Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, July 24, 2009

’’فیملی بیک گرائونڈ‘‘

پرانے کپڑے۔سر پر چیتھڑے جیسا رومال، جوتے جو کبھی پشاوری چپل تھے، مگر اب بدصورت چمڑے کا جوڑا، کئی سال پہلے کی بات ہے۔ اس کا کام سی ڈی اے میںتھا! ایسا ادارہ جس میں قسمت والوں کے کام ہو جاتے ہیں جب کہ وہ جن کی ’’ کِسمت‘‘ کتے والے کاف سے ہو، کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ جس شخص کو ملا، اُس کا بیٹا اُن دنوں سی ڈی اے میں ایک معقول عہدے پر کام کرتا تھا۔ اُس نے اسے بیٹے کے پاس بھیج دیا۔سر پر چیتھڑے جیسا رومال رکھنے والا وہ شخص مری کا تھا۔ اس کیلئے سیب ایسے ہی تھے جیسے بنگالیوں کیلئے ناریل۔ واپس آیا تو اُس نے صرف اتنا کہا’’سیبوں کے سیب ہی ہوتے ہیں۔‘‘
خاندانی پس منظر…؟ فیملی بیک گرائونڈ؟ ہم یہ لفظ سنتے سنتے تنگ آگئے ہیں۔’’اس کا فیملی بیک گرائونڈ ہی ایسا ہے۔‘‘ ’’فلاں خاندانی ہے‘‘… ’’فلاں خاندانی نہیں ہے‘‘… محمود غزنوی نے جب فردوسی کو شاعر کی توقع کے مطابق انعام نہ دیا تو فردوسی نے اُسے ’’خاندانی بیک گرائونڈ‘‘ کا طعنہ دیا اور کہا…؎اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تابہ زانو بُدی
کہ اگر بادشاہ کی ماں ملکہ ہوتی تو وہ مجھے اتنا سونا چاندی دیتا کہ میرے گُھٹنے اس میں ڈوب جاتے۔
تو کیا’’خاندانی‘‘ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ حویلیاں ہوں؟ جاگیر ہو؟ قتل کئے ہوئے ہوں؟ اسمبلی کی موروثی نشست ہو؟ دستار بندی کی گئی ہو؟ پردادا انگریزوں کا رسالدار رہا ہو؟ دادا نے کعبے پر گولی چلائی ہو؟ نانا برما میں لڑا ہو؟ پرنانا کو رنجیت سنگھ نے ماں کی گالی دیکر انعام سے نوازا ہو؟
ایک مدت بیت گئی۔ وہ جس نے مری کے گلیم پوش کو بیٹے کے پاس بھیجا تھا، دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کا بیٹا جو سی ڈی اے میں تھا، ادھیڑ عمر کا ہوگیا، اس لئے کہ خود اُس کے بیٹے جوان ہو چکے تھے۔ ایک بیٹا ولایت میں بڑا ڈاکٹر بن گیا۔ اُسکے پاس گلیم پوش بھیجنا تو ممکن نہ تھا، لیکن باپ کو فکر تھی کہ وہ سیب نکلے۔ تُنبہ نہ ثابت ہو۔ اُس نے اسے ای میل بھیجی
’’مجھے اس سے غرض نہیں کہ تم کتنے بڑے ڈاکٹر ہو اور کتنا کماتے ہو؟ مجھے صرف اس سے غرض ہے کہ لوگ تمہارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ یاد رکھو… تمہارے متعلق کوئی یہ نہ کہے کہ تم ناقابل اعتماد ہو، جعلی ہو… دو نمبر ہو… تم اگر کسی سے وعدہ کرو تو ہر حال میں پورا کرو۔ نہیں کرسکتے تو پیشگی معذرت کرو۔ کسی سے اُدھار لو تو مقررہ وقت پر واپس کرو۔ نہیں کرسکتے تو مقررہ وقت پر جا کر میعاد کی توسیع لو…بدترین شخص وہ ہے جو ادھار واپس کرنے کا دن آئے تو غائب ہو جائے… اور اگر تم سے کوئی ادھار لیتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے تو آئندہ اُس سے احتراز کرو…‘‘
یحییٰ برمکی نے کہا تھا کہ خاندانی شخص تین چیزوں سے پہچانا جاتا ہے…وہ مکتوب کیسے لکھتا ہے؟ وہ تحفے میں کیابھیجتا ہے؟ اور وہ اپنی نمائندگی کیلئے قاصد یا سفیر کس کو چُنتا ہے؟ ایک اور موقع پر اُس نے کہاکہ خاندانی شخص وہ ہوتا ہے جو اقبال کے زمانے میں خدا کا شکر گزار ہو اور ادبار کے زمانے میں صابر ثابت ہو۔ لیکن ایک بات پر دانش مند اتفاق کرتے ہیں کہ جو شخص وعدہ کرے اور ایفا نہ کرے، اور اُسے پروا بھی نہ ہوکہ اُس نے وعدہ پورا نہیں کیا، تو وہ کروڑ پتی ہی کیوں نہ ہو اور سات اقلیموں کا مالک ہی کیوں نہ ہو، کبھی خاندانی نہیں ہوسکتا!
کیا اہل اقتدار کے دروازے پر جھکنے والے اور اقتدار سے محروم کو چھوڑ دینے والے خاندانی ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ خاندانی ہیں جو مقتدر لوگوں سے تعلقات قائم کریں، ہر موقع پر انہیں تحائف بھیجیں اور خط لکھیں اور جیسے ہی وہ اقتدار سے محروم ہوں، تعلقات قائم کرنے کیلئے کچھ اور چوکٹھیں تلاش کرلیں؟ کیا وہ لوگ جو جج کی ماں کے جنازے پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اورجب جج مرا تو انہوں نے اُس کی موت کی خبر سُنی ان سُنی کردی، خاندانی تھے؟ کیا یہ فیصلہ کرنے والے کہ ہم نے فلاں میں کوئی عیب نہیں دیکھنا اور فلاں میں کوئی خوبی نہیں دیکھنی، خاندانی ہیں؟
انسان کو اُسکے خالق نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ دوسروں کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ نائب قاصد… وہ حقیر نائب قاصد… جو صاحب کو نظر ہی نہیں آتا… صاحب کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ صاحب کتنا دیانت دار ہے؟ کتنا لائق ہے؟ اُس کا کھانا کہاں سے آتا ہے؟ مہمانوں کی تواضع کا بندوبست کون کرتا ہے؟ اسکی اولاد کتنے پانی میں ہے؟ وہ حلال کھا رہا ہے یا حرام… حقیر نائب قاصد کو سب کچھ معلوم ہے…ہاں … وہ خاموش رہتا ہے۔ خوف کی وجہ سے یا مروّت کی وجہ سے یا شر سے بچنے کے لئے لیکن احمق ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماتحت مجھے نالائق نہیں سمجھتے؟ مجھے چاپلوس نہیں کہتے اور میری بدعنوانیوں سے ناواقف ہیں!
کچھ اہلِ عقل نے کہا کہ خاندانی وہ ہوتا ہے جو اپنے ملازموں غلاموں اور خادموں کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھے۔ کیا خدا کے آخری رسولؐ سے بڑھ کر بھی کوئی خاندانی ہے جس نے بار بار کہا کہ غلاموںاور خادموں کو وہی کھلائو جو خود کھاتے ہو۔ کچھ اہلِ عقل نے کہا کہ خاندانی وہ ہے جو وعدہ پورا کرے۔ بھَلا اللہ کے آخری رسولؐ سے زیادہ بھی کوئی خاندانی ہوسکتا ہے جنہوں نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ میں تمہارے واپس آنے تک یہیں کھڑا ہوں وہ شخص گیا اور واپس آنا بھول گیا، پھر وہ تیسرے دن پلٹ کر آیا تو اللہ کے رسولؐ وہیں کھڑے تھے۔ کیا منافق خاندانی ہوسکتا ہے؟ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، جھگڑا کرتا ہے تو گالی بکتا ہے اور امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے!
کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے کہ وہ خاندانی ہے! یہ فیصلہ تو خلقِ خدا کرتی ہے۔ پارٹیاں بدلنے والے خاندانی ہیں یا نیچ؟ مال غصب کرنیوالے خاندانی ہیں یا نیچ؟ حقدار کو ٹھکرا کر نااہل کو قبول کرنیوالے خاندانی ہیں یا نیچ؟ عوام سے وعدے کرکے بند دروازوں کے پیچھے شیطانی قہقہے لگانے والے خاندانی ہیں یا نیچ؟ خلقِ خدا سب جانتی ہے! خدا کی قسم! ہمارے درمیان ہی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں ان ’’خاندانی‘‘ لوگوں کے چہرے کبھی کُتوں کے چہروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں کبھی بھیڑیوں کے چہروں کی طرح اور کبھی اُس جانور کے چہرے کی طرح جس کا نام زبان سے لینا بُرا سمجھا جاتا ہے!
راوی بیان کرتا ہے کہ وہ عینی شاہد ہے۔ یہ واقعہ دو دریائوں جہلم اور چناب کے درمیان پڑنے والی زمین پر پیش آیا۔ ایک شخص سائیکل پر سوار جارہا تھا۔ ایک پیدل شخص نے اُس کی منت کی کہ دھوپ ہے اور اُس کا حال برا ہے، اُسے سائیکل پر بٹھا لے۔ اس نے بٹھا لیا۔ کچھ دور جا کر بیٹھنے والے نے دعویٰ کردیا کہ سائیکل تو اُسکی ہے، مالک نے کہا تم نے تو تھوڑی دیر کے لئے لِفٹ چاہی تھی تکرار بڑھی، شور مچا تو لوگ اکٹھے ہوگئے، ایک معمر شخص نے جھگڑا نمٹانے کیلئے لِفٹ لینے والے سے کہا کہ خدا کی قسم اٹھا کر بتائو، اُس نے بلاتامل قسم اٹھائی کہ سائیکل میری ہے، مالک کے دل میں جانے کیا آیا کہ اُس نے پس و پیش کے بغیر سائیکل اُسکے حوالے کردی۔
راوی بیان کرتا ہے کہ وہ عینی شاہد ہے۔ جعلی مالک سائیکل چلا کر چلا گیا۔ابھی وہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک تیز رفتار بس سامنے سے آتی دکھائی دی۔ بس کا رُخ اُسکی طرف تھا۔ اُس نے سائیکل سڑک کے نیچے اتار لی۔ بس بدستور اُسی کی طرف آرہی تھی۔ اُس نے اندھا دُھند کھیتوں کی طرف سائیکل کا رُخ موڑا بس سڑک سے اُتری، کچے کو کراس کیا، اُسے کھیت میں جالیا، کچل کر دوبارہ سڑک پر چڑھ گئی، ڈرائیور کو پکڑ لیا گیا، وہ بھونچکا تھا اور بدحواس! کہنے لگا…خدا کی قسم! بس میرے کنٹرول میں نہیں تھی اور مجھے تو سائیکل دکھائی دی نہ انسان… وہ تو ایک کُتا تھا جو کھیتوں کی طرف دوڑ رہا تھا، یہاں تک کہ بس نے اُسے کچل دیا!
کیا ’’خاندانی‘‘ لوگوں کو معلوم ہے کہ بس اُن کے تعاقب میں پکی سڑک سے اترنے والی ہے؟؟

2 comments:

Maaz Bin Izhar said...

What a wonderful piece of writing mashAllah

Sabeeh-ul-Hasan said...

ما شاء اللہ بہت اعلیٰ اور بڑھیا

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com