مجھے درختوں سے نفرت ہے۔ مجھے ان پہاڑیوں سے نفرت ہے جن پر درخت اگتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں!
مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے اختلاف کریں گے اور درختوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔ میں خود درختوں کی تعریف میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔ مثلاً یہ کہ درخت زیتون کے ہوں یا انجیر کے‘ شہتوت کے ہوں یا املتاس کے‘ میوہ دار ہوں یا بانجھ‘ میٹھا بور لئے ہوں یا نوکیلے کانٹے‘ اجڑے ہوئے صحن میں ہوں یا آباد پائیں باغ میں‘ وہ مقدس ہوتے ہیں۔ درخت پرندوں کے گھر ہوتے ہیں اور معصوم بچوں کے امانت دار درختوں سے بنی ہوئی لاٹھیوں سے اندھے راستہ ڈھونڈتے ہیں۔
درختوں کے تنوں میں پناہ لینے والے پیغمبروں نے شہادت پائی ہے۔ درختوں کے سائے تلے مرنے کی بیعت اور محبت کے قول و قرار ہوتے ہیں۔ درختوں کے پتے پانی میں ابال کر ماتم کرتے ہوئے لوگ اپنے پیاروں کی میتیں نہلاتے ہیں۔
درختوں کی چھال پر عاشق معشوقوں کے نام کھودتے ہیں اور درختوں کی شاخوں سے رسے باندھ کر آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ میں تو جتنے راستوں پر چلا ہوں اور میں نے جتنے دریا عبور کئے ہیں اور میں جتنے پہاڑوں پر چڑھا ہوں اور میں نے جتنی مسرتیں کاشت کی ہیں اور میں نے جتنے غم کاٹے ہیں اور میں نے جتنے پیاروں کو گم کیا ہے وہ سب مجھے درختوں کے حوالے سے یاد ہیں اس لئے کہ درختوں کے ساتھ ٹیک لگا کر اور درختوں کے چلتے سایوں کیساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹ کر اور درختوں کو جھاڑ کر اور درختوں سے بغل گیر ہو کر ہم نے ہم نے معاملے طے کئے تھے۔ میں نے آج تک کسی درخت کو مکار‘ جھوٹا اور دولت جمع کرنے کے پاگل پن میں مبتلا نہیں دیکھا یہ سب سچ ہے لیکن مجھے درختوں سے نفرت ہے۔ مجھے ان پہاڑیوں سے نفرت ہے جن پر درخت اگتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت کے شمال میں خوبصورت پہاڑیوں کا ایک سلسلہ ہے جسے مارگلہ کہتے ہیں۔ ان پہاڑیوں پر درخت اگتے ہیں۔ گھنے جنگل ہیں۔ یہاں جنگلی جانور ہیں اور خوبصورت پرندے ہیں۔ ان پہاڑیوں پر ماں باپ کیساتھ بچے آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ بچوں کے چاند جیسے چہرے اور بھی زیادہ چمک اٹھتے ہیں لیکن ہائے افسوس! میں کیا کروں۔
مجھے ان پہاڑیوں اور ان پہاڑیوں پر اُگے درختوں سے نفرت ہے‘ اسی لئے کچھ کھرب پتی کاروباری لوگ جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مارگلہ کی ان خوبصورت پہاڑیوں میں سرنگ بنا کر زمین کو ’’ڈی ویلپ‘‘ کیا جائے تو میں اس مطالبے کی پرزور تائید کرتا ہوں۔
ان حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارگلہ پہاڑیوں کے عقب میں واقع دو لاکھ کنال اراضی ’’حاصل‘‘ کرکے فروخت کی جائے تو سارا غیر ملکی قرضہ اتر جائے گا۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ سرنگ لگانے کے بجائے نقب لگائی جائے کیوں کہ پاکستان کے کاروباری حضرات نقب لگانے کے ماہر ہیں۔
اس حقیقت کی گواہی انکم ٹیکس کے اعداد و شمار دے رہے ہیں۔ رہا دو لاکھ کنال اراضی ’’حاصل‘‘ کرکے فروخت کرنے کا مسئلہ‘ تو چونکہ اسلام آباد میں آئے دن نیلام ہونیوالے دنیا کے گراں ترین پلاٹ بھی ملکی قرضہ نہ اتار سکے اور پی ٹی سی ایل بھی بک کر یہ کام نہ کر سکا اور بے شمار دوسرے ادارے بھی ’’غیر جانبدار‘‘ طریقے سے فروخت ہو کر قرضہ نہ اتار سکے تو امید کامل ہے کہ پہاڑیاں اور درخت کاٹے جانے کے بعد یہ کام کر ڈالیں گے! میں یہاں یہ بھی تجویز کروں گا کہ پارکوں اور باغوں کا کیا فائدہ؟ انہیں بھی فروخت کرکے ہم مزید قرضہ اتار سکتے ہیں بلکہ دوسرے ملکوں کو قرضہ دے سکتے ہیں۔
آخر مارگلہ پہاڑیاں قومی پارک ہی کا تو حصہ ہیں! یہاں میرے توسن ِتخیل کی دوڑ دور تک چلی گئی ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کے ساتھ بڑے بڑے گراؤنڈ ہیں۔ کیوں نہ وہاں بھی مکان بنا دئیے جائیں؟ بلکہ سکول اور کالج بھی کاروبار کے نکتہ نظر سے کچھ زیادہ مفید نہیں! اس ملک کے محسن یا تو جاگیردار ہیں یا بزنس مین۔ اگر جاگیردار دیہاتی علاقوں کے سینکڑوں سکولوں کی عمارتوں کو مویشی باندھنے اور دوسرے ’’نیک‘‘ کاموں کیلئے استعمال کر رہے ہیں تو بزنس مین کیوں پیچھے رہیں؟ چنانچہ شہروں اور قصبوں کے تعلیمی ادارے کاروباری حضرات کے حوالے کر دئیے جائیں تاکہ وہ انہیں فروخت کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور ملک ترقی کر سکے‘ مجھے اچانک شیخ سعدی یاد آرہے ہیں۔ بہت معصوم اور سادہ دل تھے۔ کوہ طور کے بارے میں ایک شعر کہہ گئے…؎
اقل جبال الارض طور و انّھ
لاعظم عنداللہ قدراً و منزلاً
یعنی طور کئی دوسرے پہاڑوں سے چھوٹا سہی لیکن قدر و منزلت کے حوالے سے اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا ہے! سعدی کو کیا پتہ کہ مارگلہ کی کیا حیثیت ہے‘ یہاں اگر طور پہاڑ بھی ہوتا تو لوگ اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے!
مارگلہ میں سرنگیں لگا کر انہیں فروخت کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہو گا کہ سابق بیورو کریٹ حضرات جو ’’مارگلہ بچاؤ‘‘ تحریک کے روح رواں ہیں مارگلہ بچاؤ سرگرمیوں سے فارغ ہو جائینگے اور فل ٹائم جمہوریت کیلئے جدوجہد کر سکیں گے۔ وہ جب بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے تو ایوب خان‘ یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی خدمت میں سرگرم رہے۔ اس وقت جمہوریت کیلئے آواز اٹھانا مناسب نہ تھا! غلام اسحاق خان نے ایک الیکشن سیل بھی تو بنایا تھا! ریٹائرمنٹ کے بعد ماضی کو فراموش کرکے نئی زندگی کا آغاز کرنا وقت گزاری کا اور ’’ان‘‘ رہنے کا بہترین نسخہ ہے۔ عوام بھی ماضی کو بھول جاتے ہیں۔ یوں نئی زندگی کا آغاز کرنا آسان تر ہو جاتا ہے اور اگر نئی زندگی شروع کرنے کیلئے نام بھی بدل لئے جائیں اور صورتیں بھی تو کیا ہی کہنا!!
ویسے بھی سنا ہے کہ دارالحکومت کے اس سنہری حصے میں جہاں کھرب پتی رہتے ہیں ہر جمعہ کی شام کچھ ریٹائرڈ بیورو کریٹ مل بیٹھتے ہیں۔ کمپنی بہادر کے ایام یعنی غلام اسحاق خان اور ضیاء الحق کے زمانوں کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں‘ طلسمی مہکار والی درآمد شدہ کافی گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں۔ بہترین کھانے تناول کرتے ہیں اور ناصر کاظمی کا یہ شعر پڑھ کر اپنے آپ کو ایصال ثواب کرتے ہیں…؎
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں‘ گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا‘ مثال گرد سفر گیا وہ
پھر ایک اور بات بھی ہے۔ جو طاقتور آنکھیں مارگلہ پہاڑیوں کو دیکھ رہی ہیں وہ اگر خدا نخواستہ‘ خدانخواستہ اسلام آباد کی اس خوبصورتی کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو آپکا کیا خیال ہے کہ کچھ ہو گا؟ نہیں کچھ بھی نہیں۔ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن بااثر لوگوں کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا! اور ان حضرات کو قانون سے ماورا رکھنے میں ان کی ہم مرتبہ شخصیات مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے وزارت تجارت کا مقدمہ پیش ہوا۔ استعمال شدہ تیل (فرنس آئل) درآمد کرنا ممنوع ہے۔
وفاقی وزیر تجارت نے ممنوعہ تیل کی اجازت نبفس نفیس دی۔ قومی اسمبلی کے ایک رکن نے یہ ممنوعہ تیل درآمد کرنے کی سفارش کی اور یہ استعمال شدہ تیل ایک چھٹانک یا ایک کلو گرام نہیں ہے۔ بلکہ دس ملین ٹن یعنی ایک کروڑ ٹن ہے!! سیکرٹری تجارت نے غلطی کو تسلیم کیا لیکن ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ ’’معاملے کی انکوائری کی گئی‘‘ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے فرمایا کہ:
’’پارلیمنٹ قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو مقدس سمجھتی ہے۔ ہم کرپشن کیخلاف ہر سطح پر لڑیں گے‘‘۔
درآمد کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ ممنوعہ تیل پہلے ہی غیر قانونی طریقے سے آرہا ہے تو ہم نے قانونی طور پر لانے کی اجازت دے دی۔ کیا منطق ہے! تو پھر ہیروئن اور اسلحہ سمیت جو کچھ بھی غیر قانونی طور پر آرہا ہے‘ اس کی قانونی طور پر لانے کی اجازت مرحمت فرما دیجئے!! کمیٹی کے چیئرمین نے بتایا کہ درآمد کرنے والی کمپنی کا تعلق ملتان سے ہے اور ممنوعہ تیل کا استعمال بلوچستان میں ہو گا! اسے کہتے ہیں دو آتشہ!
یعنی ویسے تو استعمال شدہ تیل کی درآمد منع ہے لیکن اگر درآمد کرنیوالوں کا تعلق ملتان کے مقدس شہر سے ہو اور غلط تیل بلوچستان میں استعمال ہونا ہو تو سب جائز ہے!
پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے بااثر مجرموں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا! پنجاب میں پولیس نے چھ نوجوانوں کو سرعام چھترول ایک عوامی نمائندے کی موجودگی میں کی۔ وزیر قانون نے اس پر کہا تو یہ کہا کہ ہم یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں اٹھائینگے۔ گویا عوامی نمائندے وزارت قانون کی عمل داری سے باہر ہیں! مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ کے صاحبزادے نے ایک غیر مسلم کو مارا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے صاحبزادے کو اور اس کے والد صاحب کو مدینہ منورہ میں طلب کیا اور قبطی سے کہا کہ صاحبزادے کو مار۔ صاحبزادے نے قبطی کو مارتے ہوئے کہا تھا کہ میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ اب قبطی گورنر کے بیٹے کو مارتا تھا اور امیر المومنین فرماتے تھے کہ اسے مار یہ بڑوں کی اولاد ہے! لیکن ہمارے ہاں تو بڑے بہت ہی بڑے ہیں! اتنے بڑے کہ قانون ان کی طرف دیکھے تو قانون کے سر سے ٹوپی گر جاتی ہے! شکیب جلالی نے قانون بیچارے کو کتنے پیار سے تسلی دی تھی…؎
دیکھتے کیا ہو شکیب اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے
No comments:
Post a Comment