving their personal fortunes.

The Prime Minister has appealed to the world community to extend aid. But will the world respond? It is not easy to answer this question: the Pakistani leadership's record on using foreign aid transparently has not been enviable.

The aid received for the 2005 earthquake is a case in point. A special organisation, the Earthquake Relief and Rehabilitation Authority, was created to manage the inflow. Five years down the line and the rehabilitation is still ''going on''. This authority is perhaps the only such body in the known world to have showered its employees with six months' pay as a bonus - a practice prevailing only in production-oriented organisations. The procurement of pricey luxury vehicles with the donation money has been another cause of concern. Hence there is not much hope for a positive reply to the Prime Minister's call.

Pakistanis generally do not trust government relief agencies. People prefer to give to non-public charities. This credibility gap provides space to extremist religious organisations. Lashkar-e-Taiba, accused by Indians of the 2008 Mumbai attacks, is one such outfit. Its charitable wing is distributing drinking water, food and medicine to thousands of affected people each day.

Western diplomats in Islamabad are concerned. These charity wings display banners and flags of their mother organisations. The masses, sick of corruption by politicians and the incompetence of the bureaucracy, naturally welcome them. Thus soft corners are created. It paves the way to recruitment of jihadists.

Lasting goodwill is the real capital these organisations are gaining. The tragic paradox is that the poorest areas of the country, Khyber Pakhtunkhwa and south Punjab, which have been proving nurseries for militants, are the worst hit by the flood.

The scenario is allowing militants a golden opportunity to entrench further by providing social services at a grassroots level and winning sympathy.

The floods have put an already fragile economy into a shambles. Rehabilitation will take decades. It will not be out of place to mention here that the country, since its birth six decades ago, has been suffering from monstrous social and economic evils such as feudalism, illiteracy and corruption.

Pakistan is still protecting the most primitive land-ownership pattern in the world. Big landlords foil efforts to establish educational institutions in their areas. Many school buildings are being used as cattle pens. Finding ways not to pay tax is the order of the day.

Nawaz Sharif, the opposition leader and head of the Pakistan Muslim League (Nawaz) or PML(N), the second biggest political party, owns plants and properties in Jeddah and London and assets worth billions of dollars within the country. He paid only 5000 rupees last year in income tax.

Likewise the other politicians who enjoy a jet-set lifestyle: against this backdrop, the rehabilitation work will be an uphill task. Social sectors, already allocated insignificant budgetary provisions, will not be able to supply the needs of the public for quite some time. No wonder militant organisations, sprinkling dispensaries and seminaries, thrive in this vacuum.

Muhammad Izhar ul Haq is a poet and journalist who lives in Melbourne and Islamabad.


·


Tuesday, August 10, 2010

صرف وزارتیں یا عزت بھی؟

برطانوی وزیراعظم کے لکڑ دادا فوج میں گھوڑ سوار تھے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کی 1857ء کی جنگ آزادی کو کچلنے میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا نام ولیم لو (LOW) تھا۔ ولیم لو نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی تلوار سے ’’باغیوں‘‘ کو قتل کیا اور پھر کس طرح سول آبادی کو کثیر تعداد میں پھانسی دینے میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے خود بھی کہا تھا کہ اُنکے آباؤ اجداد نے ہندوستان میں’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لیا تھا۔

’’10 جون 1857ء کو چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو جمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اُڑا دیا گیا۔ بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور تھوڑا تھوڑا کر کے تہہ تیغ کر دیا جائیگا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کیخلاف بغاوت کرنیوالے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان واقع پُل شوالہ پر سجادہ نشین نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔‘‘

اوپر کی سطور میں دو الگ الگ تحریریں نقل کی گئی ہیں۔ پہلا پیراگراف برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے لکڑ دادا کے بارے میں ہے اور دوسرا پیرا گراف جو میرے ایک محترم دوست کی تحریر ہے، ہمارے ایک وزیر کے لکڑ دادا کے بارے میں ہے۔ مجھ جیسے کُند ذہن شخص کے ذہن میں یہ دونوں تحریریں پڑھ کر کچھ سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب، ظاہر ہے، کوئی روشن دماغ ہی دے سکتا ہے۔

کیا دونوں بزرگوں کے کردار میں فرق ہے؟ اگر ایک ’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لے رہے تھے تو دوسرے کیا کر رہے تھے؟ کیا دونوں بزرگوں کے چشم و چراغ اپنے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس نہیں کرینگے اور اپنے اپنے بزرگوں کے کارناموں کو باعث افتخار نہیں سمجھیں گے؟ اور کیا یہ انصاف ہو گا کہ ایک بزرگ کے کارناموں کو تو خوب اچھالا جائے اور دوسرے بزرگ کے کارناموں کو چھپانے کی کوشش کی جائے؟

جتنی دیر میں آپ ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہے ہیں، میں آپ کو ایک اور طرف لئے چلتا ہوں۔ میں میلبورن کی جس آبادی میں رہائش پذیر ہوں، اُس کا نام ہائیڈل برگ  ہے جو ایک جرمن نے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کے نام پر رکھا تھا۔ شہر کے مرکز میں (جسے یہاں سٹی کہا جاتا ہے) جانے کے لئے میں ہائیڈل برگ ریلوے سٹیشن تک پیدل جاتا ہوں جو تقریباًپندرہ  منٹ کا فاصلہ ہے۔ وہاں سے ریل میں بیٹھ کر شہر کے مرکز تک پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔ میں جس روز پہلی بار ہائیڈل برگ ریلوے سٹیشن گیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ریلوے سٹیشن کے پاس ایک وسیع و عریض میدان ہر قسم کی چھوٹی بڑی کاروں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ گاڑیاں سینکڑوں کی تعداد میں پارک کی گئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ ہائیڈل برگ آبادی کے لوگ کام پر روانہ ہونے کیلئے ہر روز صبح اپنی اپنی کار میں اس مقامی ریلوے سٹیشن پر پہنچتے ہیں وہ اس میدان میں اپنی کاریں کھڑی کر دیتے ہیں، یہاں سے ریل پر سوار ہو کر ملازمت کی جگہ تک پہنچتے ہیں شام کو چھٹی کر کے دوبارہ ریل پر سوار ہوتے ہیں ہائیڈل برگ ریلوے سٹیشن پہنچ کر اتر جاتے ہیں۔ میدان سے اپنی کار لیتے ہیں اور پانچ دس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد گھر پہنچ جاتے ہیں۔

ہائیڈل برگ صرف ایک ریلوے سٹیشن ہے۔ میلبورن شہر میں کل تقریباً دو سو تیس ریلوے سٹیشن ہیں۔ یوں تو چھوٹے سے چھوٹے سٹیشن پر بھی ڈیڑھ دو سو کاریں کھڑی ہوتی ہیں لیکن ہم فرض کرتے ہیں کہ ہر ریلوے سٹیشن پر صرف ایک سو کاریں پارک کی جاتی ہیں، اس حساب سے دو سو تیس ریلوے سٹیشنوں پر تئیس ہزار کاریں صبح سے شام تک کھڑی رہتی ہیں۔ اب فرض کیجئے، میلبورن شہر میں مقامی ریلوے کو بند کر دیا جاتا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ 23 ہزار افراد اپنی اپنی جائے ملازمت تک کاروں میں جائینگے اور شام کو واپس بھی آئینگے، گویا شہر 23 ہزار کاروں کے دھوئیں سے بچا ہوا ہے۔ یہ کاریں دن بھر ٹریفک کے ہجوم میں شامل نہیں ہو سکتیں اور ہر روز ہزاروں ڈالر کا پٹرول الگ بچتا ہے۔ اس بچت کو اور اس دھوئیں کو 365 سے ضرب دیں تو سال بھر کے اعداد و شمار ہاتھ آ جائینگے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ مقامی ریل میں سفر کرنیوالے یہ افراد صرف مڈل کلاس سے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ان ٹرینوں میں کروڑ پتی بھی سفر کرتے ہیں۔ سوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے کمپنیوں کے ایگزیکٹو بھی ہیں اور بڑے بڑے سرکاری افسران اور وزیر صاحبان بھی سفر کرتے ہیں۔

اب آپ زحمت فرمائیں اور میرے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد تشریف لائیں۔ راولپنڈی اور اسکے گرد و نواح سے اسلام آباد پہنچنے کے تین بڑے بڑے راستے ہیں، پہلا موٹر وے کی طرف سے اسلام آباد میں داخل ہوتا ہے اور گولڑہ موڑ کے راستے پاک سیکرٹریٹ اور بلیو ایریا تک پہنچتا ہے۔ دوسرا صدر سے ہوتے ہوئے مری روڈ کے ذریعے فیض آباد سے داخل ہوتا ہے اور تیسرا چک لالہ سے ہوتا ہوا ائر پورٹ کی بغل سے گزرتا ایکسپریس ہائی وے کے ذریعے اسلام آباد کی طرف آتا ہے اور اس میں جہلم، گوجر خان اور روات سے آنیوالی ٹریفک بھی شامل ہو جاتی ہے۔ یہ تینوں راستے کئی گھنٹوں کیلئے میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جو شخص بھی جوں توں کر کے کار حاصل کر لیتا ہے وہ ویگن یا بس میں خوار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا  چنانچہ کاریں لاکھوں کی تعداد میں ہر روز راولپنڈی سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے واپس راولپنڈی کا سفر کرتی ہیں۔

حکومتوں سے تو کسی تعمیری کام کی توقع کرنا ہی بے وقوفی ہے، کیا نجی شعبے میں کوئی دماغ ایسا نہیں جو ان راستوں پر مقامی ریلوے چلانے کا سوچ سکے اور سرمایہ کاری کرے؟ ہمارے پڑوس میں دلی کا عفریت نما شہر ہے، 2003ء میں وہاں زیر زمین ریلوے شروع ہو گئی تھی۔ دو سال پیشتر دنیا کی چھ بہترین زیر زمین چلنے والی ریلوے کمپنیوں کی وساطت سے اس نظام کو بہتر کیا گیا ہے۔ آج دہلی شہر کے اندر چلنے والی زیر زمین ریلوے دنیا کے بہترین ریلوے نظاموں میں شامل ہو چکی ہے اور شہر کے دور افتادہ گوشے بھی اس سے ملا دیے گئے ہیں۔ دہلی میں ماحول کی آلودگی حیرت انگیز حد تک کم ہو گئی ہے کیوں کہ سینکڑوں ہزاروں پرائیویٹ گاڑیاں ریلوے کی وجہ سے شاہراہوں سے غائب ہو چکی ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک بڑی ہاؤسنگ کمپنی کو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد دورہ پڑتا ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں سوراخ کر کے سرنگیں بنائی جائیں اور پہاڑیوں کے اس پار والے علاقے کو اسلام آباد میں شامل کر کے مزید پلاٹ بنائے جائیں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کی جائیں، اگر یہ ہاؤسنگ ادارہ، مارگلہ پہاڑیوں کا پیچھا چھوڑ دے اور زیر زمین ریلوے منصوبہ بنا کر حکومت کو پیش کرے تو ہمیں یقین ہے کہ اس سے بھی اتنی ہی دولت کمائی جا سکے گی اور پلاٹ سازی کے بجائے ایک صحیح تعمیری اور ترقیاتی کارنامہ بھی سرانجام دیا جا سکے گا۔ لکڑ دادوں نے برطانوی ’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لیا تھا اور آج پڑپوتے وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ آج جو دردمند پاکستان کی تعمیر میں حصہ لے گا، کل اسکے پوتے اور پڑپوتے وزارتوں کے علاوہ عزت بھی پائیں گے۔!

Monday, August 09, 2010

The Pseudo Graduates of Pakistani Ruling Class.


The recent uproar in the elected house of Punjab, the largest Pakistani province, has once again proved that the ruling class has no lower limit in moral bankruptcy and can turn blatantly audacious to defend it also. The members were furious against the media who, according to them, was out to drag them through the mud on the issue of fake educational degrees. Academic degrees of a considerably large number of parliamentarians have turned out phony. These notorious politicians come from almost all political parties.

Higher Education Commission(HEC), The top education body of the country, has declared degrees of a large number of parliamentarians fake. Punjab parliament ,however, passed a resolution accusing the media of “irresponsibility that is damaging the democracy”. They however failed to clarify whether findings of Higher Education Commission were not based on facts. Journalists, in reaction, protested outside the assembly for more than three hours, chanting slogans against “forgers and cheats”. The media maintains that the scandals of fake degrees were unearthed by the politicians themselves to expose their rivals and media had done nothing except covering the stories which was part of their professional duties.

The dirty rich Pakistani politicians are already well known for amassing wealth through illegal means. A vast majority comes from feudal class who wield power through their fiefdoms and, for last many generations, have been occupying hereditary seats in provincial and federal elected assemblies. It may be mentioned that Pakistan is continuing with the most primitive land-ownership pattern and no serious attempt has been made during the sixty two years life of the country to bring any land reforms. The government functionaries posted in the arenas of these land- lords, including police, have to appease them lest they are transferred out. Criminals are thus protected and kidnapping for ransom is order of the day. There is no tax of any type on agricultural sector.

The non-agricultural members of Parliament, however, are not angels either. Pakistani consumers frequently face excruciating shortage of sugar and wheat-flour, the staple food in the region, and it is an open secret that the profiteering mill owners, responsible for shortage, have always been getting off the hook being members of cabinet and parliament.

Major political parties including the ruling PPP, are owned and run by the dynasties. No election has ever been held within these parties. The amendment in the country’s constitution brought by the army dictator Gen.Pervez Muasharraf, now in self exile, making the intra- party elections mandatory, has been undone by the present parliament. The ruling party is headed by the husband of the slain leader Benazir Bhutto, who is on paper co-chairman of the party. His son, a student at Oxford, is the chairman. Muslim League (N), the second biggest party is led by Nawaz Shareef, the wealthy industrialist who oocupied prime minister’s office twice in past. He is assisted to control the party by his brother, nephew, son in law and other close relations. Similar is the plight of other parties.

Politicians are known for tax evasion. Mr.Nawaz Shareef whose realties and factories are sprinkled across the continents from Jeddah to London, has paid Rs.5000 ( less than $60) to the state exchequer as income tax. Asset declarations of many parliamentarians indicate that they are too wretched to afford even cars. Interestingly, the country’s Election Commission has accepted the declarations knowing very well that these “car-less” members own fleets of expensive luxury vehicles.



Recently a politician who was disqualified from the parliament by the apex court on the charge of having fake degree has been returned to the house by his constituency.



It appears that the war between the parliamentarians and the media, will last for quite some time before it is replaced by some new outrage involving corrupt political elite.



Tuesday, August 03, 2010

ہمارے دو عالی شان اوصاف

مسلمان ملکوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں آج کل کی دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں سرفہرست غلط فہمی جمہوریت کے حوالے سے ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بیسیوں مسلمان ملکوں میں سے صرف ترکی، پاکستان، ایران، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہی میں صحیح معنوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور باقی سارے ممالک میں آمریت کا بھوت ناچ رہا ہے لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دنیا بھول جاتی ہے کہ مصر میں مکمل جمہوری نظام ہے۔ جناب حسنی مبارک نے جمہوری عمل کے نتیجے ہی میں صدارت سنبھالی اور 1981ء سے یعنی گزشتہ انتیس برس سے صدارت سنبھالتے چلے آ رہے ہیں۔ انکی صدارت کا یہ تسلسل ایک مکمل انتخابی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ محمد علی پاشا کے بعد وہ مصر کے طویل ترین عرصہ تک ریاست کے سربراہ رہنے والے شخص ہیں۔ 1987ئ، 1993ء اور پھر 1999ء میں صاف شفاف غیر جانبدار ریفرنڈم کے نتیجے میں مصری عوام نے حسنی مبارک کو صدر منتخب کیا۔ اب اگر مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا تھا تو اس میں حسنی مبارک کا کوئی قصور نہیں تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مصری آئین ایک امیدوار کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو صدارتی انتخابات میں کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے جناب حسنی مبارک نے پارلیمنٹ کو حکم دیا کہ وہ آئین کو تبدیل کرے۔ چنانچہ 2005ء میں ترمیم کے ذریعے مخالف امیدواروں کو صدارت الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ الیکشن ہوئے تو ڈاکٹر ایمان نور کے مقابلے میں حسنی مبارک جیت گئے۔ مخالفوں نے دھاندلی کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ سرکاری وسائل بے دردی سے استعمال ہوئے۔ ووٹ خریدے گئے، غریب ووٹروں کو روپیہ اور سرکاری ملازموں کو دھمکیاں دی گئیں لیکن جب ڈاکٹر نور ایمان ’’جعل سازی‘‘ کے جرم میں پکڑے گئے اور پانچ سال کی قید بامشقت کی سزا اُن کا مقدر بنی تو سب لوگوں کو یقین آ گیا کہ مصر میں انتخابات حقیقی اور اصلی تھے۔ ہاں، یاد آیا کہ الیکشن کے بعد ڈاکٹر ایمان نور نے دھاندلی کا شور مچایا تو اسکے بعد ہی انکی جعل سازیاں منظر عام پر آئیں۔ آج بیاسی سالہ صدر حسنی مبارک حقیقی اور اصلی جمہوریت کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ اُنکی سلامتی اور انکے اقتدار کی صحت کیلئے ہر روز ایک کالے بکرے کا صدقہ دیا جا رہا ہے یا نہیں!



شام، مسلمان ملکوں میں بہاریں دکھلاتی جمہوریت کا ایک اور خوبصورت پھول ہے۔ ایک پاکیزہ اور پُرامن بغاوت کے نتیجے میں جنرل حافظ الاسد برسر اقتدار آئے۔ یہ 1970ء کی بات ہے۔ ایک سال بعد انہوں نے ریفرنڈم منعقد کرا کر جمہوریت کے پودے کو نیا اور تازہ پانی دیا۔ ریفرنڈم میں 99.2 فیصد عوام نے فیصلہ صادر کیا کہ حافظ الاسد موزوں ترین صدر ہیں انکے مقابلے میں کوئی نہیں تھا۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ دسمبر 1991 میں عوام نے چوتھی بار اُنہیں صدر رہنے پر مجبور کیا۔ جوں جوں صدر حافظ الاسد بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے تھے یہ غم انہیں کھائے جا رہا تھا کہ اُنکے بعد جمہوریت کے اس تناور درخت کو پانی کون دیگا؟ چنانچہ انہوں نے اپنے بڑے فرزند باصل الاسد کو اپنا جانشین نامزد کیا لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ باصل ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے اور حافظ الاسد کی وفات پر 2000ء میں اُنکے چھوٹے صاحبزادے جناب بشار الاسد صدر بنے۔ یہاں ایک مسئلہ یہ آن پڑا کہ بشار الاسد کی عمر چونتیس برس کی تھی اور آئین کہتا تھا کہ صدر چالیس سال سے کم نہ ہو۔ یہ مشکل پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم کر کے آسان کر دی۔ 2007ء میں ایک بار پھر ریفرنڈم ہوا اور بشار الاسد آئندہ سات سال کیلئے صدر منتخب ہوئے۔ تقریباً اٹھانوے فیصد شامی باشندوں نے اُنکے حق میں ووٹ ڈالے‘ اُنکی مخالفت میں کسی نے کھڑا ہونا گوارا ہی نہ کیا۔
 مسلمان ملکوں میں مکمل جمہوریت کی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسے لیبیا لیکن ہم بات کو اختصار کے دائرے کے اندر رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا تذکرہ کرینگے۔ کچھ متعصب مغرب نواز حضرات امریکہ، برطانیہ اور دوسرے اسی قسم کے غیر اسلامی ملکوں کی مثالیں دیتے ہوئے ذرہ بھر حیا نہیں کرتے۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکی سیاسی پارٹیوں کے اندر صدارتی امیدوار منتخب کرنے کیلئے ووٹوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ کبھی وہ سعیدہ وارثی کی مثال دیتے ہیں اور کبھی آسٹریلیا کی جولیا گلرڈ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں خواتین عام سیاسی کارکن تھیں لیکن آج اپنی اپنی سیاسی پارٹی کی سربراہ ہیں۔ ہمارا مؤقف اس ضمن میں واضح ہے اور اس سلسلے میں ہم، اللہ کا شکر ہے، کسی احساس کمتری کا شکار نہیں۔ غضب خدا کا، ہم ان نصرانیوں، مشرکوں اور غیر مسلموں کی نقالی کریں؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اس وقت جمہوری حوالے سے پورے مغرب کیلئے قابل رشک ہیں۔ تازہ ترین مثال جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی ہے جس میں وفاقی وزیر حضرت مولانا اعظم سواتی اور سینیٹر قبلہ مولانا طلحہ محمود جیسے جید اور یادگارِ سلف علماء کرام کا وجود اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کا مطلب ہے علماء کا گروہ اور اس میں واقعی علماء کرام ہی کو وزارتیں اور سینیٹ کی نشستیں دی جاتی ہیں۔ ہم یہاں معترضین کا منہ بند کرنے کیلئے اس جمہوری صداقت کا ذکر بھی کر سکتے ہیں کہ وفاقی وزیر سیاحت حضرت مولانا عطاء الرحمن کو خالص میرٹ کی بنیاد پر وزیر بنایا گیا ہے اگر ان کا نام پارٹی کے سربراہ کے نام سے ملتا جلتا ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ پارٹی کے سربراہ نے اقربا پروری سے کام لیا ہے۔



بات دور نکل گئی۔ ہم جمہوریت کی مثال دے رہے تھے۔ یکم اگست 2010ء کو جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کے ’’اندر‘‘ انتخابات ہوئے۔ ’’مرکزی جنرل کونسل‘‘ کا اجلاس لاہور میں رکھا گیا تھا۔ اس میں آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمن پانچویں بار اپنی سیاسی پارٹی کے سربراہ ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ ایک دن قبل پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انتخابات خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوں گے اور یہ کہ جے یو آئی صرف نعرے نہیں لگاتی بلکہ اس پارٹی میں حقیقی جمہوریت موجود ہے۔ اس انتخاب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حضرت مولانا بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں، انکے مقابلے میں پارٹی کا کوئی اور رکن کیوں نہ انتخاب لڑ سکا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو منطقی ہے نہ مبنی برانصاف! اگر اس قسم کے سوال ہونے لگیں تو کل کو لوگ یہ بھی پوچھ بیٹھیں گے کہ شام کے صدر بشار الاسد کے مقابلے میں کوئی انتخاب کیوں نہیں لڑتا؟ ہاں ! ہم یہ بتانا بھول گئے کہ مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود کا انتقال 1980ء میں ہوا۔ گزشتہ تیس برسوں سے پارٹی کی صدارت کا جمہوری بارِ گراں اُنکے فرزند ارجمند، حضرت مولانا فضل ارحمن مدظلہم العالی کے مضبوط کندھوں نے اٹھا رکھا ہے …؎



آسمان بارِ امانت نتوانست کشید



قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زندد



ایک اور اعتراض پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر یہ ہوتا ہے کہ ان میں اتفاق نہیں۔ یہ ایک اور معتصبانہ الزام ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں! اس سے پہلے علامہ اقبال نے بھی اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ شعر بھی کہا ہے ؎



یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے



کہ متفق ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف



لیکن یہ اتفاق اقبال کے بعد بھی نظر آتا رہا۔ جب بھی منتخب ارکان پارلیمنٹ کے مراعات کا سوال اٹھتا ہے تو پارلیمنٹ میں موجود ساری سیاسی جماعتیں متحد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جب بھی زرعی اصلاحات کا سوال اٹھتا ہے یا جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس لگانے کی بات کی جاتی ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہیں‘ اگر بھارتیوں میں ایسا اتحاد ہوتا تو وہاں 1951ء میں زرعی اصلاحات سے بچا جا سکتا تھا۔ افسوس! اتحاد نہ ہونے سے اُنکے ہاں فیوڈلزم دم توڑ گیا۔
 سیاسی پارٹیوں میں اتحاد کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایم این اے جناب جمشید دستی کو بچانے کیلئے مشترکہ کوششیں شروع کر دی ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ایم این اے صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مظفر گڑھ ڈسٹرکٹ ہسپتال پر حملہ کیا تھا اور ڈاکٹروں اور نرسوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ جناب جمشید دستی جب منتخب ہوئے تو ان کیخلاف چالیس ایف آئی آر تھیں لیکن حکومت مسلم لیگ نون کی ہے! وزیر قانون پنجاب نے ڈاکٹروں اور رکن اسمبلی کے درمیان ’’صلح‘‘ کیلئے لاہور میں مذاکرات کرائے جو ڈاکٹروں کی ’’ہٹ دھرمی‘‘ کے باعث ناکام ہو گئے۔ یہ کم فہم ڈاکٹر قانون کیمطابق انصاف چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں اس اتحاد کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ انصاف مانگنے والے ڈاکٹروں کو جیل میں ڈال دیا جائے۔
 

powered by worldwanders.com