بچوں کی عام سی لڑائی تھی لیکن زمیندار آخر زمیندار تھا۔ یہ شجاع آباد کے نواح کا واقعہ ہے۔ زمیندار نے سات سالہ بچی اور تین سالہ بچے پر خونخوار کتا چھوڑ دیا۔ ہسپتال میں دوائیں نہیں تھیں۔ جراثیم نے اپنا کام کر ڈالا۔ دونوں بچوں نے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر والدین کو کاٹنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹروں نے بچوں کے والد کو ویکسین لانے کیلئے کہا۔ ویکسین ملتان میں مل سکتی تھی۔ والد کے پاس کرایہ ہی نہیں تھا انصاف کیلئے وہ تھانے گیا تو مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
فارسی کے کلاسیکی شعرا کا قاعدہ تھا کہ اخلاقیات اور تصوف کے موضوع پر لکھتے تو اپنا مافی الضمیر واضح کرنے کیلئے حکایت بیان کرتے پھر حکایت سے نتیجے نکالتے جاتے اور نتیجوں کی روشنی میں موضوع کے ایک ایک پہلو کو تفصیل سے بیان کرتے‘ پردے گرتے جاتے‘ حجابات اُٹھتے جاتے اور پڑھنے والے کے دل میں اٹھتے ہوئے سوالات اپنے جواب پا لیتے۔ اس ملک کے مسائل‘ یوں لگتا ہے اتنے ہی مشکل ہو گئے ہیں۔ جتنے فلسفے اور اخلاقیات کے موضوع ہیں۔ یہ حکایت جو ہم نے اوپر بیان کی ہے اور جو پانچ دن پہلے کا واقعہ ہے‘ اپنے اندر بہت سے نکتے لئے ہوئے ہے۔ پہلا نکتہ کاٹنے کا ہے۔ کتے کے کاٹے ہوئے کو پیٹ میں سات ٹیکے نہ لگیں تو وہ پاگل ہو جاتا ہے اور جو سامنے آئے اسے کاٹ کھاتا ہے۔
امریکی امداد سے شمالی اتحاد نے شمالی افغانستان پر دوبارہ قبضہ کیا تھا تو ان دنوں کنٹینرز میں قیدیوں کو بند کر کے صحرا کی طرف لے جانے کا چلن عام تھا۔ لوہے کے ان کنٹینروں میں اس قدر شدید تپش ہوتی تھی اور وہ تپش صحرا کی گرمی سے مل کر ایسا جہنم تیار کرتی تھی کہ قیدیوں کے جسم سے پانی سوکھ کر ختم ہو جاتا تھا‘ وہ حواس کھو بیٹھتے تھے۔ پہلے تو ایک دوسرے کے کان چوسنے لگتے تھے اور پھر کاٹنا شروع کر دیتے تھے۔ کنٹینروں میں بند کر کے مارنے کا رواج سب سے پہلے کس نے شروع کیا تھا؟ چھوڑئیے جانے دیجئے…؎
افسوس!بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
ہم تو حکایت کے اس حصے کی محض تشریح کر رہے تھے جس میں کاٹنے کا ذکر ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ جس علاقے میں نو منتخب رکن قومی اسمبلی ہسپتال پر فوج کشی کر کے ڈاکٹروں کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچا سکتا ہے۔ اس علاقے میں تھانیدار کو کون پوچھے گا؟ اگر وہ مقدمہ درج کر لے تو زمیندار کتوں کے ساتھ تھانے میں بھی پہنچ جائیگا۔یہ علاقہ خادم پنجاب کی حکومت میں ہے اور قاف لیگ کے ہم نوائوں کو توڑ کر ساتھ ملانا ہو تو قاعدہ قانون بالائے طاق بھی رکھا جا سکتا ہے۔ تیسرا نکتہ ہسپتال میں ویکسین کا نہ ہونا ہے۔ ورلڈ بنک نے پہلے ہی شکایت کی ہے کہ پنجاب کا صرف ایک شہر ساری نوازشات کا اور ساری مہربانیاں اپنے دامن میں سمیٹے جا رہا ہے لیکن اس نکتے سے ایک اور نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ کہ سگ گزیدہ کیلئے درکار ویکسین اسی شہر کے ہسپتالوں میں مہیا کی جائیگی۔ جہاں زیادہ ضرورت ہو گی یعنی جہاں کتوں کے کاٹے ہوئے لوگ زیادہ آئینگے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سگ گزیدہ اور مردم گزیدہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ثبوت میں غالب کا شعر پیش کیا جاتا ہے۔ غالب کے استدلال کو رد کرنے کی ہمت کس میں ہے؟
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
لیکن اس حکایت سے نکلنے والا اہم ترین نکتہ زمیندار اور زمینداری کے بار ے میں ہے۔ یہ واقعہ جنوبی پنجاب کا ہے۔ ذرا جنوبی پنجاب کے متعلق مختلف حقائق ایک جگہ جمع کرتے جائیں۔ یہ علاقہ غربت کا گڑھ ہے۔ سارے پاکستان میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی مہلک بیماریاں یہاںسب سے زیادہ ہیں۔ یہاں مفت رہائش مفت کھانا اور مفت پڑھائی مہیا کرنیوالے مدارس سب سے زیادہ ہیں۔ پنجابی دہشت گردوں یا نام نہاد پنجابی دہشت گردوں کی بڑی تعداد اسی علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کی دوڑ میں
کام آنے والے معصوم بچوں کی اکثریت بھی یہیں سے ہے۔لیکن یہ سب توچھوٹی چھوٹی حقیقتیں ہیں۔حقیقتوں کی ماں تو ابھی آئی ہی نہیں اور وہ یہ یے کہ پورے پنجاب میں جاگیرداری سینکڑوں سال سے جوں کی توں صرف اسی علاقے میں قائم ہے۔تصوف پر منعقد ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں ہمارے ایک دوست نے جو معروف دانشور ہیں اپنا مضمون پڑھا تو کچھ اصحاب "وفا " نےہنگامہ کرنے کی کوشش کی ۔مضمون میں حقائق کی اسی ماں کا ذکر تھا۔
جون 1857ء میں ملتان چھائونی میں پلاٹون نمبر69 نے انگریزوں کیخلاف بغاوت کر کے جنگ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان تین سو مجاہدوں کو شہید کرنے کیلئے اپنے مریدوں کو ساتھ لیکر انگریز فوج کی مدد کس نے کی؟ موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے جد امجد نے! جلال پور پیر والا کے ایم این اے ہوں یا سید فخر امام‘ سب انہیں زمینداروں اور گدی نشینوں کے پشتینی وارث ہیں جنہوں نے مجاہدین آزادی کے سروں کی قیمت جاگیروں کی صورت میں وصول کی تھی۔ بتائیے‘ حکایت کے اس آخری نکتے کے سارے پہلو واضح ہونے پر جو شکل ابھرتی ہے‘ وہ کیسی ہے؟ جناب محمد علی درانی اور انکی طرح دوسرے ’’معصوم‘‘ حضرات‘ جنوبی پنجاب کیلئے الگ صوبے کا مطالبہ کرینگے لیکن کبھی یہ نہیں کہیںگے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو جاگیرداروں اور انکے کتوں سے بھی نجات دلائی جائے‘ اس لئے کہ دیوانہ بکار خویش ہشیار! سبحان اللہ!مسئلے کا مثالی حل تو یہی ہے کہ زمینداریاں اور جاگیریں جوں کی توں قائم رہیں اور کئی نسلوں سے ’’منتخب‘‘ہونیوالے سجادہ نشین اور زمیندار زادے جنوبی پنجاب کی الگ اسمبلی میں براجمان ہوں!
پاکستانی اخلاقیات کو واضح کرنے والی دوسری حکایت تو آپ سن ہی چکے ہوں گے۔ زبان زد خاص و عام ہے! نو منتخب رکن اسمبلی جناب جمشید دستی نے اپنے حامیوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں پر حملہ کیا اور یوں مسیحائوں کی مسیحائی کے مرتکب ہوئے۔ دستی کا اگر انگریزی ترجمہ کریں تو ’’ہینڈی‘‘ ہو گا۔ ’’ہینڈی مین‘‘ انگریزی میں اسے کہتے ہیں جو چھوٹے موٹے ہر قسم کے کام کر ڈالے۔ امریکہ اور کینیڈا میں ہینڈی مین کی گاڑی کی ڈگی میں دنیا بھر کے اوزار ہوتے ہیں۔ وہ ٹونٹی اور دروازہ ٹھیک کرنے سے لے کر ٹی وی‘ فریج اور باتھ روم کے شاور اور بجلی کے پلگ تک سارے کام کرتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو سندھ کے ایک مشہور و معروف اور انتہائی اہم ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے‘ ان دنوں امریکہ کے ایک شہر میں ہینڈی مین کا کام کر رہے ہیں۔ جب وہ ڈپٹی کمشنری کرنے کے بعد اسلام آباد میں جوائنٹ سیکرٹری تعینات ہوئے تو ان کی وزارت کے سیکرٹری نے … جو نوکر شاہی کے اسی ’’بادشاہ‘‘ اور بادشاہ گر‘‘ گروپ سے تعلق رکھتے تھے جس کے رکن جوائنٹ سیکرٹری بھی تھے۔ ان کا جینا دو بھر کر دیا۔ جوائنٹ سیکرٹری حلال کھانے اور ضمیر کی بات سننے پر یقین رکھتے تھے۔ تنگ آ کر ملک چھوڑ گئے اور ہینڈی مین بننا منظور کر لیا۔ جمشید دستی تو اس بادشاہ اور بادشاہ گر گروپ کے مقابلے میں معصوم لگتے ہیں۔ ہمیش خان کے انکشافات سنتے جائیے‘ چیف جسٹس نے کہاہے کہ مرکز میں بیٹھے ہوئے ایک اہم سیکرٹری کا نام بھی اس قصے میں آ گیا ہے۔ سبحان اللہ! کیا گروپ ہے ! غالب پھر یاد آگیا…؎
بھرم کھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
جمشید دستی کا ذکر آیا تو اشہب فکر دوڑ کر ڈاکٹر قدیر خان کی طرف چلا گیا۔ دو دن پہلے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے باتیں کر رہے تھے۔ ’’صرف جعلی ڈگریوں والے اور چوروں کو اس ملک میں امتیاز حاصل ہے۔ وہی بار بار منتخب ہوتے ہیں اور وہی مناصب حاصل کرتے ہیں‘‘ باسٹھ سال کی تاریخ کو ڈاکٹر صاحب نے ایک فقرے میں سمو دیا ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان سے سمندِ خیال نے جست لگائی ہے اور بھارتی سائنس دان عبدالکلام پر جا رُکا ہے۔ جسے بھارت نے ایٹم بم بنانے کے عوض اس قدر تکریم دی کہ ایوان صدر میں لابٹھایا۔
روایت ہے کہ عبدالکلام جن دو اٹیچی کیسوں کے ساتھ ایوان صدر گئے تھے‘ چار سال بعد انہی کے ساتھ وہاں سے نکلے۔ عبدالکلام کی خود نوشت سوانح ونگز آف فائر(آگ کے پر) تیرہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور ان تیرہ زبانوں میں چینی زبان بھی شامل ہے! کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ڈاکٹر قدیر خان بھی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی آپ بیتی لکھیں اور اگر اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں تو ان کے چہروں سے نقاب الٹ دیں!!
7 comments:
ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ کرنا مشکل ہے۔ عقلمند آدمی ہیں، شیشے کے گھر میں بیٹھ کر کسی پہ پتھر نہیں ماریں گے۔
محمد اظہر الحق صاحب ۔ مدت بعد آپ کی تحرير ديکھ کر مسرت ہوئی ۔ آپ بڑے لوگوں کی باتيں لکھتے لکھتے آخر ميں ايک انجنيئر کا ذکر کر گئے ۔ اُس انجيئر پر نوازشات رکھنے والے صرف ان پڑھ دستی کے ساتھی نہيں ہيں پہلے ہی تبصرے سے معلوم ہوا کہ پڑھے لکھے بھی ہيں
salam sir ....
aaj aap ka pehle blog urduweb pe aya hai mubarik ho -- aap ki email se pehle maine yahan coloumn parh liya tha ... parh kar soch rahi hoon kaun kehta hai insan mohazab ho gaya hai ??? aaj bhi insan apne liye jeeta aur apne liye sochta hai
سندھ کے لوگوں کو تو سمجھ میں آگیا ہے کہ اگر ان جاگیرداروں سے نجات حاصل کرنا ہے تو متحدہ کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا،مگر پنجاب کے لوگوں کی ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا ہے! :roll:
http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5638690,00.html?maca=urd-rss-urd-all-1497-rdf
ہاں جی ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب بھی بہت بڑے کرپٹ ہیں
اور اس کی سند بھی اس کائنات کے سب سے بڑے ایماندار نے دی تھی
لہذا ڈاکٹر صاحب کسی کو کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔۔۔
جعفر تمہیں ابھی تک سمجھ کیوں نہیں آیا؟
Post a Comment