Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, April 28, 2010

زمین کا بوجھ

اٹھارویں ترمیم کی رو سے سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرانے کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ اب سیاسی پارٹیاں ہمیشہ کیلئے چند مخصوص خاندانوں کی جاگیریں بن کر رہ گئی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی میں جو ایک ’’پڑھے لکھے دانشور قسم کے کارکن ہیں جیسے مشاہد حسین، احسن اقبال، اعتزاز احسن وہ اِن مالک خاندانوں کا پڑھائی لکھائی کا کام کرتے رہیں گے۔ لیکن یہ وہ مسئلہ نہیں جو اِس وقت ملک اور قوم کو درپیش ہے۔

پنجاب میں ان دنوں جاگیرداری کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فیوڈل سسٹم صرف نعروں سے ختم ہو گا یا اس مقصد کیلئے ٹھوس ہوم ورک کی ضرورت ہے؟ کیا وہ سیاسی جماعتیں جو ایک طویل عرصہ سے سندھ اور مرکز کی سطح پر ہر حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ آج تک زرعی اصلاحات کیلئے کچھ کام کر سکی ہیں؟ کیا سندھ اسمبلی میں یا قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں کوئی بِل پیش کیا گیا ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس تھنک ٹینک ہیں؟ اور کیا اپوزیشن کے پاس SHADOW- CABINET ہے؟ لیکن آپ اس سارے جھنجٹ میں نہ پڑیں۔ قوم کو جو مسئلہ اس وقت درپیش ہے، وہ اور ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیک وقت کئی نظام ہائے تعلیم چل رہے ہیں؟ اکثریت ٹاٹ پر یا زمین پر بیٹھ کر ان سکولوں میں ’’تعلیم‘‘ حاصل کر رہی ہے جہاں دیواریں ہیں نہ چھتیں نہ اساتذہ۔ شہروں میں کچھ نیم سرکاری سکول قدرے بہتر ہیں۔ پھر وہ تعلیمی ادارے ہیں جن کی فیس ہزاروں میں ہے اور چند خالص امریکی نسل کے سکول بھی ہیں جہاں فیس ڈالروں میں لی جاتی ہے۔لاکھوں مدارس بھی ہیں۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے آج تک اس پہلو پر کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ اور کوئی متبادل نظام پیش کیا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی مسلم لیگ کی متعدد شاخوں، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی سمیت کسی سیاسی جماعت نے اس ضمن میں کوئی پروگرام نہیں پیش کیا۔ نہ ان جماعتوں کو اس مسئلے کی گہرائی، گیرائی اور سنگینی کا ادراک ہے۔ لیکن اس موضوع کو بھی یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آج پاکستان کو جو مسئلہ درپیش ہے، وہ تو ایک اور ہی مسئلہ ہے۔

مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ قیمتیں ہر ہفتے نہیں، ہر روز بڑھ رہی ہیں۔ کبھی چینی غائب ہے اور کبھی آٹے کیلئے لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس زرعی ملک میں گوشت ہزار روپے میں مشکل سے دو کلو گرام آتا ہے۔ خالص دودھ، خالص شہد، خالص اناج اور خالص مکھن نوادرات میں شمار ہوتے ہیں۔ پھل افراط سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خریدنے کی استطاعت سو میں سے ایک آدھ خوش قسمت ہی کو ہے، مکان تعمیر کرنا اذیت سے کم نہیں۔ تعمیر کی لاگت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دوسری طرف پلاٹوں کی خریدوفروخت مکمل طور پر بند ہے۔ ایک کروڑ کا رہائشی پلاٹ ساٹھ لاکھ میں بھی نہیں بِک رہا۔ اور پچاس لاکھ والا پلاٹ تیس میں مشکل سے بِک رہا ہے۔ بازار سے خریدار غائب ہیں۔ ان سارے مسائل کا تجزیہ کون کرے گا؟ اس بحران۔ اس معاشی تاریکی کے اسباب کیا ہیں اور حل کیا ہے؟ چھوڑیے، رہنے دیجئے، مٹی ڈالیے، اصل مسئلہ جو اس وقت قوم کو درپیش ہے، اور ہے!

قومی جرائم کا ارتکاب کرنے والے، پاکستان کو گروی رکھ کر دوسروں کی غلامی کرنے والے، بڑے بڑے مجرم ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں۔ جنرل مشرف سے لے کر پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز تک لٹیرے لندن اور واشنگٹن میں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ ناچ رہے ہیں۔ تھرک رہے ہیں۔ مدہوش ہو کر مٹک رہے ہیں۔ طبلے بجا رہے ہیں لیکن اس وقت جو نازک مسئلہ پہاڑ جیسا منہ کھولے کھڑا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے!

اس وقت مملکتِ خداداد جس حساس اور قومی نوعیت کے مسئلے میں الجھی ہوئی ہے، وہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی ہے۔ شعیب ملک ہمارا ہیرو ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ مسلسل یہی کہتا رہا کہ اس کی عائشہ سے شادی تو کیا، کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ اور پھر اس نے عائشہ کو طلاق دے دی! ہاں اُس نے جب کہا کہ وہ عائشہ کو نہیں جانتا، اُس وقت بھی سچ بول رہا تھا اور جب اُس نے طلاق دی، اُس وقت بھی ہمارا ہیرو تھا۔ ہمارا ہیرو شعیب ملک ہے۔ ہمارا ہیرو گیند کو دانتوں سے کاٹنے والا بُوم بُوم آفریدی ہے، ہمارا ہیرو قدیر خان ہے نہ عبدالسلام۔ ہم تماش بین لوگ، ہم تماش بینوں کی قوم! ہمارا دانش وروں، سکالروں اور اہلِ علم سے کیا تعلق؟

اس وقت قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ شعیب ملک صبح کس وقت اُٹھے، انہوں نے جس میز پر ناشتہ کیا، وہ میز کہاں کا بنا ہوا تھا؟

ناشتے میں کیا کیا آئٹم تھے؟ کیا ثانیہ مرزا کی چائے کی پیالی میں شعیب نے چینی ڈالی اور ملائی یا ثانیہ کو خود یہ زحمت کرنا پڑی؟ دن میں ثانیہ کتنی بار مسکرائی؟ شعیب کو دن میں کتنی بار غصہ آیا؟ کیا ثانیہ مرزا کی والدہ محترمہ دوبارہ تو … میرے منہ میں خاک … نہیں گریں اور کیا ثانیہ مرزا اُن کے کندھے پر سر رکھ کر صرف ایک بار اشک بار ہوئیں؟ یہ جوڑا دن میں کتنی بار لباس بدلتا ہے؟ اُن کے جوتے کون پالش کرتا ہے؟ اور وہ جو ملک صاحب کا منصوبہ تھا کہ شادی کی تقریب کی کوریج کے حقوق میڈیا کو ساڑھے تین کروڑ روپے میں بیچیں تو کیا یہ معصوم خواہش پوری ہوئی ہے یا نہیں؟ نصیب دشمناں کہیں ثانیہ مرزا کو کھانسی تو نہیں آئی؟ کہیں شعیب ملک چھینکے تو نہیں؟ قوم زندہ ہے۔ قوم پائندہ ہے، انقلاب دستک دے رہا ہے۔ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے گھنٹوں نہیں، پہروں کھڑے رہنے والے، چلچلاتی دھوپ میں انتظار کرنے والے اور پولیس سے ڈنڈے کھا کر بھی ثابت قدم رہنے والے انقلاب لا کر رہیں گے۔ تماشہ زندہ باد۔ تماش بین پائندہ باد

Saturday, April 24, 2010

مظلوم اقبال

چوک پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک آدمی اونچی جگہ پر کھڑا ان سے مخاطب تھا۔ انوریؔ سننے کے لئے نزدیک ہو گیا۔ وہ شخص انوریؔ ہی کے شعر سنا رہا تھا اور لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ سنانے والا دم لینے کیلئے رکا تو انوری نے چیخ کر کہا…’’ یہ تو انوری کے اشعار ہیں! اس آدمی نے اثبات میں سر ہلایا…‘‘ہاں یہ انوری ہی کے اشعار ہیں۔

’’تو تم کیوں سنا رہے ہو؟‘‘

’’میں انوری ہی تو ہوں‘‘

اس موقع پر انوری نے اپنا وہ فقرہ کہا جو آج تک مشہور ہے کہ ’’شعر تو چوری ہوتے سنے تھے۔ شاعر چوری ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ وسط ایشیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے المیے کا ذکر کرتے وقت ہم آخر اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ رسم الخط بدل کر انہیں اپنے ماضی سے کاٹ دیا گیا لیکن ہم شاید یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری تو پوری کی پوری زبان ہی بدل دی گئی! جیسے صرف شعر نہیں، شاعر بھی چوری ہوگیا۔

ہر سال یوم اقبال آتا ہے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گائے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے وہ سربراہ جو اپنے نام نہاد عملی تصوف اور کھوکھلے علم کی تشہیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سکرین پر آکر رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور پھر سال بھر کیلئے بلوں میں واپس گھس جاتے ہیں۔ ضمیر جعفری مرحوم نے اس ضمن میں کہا تھا …؎

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں

پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

لیکن اس بنیادی نکتے پر کوئی بات نہیں کی جاتی کہ اقبال شناسی کے فقدان کا اصل سبب کیا ہے؟

1860ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد زارِ روس نے تاشقند پر قبضہ کیا۔ اس سے پہلے ترکستان کے دوسرے بڑے بڑے شہر وہ ہڑپ کر چکے تھے۔ 1917ء میں اشتراکی انقلاب آیا تو یہ قبضہ لینن کی حکومت کو منتقل ہو گیا۔ سوویت یونین نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کو اپنے ماضی اور عالم اسلام دونوں سے کاٹنے کیلئے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کیا اور لاطینی کر دیا لیکن کچھ عرصہ بعد جب اتاترک نے بھی انقرہ میں ترکی رسم الخط کو لاطینی میں بدل دیا تو اشتراکیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ ایک رسم الخط ہونے سے وسط ایشیائی مسلمان ترکی کے قریب ہو جائینگے۔ چنانچہ انہوں نے دوسرا وار کیا اور وسط ایشیاء پر لاطینی کے بجائے روسی رسم الخط مسلط کر دیا لیکن اس ظلم کے باوجود وسط ایشیائی اپنی زبان سے محروم نہ ہوسکے کیونکہ زبان وہی تھی فقط رسم الخط بدلا تھا۔ وہ اب بھی نوائیؔ ، جامیؔ، ابوسیناؔ اور بابرؔ کی تحریریں پڑھ سکتے تھے۔ اگرچہ نئے رسم الخط کیساتھ الجھنیں بھی آئی تھیں۔لیکن برصغیر کے مسلمانوں کیساتھ جو حادثہ پیش آیا وہ اپنی نوعیت کا انوکھا ہی تھا۔ یہاں شعر نہیں، شاعر چوری ہو گیا۔ رسم الخط تو وہی رہا، پوری زبان اٹھا لی گئی، انیسویں صدی کی تیسری دہائی تھی۔

جب لارڈ میکالے نے ایک خاص طبقہ پیدا کرنے کیلئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا۔ یہ طبقہ اسکے الفاظ میں رنگت کے اعتبار سے مقامی لیکن اندر سے انگریز تھا۔ روسی بے وقوف تھے۔ رسم الخط بدلنے کے چکر میں الجھ گئے۔ انگریز شاطر اور مکار تھے۔ انہوں نے اردو کو چھیڑا نہ فارسی کو۔ انہوں نے صرف یہ کیا کہ اعلیٰ تعلیم کی اور روزگار کی زبان انگریزی کو قرار دیا اب کون ہوگا جو فارسی اردو پڑھ کر بے روزگاری کے دریا میں غوطے کھاتا۔ معاش، تہذیب و تمدن تو کیا، اپنے پیاروں کو چھڑوا دیتا ہے۔چنانچہ سو سال سے کم عرصہ میں ایک ہزار سال پر محیط ادبی اور تہذیبی میراث درس گاہوں گلیوں بازاروں مکانوں اور دالانوں سے منہ موڑ کر مخطوطوں پرانی لائبریریوں اور عجائب گھروں میں بند ہو کر رہ گئی۔

آج سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر پوچھئے کہ بیدل کون تھا؟ نظیری کہاں سے آیا تھا؟ صائبؔ طالبؔ آملی، ابو طالبؔ کلیم، عرفیؔ، فیضی اور ابو الفضل لوہار تھے یا ترکھان؟ آخر کئی سو سال تک ایران سے نقل مکانی کا تانتا کیوں بندھا رہا؟ ہر صاحب کمال بخارا، سمرقند، نمنگان، شیراز، اصفہان، تبریز اور تہران کیوں چھوڑتا تھا اور دہلی کا رخ کیوں کرتا تھا، طالب علم تو طالب علم ہیں، اساتذہ بھی جواب نہیں دے سکتے۔

یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے اہل علم اپنے ہی ماضی کے مشاہیر سے بے خبر ہیں! آج کتنے پڑھے لکھے پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ غالب کا اصل کارنامہ اس کا فارسی کلام ہے۔ اردو شاعری تو وہ چھینٹے ہیں جو ادھر اْدھر پڑ گئے تھے!۔ اب اس سیاق و سباق میں غور کیجئے کہ اقبال کتنا مظلوم ہے! خطاب تو اسے شاعر مشرق کا دیا گیا، حکیم الامت بھی کہہ دیا گیا، قومی شاعر بھی قرار دیدیا گیا لیکن اسکے ستر فیصد کلام کو پڑھا ہی نہیں جاتا، پڑھا جا سکتا ہی نہیں۔ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ جاوید نامہ، اسرار و رموز۔ پیامٍ مشرق زبور عجم، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز کا تین چوتھائی حصہ۔ سب فارسی میں ہیں اور شاید ہر دس ہزار لوگوں میں فارسی جاننے والا ایک بھی مشکل سے ملے گا!۔

آپکا کیا خیال ہے کہ کیا اقبال کا اردو کلام پڑھا جاتا ہے؟ اور سمجھا جاتا ہے؟ اور کیا آپکو معلوم ہے کہ اردو اس ملک میں روبہ زوال ہے؟ اس لئے کہ جڑ کے بغیر کوئی درخت کھڑا نہیں رہ سکتا اردو کی جڑ فارسی ہے۔ آج جن لوگوں کو اردو جاننے کا دعوی ہے انکی اکثریت فارسی سے نابلد ہے اور اردو جاننے والے غلط اردو پڑھا رہے ہیں اور اس طرح پڑھا رہے ہیں کہ یہ پڑھنے والے اردو کے جوہر سے آشنا نہیں ہو سکتے اسکی مثال یوں سمجھیے کہ ایرانی ساری عرب دشمنی کے باوجود فارسی زبان و ادب کے طلبہ کو بنیادی عربی ضرور پڑھاتے ہیں اس لئے کہ عربی زبان و ادب فارسی میں رچا بسا ہوا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنے قومی شاعر کے کلام کے انہی حصوں سے آشنائی ہے جو گویوں نے گائے ہیں اور بار بار گائے ہیں۔ جیسے خودی کا سرِ نہاں لاالٰہ الا اللہ اور، ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان۔اقبال کی مظلومی کے اس پہلو پر بھی غور کیجئے کہ کہا تو اس نے یہ تھا کہ…؎

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

نے ابلہِ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

لیکن ابلہِ مسجد اور تہذیب کے فرزند۔ دونوں نے اسے اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا اور خوب کیا۔ غلام احمد پرویز سے لیکر ڈاکٹر اسرار احمد تک… اور سبز دستاروی سے لیکر سرخ پرچموں تک۔ ہر ایک نے اقبال سے فائدہ اٹھایا۔ کسی کو صرف یہ یاد رہا کہ دین مْلّا فی سبیل اللہ فساد اور کوئی سارے کلامِ اقبال سے۔ ہر خوشۂ گندم کو جلادو۔ والا شعر اڑا لایا لیکن اس مطلب برآری اور خود غرضانہ استعمال سے خدا کا کلام نہ بچ سکا تو اقبال کا کلام کیا کرتا
جس قرآن نے بار بار تدبّرکی تعلیم دی اور قوت و شوکت کی اہمیت جتائی اسی کو دنیا سے پیچھے رہنے کے لئے آڑ بنایا جا رہا ہے ۔ خود اقبال ہی نے تورونا رویا تھا
 
اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایامہ و پرویں کا امیر
رہی یہ بات کہ عربی  اور فارسی پڑھ کرہم ترقّی نہیں کر سکتے توانگریزی کو ماں باپ بنا کر  ہم نے جتنی ترقی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔اس کے مقابلے میں ایران ،جہاں سب کچھ فارسی میں ہوتا ہے،بجلی میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ برآمد بھی کرتا ہے۔ترقی دوسروں کی زبان اپنانےسے نہیں ہوتی  محنت اور عزت نفس سے ہوتی ہےاور یہ وہ اجناس ہیں جو بازار میں نہیں ملتیں
بات دور نکل گئی۔آئیے۔یوم اقبال پر اُس ظلم کو بھی یاد کریں جو اقبال پر ہو رہا ہے۔   ،       

Tuesday, April 20, 2010

بسم اللہ

فرض کریں میاں محمد شہبازشریف یا امیر حیدر ہوتی یا سید قائم علی شاہ نے اپنی فیکٹری چلانی ہے اور اس کیلئے وہ ایک لائق فائق منیجر تعینات کرتے ہیں۔ منیجر اپنے فرائض کے بارے میں پوچھتا ہے اور اسے اس کا کام سمجھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ سہولیات کے متعلق استفسار کرتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اسے ایک گھر اور ایک گاڑی مہیا کی جائیگی۔ اب وہ منیجر کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو، اسے ایک کے بجائے دو یا تین یا چار گھر رکھنے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی اسے کئی گاڑیاں رکھنے دی جائیں گی۔ وجہ ظاہر ہے۔ فیکٹری کے قانون میں یہی لکھا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر منیجر کو کھلی چھٹی دے دی گئی تو اس کے ماتحت بھی اسی رویے کی توقع کریں گے اور توقع نہ پوری ہوئی تو بددلی پھیلے گی۔ کارکردگی متاثر ہوگی اور فیکٹری کی پیداوار کم ہو جائے گی۔

یہ نجی شعبے کا عمومی رویہ ہے۔ یہ فرد کا رویہ بھی ہے۔ میاں شہبازشریف یا سید قائم علی شاہ فرد کی حیثیت میں، غیر سرکاری حیثیت میں، اپنے ذاتی نجی کاروبار کے ضمن میں جو فیصلہ بھی کریں گے، نپا تُلا اور جچا ہوا ہوگا۔ کسی کو اس کے حق سے زیادہ دیں گے نہ کم۔ مہذب ملکوں میں اس اصول کا فرد سے آگے بڑھ کر حکومتوں پر بھی اطلاق کردیا گیا ہے۔ حکومت اس طرح چلانی ہے جیسے اس کا نقصان ذاتی نقصان ہے اور اس کا فائدہ ذاتی فائدہ ہے۔ جو احتیاط ذاتی کاروبار میں ملحوظِ نظر رکھی جائے گی، بالکل وہی احتیاط حکومت کے کاموں میں برتی جائے گی۔ اگر میں اپنے کاروبار کا نقصان نہیں برداشت کرسکتا اور اپنے منیجر کو صرف ایک گھر دیتا ہوں تو میں خودبطور وزیراعلیٰ کتنے گھر رکھ سکتا ہوں؟ کیا یہ جائز ہے کہ تین گھروں کو وزیراعلیٰ کا گھر قرار دیا جائے اور تینوں پر پولیس کی بھاری نفری متعین کی جائے اور سارے گھروں میں پڑوسیوں کی،گلی والوں کی، محلے والوں کی زندگیاں اجیرن کردی جائیں؟ اور اگر میں بطور وزیراعلیٰ اپنے لئے یہ سب جائز سمجھتا ہوں تو پھر میرے وزیروں کیلئے بھی یہی اصول ہونا چاہئے اور پھر چیف سیکرٹری اور دوسرے اہلکاروں کو بھی اسی ڈگر پر چلنے دیا جائے۔

یہ پہلا اصول ہے کاروبار حکومت کو دیانت داری سے چلانے کا۔کہ حکومت کے مال کواسی احتیاط سے خرچ کیا جائے جس احتیاط سے ذاتی رقم صرف کی جاتی ہے دیانت اور میرٹ کے وہی اصول بروئے کار لائے جائیں جو ذاتی کاروبار میں لائے جاتے ہیں۔ذاتی کاروبار میں جعلی ڈگری پکڑی جائے تو وہ شخص زندگی بھر کیلئے نااہل قراردیا جائے گا بلکہ اس کی اولاد کیلئے بھی کوئی ہمدردی نہیں رکھی جائے گی۔ ذاتی جہاز باہرجائے گا تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اس میں بٹھا کر بیرون ملک کی سیریں نہیں کرائی جائیں گی۔ اپنے گھر میں بجلی کا استعمال بھی کم ہوگا اور نوکر بھی حساب کتاب سے رکھے جائیں گے۔ مہمان آئے تو ان کی خاطر داری میں حد سے نہیں گزرا جائے اور اتنی ہی مہمانداری کی جائے گی جس کی استطاعت ہے۔

افسوس! یہ اصول جو سارے ترقی یافتہ ملکوں میں حکومت کرنے کی بنیاد ہے، پاکستان کے نزدیک سے بھی نہیں گزرا۔ دوسرے ملکوں میں کابینہ کی تعداد دیکھئے، سرکاری وفود کا سائز دیکھئے، صدر وزیراعظم اور دوسرے وزیروں کو دی گئی مراعات کا جائزہ لیجئے اور پھر پاکستان سے مقابلہ کیجئے، ایک اور پچاس کا تناسب ہے۔ دور کیوں جایئے، بھارت ہی کو لے لیجئے، بھارت میں اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹ کے سپیکر کا موازنہ اپنے سپیکروں سے کیجئے اور سر دُھنیے…ع

ببین تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا!

دوسرا اصول جو ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے یہ ہے کہ جو کاغذ پر تحریر کردیا جائے گا، اس پر ہرحال میں عمل کیا جائے گا۔ لکھے ہوئے حرف کی حُرمت کا ان ملکوں میں کیا کہنا! کسی کا باپ ہو یا کسی کا نورِ نظر… اس کیلئے لکھے ہوئے لفظ میں رد و بدل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ اصول صرف حکومت کے شعبے میں نہیں، نجی زندگیوں پر بھی چھایا ہوا ہے۔ اگر دعوت کے کارڈ پر کھانے کا وقت نوبجے ہے تو اس کا مطلب نو بجے ہے۔ اس کامطلب نو بج کر ایک منٹ بھی نہیں۔ برات گیارہ بجے پہنچنی ہے تو گیارہ بجے ہی پہنچے گی۔ تقریب آٹھ بجے شروع ہونی ہے تو صدارت وزیر نے کرنی ہے یا ایم این اے نے، آٹھ بجے ہی شروع ہوگی۔الیکشن کمیشن کے قوانین میں لکھا ہے کہ تین لاکھ سے زیادہ انتخابی مہم پر خرچ کرنے والے کو نااہل قرار دیا جائے گا تو ایسے امیدوار کو نااہل ہونے سے سرکوزی بچا سکتا ہے نہ اوباما۔ نوکری میں آنے کی عمر اٹھائیس سال ہے تو صدر یا وزیراعظم بھی اٹھائیس سال ایک ہفتہ والے کو اجازت نہیں دے سکتے۔ قانون میں لکھا ہے کہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے والے کو گرفتار کیا جائے گا تو وزیراعظم کا بیٹا ہے یا چیف جسٹس کی صاحبزادی، رعایت نہیں دی جاسکتی۔ میڈیکل کالج میں داخلے کی شرائط نہیں پوری ہو رہیں تو صدر کا بیٹا بھی داخل نہیں کیا جائے گا۔ شاہراہوں کی ٹریفک وزیراعظم کیلئے بھی نہیں روکی جائے گی۔ طیارہ سپیکرہو یا اس کی بیگم ا، ایک منٹ بھی مقررہ وقت سے زیادہ انتظار نہیں کرے گا، اور انکم ٹیکس، حکمرانوں سے بھی ایک ایک پیسے کا حساب کرکے لیا جائے گا۔

اس کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھئے، لکھا ہوا قانون صرف عام آدمی کیلئے ہے۔ صدر، وزیراعظم، کابینہ کے ارکان، اسمبلیوں کے ممبر، بیورو کریسی کے سرخیل…سب لکھے ہوئے قانون کو پیروں تلے روندتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ پولیس ان کے سامنے بے بس ہے۔ انکم ٹیکس کے اہلکار کچھ نہیں کرسکتے۔ ٹریفک پر مامور سپاہی مٹھیاں بھینچ کر انہیں گندی گالیاں تو دے سکتے ہیں، سزا نہیں دے سکتے۔ ان کے غیر قانونی پلازے نہیں گرائے جاسکتے۔ ان کیلئے طیارے اور ٹرینیں تین تین گھنٹے لیٹ کی جاتی ہیں۔ ان سے قرضے نہیں واپس لئے جاسکتے۔ ان کے اسلحہ خانوں کے معائنے نہیں کئے جاسکتے۔ یہاں تک کہ ان کے نجی جیلیں بھی قانون سے ماورا ہیں۔

جب تک یہ دو اصول پاکستان کے سرکاری شعبے پر نافذ نہیں کئے جاتے، دنیا کی کوئی طاقت اس ملک کو ترقی کے راستے پر نہیں ڈال سکتی۔بے شک اٹھارہویں ترمیم کے ایک ہزار ایک جشن منا لیجئے، لیڈروں کی سالگرہوں پر ایک ایک ہزارمن کے کیک کاٹ لیجئے، امریکی لیڈروں سے ملاقات کرنے پر غبارے اور کبوتر چھوڑ لیجئے چار صوبوں کے چار سو صوبے بنا لیجئے، قوم کو لاکھوں مژدے سنا لیجئے، جب تک یہ ان دو اصولوں پر عمل نہیں ہوگا، آپ ایک ہزارسال کے بعد بھی جہاں کھڑے ہیں، وہیں کھڑے ملیں گے۔ ہاں اگر صرف وقت گزاری کا ارادہ ہے اور صرف عیاشی کرنی ہے اور صرف محلات کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے اور صرف تجوریوں کی توندیں بڑی کرنی ہیں اور صرف شکم کے تنوروں میں آگ جلانی ہے تو بسم اللہ۔ شوق پورا کرلیجئے

Saturday, April 17, 2010

تنی ہوئی رسی اور اس پر چلنے والے

’’چھوٹے سے گھر میں چار باورچی خانے؟‘‘

ان پڑھ دکاندار نے ان پڑھ بیوی سے پوچھا

’’ہاں! چھوٹے سے گھر میں چار باورچی خانے!! میں ایک باورچی خانے میں سب بہوؤں کومقید کرکے انہیں مجبور نہیں کرنا چاہتی کہ انہیں اپنے لئے الگ الگ مکان ڈھونڈنے پڑیں۔ میں پہلے دن ہی انہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ اس گھر میں یہ تمہارے کمرے ہیں اور یہ تمہارا باورچی خانہ جی چاہے تو گوشت پکاؤ اور جی چاہے تو چٹنی کیساتھ کھاؤ۔ خوش رہو یا جھگڑے کرو‘ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں!

ان پڑھ شوہر کو ان پڑھ بیوی کی بات سمجھ آگئی لیکن ہمارے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کویہ نکتہ ماضی میں سمجھ آیا نہ اب آرہا ہے! پہلے انہوں نے ون یونٹ کا بت تراشا اور عددی اکثریت رکھنے والے بنگالیوں کو مصنوعی برابری کے مکروہ جال میں پھانسا‘ پھر فوج کوان پر مسلط کرکے عساکر پاکستان کو بدنام کیا اور اب ایک طرف پشتو بولنے والوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہزارہ میں قتل وغارت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے! مشہور امریکی مورخ باربرا ٹک مین نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف
MARCH-OF- FOLLIES
میں یہی تو کہا ہے کہ حکومتیں عقل و دانش کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں۔ لیکن فرد اپنا فیصلہ ہمیشہ عقل مندی کی بنیاد پر کرتا ہے خواہ وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو۔ باربرا ٹک مین کے خیال میں عقل مندی کی تعریف یہ ہے کہ فیصلہ کرتے وقت تین باتوں کو بنیاد بنایا جائے۔ اول‘ ماضی کا تجربہ دوم ماضی کی بنیاد پر مستقبل میں پیش آنیوالے حالات کا اندازہ اور سوم‘ کامن سینس‘ افسوس! ہمارے سیاستدانوں نے مشرقی پاکستان کے حادثے سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ الگ ہو گئے۔ اسکے بعد دوسروں کو غدار کہنے کا اور سازش کرنے کا وطیرہ تبدیل ہو جانا چاہئے تھا لیکن اب بھی وہی رویے ہیں۔ ہم سے زیادہ عقل مند تو بھارتی پالیسی ساز نکلے۔ بھارتی پنجاب جو پاکستان پنجاب کی نسبت پہلے ہی بہت چھوٹا تھا۔ تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہندی اور پنجابی بولنے والوں کا اکٹھا گزارہ نہیں ہو رہا تھا۔ بھارتی پارلیمنٹ نے ستمبر 1965ء میں ’’سردار حکم سنگھ پارلیمان کمیٹی‘‘ کی تشکیل دی۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں تو ان سفارشات کو سردخانے میں ڈالنے کی کسی نے کوشش نہ کی۔ سفارشات کیمطابق بھارتی حکومت نے جسٹس جے سی شاہ کی سربراہی میں ’’شاہ کمیشن‘‘ تشکیل دیا۔ کمیشن نے مئی 1966ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ نے تجویز کیا کہ حصار‘ ماہندر گڑھ‘ گڑگاؤں‘ رہتک اور کرنال کے اضلاع کو باہم ملا کر ’’ہریانہ‘‘ کا نیا صوبہ وجود میں لایا جائے کچھ اور ضلعوں سے چند تحصیلیں بھی شامل کی گئیں۔ چنانچہ ’’پنجاب تشکیل نو بل طے پا گئے۔ جلوس نکالے گئے نہ گولی چلی‘ الزامات لگے نہ جوابی الزامات‘ یہاں تک کہ مرکز کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں نشستوں کی تعداد کا مرحلہ آیا تو وہ بھی بات چیت اور افہام و تفہیم سے طے پا گیا۔ پھر اسی انداز میں جنوری 1971ء میں ایک اور صوبہ ہماحل پردیش معرض وجود میں لایا گیا۔ اس بار بھی پنجاب کے علاقے کاٹ کر نئے صوبے کو دئیے گئے‘ کسی کی غیرت کا آبگینہ ٹوٹا نہ کسی کو احساس شکست ہوا نہ کسی نے بھنگڑے ڈالے۔ نہ لڈیاں ڈالی گئیں اور نہ انکوجن کے صوبے نہیں بنے تھے‘ مشتعل کیا گیا۔

نئے صوبے بننے چاہیں اس لئے کہ عوام کو انتظامی نکتہ نظر سے آسانیاں بہم پہنچیں اس لئے نہیں کہ زبان پر فخر کیا جائے یا نسل پر تکبر کیا جائے۔ جو زبان پر فخر کرتا ہے یا نسل کی وجہ سے برتری کا اظہار کرتا ہے۔ وہ نہ صرف جاہل ہے بلکہ احمق بھی ہے۔ اس میں اس کا تو کوئی کمال ہی نہیں۔ اگر کوئی اپنی نسل بدل کر دوسری نسل اختیار کر لے۔ یا ولدیت بدل لے یا مادری زبان بدل لے‘ تب تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے یہ کسب کمال خود کیا ہے اور یہ میرا اپنا فیصلہ ہے۔ جس زبان یا نسل پر اسکا کوئی اختیار ہی نہیں‘ اس پر بھنگڑے ڈالنے میں کیا منطق ہے؟

بات ہو رہی تھی صوبوں کی تشکیل انتظامی نکتہ نظر سے کرنے کی۔ اگر ہزارہ کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پشاور جانا ان کیلئے اس گرانی اور بدامنی کے زمانے میں مشکلات میں اضافے کا سبب ہے اور ایبٹ آباد کو انتظامی مرکز قرار دینے سے انکے شب و روز میں سہولت پیدا ہو سکتی ہے۔ تو ہزارے کا صوبہ ضرور بننا چاہئے۔ اسی طرح پنجاب کے جو علاقے لاہور سے دور ہیں‘ جیسے اٹک‘ میانوالی اور بہاولپور‘ وہاں بھی نظم و نسق کے نکتہ نظر سے نئے صوبے ضرور بننے چاہیں۔ لیکن اگر نئے صوبوں کے مطالبوں کے پیچھے دوسرے عزائم ہوں اور نسل‘ زبان اور علاقائیت کا فروغ مقصود ہو تو پھر یہ مطالبات صحت کی نہیں بیماری کی علامت ہیں اور غریب علاقوں پر وہاں کی اپر کلاس کی حاکمیت کو دوام بخشنے کی سازش ہے۔ آج دنیا ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ لوگ نقل مکانی کرکے دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں تاکہ انکی آئندہ نسلیں بہتر تعلیم حاصل کر سکیںاور زیادہ مہذب معاشروں میں سانس لے سکیں۔ ایسے میں پختون ہوں یا ہزارہ یا سرائیکی‘ انہیں اپنے اپنے خول میں بند کر دینا ان سے دشمنی کے مترادف ہے۔ کاش! اسفند یارولی صاحب اس بات کی فکر کرتے کہ وزیرستان اور سوات کے پختون تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے انتہا پسندوں کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ پختونوں کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے تاکہ وہ واپس آکر سماجی انقلاب لاتے۔ اس نسلی تفاخر کا کیا فائدہ جوغربت افلاس اور جہالت کا سدباب نہیں کر سکتی‘ آج اگر وزیرستان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھاہوتا تو کوئی انتہا پسند مذہب کے نام پر غریب پختونوں کا استحصال نہ کر سکتا۔ لیکن خواتین‘ ملک اور سیاسی پارٹیوں کے ’’مالک‘‘ کب چاہتے ہیں کہ عام پختون ترقی کرے اور پھر انہیں للکارے۔ بالائی طبقے کی بقا اسی میں ہے کہ وہ غریبوں کو اس افیون میںمبتلا کر دیں کہ تم پختون ہو یا تم ہزارہ ہو یا تم مری ہو یا بگٹی ہو اور پھر ان پر حکومت کرتے رہیں۔ انہیں جھوٹا یا سچا ثابت کرنے کیلئے جلتے کوئلوں پر چلاتے رہیں اور سیاسی پارٹیوں پر اپنے خاندان کی اجارہ داری مستحکم کرتے رہیں۔ وزیراعلیٰ بھی اسی خاندان سے ہو اور پارٹی کی سربراہی بھی وراثت کا حصہ ہو۔
نئے صوبوں کا مطالبہ تنی ہوئی رسّی ہے۔اس پر چلنے والے ہوشیار رہیں ۔کہیں کسی آمر کی باقیات اپنا اُلو نہ سیدھا کر لے۔ 

Tuesday, April 13, 2010

ڈاکٹر چلا گیا

اٹھارھویں ترمیم سے اور تو کچھ ہوا یا نہیں، ڈاکٹر چلا گیا!

ڈاکٹر گیارہ سال پہلے وطن واپس آیا تھا۔ اس کے پاس امریکہ کی بلند ترین ڈگریاں تھیں اور بہت بھاری تنخواہ چھوڑ کر لوٹا تھا۔ اسے یورپ میں ایک بڑے طبی ادارے کی سربراہی کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن اس نے خاندان کی مخالفت کے باوجود سب کچھ تج دیا اور مفلوک الحال پاکستانی مریضوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار واپس آگیا۔ اسے دو طبّی اداروں نے مغرب میں اور ایک نے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی وقت آجانے کا بلینک چیک دے دیا۔

پاکستان میں ان دنوں جمہوری حکومت تھی لیکن حالات حوصلہ فرسا تھے، ایک خاص شہر اور ایک خاص برادری مرکز میں چھائی ہوئی تھی۔ پھر مارشل لاء آگیا اورجنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہ وہ ساعت تھی جب سیاست دانوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ڈاکٹر پرامید ہوگیا۔ جنرل مشرف کے پہلے تین سال نسبتاً بہتر تھے، لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے گریڈ سولہ سے نیچے کی بھرتی کے اختیارات واپس لے لئے۔ ڈاکٹر پر مایوسی چھاگئی، جمالی صاحب ایک لحاظ سے واضح اعلان کر رہے تھے کہ سیاسی مداخلت کے بغیر بھرتیاں اہل سیاست کو نہیں راس آتیں۔ ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسے ملک میں جو پیچھے کی جانب جا رہا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل روشن نہیں دیکھ رہا۔ اس لئے واپس جا رہا ہے لیکن کچھ دوستوں کی ضد کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیئے اگلے چھ سال اس نے شدید ذہنی کشمکش میں گزارے۔ وہ حساس طبیعت رکھتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے پاس بہترین نعم البدل تھے۔ وہ کہتا تھا کہ ملک پر تین افراد حکومت کر رہے ہیں۔ جنرل مشرف، جنرل حامد جاوید اور طارق عزیز۔ اور تین افراد… نابغہ بھی ہوں، افلاطون کو بھی مات دیں، تب بھی ان کی ذہانت ملک کو بچانے کیلئے ناکافی ہوتی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ جسٹس افتخار چوہدری نصف درجن جرنیلوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے اور ملک میں تحریک چل نکلی۔ 2008ء کے الیکشن میں قاف لیگ ہاری تو ڈاکٹر کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ بار بار اپنے اہل خانہ کو کہتا تھا کہ دیکھا…میں نہ کہتا تھا کہ صبح ضرور آئے گی۔ صبح آگئی ہے۔ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے۔

اٹھارھویں ترمیم پاس ہوئی، میں رات پھر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر خبریں، تبصرے، تجزیے اور تاثرات سنتا رہا اور دیکھتا رہا۔ دوسرے دن دوپہر کے وقت بیٹا کہیں جا رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے ڈاکٹر انکل کے گھر اتارتا جائے۔ میں پورچ ہی میں تھا کہ ڈاکٹر کا چھوٹا بیٹا۔ اصغر۔ جو۔ او۔لیول میں داخل ہوا ہے، ناچتا پھدکتا اندر سے نکلا۔ وہ موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ میرے کان کھڑے ہوگئے۔ ’’یار! میں تو اب نیویارک میں پڑھوں گا۔ آخر ابّو نے فیصلہ کر ہی لیا واپس جانے کا۔‘‘

مجھے تعجب ہوا۔ ڈاکٹر نے اتنا بڑا فیصلہ مجھے بتائے بغیر کرلیا؟ میں اس کا ایسا دوست تھا جس سے مشورہ کئے بغیر وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ میں اندر گیا تو وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ کا رخ میری طرف کردیا کلِک سے تحریر سامنے آگئی۔ جس بڑے طبی ادارے نے اسے کسی بھی وقت واپس آجانے کی پیشکش کی ہوئی تھی، اس تحریر میں اسی کو مخاطب کیا گیاتھا اور بتایا گیاتھا کہ ڈاکٹر چند ہفتوں کے اندر اندر نیویارک پہنچ کر چارج سنبھال لے گا۔

میں نے اسے وہ سارے وعدے یاد دلائے جو اس نے اپنے آپ سے وطن کے ضمن میں کئے تھے۔ مفلوک الحال مریض، اس شعبے میں ملک کو اس کی اشد ضرورت اور…اور بھی بہت کچھ۔ لیکن اس کے چہرے پر پڑی گہری پرچھائیاں زیادہ گہری ہوتی گئیں۔ خاموشی کا طویل وقفہ کمرے پر حکمران رہا۔ اور پھر وہ آہستہ آہستہ گویا ہوا۔

’’تمہیں پتہ ہے کہ سولہویں صدی کے نصف آخر میں کوٹ اس طرح سیے جاتے تھے کہ ضرورت پڑنے پر الٹ دیئے جائیں اور اندرکا حصہ باہر اور باہر کا اندر آجائے۔ ان دنوں مغربی ملکوں میں سیاست دان پارٹی بدلتے وقت کوٹ الٹ دیتے تھے اور پارٹی کا نشان جو سینے پر لگا ہوتا تھا، اندر کی طرف ہو جاتا تھا اور نظر نہیں آتاتھا یہاں سے ٹرن کوٹ (TURN-COAT)کی اصطلاح وضع ہوئی یعنی وہ جو اپنی پارٹی کی پیٹھ میں چھُرا گھونپ کر مخالف سے جا ملے۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء کا نام آئین سے نکالنے اور نعرے مارنے والے وہی ہیں جو جنرل ضیاء کی وردی استری کیا کرتے تھے۔ کیا ٹرن کوٹ کی اصطلاح ان سے زیادہ کسی پر سجتی ہے؟اس ملک کے لوگوں نے کیا کیا نہیں دیکھا اور ان پر کون سا ظلم ہے جو نہیں ہوا۔ نیپال کا چالیس سالہ پشکارشاہ سائیکل پر ایک سو پچاس ملکوں میں گیا اور گیارہ سالوں میں اس نے کیا نہیںکھایا؟ کیمرون میں ہاتھی کا گوشت سوئٹزرلینڈ میں گھوڑے کا گوشت، جنوبی کوریا میں کتے کا گوشت، گنی بسائو میں بندر کا گوشت اور بوٹسوانہ میں کیڑوں کا پلائو! لیکن پاکستان کے مظلوم لوگوں نے فوجی آمروں اور لوٹا سیاست دانوں کے ہاتھوں اس سے بھی زیادہ مکروہ دھوکے کھائے۔ میں اس ملک میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ کیا میں اپنے بچوں سے دشمنی کرسکتا ہوں۔ کیا اس سے زیادہ ظالمانہ مذاق کسی قوم کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ جسے جعلی ڈگری کے جرم میں اسمبلی سے فارغ کر رہی ہے۔ اسے وزیراعظم مشیر بنانے کو تیار ہیں اور پارٹی، الیکشن کا ٹکٹ دے رہی ہے! کیا اس ملک میں اس سے زیادہ ذہنی افلاس آسکتا ہے !

ملک کو ایک سو نہیں کئی سو میل پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار میں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات لازمی قراردیئے گئے تھے۔ سیاست دانوں نے اس کو نکال کر عوام کی پیٹھ میں زہر میں بجھا ہوا چاقو گھونپا ہے۔کیا اس سے زیادہ بُرا مذاق بھی ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موروثی سربراہی پر مُہر تصدیق ثبت کرنے والے رضا ربانی صاحب ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ اب نون لیگ پر شریف خاندان، قاف لیگ پر چوہدری خاندان، اے این پی پر اسفند یار ولی کا خانوادہ، پیپلز پارٹی پر بھٹو شاہی اور جے یو آئی پر مفتی محمو د کا گھرانہ ہمیشہ قابض رہے گا اور فرحت اللہ بابر، اعتزاز احسن، احسن اقبال اور خواجہ آصف جیسے لوگ صرف کارکن رہیں گے۔ میں اس ملک میں اپنے بچوں کو کس منہ سے رکھوں جس میں سینکڑوں کی اسمبلی میں صرف تین سیاست دانوں نے اس جمہوریت دشمنی کے خلاف آواز اٹھائی۔ جاوید ہاشمی، سعد رفیق اورکشمالہ طارق اور جاوید ہاشمی اور سعد رفیق سے ’’پارٹی لائن‘‘ کے خلاف چلنے پر جواب طلبی بھی ہو گئی۔ جس ملک میں سیاسی جماعتوں کے اندر بدترین آمریت کو جمہوریت کے نام پر سرسبز و شاداب رکھا جائے، اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ میری اولاد میں سے کوئی ری پبلکن یا ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر تو بن جائے گا لیکن پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کی صدارت کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘

Saturday, April 10, 2010

کلی سے صبا تک

تمہیں جہاز پر بٹھا کر ائر پورٹ سے واپس گھر پہنچا تو میں بالکل نارمل تھا۔ نیند کی گولی تو میں نے بس یونہی کھا لی تھی۔ لاؤنج والے بڑے صوفے پر آنکھیں مُوندے دو دن تک بے سُدھ نہ جانے میں کیوں پڑا رہا۔ رات کو لاؤنج کا وہ حصہ جس میں تمہارا لیپ ٹاپ اور اس سے ملحق تاروں کے گچھے بکھرے رہتے تھے‘ خالی لگ رہا تھا لیکن بار بار آنکھوں سے جو آنسو نکل آتے تھے جنہیں میں کبھی قمیض کے دامن سے اور کبھی قیمض کے کف سے پونچھتا تھا‘ اُن کا تمہارے جانے سے تو کوئی تعلق نہیں تھا! تمہارے جانے پر رونے کا یوں بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ تمہارے بھائی نے بلایا تو میں نے خود ہی اجازت دی تھی جسکے بعد تم نے یونیورسٹی میں درخواست دی اور تمہیں داخلہ مل گیا۔ گویا دوسرے ملک میں بھی تم میرے ہی گھر میں ہو۔ تمہاری بڑی بہن کی رخصتی پر میں ایک ماہ بستر سے لگا رہا تو اس کا تو جواز تھا کہ وہ بابل کا گھر چھوڑ کر پیا کے گھر سدھار گئی تھی مگر تم تو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے گئی ہو! لیکن میں اس کا کیا کروں کہ تمہارے جانے کے بعد گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ جسم سے لگتا ہے تب و تاب رخصت ہو گئی ہے۔ جہاں بیٹھ جاؤں‘ وہیں بیٹھا رہتا ہوں‘ جہاں لیٹ جاؤں وہیں پڑا رہتا ہوں۔ کوئی مجھ سے مخاطب ہو کر کچھ کہے تو اس کا ابلاغ کافی دیر کے بعد ہوتا ہے۔ تم یہاں تھیں تو میں رات گئے تک لکھتا تھا یا ٹیلی ویژن دیکھتا تھا یا کمپیوٹر پر کام کرتا تھا۔ تم تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پوچھتی رہتی تھیں‘ ابو چائے؟ ابو کھانے کیلئے کچھ لاؤں؟ لیکن اب تو میں کچھ بھی نہیں کرتا‘ بس بے سُدھ لیٹا رہتا ہوں۔ تمہاری امی کہیں لے جانے کی کوشش بھی کرتی ہے تو اس حالت میں مجھ سے گاڑی ہی کہاں ڈرائیو ہوتی ہے!

مجھے بیٹیاں اچھی لگتی ہیں۔ تم دونوں بہنوں کو میں نے اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر التجائیں کر کر کے حاصل کیا تھا۔ مجھے اُن لوگوں پر ہمیشہ ترس آتا ہے جو بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلے میں کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسے ذہنی معذور اور دماغی مفلس کرۂ ارض کے اس حصے میں جہاں ہم رہتے ہیں بہت ہیں اور ان کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ فیض احمد فیض سے کسی نے کہا تھا کہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے تو اس نے جواب میں کہا تھا کہ نرینہ کیا ہوتی ہے؟ اولاد تو اولاد ہے‘ جو بھی ہو۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں بیش بہا ہیں‘ مثلاً سخت پیاس میں ٹھنڈا پانی‘ تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں‘ حبس میں خوشگوار ہَوا کے جھونکے‘ ساحل سے نظر آنیوالے نیلے پانیوں کا منظر‘ سرما کی رات کو باہر نکلنے پر چودھویں کے چاند کا نظارہ‘ کسی پیارے کے موت کے چنگل سے بچ نکلنے کی خبر‘ دل کی بند دھڑکن کا دوبارہ جاری ہو جانا‘ ان تمام نعمتوں میں سب سے زیادہ دلکش اور سب سے زیادہ شیریں نعمت بیٹی کا وجود ہے اور یہ نعمت اُن چار نعمتوں میں سے ایک ہے جو کائنات کے خالق نے اپنے بندوں کیلئے خصوصی انعام کے طور پر پیدا کی ہیں۔ رخسار پر ماں کا بوسہ‘ سر پر باپ کا ہاتھ‘ بخار میں سلگتی پیشانی پر بیوی کا لمس اور گھر میں بیٹی کا وجود ۔۔ اکبر نے بیربل سے پوچھا کہ اس دنیا میں انسان کیلئے سب سے بڑی تسکین کیا ہے۔ بیربل نے ایک آہ بھری اور بولا! جہاں پناہ جب بیٹا باپ کے سینے سے لگ جائے لیکن اُس مردانہ معاشرے میں بیربل کو اپنی غلطی کا احساس تک نہ ہوا‘  بیٹا نہیں‘جب اولاد باپ سے لپٹ جائے‘ بیٹا ہو یا بیٹی!
 اللہ کے آخری رسولؐ کو اپنے سب اعزّہ سے پیار تھا لیکن سفر پر تشریف لے جاتے اور واپس آتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور واپس آتے تو سب سے پہلے وہی باریاب خدمت ہوتیں۔ تشریف لاتیں تو جہانوں کے سردار کھڑے ہو جاتے‘ پیشانی چومتے اور اپنی نشست گاہ پر بٹھاتے۔ کیا زندگی بھر رسولؐ کی نشست گاہ پر ان کی بیٹی کے علاوہ کوئی بیٹھا؟ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ننھی امامہ (نواسی) کندھے پر تھیں‘ اسی حالت میں نماز پڑھائی۔ رکوع میں جاتے تو اتار دیتے۔ کھڑے ہوتے تو پھر اپنے اوپر بیٹھا لیتے۔ اسی طرح پوری نماز ادا کی۔

انسان بھی کن کن آزمائشوں سے دوچار ہوتا ہے اور کیسے کیسے ادوار سے گزرتا ہے۔ پہلے تو اس سے یہ گتھی نہیں سلجھتی کہ ماں باپ بوڑھے کیوں ہو جاتے ہیں؟ وہ حیران ہوتا ہے کہ جس ماں اور باپ نے اُس کٹھن وقت میں دست گیری کی جب وہ اپنی ناک سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا تھا‘ منہ میں لقمہ تو کیا پانی کا قطرہ بھی نہیں ڈال سکتا تھا۔ بول و براز کا ہوش تو کیا احساس تک نہ تھا اور بدن ڈھانپنے کیلئے ایک تارِ پیراہن تک حاصل نہ تھا۔ اس کٹھن وقت میں جنہوں نے ربوبیت بہم پہنچائی‘ اسکے منہ میں دودھ اور پانی کے قطرے ٹپکائے‘ اُسے غلاظتوں سے پاک کیا‘ اُسے موسموں کی سختیوں اور عناصر کی بے مہریوں سے بچایا ۔۔ وہ دونوں ہستیاں خود بوڑھی ہو گئیں
 انکے قویٰ مضمحل ہو گئے‘
انکے دل رقیق ہو گئے‘
 انکی نظریں کمزور ہو گئیں۔
 انکے چہرے جھریوں سے اٹ گئے‘
 انکی یادداشتیں مدہم پڑ گئیں‘
 انکے اعصاب پر ضعف طاری ہو گیا
 وہ ماں جو بچے کے رونے کے باوجود اطمینان سے اپنا کام کرتی رہتی تھی‘ جو اس کی چیخ و پکار کے باوجود اُسے نہلا کر چھوڑتی تھی ۔۔ جو اُس کے منہ کو دونوں ہاتھوں سے زبردستی کھول کر کڑوی دوا پلا کر رہتی تھی‘ وہ ماں اب ذرا سی تکلیف دیکھ کر آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکتی اور اسکے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔
 وہ باپ جو بچے کو سکول نہ جانے پر یا کہا نہ ماننے پر تھپڑ مار دیتا تھا اب اُس بچے کی جو اب بہت کچھ سہ سکتا ہے‘ ذرا سی پریشانی بھی برداشت نہیں کر سکتا اور بات بات پر آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

کیا کوئی تکلیف ماں باپ کے بڑھاپے
اور ضُعف
اور رقتِ قلب
 اور کم گوئی اور کم خوری
 اور بیماری سے زیادہ بھی دل کو مٹھی میں جکڑنے والی اور روح کو کرب میں ڈالنے والی ہوتی ہے ؟ انسان اپنے ماں باپ پر آہستہ آہستہ چھا جانے والے بڑھاپے کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے!
 انسان بچوں سے محبت کرتا ہے اور بچے اُس سے ۔۔ بچے کی کل کائنات ماں اور باپ ہوتے ہیں لیکن پھر وہ وقت آتا ہے جب اُس بچے کے مشاغل میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ وہ ماں باپ کو اب بھی اتنا ہی پیار کرتی ہے یا کرتا ہے لیکن اب اُس نے اپنی دنیا بنانی ہے‘ کیرئر ہے‘ ازدواجی زندگی ہے‘ پھر اُسکے اپنے بچے ہیں۔ اب وہ چڑیا کا ایسا بچہ ہے جسے گھونسلے سے نکلنا ہی نکلنا ہے۔
فراق اے   ماں   کہ میں لمحہ بہ لمحہ
کلی ہوں گُل ہوں خوشبو ہوں صبا ہوں
کلی صبا ہو جائے  تو کہاں ہاتھ آتی ہے۔ 
رات آدھی آگے ہے اور آدھی پیچھے‘ لاؤنج میں صرف میں ہوں‘ سب سو چکے ہیں۔ وہ گوشہ جہاں تم اپنے لیپ ٹاپ پر رات ڈھلے تک کام کرتی تھیں‘ خالی ہے۔ میں کچھ کھانا چاہتا ہوں‘ چائے پینا چاہتا ہوں لیکن تم لاؤنج میں نہیں ہو‘ کئی ٹائم زون دور‘ تم اپنے ابو سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو لیکن یہ کیا ؟
 تم مجھے سامنے نظر آ رہی ہو‘
 مسکراتی ہوئی
 مذاق کرتی ہوئی‘
انگریزی کے بے حد مشکل الفاظ کا مطلب اور سپیلنگ ایک سیکنڈ میں بتاتی ہوئی۔
میرا اس عقیدے پر ایمان بالکل نہیں کہ موت کے بعد  انسان دوسرے روپ میں ظاہر ہوتا ہے‘ لیکن اگر حلول کرنیوالا نظریہ درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہو گا کہ ماں کی شفقتیں اور محبتیں بیٹی میں حلول کر جاتی ہیں۔

Tuesday, April 06, 2010

آندھی کے مقابل

خیبر پختونخواہ کے نام پر پاکستانی بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ کچھ نے سرخ ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ ایک بھی پاکستانی خوش ہو تو دیکھنے والے کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور یہاں تو بہت سے پاکستانی مسرت سے ہم کنار ہو رہے ہیں۔ کیا ہی مبارک موقع ہے اور کیا ہی دلکش منظر ہے۔ دل کی گہرائیوں سے دعا اٹھتی ہے کہ پاکستان کا ہر فرد خوش ہو،مطمئن ہو اور آسودہ حال ہو اور بقول احمد ندیم قاسمی، کسی پاکستانی کیلئے بھی …ع

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

خوشی کی مزید خبریں تلاش کرنے کیلئے میں صبح صبح اخبار دیکھتا ہوں، ناگاہ دل ڈوب سا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے ایک دھڑکن درمیان سے غائب ہوگئی ہے۔ شاید چکر آیا ہے۔ اخبارات کا پلندہ پورچ میں کھڑی گاڑی کے بونٹ پر رکھ دیتا ہوں اور حواس مجتمع کرنے کیلئے زمین پر بیٹھ جاتا ہوں۔ جو خبر میں نے پڑھی ہے، آپ بھی پڑھیے۔

ایبٹ آباد صوبے کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کیخلاف اور صوبہ ہزارہ کے حق میں ایبٹ آباد میں مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے۔ فوارہ چوک پر مظاہرین نے ٹائر جلا کر شاہراہ ریشم بند رکھی اور دھرنا دیا۔ اس موقع پر مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم خیبر پختونخواہ کو مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صوبے میں خون خرابہ ہونے سے قبل ہی صوبہ ہزارہ کا اعلان کر دے۔ ہزارہ کے عوام اپنے حق کیلئے کھڑے ہو چکے ہیں اور اب اس تحریک کا خاتمہ صوبہ ہزارہ کے قیام کے بعد ہی ہوگا۔ دریں اثناء مسلم لیگ ن ہزارہ ڈویژن کے ممبران اسمبلی نے بھی صوبہ ہزارہ کی تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کی قرارداد پیش کرینگے اور ضرورت پڑی تو انیسویں ترمیم بھی اسمبلی میں پیش کرینگے‘‘۔

میں سوچنے لگا کہ عقل مند وہ ہوتا ہے جو دوستوں میں اضافہ کرے۔ اپنے گھر کو تنگ کرنے کے بجائے کشادہ کرے اور اپنے ہم نواؤں کی تعداد بڑھائے۔ اے این پی کے رہنما یہ تو کہہ رہے ہیں کہ وہ نئے نام کے حوالے سے صرف ایک شخص (صدر زرداری) کے احسان مند ہیں لیکن غالباً وہ زیادہ دور تک دیکھنے سے قاصر ہیں۔ امام غزالی نے کہا تھا کہ انسانی آنکھ میں ایک بہت بڑا نقص ہے اور وہ یہ کہ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی لیکن ان آنکھوں کا کیا کیا جائے جو چند گز کے فاصلے پر بھی کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔ مجھ سمیت کوئی پاکستانی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستانی خوش نہ ہوں۔ لیکن عقل مند خوشی اس کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوں اور جو کسی حادثے کا پیش خیمہ نہ ہو۔ صوبے کے نئے نام سے ایسا بیج بو دیا گیا ہے جس سے اگنے والے پودے پر کانٹے ہی کانٹے ہونگے۔ سرحد میں چترال کے لوگ بھی ہیں اور ہزارہ کے بھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرحد میں شامل ہے اور کوہستان بھی، دیر بھی اور سوات بھی۔ یہاں گوجری بولنے والے بھی ہیں اور ہندکو اور سرائیکی بولنے والے بھی۔ کاش ایسا نام رکھا جاتا کہ آج ایبٹ آباد، مانسہرہ، شنکیاری، ہری پور، چترال، دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، غرض صوبے کے ہر شہر میں جشن منایا جاتا لیکن جہاں وزیراعلیٰ سے لیکر اے این پی کراچی کے صدر تک سارے عہدے رشتہ داروں میں بانٹے جائیں وہاں اتنی دور اندیشی کہاں سے آئیگی جو دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرے اور صوبے کی مختلف اکائیوں کو ایک وحدت میں پرو دے‘ یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ جو یکجہتی میسر تھی، اسے بھی انتشار کی نذر کیا جاتا ہے۔ جو شیر سو رہے تھے انہیں بھی جگا دیا گیا ہے۔ چنگاری سے کھیلا جائے تو شعلہ بھڑک اٹھتا ہے اور اگر کھیلنے والا یہی کہتا رہے کہ کون سا شعلہ ؟ کیسا شعلہ؟ تو اسکا جسم ایک دن بھانبڑ کی نذر ہو جاتا ہے۔

انسان جہاں بھی ہوں، کسی ایک مخصوص گروہ کی سرداری کبھی نہیں تسلیم کرتے۔ یہ حقیقت اندھوں کو بھی تاریخ کے بورڈ پر جلی حروف میں لکھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بنو امیہ کی حکومت عرب عصبیت پر قائم تھی اور غیر عرب مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نہیں لگائے جاتے تھے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ امویوں کی لاشوں پر دستر خوان بچھائے گئے اور کسی آنکھ سے آنسو نہ نکلا۔ پھر برامکہ چھا گئے۔ ان کا انجام پتھروں کو بھی پگھلا دینے والا ہے۔ مشرف کے عہد میں ایک برسر اقتدار پارٹی نے جاٹوں کو نوازا اور خوب نوازا لیکن پنجاب صرف جاٹوں کا تو نہیں تھا۔ 2008ء کے انتخابات میں پرخچے اڑ گئے اور اب تک سہارے کیلئے تنکا تک نہیں ملا۔ ایک سابق وزیراعظم کے دور میں ایف آئی اے میں تیس افراد کو ملازمت دی گئی جن میں اٹھائیس ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اس زمانے کے اخبارات گواہ ہیں کہ چالیس (یا اس سے کچھ زیادہ) کی تعداد میں بیورو کریسی کے ارکان مرکز میں فیصلہ کن اسامیوں پر تعینات تھے اور سب کا تعلق ایک ہی شہر سے تھا۔ جرنیل نے حکومت پر قبضہ کیا تو آنکھوں سے آنسو تو کیا نکلتے، مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ ایک مخصوص گروہ کی برتری تسلیم کر لینا انسان کے خمیر میں ہی نہیں۔ آخر گوجری ہندکو یا سرائیکی بولنے والا اپنے آپ کو پختون یا اپنے علاقے کو پختون خواہ کیوں کہے؟ آج اگر کوئی کوتاہ اندیش پنجاب کا نام جاٹستان یا اعوانستان رکھے تو صوبے کا جو حشر ہوگا، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

رہی یہ دلیل کہ پنجاب اور سندھ کے نام بھی تو صوبوں کے حوالے سے ہیں تو حضور! پنجابی اور سندھی کوئی نسل نہیں۔ پنجاب میں جو بھی آیا پنجابی ہوگیا۔ ککے زئی پٹھان تھے یا اردو بولنے والے چغتائی، آج سب پنجابی ہیں۔ اسی طرح سندھ میں جن کے نام کے ساتھ آج تک پٹھان لکھا جاتا ہے، وہ بھی سندھی تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن پختون تو ایک نسل ہے اور غیر پختون کبھی پختون نہیں ہو سکتا نہ پختون اسے پختون ماننے کے لئے تیار ہیں۔ اے این پی کراچی کے صدر جناب شاہی سید دو دن پہلے ٹی وی پر خود فرما رہے تھے کہ میں سید ہوں، پختون نہیں ہوں، ہاں پختونوں نے مجھے اپنی نمائندگی پر مامور کیا ہے۔ اس لئے انکی بات کر رہا ہوں۔ اسکے برعکس پنجاب اور سندھ میں بسنے والے سارے سید پنجابی ہیں یا سندھی۔ آپ نے اپنے صوبے کا کوئی ایسا نام رکھا ہوتا جو سب کو اپنے حصار میں لے لیتا اور کوہستان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان کے جنوب تک سب کو وہ نام بطیب خاطر، برضاو رغبت منظور ہوتا! اور جشن آج ایبٹ آباد اور ڈیرہ میں بھی منائے جا رہے ہوتے۔

یوں بھی پاکستانی نام رکھنے کے حوالے سے کبھی بھی عقل مند نہیں رہے۔ آپ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے نام دیکھے، ایک ایک لفظ پر مشتمل ہیں۔ آکسفورڈ کیمبرج، ہارورڈ، ازہر، برکلے لیکن یہاں کے ناموں پر غور کیجئے اور ہنسی سے دہرے ہو جائیے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ، گورنمنٹ مولانا ظفر علی خان کالج، حالانکہ یہ نام زکریا یونیورسٹی اقبال یونیورسٹی، بھٹو انسٹی ٹیوٹ اور ظفر علی خان کالج بھی ہو سکتے تھے۔ خیبر پختونخواہ بھی ایسا ہی نام ہے اور کثرت استعمال سے یا صرف خیبر رہ جائے گا یا پختونخواہ ، اس سے یاد آیا کہ دو بچے کلاس میں شور کر رہے تھے کہ ماسٹر صاحب آ گئے۔ انہوں نے دونوں کو سزا سنائی کہ اپنا اپنا نام سو بار لکھیں۔ ایک لکھنے لگ گیا، دوسرا رونے لگ گیا، پوچھا گیا تو کہنے لگا کہ اس کا نام تو صرف ناصر ہے جب کہ میرا نام قاسم طیب مرزا ابو الحسن علی شاہ جہان نصر الکریم سمر قندی ہے۔

Saturday, April 03, 2010

جتھے

جَتھّے ہیں جو ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں اور قبیلہ وار لڑ رہے ہیں۔ جیسے یہ ملک نہیں، چراگاہ ہے جس میں خانہ بدوشوں کے کئی گروہ باہم برسرپیکار ہیں۔ خانہ بدوش جن کے خیمے خچروں پر لدے ہیں اور وہ اس وقت خیمے گاڑ کر سکون سے بیٹھیں گے جب دوسرا گروہ غارت ہو جائیگا!

جنگ و جدل کرنے والے یہ جتھّے ان پڑھ چرواہوں پر مشتمل نہیں۔ نہ ہی یہ تاتاری ہیں نہ قازق۔ درد کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی جتھّہ ڈاکٹروں کا ہے، کوئی وکیلوں کا ،کوئی قانون ساز عوامی نمائندوں کا اور کوئی ان کا جو بظاہر اسلام کا پھریرا لہرا رہے ہیں۔ عبرت کا مقام ہے۔ آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو… خدا کیلئے عبرت حاصل کرو، وقت بہت کم ہے۔ ہر وہ سرزمین جہاں جتھّے آپس میں دست و گریبان ہوں، اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔

میرا صاحبِ اسلوب کالم نگار دوست کہتا ہے کہ یہ سرزمین رمضان کی ستائیسویں کو وجود میں آئی تھی، اسے کچھ نہیں ہوسکتا! افسوس! ہم شام کا تارا چمکتا دیکھ کر بھی اصرار کرتے ہیں کہ یہ صبح ہے! اللہ کی سنت کبھی نہیں بدلتی۔ کیا مدینہ کی ریاست سے زیادہ مقدس ریاست کوئی ہوسکتی ہے؟

کیا میسور کی سلطنت خداداد نہیں تھی؟ لیکن اللہ کی سنت تبدیل نہ ہوئی۔ کائنات کی مقدس ترین ہستیؐ احد کے میدان میں موجود تھی لیکن مسلمانوں کو غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اورنگ زیب عالم گیر کا ایک فرزند باپ کے مرنے کی دعائیں مانگتا تھا۔

اورنگ زیب نے اسے خط لکھا۔ اقبال نے پیام مشرق میں اس خط کو نظم میں ڈھال کر امر کردیا آخری شعر ہے…؎

مپندار آن کُہنہ نخچیر گیر

بدامِ دعائی تو گردد اسیر

خوش فہمی کا عارضہ لاحق ہو تو یہ نظم یعنی یہ خط اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔

خدا کی قسم! ملک جتھوں میں بٹ چکا ہے، جو ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ایسا لیڈر نہ ابھرا جو ان جتھوں کو پھر سے قوم بنا دے، تو خرابی ہی خرابی ہے!

دمشق میں پاکستانی سفیر نے سرکاری سکول کو ذاتی بلکہ خاندانی جاگیرمیں بدل ڈالا۔ ہفتوں سے یہ خبر پریس میں آرہی ہے اور مسلسل آ رہی ہے۔ وزیرمملکت فرماتے ہیں کہ :

’’ہم نے رپورٹ منگوائی ہے، اس کے بعد پوزیشن واضح ہوگی‘‘ ۔

سینیٹر پروفیسر خورشید نے ایوان کی توجہ دمشق کے سکول سے برطرف کئے گئے اساتذہ کی حالتِ زار کی طرف دلائی جہاں سفیر نے اپنے رشتہ دار تعینات کر دیئے ہیں، اسرار اللہ زہری پروفیسر خورشید سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ خبر میں درج خواتین کے نام ایوان میں نہ لائو، یہ ہماری عزت کیخلاف ہے۔ ایک اور معزز رکن نے فرمایا کہ یہ خبر ہی درست نہیں ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا، قانون پامال ہوا یا اقربا پروری کی ساری حدیں پھلانگ لی گئیں، سوال یہ ہے کہ بلوچ، بلوچ کی غلطی کو غلطی ماننے کو تیار نہیں! یہ قبائلی جتھہ ہے!

وکیل سول جج کو تھپڑ رسید کرتا ہے۔ بار سے اس کی رکنیت معطل ہوتی ہے لیکن دوسرے دن بحال ہو جاتی ہے۔ وکیل اس کی غلطی کو غلطی نہیں مانتے۔ ایک وکیل کے سر پر گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کا خون ہے لیکن عدالت میں وکیل اس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو افریقہ کے نیم وحشی قبائلیوں کا ہوتا ہے۔ مدعی کو ہراساں کیا جاتا ہے، میڈیا کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ وکیلوں کا جتھّہ ہے۔ سنا ہے یہ قانون کے رکھوالے ہیں!

لاہور کے ہسپتال میں ساٹھ سالہ مریضہ مبینہ طور پر ڈاکٹروں کی غفلت کا شکار ہو کر زندگی کا کھیل ہار جاتی ہے اس کے اعزہ احتجاج کرتے ہیں۔ پریس کے نمائندے اس حادثے کی تفصیل جاننے کیلئے پہنچتے ہیں اور متعلقہ ڈاکٹروں کا موقف جاننا چاہتے ہیں۔ انہیں آگے سے پتھر اور گالیاں پڑتی ہیں۔ زد و کوب کیا جاتا ہے، کیمرے توڑ دیئے جاتے ہیں، میموری کارڈ تباہ کردیئے جاتے ہیں۔ وین ڈھانچہ بنا دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ایکا کرکے ایمرجنسی وارڈ بند کردیتے ہیں۔ یہ ڈاکٹروں کا جتھہ ہے۔ سنا ہے یہ ملک کی کریم ہے اور ان کا کام مسیحائی ہے!

ایک یونیورسٹی کے (جس پر اسلام کی چھاپ لگی ہوئی ہے) دو طالب علم بس سٹینڈ کی کارگو سروس پر آتے ہیں اوراپنے دو بیگ رکھنے کا کہتے ہیں عملہ بتاتا ہے کہ ملک میں سکیورٹی کے مخدوش حالات کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ طالب علم اصرار کرتے ہیں عملہ بار بار معذرت کرتا ہے۔ تو تو میں میں تک نوبت پہنچتی ہے۔ دونوں طالب علم واپس چلے جاتے ہیں۔ رات گیارہ بجے پچاس ساٹھ ڈنڈا بردار طلبہ اندھیرے سے نمودار ہوتے ہیں اور بس سٹینڈ پرحملہ کردیتے ہیں اور دفتر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ یہ ان طلبہ کا جتھہ ہے جو اسلام کا پھریرا لہرا رہے ہیں۔

جعلی ڈگری رکھنے والے عوامی نمائندے کو عدالت عالیہ اختیار دیتی ہے کہ استعفیٰ دے یا زنداں خانے کا عزم کرے۔ وہ استعفیٰ دیتا ہے اور اتنے بڑے جرم کی سزا پائے بغیر گھر کا رخ کرتا ہے لیکن اس کا ساتھی کہتا ہے کہ عدالت نے زیادتی کی۔ ایم این اے کی بے عزتی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ عوامی نمائندوں کا جتھہ ہے۔

یہ تاجر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاجر کے سر پر تاج ہے۔ یہ انکم ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت اصرار کرے تو دکانیں بند کردیتے ہیں۔ ہڑتال کردیتے ہیں۔ خریدار ان سے رسید کا تقاضا کرے تو بُرا مناتے ہیں اور بڑ بڑاتے ہیں۔ پوری مہذب دنیا میں خریدا ہوا مال واپس بھی ہوجاتا ہے اور تبدیل بھی۔ یہاں ان کے سر پر تاج رکھنے والوں نے تین تین گز لمبے اور دو دو گز چوڑے بینر دکانوں پر لگا رکھے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس ہوگا نہ تبدیل… زبانی کہیں گے کہ سال کی گارنٹی ہے، تحریری گارنٹی مانگیں تو ایک گھنٹہ تقریر کریں گے اور گاہک کو ذلیل و خوار کرکے اس کے گُردے بازار کے بیچ لٹکا دیں گے۔ یہ تاجروں کا جتھہ ہے!

جتھّے…جتھّے ہی جتھّے۔

آٹا غائب کرنے والوں کا جتھہ، چینی مہنگی کرنے والوں کا جتھہ، ملاوٹ کرنے والوں کا جتھہ، جعلی دوائیں بنانے والوں کا جتھہ۔

جتھّے ہی جتھّے
 

powered by worldwanders.com