Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, March 27, 2010

ہے کوئی وزیراعظم کو بتانے والا؟

ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ بھارہ کہو تو پانی میں چھپے ہوئے مہیب برفانی تودے کا صرف نظر آنے والا چھوٹا سا حصہ ہے! …ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ خلقِ خدا سے بے نیاز وزراء اور پست بلکہ غایت پست افسر شاہی (جس میں افسری ہے نہ شاہی) وزیر اعظم کی حکومت کے در پے ہے!

بڑھتے ہوئے ظالمانہ کرائے تو اسلام آباد کی ساری بستیوں کو خون رُلوا رہے تھے پھر صرف بھارہ کہو کے مظلوم کیوں شاہراہوں پر نکلے؟ اور صرف بھارہ کہو کے لوگوں نے سینوں پر دو ہتھڑ کیوں مارے اور بال کھول کر ماتم کیوں کیا؟ یہ ہزاروں ملین ڈالر کا سوال ہے! خلقِ خدا سے بے نیاز وزراء اور پست افسر شاہی کو تو اس سوال سے یوں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ تو اگلی حکومت میں بھی وزیر ہو جائینگے اور افسری کرینگے لیکن ہنسنے اور رونے کی بات یہ ہے کہ بیسیوں ٹیلی ویژن چینلز پر بزرجمہرانہ باتیں کرنیوالے لاتعداد ’’دانشوروں‘ مفکروں‘ تجزیہ کاروں‘‘ اور ’’اینکر پرسنز‘‘ میں سے کسی نے بھی سوچا نہ بتایا کہ آخر بھارہ کہو ہی نے ماتم کی ابتدا کیوں کی؟ آخر ترنول‘ ٹیکسلا‘ روات‘ ہڈیالہ اور گولڑھ شریف بھی تو نواحی بستیاں ہیں!

اس لئے کہ بھارہ کہو وہ واحد آبادی ہے جو پتھر کے زمانے میں رہ رہی ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات طے ہے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف نظر آنے والا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اصل مہیب برفانی تودہ تو پانی میں چھپا ہوا ہے اور کسی بھی وقت اسلام آباد کی کشتی سے ٹکرا سکتا ہے۔ وہ کشتی جو پہلے سے ہچکولے کھا رہی ہے اور جسے خلقِ خدا سے بے نیاز وزیروں کا طائفہ اور پست افسر شاہی ڈبونے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔

ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ سینکڑوں کنالوں پر مشتمل انکے عظیم الشان محل سے صرف دس … جی ہاں … صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر بھارہ کہو کا لاوارث علاقہ ہے جس کی کچی گلیاں اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں بنانے سے سی ڈی اے انکاری ہے۔ جس میں سٹریٹ لائٹ تو دور کی بات ہے کھمبے تک نہیں‘ جس کے سامنے سے سملی ڈیم کے پانی کی موٹی پائپ گزر رہی ہے لیکن جسکے رہنے والوں کیلئے اس پانی کا ایک قطرہ بھی حرام ہے! اور اسی بھارہ کہو سے گزر کر وہ سارے کھرب پتی سملی ڈیم کی بہشت کو جاتے ہیں جہاں بیس بیس کنال کے زرعی فارم ہیں۔ وہ زرعی فارم جس میں اگنے والی سبزیاں آج تک کسی نے نہیں دیکھیں اس لئے کہ وہاں محلات ہیں۔ دس دس کنال اور بیس بیس کنال کے محلات۔

بھارہ کہو کے عوام چیلنج دیکر کہتے ہیں کہ پورے ملک میں جی ہاں … پورے ملک میں بھارہ کہو وہ واحد بستی ہے جہاں صرف نصف درجن گھروں میں سوئی گیس کی دیوی گئی ہے۔ شاہراہوں پر سینہ کوبی کرنے والے لوگ پوچھتے ہیں کہ بھارہ کہو کے محلے شاہ پور کے سینکڑوں گھروں میں سے صرف دو یا تین گھروں میں گیس کا کنکشن دیا گیا ہے کیوں؟ کیا مصروف وزیر اعظم سوئی ناردرن گیس کے حاکم کو بلا کر پوچھیں گے اور اسے برطرف کرینگے؟ خدا کی قسم! یہ 2010ء ہے اور غلامی کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ سینکڑوں گھر اور صرف دو تین گھروں میں گیس کا کنکشن! بھارہ کہو اور شاہ پور کے لوگ جو وجہ اس کی بتاتے ہیں حکومت کے اپنے فائدے میں ہے کہ وہاں جا کر یہ وجہ خود گوش گزار فرمائے!

بھارہ کہو کے رہنے والے مظلوموں کی آنکھوں میں خون اترا تو اسلام آباد سے ایک افسر جسے اے سی رُورل (اسسٹنٹ کمشنر دیہات) کہتے ہیں بھارہ کہو کے دورے پر گیا۔ سبحان اللہ! کیا وزیر اعظم اس اے سی اور اس کے افسر ڈی سی اور ان دونوں کے مالک کمشنر کو بلا کر پوچھیں گے کہ تم ان ہنگاموں سے پہلے وہاں کب گئے تھے؟ ان پردہ نشین افسروں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ اٹھال چوک‘ شاہ پور‘ گرین ویلی‘ مدینہ ٹاؤن‘ عثمان آباد اور بلیجیئم ٹاؤن بھارہ کہو میں کہاں کہاں واقع ہیں؟ اس خدا کی قسم جو اس حالت میں بھی پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ تینوں افسرشیر شاہ سوری کے زمانے میں ہوتے تو انکا حشر دیکھ کر ملک کا ایک ایک افسر تیر کی طرح سیدھا ہو جاتا لیکن پھر یہ بھی تو ہے کہ شیر شاہ سوری جیسے حکمران صفحۂ تاریخ پر ہمیشہ چمکتے ہیں اور وہ جو گمنامی کی دُھند میں ایک ذرے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے ان کے زمانے میں کمشنر تو کیا اے سی رُورل بھی مخلوق کیلئے عذاب ہوتا ہے!

ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ جب تک وہ خود اسلام آباد کی اس بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی آبادی کی ایک ایک گلی خود نہیں دیکھیں گے … بھارہ کہو دوسری بار پھر اٹھے گا اور اب کی بار اٹھا تو معاملہ راولپنڈی کے فیض آباد پر نہیں رُکے گا!

پہلے آمر ایوب خان کے دورِ تاریک میں جب لاہور گولی چلی تھی تو اس درویش نے … جس کے وارث آج اپنے اپنے خاندانوں کی ترویج کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہا تھا کہ جہاں باڑ کھیت کو خود کھا رہی ہو وہاں کس سے شکایت کی جائے۔ سعدی کی حکایت میں جب بادشاہ نے اپنے علاج کیلئے لڑکے کے قتل کا حکم دیا اور لڑکے کے ماں باپ نے لڑکے کی قیمت وصول کر لی تو قتل ہونے سے پہلے لڑکے نے آسمان کی طرف منہ کیا اور ہنسا ‘ اس لئے کہ ماں باپ اور بادشاہ ہی تو حفاظت کرتے ہیں۔ جب وہی قتل کرا رہے ہیں تو خدا کے سوا کس کی طرف دیکھ کر ہنسا جائے۔ وزیر اعظم پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ایک شہر کے نہیں لیکن جب وفاقی پبلک سروس کمشن میں پنجاب سے ایک ریٹائرڈ افسر کو ممبر بنانا تھا تو وزیر اعظم نے پورے پنجاب کو چھوڑ کو صرف ایک خاص شہر سے تعلق رکھنے والوں پر نوازش کی! کیوں؟ کوئی اصول؟ کوئی ضابطہ؟ کوئی قانون؟ گذشتہ دو سالوں کے درمیان اس سطح کے جتنے افسر ریٹائر ہوئے ہیں کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا وفاقی پبلک سروس کمشن کے ممبروں کو تنخواہ کسی کی ذاتی جیب سے دی جاتی ہے؟ جنہیں محروم کیا جا رہا ہے اور کیا گیا ہے ان کی وجہ آج نہیں تو کل بتانا ہو گی اور جنہیں نوازا جا رہا ہے وہ حشر کے دن وزیر اعظم کی کوئی مدد نہیں کریں گے!

وزیر اعظم ہو یا حکومت کا کوئی اور ستون … یا وزیر … یا افسر سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں جرم کرنیوالے کو سزا دینے کی کوئی روایت نہیں ہے اگر سزا دینے کی روایت ہوتی تو 16مارچ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر شاہد حسن بگتی صرف یہ کہنے پر کیوں اکتفا کرتے کہ سی ڈی اے کے افسر ان بدعنوانیوں اور فراڈ کے ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے عوام کے اربوں روپے ہڑپ کر لئے گئے۔ سینیٹر بگتی یہ تو بتاتے ہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں سی ڈی اے کے اجازت نامے کے بغیر 70 فیصد کام مکمل بھی کر لیتی ہیں قوانین کو پاؤں تلے روندتی ہیں مسجدیں پارک اور سکول بیچ کھاتی ہیں اور یہ سب کچھ سی ڈی اے کی ملی بھگت کے سوا نہیں ہو سکتا لیکن وہ یہ نہیں مطالبہ کرتے کہ سی ڈی اے کے ذمہ دار افسروں کو سزا دی جائے۔ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کیخلاف ایف آئی آر کاٹی جائے‘ ضرور کاٹی جائے لیکن ترقیاتی ادارے کے ملوث افسروں کو کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ سی ڈی اے کے ایک سربراہ کی اس لئے تعریف کی جاتی ہے کہ اس نے فوڈ سٹریٹس بنوائیں اور وہ ساری شاہراہیں خوبصورت کرائیں جہاں سے حکمرانوں کی کاروں کے قافلے گزرتے تھے۔ کیا کوئی لائبریری بھی بنی؟ اگلے گریڈ میں ترقی پانے کودنیا و آخرت کا واحد مقصد سمجھنے والے ان بیچاروں میں اتنا وژن کہاں کہ یہ لائبریریاں بنواتے اور فوڈ سٹریٹ کے بجائے ’’بک شاپ سٹریٹ‘‘ وجود میں لاتے۔ انکی رعونت کا تو یہ عالم تھا کہ یہ ٹیکس دینے والوں کے خطوں کے جواب کسی اہلکار تک سے نہیں دلواتے تھے۔ ایک معزز شہری نے خط لکھا کہ اتنے بڑے پارک میں نماز کیلئے ایک چھوٹا سا چبوترہ بنوا دیا جائے ایک اور نے فریاد کی کہ غنڈے پارکوں میں خواتین کو ہراساں کرتے ہیں رعونت نے جواب ہی نہ دینے دیا۔

Tuesday, March 23, 2010

تار تار لباس والا شخص اور اْس کا ساتھی

محل تھا اور سلگتا عود تھا اور جھاڑ فانوس تھے۔ ہر پائیں باغ میں عیش و طرب کی محفل برپا تھی۔ ہر دیوان میں دیوانِ عام تھا یا خاص، رقص و سرور تھا اور ہر خواب گاہ سے نقرئی قہقہے چھن چھن کر باہر آ رہے تھے۔ گراں بہا قالینیں تھیں، چاندی کے ظروف تھے۔ بلّور کی صراحیاں تھیں، مور چھل تھے اور کنیزیں، تلواریں تھیں اور چوبدار، محل جنت سے کم نہ تھا! تالی بجانے سے خدّام ظاہر ہوتے تھے جن کے ہاتھوں میں خوان تھے۔ دنیا میں اس سے بہتر انتظام ناممکن تھا!۔



میں غلام گردش سے ہوتا ہوا شیش محل میں داخل ہونے لگا تھا جب میں نے اسے دیکھا۔ اسکے کپڑے تار تار تھے۔ پیروں میں ٹوٹے ہوئے پاپوش تھے۔ کاندھوں پر دریدہ شال تھی۔ سر پر چیتھڑوں جیسی ٹوپی تھی۔ ایک ہاتھ میں کشکول تھا۔ دوسرا ہاتھ زخمی تھا۔ جس سے خون رس رہا تھا! بازوؤں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ ضْعف اسکے ایک ایک انگ سے ظاہر تھا۔ پیاس سے ہونٹ سوکھ رہے تھے۔ گال زرد تھے اور پچک گئے تھے‘ میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا!


’’ تم نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟ کب تک ر ہو گے اس حالت میں؟
 میں نے پوچھا
 جواب میں وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔
 ’’جس حال میں بھی ہوں، میں اس محل میں رہنے والوں کے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا۔
 تم کب تک گْھلتے رہو گے اور پگھلتے رہو گے؟ اس محل کا طرزِ زندگی اور اس میں رہنے والوں کا طرزِ فکر نہیں تبدیل ہو سکتا۔ تمہیں ہی اس ہجوم میں شامل ہونا پڑیگا۔


’’نہیں! یہ کبھی نہیں ہوسکتا! انہوں نے مجھے راستے سے ہٹانے کیلئے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کیا نہیں کیا، لیکن میں زندہ ہوں اور زندہ رہوں گا۔ کیا تم نہیں جانتے کون کون میرے درپے ہیں۔ سب سے پہلے جاگیرداروں نے میرے راستے میں کانٹے بچھائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ محل صرف ان کیلئے بنا ہے۔ وہ کسی کو اس میں آنے نہیں دیتے۔ ہر دالان میں ہر راہداری میں، ہر شیش محل میں ہر دیوان میں، وہ اور انکی ذریت دندناتی پھر رہی ہے۔ حالانکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ محل ان کیلئے نہیں بنا تھا پھر سردار آئے اور مجھے قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر سازش ناکام ہوئی۔ ان سرداروں نے اپنے اپنے قبیلوں کے لوگوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ بلوچستان سے باہر آئیں تو جمہوریت کا راگ الاپنے لگتے ہیں اور اپنی راجدھانیوں میں ہوں تو مجرم پکڑنے کیلئے بے بس خلق خدا کو جلتے کوئلوں پر چلاتے ہیں۔ یہ محل کے ہر کمرے میں موجود ہیں اور ہر ایک کے کئی سو محافظ ہیں! پھر مذہب کے علم بردار آئے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے محل پر چھا گئے۔ ان میں خدا کا خوف ہے نہ مخلوق کی شرم! یہ اتنے دیدہ دلیر اور اس قدر دریدہ دہن ہیں کہ ایک طرف فخر سے کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے ہم اس محل کے بنانے کے جرم میں شامل نہیں اور دوسری طرف یہ مسخرے وزارت چھوڑتے ہیں‘ نہ امارت اور حاجبوں چوبداروں نقیبوں اور کفش برداروں کے بغیر ایک قدم نہیں چلتے۔ انہوں نے کئی بار مجھ پر وار کئے لیکن ان کی کوئی بزدلانہ کوشش آج تک کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ انتہا یہ ہے کہ لوگ انکی ہوسِ زر سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں لیکن یہ سفید جھوٹ بول بول کر مسندوں پر مسلسل براجمان ہیں! پھر وہ سیاہ دل طبقہ ہے جو اپنے آپ کو افسر شاہی کا نام دیتا ہے۔ یہ اپنے طور پر الگ اس زعم میں ہیں کہ سب کچھ ان کا ہے اور یہ سارا میلہ ان کیلئے برپا کیا گیا ہے۔ یہ کبھی پھْدک کر اس طرف سے باڑ کے اس طرف جا پہنچتے ہیں اور کبھی واپس آ جاتے ہیں۔ انکی ذریتیں ولایت میں ہیں۔ انکی شہریتیں دْہری ہیں۔ ان کی تجوریوں میں مزید ڈالر ٹھونسے جانے کی گنجائش نہیں، انکے محلات لاتعداد ہیں اور انکی بیگمات علانیہ اور خفیہ متعدد ہیں۔ انہوں نے بھی مجھ پر وار کئے لیکن یہ مجھے گھائل تو کر سکے، مار نہیں سکے۔ پھر وہ تاجر اور صنعت کار ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس نہیں دینگے۔ ایک صنعتکار نے جو بہت بڑا سیاست دان ہے پانچ ہزار روپے ٹیکس میں ادا کئے ہیں، رہے سیاست دان تو وہ جاگیردار ہوں یا صنعتکار، سب ایک جیسے ہیں۔ گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں، میرٹ کو قتل کرنے کیلئے سفارشیں کرتے ہیں اور دباؤ ڈالتے ہیں۔ ارب کھرب پتی ہونے کے باوجود سرکاری رہائش گاہوں کا کرایہ تک نہیں دیتے اور ذہنی پستی کا یہ واحد ثبوت نہیں اور بھی کئی ثبوت ہیں مثلاً یہ کہ اسمبلیوں میں صرف اس وقت اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں جب مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو
!
 لیکن اس سارے عرصہ میں‘ ان باسٹھ سالوں میں… ایک ساتھی ایسا ہے جو مسلسل میرے ساتھ رہا۔ غربت میں، سفر میں، بے کسی میں، بے چارگی میں، دھوپ میں، طوفان میں ، اس نے میرا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔ بارہا مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اس نے مجھے امید کی کشتی پر بٹھایا اور اپنے اس پختہ ایمان کا اظہار کیا کہ مجھے کوئی بدبخت گزند نہیں پہنچا سکتا‘ میرے اس ساتھی نے ہمیشہ ایک ہی گیت گایا …؎


یہی مٹّی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے


یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے


اسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کر


یہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہے


اسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا بڑے ہوئے


ہمیں پاؤں پاؤں چلاتی ہے جیسی بھی ہے


اسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہے


یہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہے


اسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں


یہی چْھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہے


اسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں


یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہے


اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے


یہی غرناطہ یہی سسلی ہے جیسی بھی ہے


تار تار کپڑوں والا یہ شخص 23 مارچ ہے اور باسٹھ سال سے ہر حالت میں اس کا ساتھ دینے والا نوائے وقت ہے اور نوائے وقت کا ایمان ہے کہ محل پر قابض لوگ کیفر کردار کو پہنچیں گے اور وہ دن ضرور آئے گا جب مسند پر 23 مارچ بیٹھے گا۔

Saturday, March 20, 2010

شہباز شریف اور سچ کا قتل

سب سے پہلا قتل جنگ میں سچ کا ہوتا ہے، جامعہ نعیمیہ میں تو جنگ بھی نہیں تھی لیکن افسوس! پھر بھی وہاں سچ کا قتل ہوا اور شہبازشریف کو اس سب کچھ کی وضاحت کرنا پڑی جو انہوں نے کہا ہی نہیں تھا یا کم از کم جو ان کا مطلب نہیں تھا!

اس کالم نگار کی تحریریں گواہ ہیں کہ اسے شہباز شریف سے کوئی حسنِ ظن نہیں ہے۔ وہ پورے پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر لاہور سے باہر  نہیںنکل سکتے اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ لاہور پنجاب کا دل ہے لیکن کیا کبھی کوئی جسم صرف دل ہی پر مشتمل ہوا؟ دل کا تو بھرم ہی اس وقت تک قائم ہے جب تک پورا جسم اور جسم کا ایک ایک حصہ اور ایک ایک رگ اور ایک ایک شریان اور ایک ایک مسام دل کا ساتھ دے رہا ہے! پنجاب کے ایک غریب دورافتادہ بستی کے رہنے والوں کی فریاد خادمِ اعلیٰ تک پہنچائی گئی تھی جو زمین پنجاب حکومت کے نام پر کرنے کے باوجود پانچ سالوں سے ڈسپنسری کا انتظار کر رہے ہیں اور اب تو ڈی سی او نے اس کیلئے وزیراعلیٰ سے دو ملین روپے مانگ بھی لئے ہیں۔

ہاں! اس کالم نگار کو خادمِ اعلیٰ سے کوئی حسنِ ظن نہیں ہے لیکن سچ سچ ہوتا ہے اور جب سچ قتل ہو رہا ہو تو نہ بولنا اپنے آپ پر ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہبازشریف نے جامعہ نعیمیہ میں جو کچھ کہا اس پر واویلا مچانے کا کوئی جواز نہیں تھا! ایک مشہور صحافی نے وہاں تقریر کی اور اپنی گزشتہ تقریر کا حوالہ دیا جس میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ لاہور کو نشانہ بنایا جائے گا۔ شہبازشریف نے جو کچھ کہا وہ اسی سیاق و سباق میں تھا اور اگر شہبازشریف نے طالبان سے کہا بھی ہے کہ وہ پنجاب پر حملے نہ کریں تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ وہ پنجاب کے علاوہ ملک کے باقی حصوں پر حملے کرتے رہیں۔

لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی! وہ پہلو یہ ہے کہ طالبان میں لاکھ برائیاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ کبھی امریکہ کے ہاتھ میں نہیں کھیل سکتے۔ وہ کبھی امریکہ کے مہرے نہیں بن سکتے اور کبھی بلیک واٹر کے ایجنٹ نہیں بن سکتے۔ طالبان جھوٹ بھی نہیں بولتے اور وہ جو کام بھی کریں اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن پاکستان میں انکے کچھ نام نہاد خیر خواہ ایسے ہیں جو انہیں امریکیوں کے گماشتے قرار دیتے ہیں اور ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ دھماکے امریکہ کرا رہا ہے اور دھماکے کرانیوالے امریکیوں کے اور یہود وہنود کے ایجنٹ ہیں اسکی ایک مثال یہ ہے کہ ماضی قریب میں راولپنڈی کی پریڈ لین کی جامع مسجد پر حملہ ہوا اور عین جمعہ کی نماز کے وقت کئی نمازی شہید ہو گئے جن میں بچے اور لڑکے بھی شامل تھے۔ طالبان کے ترجمان جناب ولی الرحمن نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن اسکے باوجود ایک معروف مذہبی جماعت کے سابقہ رہنما نے پریڈ لین پر کئے گئے حملے کو امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ تو کیا ولی الرحمن اور انکے ساتھی امریکہ کے فرنٹ مین ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کچھ حضرات دور کی یہ کوڑی بھی لاتے ہیں کہ طالبان کے ترجمان سے جو بیان منسوب ہوتا ہے وہ دراصل ان کا نہیں ہوتا اوریہ بھی سازش کا حصہ ہے لیکن ایسے سادہ (یا پُرکار!) حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کوئی بیان طالبان سے جھوٹا منسوب ہو جائے تو طالبان فوراً اس کی تردید کر سکتے ہیں!

اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اب شہباز شریف کے جامعہ نعیمیہ والے بکھیڑے کی طرف واپس آئیے۔ شہبازشریف نے طالبان سے کہا کہ طالبان بھی امریکہ کی پالیسیوں کے مخالف ہیں اور پنجاب حکومت بھی مخالف ہے تو پھر وہ پنجاب پر حملے کیوں کر رہے ہیں۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ غور کیجئے اسکے ردِ عمل میں طالبان نے یہ نہیں کہا کہ پنجاب پر حملے کرنیوالے ہم نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب میں مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی شرط پیش کی ہے۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی دی ہوئی خبروں کیمطابق مہمند ایجنسی کے لیڈر جناب عبدالولی نے وعدہ کیا کہ اگرپنجاب کی حکومت طالبان کیخلاف کوئی اقدام نہ کرے تو تحریک طالبان پاکستان بھی پنجاب پر حملہ نہیں کریگی۔ یہ عبدالولی وہی ہیں جنہیں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا نائب بھی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ  کہاجا سکتا ہے کہ شہبازشریف نے اپنے اس بیان کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان سے حملوں کا اعتراف کروا لیا ہے اور اب اس بات میں کوئی شک یا شائبہ نہیں کہ لاہور پر حالیہ حملے طالبان نے کئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے جو پیشکش حکومت پنجاب کو کی ہے اس سے ان خوش گمانوں اوردن میں سپنے دیکھنے والوں کو ہوش میں آ جانا چاہیے جو کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان عورتوں اور بچوں پر یا مسجدوں پر حملے نہیں کر سکتا۔

ظاہر ہے طالبان کا اپنا نکتہ نظر ہے وہ ان حملوں کی توجیہہ پیش کرتے ہیں انکا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت امریکہ کی ہم نوائی کر رہی ہے اس لئے حکومت کے اداروں اور امریکہ کی مدد کرنے والوں پر حملے کرنا جائز ہے۔ طالبان عورتوں اور بچوں کو بچانے کیلئے اپنی سی کوشش بھی کر دیکھتے ہیں۔ لاہور کے خودکش حملوں کے بعد طالبان نے لاہور کے عوام کیلئے تفصیلی ہدایات جاری کیں اور انہیں سمجھایا کہ وہ پولیس، فوج اور خفیہ اداروں سے دور رہیں اور غیر ملکی کمپنیوں سے سروکار نہ رکھیں۔ انہوں نے عوام کو تمام ایسی جگہوں پر جانے سے منع کیا جہاں امریکیوں کا آنا جانا ہے!رہا وہ واویلا جو شہبازشریف کے بیان پر میڈیا کے کچھ حصوں نے اور اہل سیاست نے مچایا تو شہبازشریف کو ظفر اقبال کا یہ شعر کام میں لانا چاہیے تھا؎

دیکھ ! رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے

شور  کر  اور  بہت،  خاک  اڑا   اور       بہت

اگر صوبے کا حاکم یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا صوبہ ترقی کرے اور میرا صوبہ تجارت کرے تو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے صوبے پر حملہ نہ کیا جائے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ پر صوبائی تعصب کا الزام عائد کرنیوالے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پنجاب کے اپنے گاؤں کو ڈسپنسری قائم کرنے کیلئے دو ملین روپے نہیں رہے اسی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے آخر سوات اور بلوچستان پر لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں اور صوبہ سرحد کے لاکھوں افراد پنجاب میں مزدوری سے لیکر بڑے کاروبار تک سب کچھ کر رہے ہیں‘ اس لئے کہ پنجاب پاکستان کا حصہ ہے۔ پنجاب تمام پاکستانیوں کا ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب پر حملے نہ کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے کسی حصے پر حملے نہ کئے جائیں
!
کسی بھی مسئلے کو مختلف ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ طالبان کے نکتہ نظر پر بھی غور کرنا ہو گا۔ امریکہ افغانستان کو غصب کئے بیٹھاہے لاکھوں مسلمان مارے جا رہے ہیں۔ ڈرون حملوں میں بھی بچے اور عورتیں اسی طرح شہید ہوتی ہیں جس طرح لاہور اور راولپنڈی میں ہوتی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں سے طالبان کو بھی نفرت ہے اور پاکستان کے عوام کو بھی نفرت ہے طالبان اور پاکستان کے عوام کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے لیکن افسوس! وہ دشمن کو نقصان پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کے درپے ہیں اور یہ ایسی ڈور ہے جس کا سرا نہیں مل رہا ۔ مجید امجد نے قسمتوں کے ایسے ہی پھیر کے بارے میں کہا تھا…؎

جو تم ہو برقِ نشمین تو میں نشمینِ برق

الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا

Tuesday, March 16, 2010

ہوشیار! اعظم سواتی صاحب! ہوشیار

پارلیمنٹ میں سناٹا چھا گیا…’’میری دائیں جیب میں ایک کاغذ ہے۔ ایک کاغذ میری بائیں جیب میں بھی ہے، پارلیمنٹ کے ارکان دونوں میں سے جس کاغذ کو چاہیں منظور کر لیں۔

یہ الفاظ ڈاکٹر طہٰ حسین کے تھے، تین سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہونے والا طہٰ حسین ایک غریب بچہ تھا لیکن اس نے فرانس سے ایک نہیں دو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیں اور مصر میں مذہب کو اندھی مُلائیت کے شکنجے سے آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ وزیر تعلیم بنا اس کی دائیں جیب میں پرائمری تک مفت تعلیم کا بل تھا بائیں جیب میں استعفیٰ تھا۔ مصر کی پارلیمنٹ نے بل منظور کر لیا۔ ہر مصری بچہ پرائمری تک مفت تعلیم کا حق دار ہو گیا بعد میں یہ سہولت دسویں جماعت تک دے دی گئی۔ مصری آج تک طہٰ حسین کے احسان مند ہیں! تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر طہٰ حسین کا یہ قول دنیا بھر میں مشہور ہے کہ ’’تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی سانس لینے کیلئے ہوا اور پینے کیلئے پانی‘‘

مجھے یہ واقعہ اعظم سواتی کی نوائے وقت سے خصوصی بات چیت پڑھ کر یاد آیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر اعظم سواتی اس سے پہلے مانسہرہ ضلع کے منتخب شدہ ناظم تھے۔ جدید اردو نظم کے مایہ ناز شاعر ڈاکٹر وحید احمد اس زمانے میں مانسہرہ کی ضلعی حکومت میں ملازمت کر رہے تھے۔ انکی روایت ہے کہ اعظم سواتی اپنی ذاتی گاڑی استعمال کرتے تھے اور ان کا طرز عمل ’’عام‘‘ سیاستدانوں سے بہت حد تک مختلف تھا۔ پھر یوں ہوا کہ سواتی صاحب اسلام آباد پارلیمنٹ میں پہنچ گئے وہ عالم دین نہیں لیکن پارلیمنٹ میں جمعیت علماء اسلام کی وساطت سے پہنچے اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے وہ اس جماعت سے کبھی بھی وابستہ نہیں تھے۔

چند دن پہلے خبر پھیلی کہ اعظم سواتی نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ نوائے وقت سے گفتگو انہوں نے اسی حوالے سے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خبر سے وہ صرف احساس دلانا چاہتے تھے اور اب وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ انکی وزارت کو پورا بجٹ دیا جائیگا۔ وزارت سنبھالتے وقت انکے بقول وہ کچھ عزائم رکھتے تھے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے تین ارب روپے کا بجٹ مانگا لیکن انہیں صرف ساٹھ کروڑ روپے دیئے گئے یعنی تین ارب کا پانچواں حصہ! سواتی صاحب نے وزارت ذیلی اداروں کی تنظیم نو کرنا چاہی لیکن بجٹ کی کمی آڑے آ گئی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سائنس دانوں کو بہتر سکیل اور پرکشش مراعات دلوانا چاہتے ہیں۔ تین چار بار استدعا کرنے کے باوجود وزارت عظمٰی میں انکی شنوائی نہ ہوئی۔ سواتی صاحب کا خیال یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے ان کی تجاویز کا نوٹس لے لیا ہے اور ترجیحی بنیادوں پر منظور کرنے کی ’’یقین دہانی‘‘ کی ہے!

جو کچھ اعظم سواتی نے کہا ہے اگر وہ وہی کچھ کرنے کی امنگ رکھتے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے ہم نے ’’اگر‘‘ کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ بہرحال وہ ایک سیاستدان ہیں جس سیاسی جماعت سے وہ وابستہ ہیں اسکی ساکھ بھی سب کے سامنے ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کی باتوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں سواتی صاحب ایک عرصہ امریکہ میں رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا دیکھی ہوئی ہے اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو ہمارے بہت سے وزیروں کو حاصل نہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ وہ فی الواقع سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت میں کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔لیکن نہ جانے کیوں ناصر کاظمی کا شعر یاد آ رہا ہے

بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیار

خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے

سواتی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ وزیراعظم کی یقین دہانیوں پر زیادہ انحصار نہ کریں۔ حاشا وکلا اس کالم نگار کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وزیراعظم یقین دہانی میں سنجیدہ نہیں۔ اصل مسئلہ اور ہے اور وہ یہ کہ وزیراعظم چاہیں بھی تو سواتی صاحب کی تجاویز کو وہ سمندر عبور نہیں کروا سکیں گے جسے وزارت خزانہ کہا جاتا ہے اس ملک میں سول سروس کا ایک گروپ اپنے آپکو لارڈ میکالے کا ’’براہ راست جانشین‘‘ (DIRECT DESCENDENT) سمجھتا ہے۔ یہ مراعات یافتہ گروپ جی او آر لاہور کے دس دس ایکڑ محلات سے لیکر نہ صرف وزارت خزانہ تک بلکہ ہر اس محکمے تک پھیلا ہوا ہے جس کے بارے میں اسکی معلومات صفر سے زیادہ نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی انفارمیشن ٹیکنالوجی، تجارت، تعلیم، صحت، بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے، کارپوریشنیں، انکم ٹیکس اور کسٹم کے انتہائی ٹیکنیکل شعبے غرض ہر وہ جگہ جہاں کسی سائنس دان، کسی انجینئر کسی پروفیسر کسی پی ایچ ڈی کو ہونا چاہیے وہاں سول سروس کے اس مخصوص ہتھوڑا گروپ کا قبضہ ہے ورنہ کیا یہ ممکن ہے کہ انکم ٹیکس اور کسٹم کے سینکڑوں تجربہ کار افسروں میں سے ایک جی ہاں… ایک بھی ایسا نہ ہو جو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کا اہل نہ ہو! لیکن…؎

یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چُرا لیتے ہیں لوگ

قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ

اس کالم نگار کو ڈر ہے کہ وزیراعظم کی کوشش کے باوجود وزارت خزانہ کے بزرجمہر سواتی صاحب کو مطلوبہ بجٹ فراہم نہیں کریھگے اور ایسی ایسی پیچیدہ ’’تکنیکی‘‘ بجھارتیں ڈالیں گے تو سواتی صاحب سر پیٹ کر رہ جائینگے۔ رہا ان کا یہ ارادہ کہ وہ سائنس دانوں کو بہترین سکیل (تنخواہوں کی شرح) اور مراعات دلوانا چاہتے ہیں تو اگر وہ یہ کام کر پائیں تو ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔لیکن یہی تو وہ مسئلہ ہے جسکی وجہ سے سائنس دان یہ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ افسر شاہی کے ارکان کو مقررہ معیاد کے بعد خود کار طریقے سے اگلا گریڈ مل جاتا ہے۔ یعنی نو سال بعد گریڈ 19 اور اسی طرح اگلے مراحل بھی۔ لیکن سائنس دانوں ڈاکٹروں اور پروفیسروں پر یہ طریق کار منطبق نہیں کیا جاتا۔ اس امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں اور یہ ناروا فرق دور ہونا چاہیے۔ رہیں مراعات تو سواتی صاحب بہت بڑے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مراعات صرف افسر شاہی کا حق ہے۔ سائنس دان پی ایچ ڈی، ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر ان مکانوں ان گاڑیوں اور ان سرکاری دوروں کا سوچ بھی نہیں سکتے جو افسر شاہی کا موروثی حق ہے اور آخر میں سواتی صاحب کیلئے گُر کی ایک بات اگر وزارت خزانہ مرکز کی ہر وزارت، ہر ذیلی محکمے اور ہر کارپوریشن کی ایک ایک گاڑی کم کر دے اور ایک ایک افسر کی آسامی ختم کر دے (اگرچہ اس سے زیادہ کا ختم کرنا بھی آسانی سے ممکن ہے) تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطالبات زر پورے ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو ہم نے ان کروڑوں اربوں روپے کی بات ہی نہیں کی جو پارلیمنٹ کے ارکان پر خرچ ہو رہے ہیں!

Tuesday, March 09, 2010

قانون اور دستار

مجھے درختوں سے نفرت ہے۔ مجھے ان پہاڑیوں سے نفرت ہے جن پر درخت اگتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں!

مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے اختلاف کریں گے اور درختوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔ میں خود درختوں کی تعریف میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔ مثلاً یہ کہ درخت زیتون کے ہوں یا انجیر کے‘ شہتوت کے ہوں یا املتاس کے‘ میوہ دار ہوں یا بانجھ‘ میٹھا بور لئے ہوں یا نوکیلے کانٹے‘ اجڑے ہوئے صحن میں ہوں یا آباد پائیں باغ میں‘ وہ مقدس ہوتے ہیں۔ درخت پرندوں کے گھر ہوتے ہیں اور معصوم بچوں کے امانت دار درختوں سے بنی ہوئی لاٹھیوں سے اندھے راستہ ڈھونڈتے ہیں۔

درختوں کے تنوں میں پناہ لینے والے پیغمبروں نے شہادت پائی ہے۔ درختوں کے سائے تلے مرنے کی بیعت اور محبت کے قول و قرار ہوتے ہیں۔ درختوں کے پتے پانی میں ابال کر ماتم کرتے ہوئے لوگ اپنے پیاروں کی میتیں نہلاتے ہیں۔

درختوں کی چھال پر عاشق معشوقوں کے نام کھودتے ہیں اور درختوں کی شاخوں سے رسے باندھ کر آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ میں تو جتنے راستوں پر چلا ہوں اور میں نے جتنے دریا عبور کئے ہیں اور میں جتنے پہاڑوں پر چڑھا ہوں اور میں نے جتنی مسرتیں کاشت کی ہیں اور میں نے جتنے غم کاٹے ہیں اور میں نے جتنے پیاروں کو گم کیا ہے وہ سب مجھے درختوں کے حوالے سے یاد ہیں اس لئے کہ درختوں کے ساتھ ٹیک لگا کر اور درختوں کے چلتے سایوں کیساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹ کر اور درختوں کو جھاڑ کر اور درختوں سے بغل گیر ہو کر ہم نے ہم نے معاملے طے کئے تھے۔ میں نے آج تک کسی درخت کو مکار‘ جھوٹا اور دولت جمع کرنے کے پاگل پن میں مبتلا نہیں دیکھا یہ سب سچ ہے لیکن مجھے درختوں سے نفرت ہے۔ مجھے ان پہاڑیوں سے نفرت ہے جن پر درخت اگتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں۔

پاکستان کے دارالحکومت کے شمال میں خوبصورت پہاڑیوں کا ایک سلسلہ ہے جسے مارگلہ کہتے ہیں۔ ان پہاڑیوں پر درخت اگتے ہیں۔ گھنے جنگل ہیں۔ یہاں جنگلی جانور ہیں اور خوبصورت پرندے ہیں۔ ان پہاڑیوں پر ماں باپ کیساتھ بچے آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ بچوں کے چاند جیسے چہرے اور بھی زیادہ چمک اٹھتے ہیں لیکن ہائے افسوس! میں کیا کروں۔

مجھے ان پہاڑیوں اور ان پہاڑیوں پر اُگے درختوں سے نفرت ہے‘ اسی لئے کچھ کھرب پتی کاروباری لوگ جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مارگلہ کی ان خوبصورت پہاڑیوں میں سرنگ بنا کر زمین کو ’’ڈی ویلپ‘‘ کیا جائے تو میں اس مطالبے کی پرزور تائید کرتا ہوں۔

ان حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارگلہ پہاڑیوں کے عقب میں واقع دو لاکھ کنال اراضی ’’حاصل‘‘ کرکے فروخت کی جائے تو سارا غیر ملکی قرضہ اتر جائے گا۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ سرنگ لگانے کے بجائے نقب لگائی جائے کیوں کہ پاکستان کے کاروباری حضرات نقب لگانے کے ماہر ہیں۔

اس حقیقت کی گواہی انکم ٹیکس کے اعداد و شمار دے رہے ہیں۔ رہا دو لاکھ کنال اراضی ’’حاصل‘‘ کرکے فروخت کرنے کا مسئلہ‘ تو چونکہ اسلام آباد میں آئے دن نیلام ہونیوالے دنیا کے گراں ترین پلاٹ بھی ملکی قرضہ نہ اتار سکے اور پی ٹی سی ایل بھی بک کر یہ کام نہ کر سکا اور بے شمار دوسرے ادارے بھی ’’غیر جانبدار‘‘ طریقے سے فروخت ہو کر قرضہ نہ اتار سکے تو امید کامل ہے کہ پہاڑیاں اور درخت کاٹے جانے کے بعد یہ کام کر ڈالیں گے! میں یہاں یہ بھی تجویز کروں گا کہ پارکوں اور باغوں کا کیا فائدہ؟ انہیں بھی فروخت کرکے ہم مزید قرضہ اتار سکتے ہیں بلکہ دوسرے ملکوں کو قرضہ دے سکتے ہیں۔

آخر مارگلہ پہاڑیاں قومی پارک ہی کا تو حصہ ہیں! یہاں میرے توسن ِتخیل کی دوڑ دور تک چلی گئی ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کے ساتھ بڑے بڑے گراؤنڈ ہیں۔ کیوں نہ وہاں بھی مکان بنا دئیے جائیں؟ بلکہ سکول اور کالج بھی کاروبار کے نکتہ نظر سے کچھ زیادہ مفید نہیں! اس ملک کے محسن یا تو جاگیردار ہیں یا بزنس مین۔ اگر جاگیردار دیہاتی علاقوں کے سینکڑوں سکولوں کی عمارتوں کو مویشی باندھنے اور دوسرے ’’نیک‘‘ کاموں کیلئے استعمال کر رہے ہیں تو بزنس مین کیوں پیچھے رہیں؟ چنانچہ شہروں اور قصبوں کے تعلیمی ادارے کاروباری حضرات کے حوالے کر دئیے جائیں تاکہ وہ انہیں فروخت کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور ملک ترقی کر سکے‘ مجھے اچانک شیخ سعدی یاد آرہے ہیں۔ بہت معصوم اور سادہ دل تھے۔ کوہ طور کے بارے میں ایک شعر کہہ گئے…؎

اقل جبال الارض طور و انّھ

لاعظم عنداللہ قدراً و منزلاً

یعنی طور کئی دوسرے پہاڑوں سے چھوٹا سہی لیکن قدر و منزلت کے حوالے سے اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا ہے! سعدی کو کیا پتہ کہ مارگلہ کی کیا حیثیت ہے‘ یہاں اگر طور پہاڑ بھی ہوتا تو لوگ اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے!

مارگلہ میں سرنگیں لگا کر انہیں فروخت کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہو گا کہ سابق بیورو کریٹ حضرات جو ’’مارگلہ بچاؤ‘‘ تحریک کے روح رواں ہیں مارگلہ بچاؤ سرگرمیوں سے فارغ ہو جائینگے اور فل ٹائم جمہوریت کیلئے جدوجہد کر سکیں گے۔ وہ جب بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے تو ایوب خان‘ یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی خدمت میں سرگرم رہے۔ اس وقت جمہوریت کیلئے آواز اٹھانا مناسب نہ تھا! غلام اسحاق خان نے ایک الیکشن سیل بھی تو بنایا تھا! ریٹائرمنٹ کے بعد ماضی کو فراموش کرکے نئی زندگی کا آغاز کرنا وقت گزاری کا اور ’’ان‘‘ رہنے کا بہترین نسخہ ہے۔ عوام بھی ماضی کو بھول جاتے ہیں۔ یوں نئی زندگی کا آغاز کرنا آسان تر ہو جاتا ہے اور اگر نئی زندگی شروع کرنے کیلئے نام بھی بدل لئے جائیں اور صورتیں بھی تو کیا ہی کہنا!!

ویسے بھی سنا ہے کہ دارالحکومت کے اس سنہری حصے میں جہاں کھرب پتی رہتے ہیں ہر جمعہ کی شام کچھ ریٹائرڈ بیورو کریٹ مل بیٹھتے ہیں۔ کمپنی بہادر کے ایام یعنی غلام اسحاق خان اور ضیاء الحق کے زمانوں کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں‘ طلسمی مہکار والی درآمد شدہ کافی گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں۔ بہترین کھانے تناول کرتے ہیں اور ناصر کاظمی کا یہ شعر پڑھ کر اپنے آپ کو ایصال ثواب کرتے ہیں…؎

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں‘ گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا‘ مثال گرد سفر گیا وہ

پھر ایک اور بات بھی ہے۔ جو طاقتور آنکھیں مارگلہ پہاڑیوں کو دیکھ رہی ہیں وہ اگر خدا نخواستہ‘ خدانخواستہ اسلام آباد کی اس خوبصورتی کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو آپکا کیا خیال ہے کہ کچھ ہو گا؟ نہیں کچھ بھی نہیں۔ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن بااثر لوگوں کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا! اور ان حضرات کو قانون سے ماورا رکھنے میں ان کی ہم مرتبہ شخصیات مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے وزارت تجارت کا مقدمہ پیش ہوا۔ استعمال شدہ تیل (فرنس آئل) درآمد کرنا ممنوع ہے۔

وفاقی وزیر تجارت نے ممنوعہ تیل کی اجازت نبفس نفیس دی۔ قومی اسمبلی کے ایک رکن نے یہ ممنوعہ تیل درآمد کرنے کی سفارش کی اور یہ استعمال شدہ تیل ایک چھٹانک یا ایک کلو گرام نہیں ہے۔ بلکہ دس ملین ٹن یعنی ایک کروڑ ٹن ہے!! سیکرٹری تجارت نے غلطی کو تسلیم کیا لیکن ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ ’’معاملے کی انکوائری کی گئی‘‘ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے فرمایا کہ:

’’پارلیمنٹ قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو مقدس سمجھتی ہے۔ ہم کرپشن کیخلاف ہر سطح پر لڑیں گے‘‘۔

درآمد کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ ممنوعہ تیل پہلے ہی غیر قانونی طریقے سے آرہا ہے تو ہم نے قانونی طور پر لانے کی اجازت دے دی۔ کیا منطق ہے! تو پھر ہیروئن اور اسلحہ سمیت جو کچھ بھی غیر قانونی طور پر آرہا ہے‘ اس کی قانونی طور پر لانے کی اجازت مرحمت فرما دیجئے!! کمیٹی کے چیئرمین نے بتایا کہ درآمد کرنے والی کمپنی کا تعلق ملتان سے ہے اور ممنوعہ تیل کا استعمال بلوچستان میں ہو گا! اسے کہتے ہیں دو آتشہ!

یعنی ویسے تو استعمال شدہ تیل کی درآمد منع ہے لیکن اگر درآمد کرنیوالوں کا تعلق ملتان کے مقدس شہر سے ہو اور غلط تیل بلوچستان میں استعمال ہونا ہو تو سب جائز ہے!

پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے بااثر مجرموں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا! پنجاب میں پولیس نے چھ نوجوانوں کو سرعام چھترول ایک عوامی نمائندے کی موجودگی میں کی۔ وزیر قانون نے اس پر کہا تو یہ کہا کہ ہم یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں اٹھائینگے۔ گویا عوامی نمائندے وزارت قانون کی عمل داری سے باہر ہیں! مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ کے صاحبزادے نے ایک غیر مسلم کو مارا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے صاحبزادے کو اور اس کے والد صاحب کو مدینہ منورہ میں طلب کیا اور قبطی سے کہا کہ صاحبزادے کو مار۔ صاحبزادے نے قبطی کو مارتے ہوئے کہا تھا کہ میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ اب قبطی گورنر کے بیٹے کو مارتا تھا اور امیر المومنین فرماتے تھے کہ اسے مار یہ بڑوں کی اولاد ہے! لیکن ہمارے ہاں تو بڑے بہت ہی بڑے ہیں! اتنے بڑے کہ قانون ان کی طرف دیکھے تو قانون کے سر سے ٹوپی گر جاتی ہے! شکیب جلالی نے قانون بیچارے کو کتنے پیار سے تسلی دی تھی…؎

دیکھتے کیا ہو شکیب اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے

Saturday, March 06, 2010

مڈل کلاس‘ امید یا فریب ؟

پیپلز پارٹی کے وزیر جناب اعجاز جکھرانی کے اثاثے ڈیڑھ کروڑ روپے سے چھ کروڑ ہو گئے ہیں۔ سید خورشید شاہ کی دولت چوبیس ملین روپے سے بڑھ کر اکاون ملین ہو گئی ہے۔ جناب منظور وٹو کے اثاثے سوا سات کروڑ روپے تھے اور اب ساڑھے پندرہ کروڑ کا روپ دھار گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر اے کیو خانزادہ کے اثاثے ایک سال میں ساٹھ لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ پچھتر لاکھ ہو گئے ہیں۔ محترمہ خوش بخت شجاعت کے احوال گزشتہ برس ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھے اس سال پہاڑ کی چوٹی ایک کروڑ اسّی لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جناب بابر غوری کے اثاثے بیس کروڑ (دو سو ملین) کو چُھو رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ۔۔ اور بہت کچھ اور بھی ۔۔ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اخبارات کے پہلے صفحوں پر تذکرے ہوئے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا نے اس پر مختلف النوع پروگرام کئے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے دو سیاست دانوں کے علاوہ کسی ایم این اے یا سینیٹرز نے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے بالائی طبقات کی رعونت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے یعنی ’’جو کرنا ہے کر لیں‘‘ ۔۔ یا ’’ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے!‘‘ بابر غوری اور محترمہ خوش بخت شجاعت نے اثاثوں میں غیر معمولی اضافے کے جواز پر بات کی ہے۔ یہاں ہم اس بحث میں پڑ ہی نہیں رہے کہ اُنکی بیان کردہ وجہ جواز منطقی ہے یا نہیں یا اُسے تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ہم یہاں اس زاویے سے بات کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے آپکو مڈل کلاس کا حصہ قرار دیتی ہے چنانچہ اس کے کم از کم دو رہنماؤں نے میڈیا میں اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات دیے۔ باقی سیاست دانوں نے ۔۔ خواہ وہ پیپلز پارٹی سے تھے یا نون سے یا قاف سے‘ اس موضوع کو درخورِ اعتنا ہی نہیں گردانا اور اُس ’’بے نیازی‘‘ یا تمکنت کا مظاہرہ کیا جس کیلئے امرا کا طبقہ مشہور ہے۔ لیکن کیا ایم کیو ایم بھی فی الواقعہ مڈل کلاس ہی سے تعلق رکھتی ہے؟ کیا وہ لوگ جن کے اثاثے (بیان کردہ اثاثے) دو دو سو ملین روپوں کے برابر ہیں‘ مڈل کلاس کی تعریف پر پورے اترتے ہیں؟ یا مڈل کلاس کی ازسرِ نو تعریف (DEFINE)
کرنا پڑے گی؟
لغت میں ہجر کا معنی! بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت تھی
ہمارے دانشور ایک عرصہ سے دُہائی دے رہے ہیں کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ایک خاص طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور مڈل کلاس کی نمائندگی کرنیوالا کوئی نہیں۔ موجودہ جمہوریت سے غیر مطمئن حضرات کا بھی یہی نکتہ نظر ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اصل جمہوریت اُس وقت جلوہ نما ہو گی جب سیاسی پارٹیوں کو کھرب پتی خاندانوں سے نجات ملے گی۔ پارٹیوں کے اندر انتخابات ہونگے اور مڈل کلاس کے نمائندے‘ جو پجارو‘ گارڈ اور محلات کی زنجیروں سے آزاد ہونگے‘ اسمبلیوں میں بیٹھے ہونگے ‘ وہ دن کب آئیگا؟ کم از کم مستقبل قریب میں اسکے کوئی آثار نہیں۔ فی الحال اقبال بانو کا گایا ہُوا نغمہ ۔ ہم دیکھیں گے… لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ قوم کو امید دلائے ہوئے ہے!

اگر ہم سیاسی حرکیات(Political Dynamics) کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں یا تو اعلیٰ طبقات کردار ادا کر رہے ہیں یا بالکل نچلی سطح کے طبقات‘ جنہیں آپ طبقہ زیریں بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلی صف کے تقریباً سارے سیاستدان سردار ہیں یا جاگیردار ‘ چوٹی کے صنعتکار ہیں یا بڑے بڑے تاجر … ان لوگوں کی ملک کے اندر اور باہر طویل و عریض جائیدادیں اور لمبے چوڑے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی تقریباً ایک سلطنت ہی کا فرماں روا ہے۔ ان کے ہَوائی جہاز تک اپنے ہیں‘ گاڑیوں کے بیڑوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ انکے طرزِ زندگی کے بارے میں ایک عام پاکستانی تصور میں بھی کوئی صورت نہیں بنا پاتا۔ اس طبقے کا ایک بس چلے تو یہ تین وقت کے کھانے میں بھی ہیرے جواہرات‘ سونا‘ پلاٹینم‘ ریشم اور بیش بہا گھڑیاں کھائیں ۔ رہا زیریں طبقہ تو وہ جس طرح معیشت میں اعلیٰ طبقات کی کمی ہے‘ سیاست میں بھی وہی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ کسانوں‘ ہاریوں‘ مزارعوں اور نوکروں کی عورتیں حویلی میں آکر زمیندارنی سے پوچھتی ہیں کہ ہم نے ووٹ کی مہر کس تصویر کے سامنے لگانی ہے؟ زمیندارنی انہیں بتاتی ہے کہ انہوں نے شیر کو یا تیر کو یا تلوار کو یا ہاتھی کو ووٹ دینا ہے۔ وہ اسے یاد کر لیتی ہیں اور جاتے جاتے بھی نیم بلند آواز سے ’’سبق‘‘ دہراتی جاتی ہیں! کوئی مانے یا نہ مانے‘ متوسط طبقہ ‘ جو زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں ہے‘ سیاست کی موجودہ روش سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ متوسط طبقہ پڑھا لکھا بھی ہے چنانچہ اس راز سے واقف ہے کہ سیاست کا موجودہ انداز پاکستان کیلئے امید کا کوئی دروازہ نہیں کھول سکتا۔ یہ محض امرا کا کھیل ہے۔ سیاسی پارٹیاں کنیزیں ہیں جو مخصوص خاندانوں کے قدموں میں پڑی ہیں چنانچہ یہ متوسط طبقہ انتخابات کے دن گھر ہی سے نہیں نکلتا!

یہ وہ موڑ ہے جہاں پہنچ کر ہم دوبارہ ایم کیو ایم کی طرف پلٹتے ہیں۔ چند ماہ پیشتر جب اس کالم نگار نے ایم کیو ایم کی پنجاب میں آمد کے حوالے سے کالم لکھا تو جو ردِ عمل سامنے آیا وہ ایک چشم کُشا ردِ عمل تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کا مستقبل اتنا روشن نہیں جتنا کچھ حضرات کو یا خود ایم کیو ایم کو نظر آ رہا ہے۔ پنجاب کے بالائی طبقات پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں‘ زیریں طبقات برادری کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں وہ زمیندار کا حکم ٹال سکتے ہیں نہ برادری کا بندھن توڑ سکتے ہیں۔ رہی مڈل کلاس جو ایم کیو ایم کا ہدف ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور آزاد ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم سے کچھ سوالوں کے واضح جوابات مانگتی ہے۔ کراچی کے لوگ ان سوالوں کے جواب نہیں پوچھنا چاہتے یا نہیں پوچھ سکتے تو یہ الگ بات ہے اور معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیا اہلِ کراچی میر کے اس مصرع کی واقعی تصویر ہیں یا یہ محض ایک بات ہے جس کی بنیاد کوئی نہیں …ع

ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے خودمختاری کی

پنجاب کی مڈل کلاس بالخصوص اور سارے ملک کی مڈل کلاس بالعموم یہ جاننا چاہتی ہے کہ ایم کیو ایم سالہا سال سے سندھ میں ‘ اور مرکز میں بھی ۔۔ برسرِ اقتدار ہے یا کم از کم شریکِ اقتدار ہے اور فیوڈلزم کیخلاف ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس سارے عرصے میں اس نے زرعی اصلاحات کے بارے میں کوئی بِل پیش نہیں کیا نہ ہی عوام کو اس ضمن میں اپنا کوئی پروگرام بتایا‘ نہ ہی اس نے ملکیتِ زمین کے موجودہ ڈھانچے (Land Ownership Pattern) کا کوئی متبادل نقشہ پیش کیا‘ تو کیا جاگیرداری اور سرداری نظام کیخلاف اُس کا میدانِ عمل محض نعرے پر محیط ہے؟ کیا وہ اس ضمن میں سنجیدہ نہیں‘ یا اُس میں اتنا ذہنی دم خم نہیں کہ اس بھاری پتھر کو اٹھا سکے؟
لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ قائد تحریک  جناب  الطاف حسین کن وجوہ کی بنا پر ملک سے باہرمقیم ہیں اور آخر اس بات کا جو اکثر میڈیا پر بتائی جاتی ہے کیا مطلب ہے کہ وہ حالات سازگار ہونے پر آئیں گے۔سب جانتے ہیں کہ بے نظیر اور نواز شریف وطن واپس آنے کے لئے بے تاب تھے۔کراچی ائر پورٹ پر اترنے کے بعدبے نظیر کی جذباتی کیفیت سب نے دیکھی۔نواز شریف وطن لوٹے تو پرویز مشرف نے انہیں بزور واپس بھیج دیا۔اس سیاق و سباق میں یہ سوال منطقی ہے کہ کیا الطاف حسین وطن واپس آنے کے لئے بے قرار نہیں ؟
سچی بات یہ ہے کہ مڈل کلاس اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔شیخ رشید ،مشاہد حسین،محمد علی درانی اور بہت سے دوسرے موسمی پرندے مڈل کلاس ہی کے شہکار ہیں ۔نون لیگ کے ایک رہنما نے لاہور کے جس ماہر قانون سیاست دان کو ،،جنم جنم کا لوٹا،، کہا تھا وہ مڈل کلاس ہی سے تو تھا ۔
مڈل کلاس امید ہے یا فریب ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔  

Tuesday, March 02, 2010

اثاثے

’لیکن سر! یہ کس طرح ممکن ہے؟

میں اپنے سولہ لاکھ جوانوں اور افسروں کو بیک جنبشِ قلم کس طرح فارغ کر سکتا ہوں اوروہ کہاں جائیں گے؟‘‘

’یہ مسئلے کا دوسرا پہلو ہے۔ اس کی طرف ہم بعد میںآئیں گے۔ پہلے اصولی طور پر ہم اصل مسئلہ طے کر لیں۔ بھارت کو فوج کی اور اتنی بڑی فوج کی۔ ضرورت نہیں!‘۔

’سر!، آپ کیمبرج سے پی ایچ ڈی ہیں۔ آپ نے دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی ہے، آپ وزیر خزانہ کے طور پر بھی کامیاب رہے ہیں، لیکن معاف کیجئے عسکری معاملات میں آپ کا علم ہے، نہ تجربہ، ہمیں پاکستان جیسے دشمن کا سامنا ہے۔ آپ کو پاکستان کی مسلح افواج کی شہرت کا علم ضرور ہوگا۔ یہ بہت خطرناک فوج ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اسکے مقابلے کی فوج نہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو فوج کی ضرورت نہیں!‘۔

پھر، آپکو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں ان کی آج بھی دلی لکھنو حیدرآباد اور پٹنہ پر نظرر ہے اور یہ ان تمام علاقوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔

سر! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ یہ درست ہے کہ آپ حکومت کے سربراہ ہیں آپ کا فیصلہ میرے نکتۂ نظر کو رد کر سکتا ہے۔ یہ آپ کا اختیار ہے۔ آپ کی صوابدید ہے لیکن مجھے اتنا حق تو دیجئے کہ میں اختلاف کر سکوں!‘۔

وزیراعظم نے اپنے سر پر پگڑی درست کی۔

عینک کو ناک کے اوپر سے دبایا اور مخاطب ہو کر جواب دیا۔

’میں آپکے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہم پاکستان کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کی فوج اس ادارے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی فوج کے پاس ایٹمی طاقت ہے لیکن جرنیل صاحب! ملک پر فوج کی حکومت نہیں ہوتی۔ ملکوں کو فوجیں نہیں بچاتیں۔ ملک ایٹم بم سے نہیں بچتے۔

’جناب! میں آپ کی بات سمجھا نہیں لگتا ہے آپ حالاتِ حاضرہ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ پاکستان کے عوامی نمائندوں نے الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات مہیا کی ہیں۔ ایک سو کے قریب ایم این اے ایسے ہیں جن کے پاس کاریں نہیں ہیں اور جن کے پاس ہیں انکے ماڈل پرانے اور غریب ہیں مثلاً 1973ء ماڈل کی کرولا، 1968ء کی فاکس ویگن، ہونڈا 70 موٹر سائیکل، پورے ملک کو معلوم ہے کہ یہ سارے ایم این اے بیش بہا جگمگاتی چمکتی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ اگر یہ گاڑیاں انکی اپنی نہیں ہیں تو کن لوگوں کی ہیں؟ان کے پاس کیسے آئیں؟ ان لوگوں نے انہیں کیوں دیں؟ اور اگر انکی اپنی ہیں تو دوسروں کے نام پر کیوں ہیں؟ اگر اثاثے صداقت پر مبنی ہیں تو گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ اور اگر گاڑیاں اپنی ہیں تو حقائق کیوں چھپائے گئے؟‘۔

جس ملک کے عوامی نمائندے، قانون ساز ادارے کے ارکان، اخلاقی عظمت کی اس بلندی پر فائز ہوں جس ملک کے عوامی نمائندوں کی سوچ کا معیار یہ ہو کہ کبھی وہ مطالبہ کریں کہ جم خانہ کی رکنیت انکی جھولیوں میں ڈال دی جائے، کبھی مطالبہ کریں کہ ہمیں دارالحکومت میں سرکاری پلاٹ اور سرکاری ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر دی جائیں اور جس ملک کے عوامی نمائندے صرف اس وقت متحد ہوتے ہیں جب مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو، جس ملک کے وزیر نے دنیا کے گراں ترین شہر میں کروڑوں روپوں کا گھر خریدا ہو اور کوئی اس سے پوچھنے کی جرات نہ کرسکے، جس ملک میں سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے کہ اتنے سرکاری مکان فلاں فلاں عمائدین اور امراء کی سفارشوں کی بنیاد الاٹ کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ سفارش کرنے والوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں، جس ملک کا سفیر، بیرون ملک چلنے والے سرکاری تعلیمی ادارے میں کام کرنے والوں کو بیک بینی دوگوش نکال دے اور اوپر سے نیچے تک۔ پرنسپل سے لے کر کلرک تک اپنے قریبی رشتہ داروں کی بھاری تعداد میں کئی گنا زیادہ تنخواہوں پر تقرریاں کر دے اور کوئی اس کا بال نہ بیکا کر سکے۔ اس ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے تمہاری اور تمہاری فوج کی کیا ضرورت ہے؟ اور ہم بھارتی عوام کے خون پسینے کی کمائی تم پر کیوں خرچ کریں؟‘‘۔

جرنیل سن رہا تھا اور دم بخود تھا۔ کھدّر کے کپڑوں میں ملبوس، وزیراعظم نے اپنی بات جاری رکھی۔

تم اگر اس غلط فہمی میں ہو کہ 1971ء میں پاکستان کو دولخت تمہاری فوج نے کیا تھا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ پاکستان کو بھارتی فوج کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جن لوگوں نے تم پر اور تمہاری فوجوں پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے، تمہاری فوج اگر چار گنا بڑھ جائے، تو بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ تو ان کی اپنی پالیسیاں تھیں جن سے مشرقی پاکستان کے عوام ناراض تھے۔ یہ تو مغربی پاکستان کا جاگیردارانہ ڈھانچہ تھا جو مشرقی پاکستان کے تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس عوامی نمائندوں کیساتھ چل نہیں سکا۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگ متحد ہوتے اور یک جان دو قالب ہوتے تو تمہاری افواجِ قاہرہ قیامت تک ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتیں! تم اس دن سے پناہ مانگو جب پاکستان کی اسمبلیوں میں سچ بولنے والے بیٹھے ہونگے۔ جن کے اثاثے انکے بیانات کے عین مطابق ہوں گے اورغلط بیانات دیکر اصل اثاثوں کو چھپانے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہونگے۔ تم اس دن سے ڈرو جس دن کسی پاکستانی سیاست دان کا کاروبار، محلات، فلیٹ، کارخانے، بیرون ملک نہیں ہونگے۔ اور وہ عام گھروں میں عام لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہونگے۔ جس دن اعلیٰ ملازمتیں اس بنیاد پر نہیں دی جائیں گی کہ کون کس شہر سے تعلق رکھتا ہے اور کون کس کا دوست ہے۔ جس دن مارشل لاء کے تلوے چاٹنے والے عوام کی نفرت سے خوار زبوں ہوچکے ہونگے اور وہ لوگ حکومت کر رہے ہونگے جن کا ظاہر اور باطن اندر اور باہر قول اور فعل یکساں ہونگے۔

’لیکن سر! کیا ایسا ہوگا؟ کیا یہ ممکن ہے؟‘‘

’احمق انسان! ایسا ہو کر رہے گا۔ پاکستان کروٹ لے رہا ہے۔ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب پاکستان میں جھوٹ کو چھپنے کیلئے جائے پناہ نہیں ملے گی اور نفاق کی دھجیاں اڑ رہی ہوں گی! اگر ایسا ہوا اور ایسا ہونا ہے، تو میں نہیں سمجھتا تمہاری سولہ لاکھ فوج کی پرورش کا جواز کیا ہے؟
 

powered by worldwanders.com