اشاعتیں

جولائی, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

Civil service feud

Since the appointment of a DMG officer as ambassador in Paris, there is a battle between two elite civil service groups. A tirade of allegations and counter-allegations is going on in the press and truth has been the first casualty in the battle. We lament that institutions have been undermined by the military. But we put forward lame arguments in support of civilians subverting them. How long will institutions continue to be spoiled by political interference and personal likes and dislikes? That this particular DMG officer has done wonders during his stay in Paris as commercial counsellor is a strange excuse put forward by his supporters. Likewise, defence attaches and press counsellors should deserve to become ambassadors too on the basis of their performance. Gen Musharraf's devolution plan and consequent replacement of deputy commissioners by elected nazims was a major blow to the District Management Group, which had been calling the shots since the Indian Civil Service withere...

’’گمنام‘‘ مددگار

پاکستان اِس وقت نقارخانہ ہے۔ اور ایک ایسا کارخانہ ہے جس میں بہت سی مشینیں بیک وقت چل رہی ہیں‘ بَن کچھ نہیں رہا لیکن شور وہ ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ جنرل مشرف کی حالت اُس مجنوں جیسی ہے جس کے پیچھے سارے طفلانِ شہر سنگ بدست دوڑ رہے ہیں۔ ایسے میں میاں نوازشریف نے ایک بات کہی ہے اور اُن سے اختلافات کے باوجود اس کی تحسین کرنے کو دل اُمڈا پڑتا ہے۔ انہوں نے درد کے صحیح مقام پر انگلی رکھی ہے۔ اگر اِس مقام کی جراحی کی جائے تو بیماری کا خاتمہ یقینی ہے!سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا ہے کہ… ’’پرویز مشرف کی مدد کرنیوالوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے…‘‘ سچی بات یہ ہے کہ اس نکتے کے… جو میاں صاحب نے اٹھایا ہے… کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو تہہ در تہہ ہے۔ اس کے کئی مضمرات ہیں اور عواقب…فوجی آمر جب عوام کی گردنوں پر سوار ہوتا ہے تو تین قسم کی مخلوقات اس کی مددگار ہوتی ہیں‘ اول وہ فوجی افسر جو اس کے ساتھ سازش میں شریک ہوتے ہیں‘ شب خون مارتے ہیں اور پھر ناجائز اقتدار کو قائم رکھنے میں… اور دوام بخشنے میں معاون ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی فوج میں تاحال ایسی کوئی ر...

’’فیملی بیک گرائونڈ‘‘

پرانے کپڑے۔سر پر چیتھڑے جیسا رومال، جوتے جو کبھی پشاوری چپل تھے، مگر اب بدصورت چمڑے کا جوڑا، کئی سال پہلے کی بات ہے۔ اس کا کام سی ڈی اے میںتھا! ایسا ادارہ جس میں قسمت والوں کے کام ہو جاتے ہیں جب کہ وہ جن کی ’’ کِسمت‘‘ کتے والے کاف سے ہو، کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ جس شخص کو ملا، اُس کا بیٹا اُن دنوں سی ڈی اے میں ایک معقول عہدے پر کام کرتا تھا۔ اُس نے اسے بیٹے کے پاس بھیج دیا۔سر پر چیتھڑے جیسا رومال رکھنے والا وہ شخص مری کا تھا۔ اس کیلئے سیب ایسے ہی تھے جیسے بنگالیوں کیلئے ناریل۔ واپس آیا تو اُس نے صرف اتنا کہا’’سیبوں کے سیب ہی ہوتے ہیں۔‘‘ خاندانی پس منظر…؟ فیملی بیک گرائونڈ؟ ہم یہ لفظ سنتے سنتے تنگ آگئے ہیں۔’’اس کا فیملی بیک گرائونڈ ہی ایسا ہے۔‘‘ ’’فلاں خاندانی ہے‘‘… ’’فلاں خاندانی نہیں ہے‘‘… محمود غزنوی نے جب فردوسی کو شاعر کی توقع کے مطابق انعام نہ دیا تو فردوسی نے اُسے ’’خاندانی بیک گرائونڈ‘‘ کا طعنہ دیا اور کہا…؎اگر مادرِ شاہ بانو بُدی مرا سیم و زر تابہ زانو بُدی کہ اگر بادشاہ کی ماں ملکہ ہوتی تو وہ مجھے اتنا سونا چاندی دیتا کہ میرے گُھٹنے اس میں ڈوب جاتے۔ تو کیا’’خاندانی‘‘ ہونے کی...

دستاویز پر دستخط کر دیئے گئے ہیں

افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں! وہ اکیلا ہے، نہتا ہے۔ اُس کے چاروں جانب اُس کے دشمن ہیں۔ وہ گھِر چکا ہے۔ اُس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں نظر آرہا…ہاں! معجزوں کا انکار کفر ہے! معجزہ رونما ہوسکتا ہے! رونما نہیں بھی ہوسکتا! مکروہ اتحاد عمل میں آچکا ہے۔ دستاویز پر دستخط کردیئے گئے ہیں۔ دستخط کرنے والوں نے اُٹھ کر ہاتھ بھی ملا لئے۔ وہ جو موجود تھے انہوں نے تالیاں بھی بجا لیں۔ فوٹو کھینچنے والوں نے بجلیوں کی طرح چہروں پر روشنیاں گرائیں۔ کلک کلک کی آوازیں آئیں۔ تقریب ختم بھی ہو چکی، آہ! دستاویز پر دستخط کردیئے گئے۔ سب فریقوں نے معاہدہ کرلیا۔ افسوس! اُس کے خلاف سب اکٹھے ہو چکے۔ اُس کی زندگی خطرے میں ہے۔کوئی ہے جو اُسے بچائے؟ اُسے آواز دے؟ اُسے خبردار کرے؟ افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں۔ اُس کا بیٹا جس سکول میں پڑھ رہا ہے، اتحاد کی دستاویز پر دستخط کرنے والوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اس سکول کے فارغ التحصیل طلبہ کو کبھی بڑے عہدے پر نہیں لگایا جائے گا۔ وہ جس آبادی میں رہتا ہے، اتحاد کرنے والوں نے طے کرلیا ہے کہ یہ آبادی کبھی ترقی نہیں کرے گی۔ اس کی سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، اس کی گلیاں نیم پخ...

بَس میں وزیرِ خزانہ کے ساتھ

گرمی تھی اور بے پناہ گرمی! ناصر کاظمی کی پہلی بارش یاد آگئی گرمی تھی اور ایسی گرمی مٹکوں میں پانی جلتا تھا راولپنڈی صدر سے سیکرٹریٹ جانے والی بس کے انتظار میں کھڑا رہا۔ پگھلتا رہا اور اخبار تہہ کرکے اپنے آپ کو پنکھی جھلتا رہا۔ بس آئی تو دوسروں کی طرح میں بھی پیچھے بھاگا اور لٹک گیا۔ ڈنڈے کو پکڑتے، جھولتے، گرنے سے اپنے آپ کو بچاتے بس کے درمیان والی جگہ پر پہنچنے میں کئی منٹ لگ گئے۔ میرا خیال تھا کہ وہاں رش کم ہوگا لیکن وہی دروازے والی حالت تھی۔ اچانک میں ٹھٹھک گیا۔ جو صاحب ڈنڈے کو پکڑے میرے آگے کھڑے تھے اور بار بار ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر پر آدھے گر رہے تھے، ذرا سا پلٹے تو میں نے پہچان لیا۔ شوکت ترین تھے وزیر خزانہ۔ ان سے اچھی خاصی شناسائی تھی۔ میں اکثر انہیں ٹی وی پر دیکھتا ہوں۔ وہ بھی یقینا کالم کے ساتھ چھپنے والی میری تصویر دیکھتے ہوں گے۔ اسی شناسائی کے حوالے سے میں نے قدرے بے تکلفی سے سلام کیا۔’’شوکت! آپ کیسے؟ وزیرخزانہ ہو کر بس میں؟ اور وہ بھی کھڑے ہو کر! ڈنڈے کو پکڑ کر جھولتے جھومتے گرتے بچتے ہوئے!‘‘شوکت ترین مسکرائے! اگرچہ انہوں نے کوئی ایسا تاثر نہ دیاجس سے معلوم ہو کہ ...

مرحبا

’’"پاکستان اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اس پر سے فیوڈل ازم (جاگیرداری) کی گرفت ختم نہ ہو۔ قائداعظم کی رحلت اورلیاقت علی خان کے افسوس ناک قتل کے بعد ملک کی سیاسی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ان حادثات کے بعد پاکستان اُن امیر کبیر (FILTHY-RICH) اور بدعنوان جاگیرداروں کا صحن بن کر رہ گیا… جو سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں۔‘‘ آپ کا کیاخیال ہے یہ کس نے کہا ہے؟ آیئے! جنوب مغرب سے شروع کرتے ہیں۔ کیا یہ جمہوری وطن پارٹی کی آواز ہے؟ کیا شاہ زین بگٹی یا طلال بگٹی نے ایساکہا ہوگا؟ نہیں۔ کوئی بلوچ سردار اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارسکتا۔ کچھ عرصہ قبل طلال بگٹی لاہور آئے تھے۔ انہوں نے میاںنوازشریف سے ملاقات بھی کی تھی۔ اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ ضرور چلنا چاہئے اور انصاف ہونا چاہئے لیکن افسوس! طلال بگٹی کے اس بیان پر کسی نے توجہ نہیں دی جو انہوں نے پنجاب کے دارالحکومت سے جاری کیا اور جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ سردا ری نظام کا کوئی نعم البدل نہیں! جنوب مغرب سے ہم سندھ میں داخل ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بطلِ جلیل نے کہی ہے؟ آپکا کیاخیال ہے جناب مخدو...

ادارے۔ خدا کے لئے ادارے

آخر بادشاہی اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ہندوستان کے بادشاہ کو ابن بطوطہ پسند آ گیا تو اُسے اپنے ملک کی عدلیہ سونپ دی۔ کوئی چُوں بھی نہ کر سکا۔ حالانکہ اُس وقت ہندوستان میں جس پائے کے فقہا موجود تھے‘ پوری اسلامی دنیا میں اُن کے برابر کا کوئی نہیں تھا۔ پھر ابن بطوطہ مالکی تھا اور یہاں کے مسلمان احناف تھے۔ لیکن بادشاہی بادشاہی تھی۔ خود ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ وہ ملتان سے دہلی جا رہا تھا کہ راستے میں اس نے ایک زندہ آدمی کی کھال اترتے دیکھی۔ بادشاہ کا حکم تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ زمین میں چھوٹا سا گڑھا کھود کر ’’مجرم‘‘ کو اُوندھا لٹایا جاتا تھا اور منہ گڑھے پر رکھا جاتا تھا تاکہ سانس لے سکے۔ ’’مجرم‘‘ جس کی زندہ کھال اتاری جا رہی تھی‘ بار بار جلّاد کی منت کرتا تھا کہ تلوار سے ایک بار ہی میرا خاتمہ کر دو لیکن جلّاد جواب دیتا تھا کہ میں نے تمہاری کھال نہ اتاری تو میری اپنی کھال اتاری جائے گی۔ آخر بادشاہت اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ سوال یہ نہیں ہے کہ ڈی ایم جی کا وہ افسر جسے فرانس میں سفیر مقرر کیا جا رہا ہے‘ لائق ہے یا نہیں۔ یہ صاحب ضرور لائق ہوں گے۔ دیانتدار بھی ہوں گ...

قزاق

لکھنا تو اس انجام کے بارے میں تھا جس کی طرف قاف لیگ رفتہ رفتہ‘ لمحہ لمحہ‘ بڑھ رہی ہے لیکن راستے میں ایک اور سیاپا پڑ گیا ہے! قاف لیگ والے پڑھے لکھوں کو منشی نہ کہتے اور اربوں کھربوں کی دولت اور جاگیروں پر تکبر نہ کرتے تو اقبالؒ سے آگاہ ہوتے اور اقبالؒ سے آگاہ ہوتے تو اس کا یہ شعر بھی پڑھتے مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ نئے حوادث قطرہ قطرہ ٹپکتے ہیں اور سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ شکیب جلالی نے کہا تھا… کیا کہوں دیدۂ تر ! یہ تو مرا چہرہ ہے سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے قاف لیگ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسکے کھرب پتی ارکان جو مشرف تو مشرف تھا‘ پلاسٹک کے بنے ہوئے شوکت عزیز کے آستانے پر بھی سجدہ ریز رہے۔ اب باہم دست و گریباں ہیں۔ حصے بخرے ہونیوالے ہیں۔ وابستگیاں تبدیل کرنیوالے پھر پھدکنے کی تیاری میں ہیں۔کوئی پھدک کر اس طرف چلا جائیگا اور کوئی اس طرف‘ ان کھرب پتیوں‘ ان صنعت کاروں اور ان وڈیروں نے پہلے بھی یہی کیا تھا۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سب قوم کے محسن ہیں ! معزز ترین لوگ ہیں اور پاکستانی عوام ان کی بے پناہ عز...

مرگ بر امریکہ

بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے وہ جو خوشی سے رقص میں تھےپا بدست دگری‘ دست بدست دگری اور اس امید میں تھے کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج کو اس مقابلے کے درمیان اخلاقی مدد نہیں مل سکے گی‘ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اس ملک کا قیام معجزہ تھا۔ اس کی اب تک کی سلامتی اس سے بھی بڑا معجزہ ہے اور جو معجزے اب رونما ہو رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر یہ یقین پختہ تر ہو جاتا ہے کہ مملکتِ خداداد کی حفاظت انسان نہیں‘ کوئی اور کر رہا ہے۔ اس فقیر کا شعر ہے…؎ چہار جانب سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہوں کوئی محافظ تو ہے جو اب تک بچا ہوا ہوں اس سے پہلے کہ فرقہ واریت کا زہر ہمارے چہروں کے رنگ زرد کر دیتا ہے۔ صدائے غیب بلند ہوئی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں‘ سرگوشیاں‘ کنکھیاں‘ سب شکست کھا گئی ہیں۔یہ ملک سب کا ہے۔ کوئی پنجابی ہے یا پٹھان‘ کشمیری ہے یا بلوچی‘ سندھی بولتا ہے یا اردو‘ بلتی سمجھتا ہے یا شینا‘ براہوی ہے یا ہزارہ‘ وہ جو کوئی بھی ہے‘ اس ملک کا باشندہ ہے تو اس کے وسائل پر برابر کا حق ہے۔ اسی طرح بانی پاکستان کے فرمان کے مطابق مندروں میں جانے والے اور مسجدوں کا رخ کرنے والے سب پاکستانی ہیں۔ کوئی دیوبندی ہے یا بر...