Since the appointment of a DMG officer as ambassador in Paris, there is a battle between two elite civil service groups. A tirade of allegations and counter-allegations is going on in the press and truth has been the first casualty in the battle.
We lament that institutions have been undermined by the military. But we put forward lame arguments in support of civilians subverting them. How long will institutions continue to be spoiled by political interference and personal likes and dislikes? That this particular DMG officer has done wonders during his stay in Paris as commercial counsellor is a strange excuse put forward by his supporters. Likewise, defence attaches and press counsellors should deserve to become ambassadors too on the basis of their performance.
Gen Musharraf's devolution plan and consequent replacement of deputy commissioners by elected nazims was a major blow to the District Management Group, which had been calling the shots since the Indian Civil Service withered away after Partition and CSPs and the DMG took over
After surrendering the empire of districts and divisions to nazims, the officers licking their wounds started looking for greener pastures. Many did not return from overseas where they had gone for government-sponsored higher studies. Some said farewell to the service and went to NGOs, most of which were already occupied by their seniors who were quick to turn these cosy places into sanctuaries for younger "refugees." The rest of them explored every nook and corner of the public sector and conquered the Authorities, Foundations and Corporations sprinkled across the country.
The fall of the Foreign Service to the DMG is neither impossible nor, if this happens, will it be astonishing. A number of institutions, over a period of time, have been annexed or made colonies earlier also. The Commerce and Trade Group is a regular cadre service entry. The group, a part of the ministry of commerce, is supposed to the manning of all posts abroad dealing with commerce. But its best posts always fall prey to the DMG. The DMG officer earmarked for the ambassadorial slot in France has already stayed in Paris for five years as commercial counsellor, a post belonging to the Commerce and Trade Group.
In the seventies, when a new service group emerged as "Tribal Areas Group" and the DMG was deprived of posts of political agents in the tribal areas, some of which carry fantastic "perks," the entire group vanished in the DMG and was merged with it A number of other institutions like Federal Ombudsman, most of the development authorities like CDA, LDA and KDA, Foundations like Federal Housing Foundation, Provincial Public Relations Departments, Federal and Provincial Public Service Commissions and many more, having nothing to do with district management whatsoever, are in complete or partial control of DMG. No wonder one more victory is added to the long list of achievements.
But times have changed. The days of great royal Indian Civil Service are over and will never come back. The world is heading towards more and more specialisation. Let it be known to DMG that they are no more panacea to all ills. If this country is to survive honourably, institutions will have to be respected.
The writer is a former additional auditor-general of Pakistan
Thursday, July 30, 2009
’’گمنام‘‘ مددگار
پاکستان اِس وقت نقارخانہ ہے۔ اور ایک ایسا کارخانہ ہے جس میں بہت سی مشینیں بیک وقت چل رہی ہیں‘ بَن کچھ نہیں رہا لیکن شور وہ ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ جنرل مشرف کی حالت اُس مجنوں جیسی ہے جس کے پیچھے سارے طفلانِ شہر سنگ بدست دوڑ رہے ہیں۔ ایسے میں میاں نوازشریف نے ایک بات کہی ہے اور اُن سے اختلافات کے باوجود اس کی تحسین کرنے کو دل اُمڈا پڑتا ہے۔ انہوں نے درد کے صحیح مقام پر انگلی رکھی ہے۔ اگر اِس مقام کی جراحی کی جائے تو بیماری کا خاتمہ یقینی ہے!سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا ہے کہ… ’’پرویز مشرف کی مدد کرنیوالوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے…‘‘ سچی بات یہ ہے کہ اس نکتے کے… جو میاں صاحب نے اٹھایا ہے… کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو تہہ در تہہ ہے۔ اس کے کئی مضمرات ہیں اور عواقب…فوجی آمر جب عوام کی گردنوں پر سوار ہوتا ہے تو تین قسم کی مخلوقات اس کی مددگار ہوتی ہیں‘ اول وہ فوجی افسر جو اس کے ساتھ سازش میں شریک ہوتے ہیں‘ شب خون مارتے ہیں اور پھر ناجائز اقتدار کو قائم رکھنے میں… اور دوام بخشنے میں معاون ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی فوج میں تاحال ایسی کوئی روایت نہیں کہ فوجی افسر اپنے سالار کی بات نہ مانیں اور فوج تقسیم ہو جائے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو آمر کیلئے انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن اس منفی پہلو کے باوجود پاکستانی فوج کی یہ صفت ملک کیلئے مثبت پہلو رکھتی ہے۔اس سے یہ نکتہ بھی نکلتا ہے کہ فوجی آمر کا ہاتھ بٹانے والے فوجی ایک لحاظ سے مجبور بھی ہوتے ہیں اور پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں انہیں بہت کچھ بادلِ نخواستہ کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ مسئلہ عسکری قانون کا ہے کہ کیا آمر کی مدد کرنے والے فوجیوں کو کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے؟آمر کو لانے میں جو فوجی فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہیں‘ کم از کم وہ یہ تو کریں کہ ہر آئے دن اپنا چہرہ عوام کو نہ دکھائیں کچھ حضرات جنہوں نے جنرل ضیا کو تخت نشین کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا‘ ہمیشہ پیش منظر پر رہنے کی سعی کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی تصویریں دیکھ کر یا بیان پڑھ کر عوام کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں۔ انسان سے تو بچھو ہی زیادہ عزتِ نفس رکھتا ہے۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ تم سردیوں میں کیوں نہیں باہر نکلتے‘ اُس نے جواب دیا کہ گرمیوں میں میری کون سی عزت ہوتی ہے کہ میں سردیوں میں بھی باہر نکل کر اپنی رسوائی کا سامان بہم پہنچائوں!دوم۔ فوجی افسروں کے بعد سیاست دانوں کا کردار فیصلہ کسن ہوتا ہے۔ اگر تمام سیاستدان متحد ہو کر فیصلہ کریں کہ کوئی ایک بھی کسی فوجی آمر کو سہارا نہیں دیگا تو چمڑے کے سکے دو دِن سے زیادہ نہ چلیں لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے کہ ہمارے سیاستدان رات کے اندھیرے میں اُن سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں جو سیاستدان نہیں تھے۔ اور پھر جب فوجی آمر آ جاتا ہے تو اس کے دست و بازو بن جاتے ہیں!لیکن سچی بات یہ ہے کہ سیاست دان ایک لحاظ سے سزا بھی ساتھ ہی پاتے جاتے ہیں۔ اُن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ آمر کے ساتھ اپنے تعاون کو خفیہ نہیں رکھ سکتے۔ خاص کر الیکٹرانک میڈیا سے روپوش ہونا اور رہنا ناممکن ہے۔ یوں وہ اپنی تضحیک کا سامان خود ہی کرتے جاتے ہیں۔ اور عوام کے دلوں میں جس قدر نفرت اُن کیخلاف جمع ہو جاتی ہے‘ وہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی سزا ہے۔ آپ اندازہ لگائیے‘ آج اُن سیاست دانوں کی… جو جنرل مشرف کے دست و بازو رہے‘ کیا وقعت ہے؟ آج ارباب رحیم اور ڈاکٹر شیرافگن کسی عوامی جگہ پر دیکھ لئے جائیں تو اُن کا کیا حال ہو! جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا انتہائی سنجیدہ مسئلہ صرف اس لئے چٹکیوں میں اُڑ گیا کہ اُس کے علمبردار جناب محمد علی درانی تھے‘ چودھری پرویز الٰہی نے جنرل مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے والی بات جتنی بار کہی تھی‘ اُس کا طعنہ اس سے کہیں زیادہ بار اُنہیں دیا جا چکا ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے بے شمار کارٹون پریس میں آتے رہے اور اب بھی آ رہے ہیں۔ جناب طارق عظیم سے لے کر جناب گوہر ایوب تک جناب اعجازالحق سے لے کر جناب ہمایوں اختر خان تک اور جناب امیر مقام سے لیکر مولانا فضل الرحمن تک اور شیخ رشید تک وہ سارے سیاستدان جو جنرل مشرف کی مساعدت کرتے رہے‘ آج عوام کی نظروں میں ہیں۔ کئی سیاستدان انتخابات ہار کر بہت بڑی سزا پا چکے ہیں اور جنہوں نے انتخابات جیتے یا الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا‘ وہ بھی الیکٹرانک میڈیا پر آ کر تیز و تند سوالات کا سامنا کرتے رہے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں!اس سے پہلے کہ ہم مدد کرنے والوں کی خطرناک ترین۔ تیسری قسم کی بات کریں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ آمر کی مدد ان تین کے علاوہ بھی کچھ گروہ کرتے ہیں جن میں علما و مشائخ‘ صحافی اور وکیل نمایاں ہیں۔ لیکن ہم ان گروہوں کا ذکر اس لئے نہیں کر رہے کہ ان کا مقابلہ بھی انہی کے ہم منصب کرتے ہیں اور یوں حساب برابر ہو جاتا ہے۔ تیسری قسم… افسر شاہی کے وہ ارکان ہیں جو آمر کا قرب حاصل کر لیتے ہیں اور پھر کوئی سیاستدان اُن کا ہم پلہ ہو سکتا ہے نہ کوئی فوجی افسر! بدقسمتی سے یہ گروہ ہمیشہ ’’گمنام‘‘ اور زیرِ زمین رہتا ہے! اندازہ لگائیے کہ آج کل کچھ معمر بیورو کریٹ حضرات جو لمبے لمبے مضامین تحریر کر رہے ہیں اور صحیح اور اصل جمہوریت کی خواہش میں دُبلے ہو رہے ہیں‘ اُن کے بارے میں کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جنرل ضیا کے عمائدین اور مقربین میں سرِفہرست تھے؟ غلام اسحاق خان ہی کو لے لیجئے اگر جنرل ضیا انہیں سینٹ کا چیئرمین نہ بناتے تو شاید کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ جنرل ضیا اُن کے مرہونِ احسان تھے!میاں نوازشریف نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ افسر شاہی کے اُن چند ارکان کو بھی کٹہرے میں لایا جائے جو جنرل مشرف کو چوبیس گھنٹے‘ سات دن اور بارہ مہینے مضبوط کرتے رہے۔ وہ جنرل مشرف کے قرب میں فوجی افسروں اور سیاست دانوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ گئے۔ ان کے اختیارات وزیراعظم کو بھی مات کرتے تھے اور سول بیورو کریسی کے ارکان تو اُن کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح شوکت عزیز کے قریبی مددگار سول افسروں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔ بے زبان فائلیں گواہی دیں گی کہ کون کیا تجویز کرتا رہا؟آمر کی مدد کرنے والے فوجی افسر اور سیاستدان چھُپ نہیں سکتے اور جرم سے کہیں زیادہ سزا پاتے ہیں۔ لیکن ’’گمنامی‘‘ میں مزے اُڑانے والے سول سروس کے ارکان… جو آمر کی مضبوطی کے لئے ملک کو اور نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں… کیا وہ فوج اور اہلِ سیاست سے بہت زیادہ طاقتور ہیں کہ انہیں کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا…؟؟
Friday, July 24, 2009
’’فیملی بیک گرائونڈ‘‘
پرانے کپڑے۔سر پر چیتھڑے جیسا رومال، جوتے جو کبھی پشاوری چپل تھے، مگر اب بدصورت چمڑے کا جوڑا، کئی سال پہلے کی بات ہے۔ اس کا کام سی ڈی اے میںتھا! ایسا ادارہ جس میں قسمت والوں کے کام ہو جاتے ہیں جب کہ وہ جن کی ’’ کِسمت‘‘ کتے والے کاف سے ہو، کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ جس شخص کو ملا، اُس کا بیٹا اُن دنوں سی ڈی اے میں ایک معقول عہدے پر کام کرتا تھا۔ اُس نے اسے بیٹے کے پاس بھیج دیا۔سر پر چیتھڑے جیسا رومال رکھنے والا وہ شخص مری کا تھا۔ اس کیلئے سیب ایسے ہی تھے جیسے بنگالیوں کیلئے ناریل۔ واپس آیا تو اُس نے صرف اتنا کہا’’سیبوں کے سیب ہی ہوتے ہیں۔‘‘
خاندانی پس منظر…؟ فیملی بیک گرائونڈ؟ ہم یہ لفظ سنتے سنتے تنگ آگئے ہیں۔’’اس کا فیملی بیک گرائونڈ ہی ایسا ہے۔‘‘ ’’فلاں خاندانی ہے‘‘… ’’فلاں خاندانی نہیں ہے‘‘… محمود غزنوی نے جب فردوسی کو شاعر کی توقع کے مطابق انعام نہ دیا تو فردوسی نے اُسے ’’خاندانی بیک گرائونڈ‘‘ کا طعنہ دیا اور کہا…؎اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تابہ زانو بُدی
کہ اگر بادشاہ کی ماں ملکہ ہوتی تو وہ مجھے اتنا سونا چاندی دیتا کہ میرے گُھٹنے اس میں ڈوب جاتے۔
تو کیا’’خاندانی‘‘ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ حویلیاں ہوں؟ جاگیر ہو؟ قتل کئے ہوئے ہوں؟ اسمبلی کی موروثی نشست ہو؟ دستار بندی کی گئی ہو؟ پردادا انگریزوں کا رسالدار رہا ہو؟ دادا نے کعبے پر گولی چلائی ہو؟ نانا برما میں لڑا ہو؟ پرنانا کو رنجیت سنگھ نے ماں کی گالی دیکر انعام سے نوازا ہو؟
ایک مدت بیت گئی۔ وہ جس نے مری کے گلیم پوش کو بیٹے کے پاس بھیجا تھا، دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کا بیٹا جو سی ڈی اے میں تھا، ادھیڑ عمر کا ہوگیا، اس لئے کہ خود اُس کے بیٹے جوان ہو چکے تھے۔ ایک بیٹا ولایت میں بڑا ڈاکٹر بن گیا۔ اُسکے پاس گلیم پوش بھیجنا تو ممکن نہ تھا، لیکن باپ کو فکر تھی کہ وہ سیب نکلے۔ تُنبہ نہ ثابت ہو۔ اُس نے اسے ای میل بھیجی
…’’مجھے اس سے غرض نہیں کہ تم کتنے بڑے ڈاکٹر ہو اور کتنا کماتے ہو؟ مجھے صرف اس سے غرض ہے کہ لوگ تمہارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ یاد رکھو… تمہارے متعلق کوئی یہ نہ کہے کہ تم ناقابل اعتماد ہو، جعلی ہو… دو نمبر ہو… تم اگر کسی سے وعدہ کرو تو ہر حال میں پورا کرو۔ نہیں کرسکتے تو پیشگی معذرت کرو۔ کسی سے اُدھار لو تو مقررہ وقت پر واپس کرو۔ نہیں کرسکتے تو مقررہ وقت پر جا کر میعاد کی توسیع لو…بدترین شخص وہ ہے جو ادھار واپس کرنے کا دن آئے تو غائب ہو جائے… اور اگر تم سے کوئی ادھار لیتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے تو آئندہ اُس سے احتراز کرو…‘‘
یحییٰ برمکی نے کہا تھا کہ خاندانی شخص تین چیزوں سے پہچانا جاتا ہے…وہ مکتوب کیسے لکھتا ہے؟ وہ تحفے میں کیابھیجتا ہے؟ اور وہ اپنی نمائندگی کیلئے قاصد یا سفیر کس کو چُنتا ہے؟ ایک اور موقع پر اُس نے کہاکہ خاندانی شخص وہ ہوتا ہے جو اقبال کے زمانے میں خدا کا شکر گزار ہو اور ادبار کے زمانے میں صابر ثابت ہو۔ لیکن ایک بات پر دانش مند اتفاق کرتے ہیں کہ جو شخص وعدہ کرے اور ایفا نہ کرے، اور اُسے پروا بھی نہ ہوکہ اُس نے وعدہ پورا نہیں کیا، تو وہ کروڑ پتی ہی کیوں نہ ہو اور سات اقلیموں کا مالک ہی کیوں نہ ہو، کبھی خاندانی نہیں ہوسکتا!
کیا اہل اقتدار کے دروازے پر جھکنے والے اور اقتدار سے محروم کو چھوڑ دینے والے خاندانی ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ خاندانی ہیں جو مقتدر لوگوں سے تعلقات قائم کریں، ہر موقع پر انہیں تحائف بھیجیں اور خط لکھیں اور جیسے ہی وہ اقتدار سے محروم ہوں، تعلقات قائم کرنے کیلئے کچھ اور چوکٹھیں تلاش کرلیں؟ کیا وہ لوگ جو جج کی ماں کے جنازے پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اورجب جج مرا تو انہوں نے اُس کی موت کی خبر سُنی ان سُنی کردی، خاندانی تھے؟ کیا یہ فیصلہ کرنے والے کہ ہم نے فلاں میں کوئی عیب نہیں دیکھنا اور فلاں میں کوئی خوبی نہیں دیکھنی، خاندانی ہیں؟
انسان کو اُسکے خالق نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ دوسروں کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ نائب قاصد… وہ حقیر نائب قاصد… جو صاحب کو نظر ہی نہیں آتا… صاحب کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ صاحب کتنا دیانت دار ہے؟ کتنا لائق ہے؟ اُس کا کھانا کہاں سے آتا ہے؟ مہمانوں کی تواضع کا بندوبست کون کرتا ہے؟ اسکی اولاد کتنے پانی میں ہے؟ وہ حلال کھا رہا ہے یا حرام… حقیر نائب قاصد کو سب کچھ معلوم ہے…ہاں … وہ خاموش رہتا ہے۔ خوف کی وجہ سے یا مروّت کی وجہ سے یا شر سے بچنے کے لئے لیکن احمق ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماتحت مجھے نالائق نہیں سمجھتے؟ مجھے چاپلوس نہیں کہتے اور میری بدعنوانیوں سے ناواقف ہیں!
کچھ اہلِ عقل نے کہا کہ خاندانی وہ ہوتا ہے جو اپنے ملازموں غلاموں اور خادموں کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھے۔ کیا خدا کے آخری رسولؐ سے بڑھ کر بھی کوئی خاندانی ہے جس نے بار بار کہا کہ غلاموںاور خادموں کو وہی کھلائو جو خود کھاتے ہو۔ کچھ اہلِ عقل نے کہا کہ خاندانی وہ ہے جو وعدہ پورا کرے۔ بھَلا اللہ کے آخری رسولؐ سے زیادہ بھی کوئی خاندانی ہوسکتا ہے جنہوں نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ میں تمہارے واپس آنے تک یہیں کھڑا ہوں وہ شخص گیا اور واپس آنا بھول گیا، پھر وہ تیسرے دن پلٹ کر آیا تو اللہ کے رسولؐ وہیں کھڑے تھے۔ کیا منافق خاندانی ہوسکتا ہے؟ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، جھگڑا کرتا ہے تو گالی بکتا ہے اور امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے!
کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے کہ وہ خاندانی ہے! یہ فیصلہ تو خلقِ خدا کرتی ہے۔ پارٹیاں بدلنے والے خاندانی ہیں یا نیچ؟ مال غصب کرنیوالے خاندانی ہیں یا نیچ؟ حقدار کو ٹھکرا کر نااہل کو قبول کرنیوالے خاندانی ہیں یا نیچ؟ عوام سے وعدے کرکے بند دروازوں کے پیچھے شیطانی قہقہے لگانے والے خاندانی ہیں یا نیچ؟ خلقِ خدا سب جانتی ہے! خدا کی قسم! ہمارے درمیان ہی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں ان ’’خاندانی‘‘ لوگوں کے چہرے کبھی کُتوں کے چہروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں کبھی بھیڑیوں کے چہروں کی طرح اور کبھی اُس جانور کے چہرے کی طرح جس کا نام زبان سے لینا بُرا سمجھا جاتا ہے!
راوی بیان کرتا ہے کہ وہ عینی شاہد ہے۔ یہ واقعہ دو دریائوں جہلم اور چناب کے درمیان پڑنے والی زمین پر پیش آیا۔ ایک شخص سائیکل پر سوار جارہا تھا۔ ایک پیدل شخص نے اُس کی منت کی کہ دھوپ ہے اور اُس کا حال برا ہے، اُسے سائیکل پر بٹھا لے۔ اس نے بٹھا لیا۔ کچھ دور جا کر بیٹھنے والے نے دعویٰ کردیا کہ سائیکل تو اُسکی ہے، مالک نے کہا تم نے تو تھوڑی دیر کے لئے لِفٹ چاہی تھی تکرار بڑھی، شور مچا تو لوگ اکٹھے ہوگئے، ایک معمر شخص نے جھگڑا نمٹانے کیلئے لِفٹ لینے والے سے کہا کہ خدا کی قسم اٹھا کر بتائو، اُس نے بلاتامل قسم اٹھائی کہ سائیکل میری ہے، مالک کے دل میں جانے کیا آیا کہ اُس نے پس و پیش کے بغیر سائیکل اُسکے حوالے کردی۔
راوی بیان کرتا ہے کہ وہ عینی شاہد ہے۔ جعلی مالک سائیکل چلا کر چلا گیا۔ابھی وہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک تیز رفتار بس سامنے سے آتی دکھائی دی۔ بس کا رُخ اُسکی طرف تھا۔ اُس نے سائیکل سڑک کے نیچے اتار لی۔ بس بدستور اُسی کی طرف آرہی تھی۔ اُس نے اندھا دُھند کھیتوں کی طرف سائیکل کا رُخ موڑا بس سڑک سے اُتری، کچے کو کراس کیا، اُسے کھیت میں جالیا، کچل کر دوبارہ سڑک پر چڑھ گئی، ڈرائیور کو پکڑ لیا گیا، وہ بھونچکا تھا اور بدحواس! کہنے لگا…خدا کی قسم! بس میرے کنٹرول میں نہیں تھی اور مجھے تو سائیکل دکھائی دی نہ انسان… وہ تو ایک کُتا تھا جو کھیتوں کی طرف دوڑ رہا تھا، یہاں تک کہ بس نے اُسے کچل دیا!
کیا ’’خاندانی‘‘ لوگوں کو معلوم ہے کہ بس اُن کے تعاقب میں پکی سڑک سے اترنے والی ہے؟؟
دستاویز پر دستخط کر دیئے گئے ہیں
افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں!
وہ اکیلا ہے، نہتا ہے۔ اُس کے چاروں جانب اُس کے دشمن ہیں۔ وہ گھِر چکا ہے۔ اُس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں نظر آرہا…ہاں! معجزوں کا انکار کفر ہے! معجزہ رونما ہوسکتا ہے! رونما نہیں بھی ہوسکتا!
مکروہ اتحاد عمل میں آچکا ہے۔ دستاویز پر دستخط کردیئے گئے ہیں۔ دستخط کرنے والوں نے اُٹھ کر ہاتھ بھی ملا لئے۔ وہ جو موجود تھے انہوں نے تالیاں بھی بجا لیں۔ فوٹو کھینچنے والوں نے بجلیوں کی طرح چہروں پر روشنیاں گرائیں۔ کلک کلک کی آوازیں آئیں۔ تقریب ختم بھی ہو چکی، آہ! دستاویز پر دستخط کردیئے گئے۔ سب فریقوں نے معاہدہ کرلیا۔ افسوس! اُس کے خلاف سب اکٹھے ہو چکے۔ اُس کی زندگی خطرے میں ہے۔کوئی ہے جو اُسے بچائے؟ اُسے آواز دے؟ اُسے خبردار کرے؟
افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں۔ اُس کا بیٹا جس سکول میں پڑھ رہا ہے، اتحاد کی دستاویز پر دستخط کرنے والوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اس سکول کے فارغ التحصیل طلبہ کو کبھی بڑے عہدے پر نہیں لگایا جائے گا۔ وہ جس آبادی میں رہتا ہے، اتحاد کرنے والوں نے طے کرلیا ہے کہ یہ آبادی کبھی ترقی نہیں کرے گی۔ اس کی سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، اس کی گلیاں نیم پختہ اور راتوں کو اندھیروں میں ڈوبی رہیں گی، اس آبادی میں کبھی کوئی ایسا شخص نہیں آئے گا جو اس کی حالت بدلنے پر قادر ہو۔
اُسے سب سے زیادہ امید مذہبی رہنمائوں سے تھی، لیکن انہوں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں، اُن کے لہجے میں رعونت اور مزاج میں فرعونیت آچکی ہے۔ وہ پولیس کے پہروں میں سفر کرتے ہیں، وہ ملنے جائے تو وہ اُس کی رسائی سے کوسوں دور ہیں، مذہبی رہنما فروخت ہو چکے۔ اُن کی توندوں نے اُن کے ایمان کو ہڑپ کرلیا۔
اُسے صحافیوں سے امید تھی۔ شائع ہونے والے اور ٹیلی ویژن پر آنے والے صحافیوں، ٹاک شو کے میزبانوں اور تجزیے پیش کرنے والے بزرجمہروں سے اُسے خیرخواہی کی توقع تھی، لیکن ٹاک شو کے میزبانوں نے اُس کے دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا۔ یہ میزبان نہ اُس کے مطابق ہیں نہ سچائی کے مطابق ہیں! یہ تو اپنے مطابق ہیں اور مطابق ہی مطابق ہیں۔ یہ میزبان… یہ تجزیے پیش کرنے والے مشینی روبوٹ اُن سیاست دانوں کو بُلاتے ہیں جو ہار چکے ہیں۔ جو غداریوں کے مرتکب ہوئے۔ جو نفرتوں کا شکار ہیں۔ جن کے چہرے مکروہ ہیں اور جن کی باتیں فریب اور جھُوٹ سے بھری ہوئی ہیں۔ آہ! ٹیلی ویژن کے میزبانوں نے بھی دستاویز پر دستخط کرکے مکروہ اتحاد میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ اُس کے خلاف متحد ہونے والوں میں وہ میڈیا ماہرین بھی شامل ہوگئے ہیں جو پردۂ سیمیں پر عبداللہ بن ابی بن کر ابھرتے ہیں اور حسن بن صباح کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اُسے اُن سیاست دانوں سے امید تھی جو حزبِ اختلاف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن افسوس! حزبِ اختلاف کا سُرخ پَر اپنی قیمتی ٹوپی پر لگانے والے سیاست دان دستاویز پر دستخط کرکے اُس کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ سی این جی پچاس روپے کلو ہوگئی، اُس کی موٹر چلنا بند ہوگئی، اُس کی محدود آمدنی میں سبزی اور دال کاآنا ناممکن ہوگیا۔ اُس کا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بجلی کا بِل اُس کی کمر توڑنے لگ گیا…اُس کا سانس لینا دوبھر ہوگیا لیکن حزبِ اختلاف نے چُوں تک نہ کی۔ کسی نے اُس کی حمایت میں ایک لفظ نہ کہا اور کیوں کہیں؟ کیا یہ حزبِ اختلاف وہی نہیں ہے جسے حکومت سے کوئی اختلاف نہیں؟ جس کا طرزِ زندگی اُن سے مختلف نہیں جو سرکاری محلّات میں رہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے محلّات تو سرکاری محلات سے بھی کئی گُنا بڑے ہیں۔ یہ حزبِ اختلاف کے ارکان لندن دبئی پیرس اور نیویارک اِس طرح جاتے ہیں جیسے گلبرگ سے مال روڈ… جیسے کلفٹن سے صدر…جیسے حیات آباد سے قصہّ خوانی بازار یہ وہ حزبِ اختلاف ہے جسے اُس کے کسی مسئلہ سے کوئی غرض نہیں
!اُسے سابق جرنیلوں سے امیدیں تھی کہ اُس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیکس دے کر اُن کی سابق اور موجودہ زندگیوں کو آرام دہ بنایا لیکن سابق جرنیلوں نے تو اُسے منہ تک نہیں لگایا، ان میں سے کچھ نے اُسے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو ’’جہاد‘‘ میں بھیجے۔ جب اُس نے جواب میں اُن کے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ تو کاروبار کریں گے اور کچھ سابق جرنیلوں کا معیارِ زندگی ایسا ہے کہ بین الاقوامی صحافیوں نے اُسے لاطینی امریکہ کے آمروں کی ہر آسائش اور طلسمی زندگیوں سے تشبیہ دی! بین الاقوامی جریدوں نے انہیں ملک کے دولت مند ترین لوگوں میں نمایاں قراردیا۔ لیکن یہ ملک جو مجرموں کی جنت بن چکا ہے، یہاں کسی کی مجال نہیں کہ انہیں پوچھے۔ یہاں جو جتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اتنی ہی عزت کا مستحق ٹھہرتا ہے! جو جتنا بڑا ڈاکہ ڈالتا ہے، اتنے ہی بڑے ہار اُس کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہاں جس کے جسم سے بدبُو کے بھبکے اُٹھتے ہیں اُس پر بیش بہا خوشبو چھڑکی جاتی ہے!
افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں۔ دستاویز پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ہاتھ ملائے جا چکے ہیں۔ کیمروں کی کلک کلک سنائی دی جا چکی ہے۔ شکنجہ کسا جارہا ہے! ابھی تو اُس کا گھرہی اندھیرے میں ڈوبا ہے! ابھی تو اُس کے بیٹے کو بے روزگار رکھنے ہی کا منصوبہ بنا ہے، ابھی تو اُس کا چولہا ہی ٹھندا کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تو آغاز ہے! ابھی تو اُس کے جسم سے کپڑے نوچے جائیں گے! ابھی تو اُس کی بیوی کی باہوں سے چوڑیاں اتاری جائیں گی! ابھی تو وہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے گا۔ ابھی تو اُسے آکسیجن کے لالے پڑیں گے! ابھی تو اُسے اُس قبر پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس میں دفن ہونے کیلئے وہ بے تاب ہے!
وہ کون ہے؟
وہ سیاہ بخت کون ہے جس کے خلاف مذہبی رہنما، سیاست دان، سابق خاکی اور سول بیوروکریٹ۔ سب متحد ہو چکے ہیں۔ جس کے دشمنوں کو ٹی وی پر بُلا کر معزز ثابت کیا جارہا ہے۔
. وہ عام آدمی ہے!
Thursday, July 16, 2009
بَس میں وزیرِ خزانہ کے ساتھ
گرمی تھی اور بے پناہ گرمی! ناصر کاظمی کی پہلی بارش یاد آگئی
گرمی تھی اور ایسی گرمی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا
راولپنڈی صدر سے سیکرٹریٹ جانے والی بس کے انتظار میں کھڑا رہا۔ پگھلتا رہا اور اخبار تہہ کرکے اپنے آپ کو پنکھی جھلتا رہا۔ بس آئی تو دوسروں کی طرح میں بھی پیچھے بھاگا اور لٹک گیا۔ ڈنڈے کو پکڑتے، جھولتے، گرنے سے اپنے آپ کو بچاتے بس کے درمیان والی جگہ پر پہنچنے میں کئی منٹ لگ گئے۔ میرا خیال تھا کہ وہاں رش کم ہوگا لیکن وہی دروازے والی حالت تھی۔
اچانک میں ٹھٹھک گیا۔ جو صاحب ڈنڈے کو پکڑے میرے آگے کھڑے تھے اور بار بار ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر پر آدھے گر رہے تھے، ذرا سا پلٹے تو میں نے پہچان لیا۔
شوکت ترین تھے وزیر خزانہ۔ ان سے اچھی خاصی شناسائی تھی۔ میں اکثر انہیں ٹی وی پر دیکھتا ہوں۔ وہ بھی یقینا کالم کے ساتھ چھپنے والی میری تصویر دیکھتے ہوں گے۔ اسی شناسائی کے حوالے سے میں نے قدرے بے تکلفی سے سلام کیا۔’’شوکت! آپ کیسے؟ وزیرخزانہ ہو کر بس میں؟ اور وہ بھی کھڑے ہو کر! ڈنڈے کو پکڑ کر جھولتے جھومتے گرتے بچتے ہوئے!‘‘شوکت ترین مسکرائے! اگرچہ انہوں نے کوئی ایسا تاثر نہ دیاجس سے معلوم ہو کہ وہ مجھے پہچان گئے ہیں لیکن دلآویز مسکراہٹ بہر حال ان کے وجیہہ چہرے پر نمایاں تھی۔ بہت رسان سے بولے۔’’میں نے حالیہ بجٹ کے دنوں میں عوام کو تلقین کی تھی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔کہنے کو تو میں نے کہہ دیا لیکن سچ پوچھئے، بعد میں ندامت ہوئی۔ میں نے سوچا، کتنی بُری بات ہے، جو بات میں عوام کو کہہ رہا ہوں، خود نہیں کرتا، چنانچہ اب میں نے سرکاری گاڑیاں واپس کردی ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی کے ذریعے آتا جاتا ہوں۔‘‘
وزیر خزانہ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سفر کا پتہ ہی نہ چلا۔ کنڈکٹر کی پائیدار آواز گونجی۔’’سیکرٹریٹ والے اتر جائیں۔‘‘ ترین صاحب کا نائب قاصد بس سٹاپ پر ان کا انتظار کر رہاتھا۔ اُس نے ان کا بریف کیس پکڑنا چاہا میںمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ترین صاحب نے نائب قاصد کو پیار سے منع کیا ’’بھائی، میں بھی تمہاری طرح ہی کا انسان ہوں۔ اپنا سامان خود اٹھائوں گا۔‘‘مجھے وزارتِ خزانہ والی عمارت سے آگے جانا تھا۔ میری منزل وزیراعظم کا دفتر تھا۔ کل رات اہل محلہ میرے پاس آئے تھے۔ دن اور رات میں کئی بار بجلی جا رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ صحافی ہونے کے ناطے میں ان کی مدد کرسکتا ہوں۔ انہوں نے خود ہی تجویز پیش کی کہ میں وزیراعظم صاحب کی خد مت میں حاضر ہو کر انکی فریاد پہنچائوں۔ میں اسی سلسلے میں وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہو رہا تھا۔
سلسلے اور حاضر ہونے کے حوالے سے مشہور مزاحیہ اداکار لہری یاد آرہے تھے۔ ایک فلم میں انکی شادی ہوتی ہے۔ حجلۂ عروسی میں اپنی نئی نویلی بیگم کے پاس جب پہنچتے ہیں تو اسے کہتے ہیں ’’وہ ہماری آج شادی ہوئی ہے۔ ہم اسی سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کے دفتر کے پھاٹک پر اور اندر حفاظتی عملے کا رویہ مثبت تھا۔ اس بار میری پسلیاں ٹھوک بجا کر دیکھی گئیں نہ دانتوں کو گنا گیا۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب عالیشان اور وسیع و عریض دفتر کے اندر داخل ہونے کے بعد دیکھا کہ بجلی غائب تھی اور ہر طرف شمعدان روشن تھے۔ ایک طرف کچھ مستری نما افراد ایک پرانے جنریٹر کی مرمت کر رہے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جنریٹر پرانا ہے اور کام نہیں کرتا، لیکن وزیراعظم نے نیا خریدنے سے منع کیا ہے اور فضول خرچی سے احتراز کرتے ہوئے اسی کی مرمت کا حکم دیا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وزیراعظم کے حکم کیمطابق وزیراعظم کے دفتر اور گھر…اور تمام وزیروں کے دفتروں اور محلات میں اسی طرح لوڈ شیڈنگ ہوا کریگی جس طرح پورے ملک میں ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کی خدمت میں پیشی ہوئی اور انہوں نے مسکرا کر آنے کا سبب پوچھا تو جیسا کہ قارئین جانتے ہیں، ذہین تو میں ہوں، میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ اب اہل محلہ کی فریاد پہنچانے کی کوئی تُک نہیں ہے، وزیراعظم خود لالٹین کی زرد اداس روشنی میں کام کر رہے تھے۔ چنانچہ فوراً بات بنائی اور عرض کیا کہ آپ نے وزیراعظم کے دفتر اور محل میں لوڈ شیڈنگ نافذ کرکے میرے محلے کے لوگوں کے دل جیت لئے ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف سے آپکی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرنے حاضر ہوا ہوں۔
میں چائے اور سموسوں کا انتظار کر رہا تھا کہ وزیراعظم نے میرا ذہن پڑھ لیا۔ فرمایا کہ قائداعظم کی تقلید میں ہم نے تنورِ شکم بھرنے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے۔ قائداعظم تو کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری خرچ پر چائے نہیں پینے دیتے تھے۔ میں نے، (ایک پھیکے پن سے) اس تبدیلی کی بھی تعریف کی۔ رخصت ہوا تو وزیراعظم نے اپنے سٹاف افسر کو حکم دیا کہ کالم نگار کو ہمارے حالیہ اقدامات دکھائے جائیں۔ بتائے جانے کے بجائے دکھائے جانے پر مجھے تعجب ہوا لیکن جلد ہی استعجاب دُور ہوگیا۔ سٹاف افسر نے وزیراعظم کے دفتر کے مختلف حصے دکھائے۔ ایک کمرے میں جنرل مشرف کی کابینہ کے ارکان پریشان حال بیٹھے دکھائی دیئے۔ قمیضوں کے بٹن کھلے ہوئے، بال بکھرے ہوئے، رنگتیں زرد، معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے چینی کے بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ ایک اور کمرے میں دو تنومند پولیس افسر ورزش کر رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ انہیں خصوصی ڈیوٹی پر دُبئی بھیجا جا رہا ہے جہاں سے یہ سندھ کے سابق چیف منسٹر ارباب غلام رحیم کو واپس لائیں گے۔ ارباب صاحب کیخلاف بہت سے الزامات ہیں۔ تازہ ترین الزام جو سامنے آیا ہے اخبارات کی رُو سے یہ ہے کہ جنرل مشرف سے انہوں نے خصوصی طور پر بُلٹ پروف گاڑی درآمد کرنے کی اجازت لی۔ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے دیئے گئے۔ارباب صاحب نے گاڑی درآمد کی اور حکومت کے بجائے گاڑی کی رجسٹریشن اپنے نام پر کرالی۔ اور اب بقول ان کے اپنے یہ گاڑی انکے کراچی والے گھر کے گیراج میں کھڑی ہے۔ پریس کے استفسار پر انہوں نے پہلے تو یہ دعویٰ کیا کہ گاڑی انکے ذاتی ’’خزانے‘‘ سے خریدی گئی تھی۔ اسکے فوراً بعد یہ کہا کہ کسی دوست نے’’تحفے‘‘ میں دی تھی۔ ارباب صاحب بہت مذہبی اور خدا ترس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے چیف منسٹر ہائوس میں تعویذ لکھنے، زائچے بنانے اور دم درود کرنے کیلئے خصوصی ماہرین رکھے ہوئے تھے جو سرکاری ہیلی کاپٹروں کے علاوہ سرکاری پلاٹوں سے بھی بہرہ ور ہوتے تھے!
لیکن وزیراعظم کا اصل کارنامہ اور تھا۔ ایک خصوصی دفتر دکھایا گیا جہاں بہت سے مستعد چست و چالاک اہلکار بالکل تیار کھڑے تھے۔ معلوم ہوا کہ منتخب اداروں کے ارکان کی جانچ پڑتال کیلئے خصوصی محکمہ وجود میں لایا گیا ہے۔ حکومت نے بالآخر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہمارے منتخب ارکان اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں چنانچہ انہیں ہفتے میں سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے زیر نگرانی رکھا جائیگا اور ان میں سے جو قانون شکن ثابت ہوئے انکے ساتھ وہ سلوک ہوگا کہ حاجی پرویز اور شمائلہ بی بی کی داستانیں لوگ بھول جائیں گے!
اُس شام میں گھر واپس پہنچا تو مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے۔ جس قوم کا وزیر خزانہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہو، وزیراعظم کے دفتر اور گھر میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہو، سابق وزیروں کو چینی کے بحران کی سزا ملتی ہو، اربابوں اور چیف منسٹروں سے قومی دو لت کا حساب لیا جاتا ہو اور منتخب ارکان کو قانون کی ذرا سی بے حرمتی پر بھی معاف نہ کیا جاتا ہو، اُس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے؟
Wednesday, July 15, 2009
مرحبا
’’"پاکستان اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اس پر سے فیوڈل ازم (جاگیرداری) کی گرفت ختم نہ ہو۔ قائداعظم کی رحلت اورلیاقت علی خان کے افسوس ناک قتل کے بعد ملک کی سیاسی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ان حادثات کے بعد پاکستان اُن امیر کبیر (FILTHY-RICH) اور بدعنوان جاگیرداروں کا صحن بن کر رہ گیا… جو سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں۔‘‘
آپ کا کیاخیال ہے یہ کس نے کہا ہے؟
آیئے! جنوب مغرب سے شروع کرتے ہیں۔ کیا یہ جمہوری وطن پارٹی کی آواز ہے؟ کیا شاہ زین بگٹی یا طلال بگٹی نے ایساکہا ہوگا؟ نہیں۔ کوئی بلوچ سردار اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارسکتا۔ کچھ عرصہ قبل طلال بگٹی لاہور آئے تھے۔ انہوں نے میاںنوازشریف سے ملاقات بھی کی تھی۔ اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ ضرور چلنا چاہئے اور انصاف ہونا چاہئے لیکن افسوس! طلال بگٹی کے اس بیان پر کسی نے توجہ نہیں دی جو انہوں نے پنجاب کے دارالحکومت سے جاری کیا اور جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ سردا ری نظام کا کوئی نعم البدل نہیں!
جنوب مغرب سے ہم سندھ میں داخل ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بطلِ جلیل نے کہی ہے؟ آپکا کیاخیال ہے جناب مخدوم امین فہیم، جناب سید یوسف رضا گیلانی، جناب شاہ محمود قریشی یا خود جناب آصف زرداری فیوڈل ازم کیخلاف بیان دے سکتے ہیں؟ یہ تو خود جدی پشتی زمیندار ہیں اور صدر زرداری کو چھوڑ کر…سب حضرات جاگیرداری کے صدقے ہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور جاگیرداری کے راستے ہی سے انکی آئندہ نسلیں بھی حکمرانی کرسکتی ہیں۔ تو پھر کیا پیپلز پارٹی کے وہ رہنما جو فیوڈل نہیں ہیں، کیا ان میں سے کسی نے یہ کہا ہوگا؟ جناب جہانگیر بدر، جناب راجہ پرویز اشرف، جناب بابر اعوان یا ہمارے بہت ہی محترم لکھاری دوست جناب فرحت اللہ بابر…؟ نہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو جاگیرداری کو للکارسکے۔ انکے زندگی بھر کے بیانات، تحریریں دیکھ لیجئے…ایں خیال است و محال است و جنوں
پیپلز پارٹی کے حوالے سے ہم پہلے ہی پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں کیونکہ یہ ایک ملک گیر جماعت ہے۔ قاف لیگ آٹھ سال تک اقتدار کے گھوڑے کی زین اور لگام رہی۔ آپکا کیا خیال ہے یہ جھرجھری قاف لیگ کے کسی شہزادے نے لی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب حامد ناصر چٹھہ یا جناب ہمایوں اختر یا جناب سلیم سیف اللہ یا خود جناب چوہدری شجاعت حسین نے جاگیرداری کے خلاف اتنی بڑی بات کردی ہو؟ آپ خود سوچیں کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ کیا قاف لیگ کے کسی رہنما نے گزشتہ آٹھ برس میں کوئی ایسی بات…کوئی ایسالفظ…یا کوئی ایسا حرف ہی کہا ہے جو اس معاشرے میں کسی بنیادی تبدیلی کے حوالے سے قابل ذکر ہو؟ اونٹ سوئی کے سوراخ سے گزر سکتا ہے‘ بال ہتھیلی پر اُگ سکتے ہیں‘ بلی انڈے دے سکتی ہے‘ سورج قیامت سے پہلے مغرب سے نکل سکتا ہے‘ ایورسٹ کی چوٹی سمندر میں ڈوب سکتی ہے‘ اوقیانوس اور بحرالکاہل سُوکھ سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ قاف لیگ سے وابستہ کوئی دانش ور کوئی کھرب پتی، کوئی جوڑ توڑ کا ماہر، کوئی ڈرائنگ روم سیاست کا بازی گر، فیوڈل ازم…یا نظام تعلیم یا سماجی ڈھانچے کے بارے میں گہرائی والی بات کرسکے!
تو پھر ہوسکتا ہے نون لیگ کے کسی صاحبِ قضا و قدر نے یہ بات کی ہو؟ لیکن کیا جنوبی پنجاب کے طاقت ور کھوسے نون لیگ میں کسی کو ایسی بات کرنے دینگے؟ کبھی نہیں!ہاں! نون لیگ کے جناب شہباز شریف سے ایسی باغیانہ بات کی توقع ضرور کی جاسکتی ہے لیکن وہ ذہنی طور پر پنجاب سے بالعموم اور لاہور سے بالخصوص باہر نہیں نکل سکتے۔ویسے بھی مسلم لیگ قاف ہو یا نون…سین ہو یا شین… فنکشنل ہو یا نان فنکشنل۔ اس بڑی مسلم لیگ کی پسلی سے نکلی ہے جس نے یونینسٹ پارٹی کو سالم و ثابت…مسلم لیگ میں داخل کرلیا تھا…وہ یونینسٹ پارٹی جو جاگیرداروں کا کچھار تھی! تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ یا اسکا کوئی رہنما فیوڈل ازم کیخلاف کچھ کہے…
؎سُموں تلے روند دے خوشی سے مگر یہ سُن لے
گناہ اے شہسوار! میں نے نہیں کیا تھا
یہ بیان الطاف حسین کا ہے! الطاف حسین پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے کھربوں روپے کے قرضے ہڑپ کر جانیوالے مکروہ مگرمچھوں کو پکڑنے کی بات کی ہے اور چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ وہ ازخود کارروائی کریں
۔یہ بے بضاعت کالم نگار بعض اوقات سوچتا ہے کہ قدرت کے کام نرالے ہیں۔ کچھ انسان لازوال عظمت کے بالکل قریب سے گزر جاتے ہیں۔ چپ چاپ‘ بے خبر۔حالانکہ وہ آسانی سے لازوال عظمت کو چھُو سکتے تھے۔اسے لیکر اپنے سینے پر آویزاں کرسکتے تھے! شورش کاشمیری نے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کا اجرا کیا تھا تو کسی نے کہا تھا کہ چٹانوں کو پاش پاش کرنیوالا شورش چٹان کا سہارا لیکر بیٹھ گیا۔ جناب الطاف حسین سندھ کے چند بڑے شہروں کے لسانی دائرے میں اپنے آپکو مقید نہ کرتے اور فیوڈل ازم کیخلاف ایک ٹھوس پروگرام لیکر نکل پڑتے تو وہ آج گلگت سے لے کر کراچی تک سب سے بڑے لیڈر ہوتے۔ خدا کی قسم! اس ملک کانجات دہندہ وہ ہوگا جو حقیقی معنوں میں زرعی اصلاحات نافذ کریگا۔آج سندھ ،پنجاب ،سرحد، بلوچستان، آزاد کشمیر اور شمالی علاقوں کی مجبور اور بے بس مڈل کلاس کسی ایسے شخص کا شدت سے انتظار کر رہی ہے جو اُسے جمالیوں، جاموں، لغاریوں، مزاریوں جتوئیوں، مخدوموں، کھوسوں، ٹوانوں‘ ملکوں ‘ سیف اُلّوں، قیوموں، عتیقوں، چوہدریوں، گیلانیوں، قریشیوں اور گلے میں پڑے ہوئے کئی دوسرے پھندوں سے نجات دلا سکے۔ جو احمدی نژاد کی طرح چھوٹے گھر میں رہے، جو پرانی کار میں سفر کرے اور جو مزارعوں اور مریدوں کی بیساکھیوں کے بغیر چل سکے!
یہ کہنا کہ متحدہ قومی موومنٹ ملک گیر جماعت ہے ایک سیاسی بیان تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کے طور پر اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا! دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے… بہت بڑی حقیقت… کہ الطاف حسین واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے آج کے منظر نامے پر کھڑے ہو کر جاگیردارانہ نظام کو للکارا ہے! شاید ہی کوئی باشعور پاکستانی ایسا ہو جس کا دل اس للکار پر زور سے دھڑکا نہ ہو… جس نے یہ نہ کہا ہو کہ… ہاں! اسی میں پاکستان کی بقا ہے!!
بھارت نے آزادی کے بعد جو اولین اقدامات کئے ان میں ریاستوں اور جاگیروں کا خاتمہ تھا۔ اس کا نتیجہ دیکھئے! آج بھارتی پنجاب جو پاکستانی پنجاب سے کئی گنا چھوٹا ہے پورے بھارت کیلئے گندم پیدا کر رہا ہے اور پاکستانی بزرجمہروں پر اُس وقت بھی گھڑوں تو کیا ایک پیالہ پانی نہ پڑا جب ایک بھارتی مہمان ہنسی مزاج میں انہیں یہ کہہ کر طعنہ دے گیا کہ صرف فیصل آباد کا ضلع ہمارے حوالے کردو، ہم اسی سے پورے پاکستان کو گندم مہیا کریں گے!آج بھارت کی اسمبلیوں میں وراثت کی بنیاد پر کوئی رکن نہیں آسکتا۔یہ اعزاز جدید دنیا میں صرف مملکت خداداد کو حاصل ہے کہ دادا کے بعد بیٹا، پھر پوتا، پھر پڑپوتا اسی نشست پر’’منتخب‘‘ ہوتے چلے آرہے ہیں! زمین کی ملکیت کا ڈھانچہ ایک بار تبدیل ہو جائے تو ساری قدریں بدل جاتی ہیں۔ عبدالکلام بھارت کا صدربنا اور جب ایوان صدر سے رخصت ہوا تو وہی دو اٹیچی کیس لیکر گیا جو لایاتھا! وزیراعظم من موہن سنگھ کے گھر میں فیکس مشین نہیں ہے اور انکی بیٹی اپنی پڑھائی کے نوٹس بازار سے فیکس کراتی ہے!!
الطاف حسین نے فیوڈل ازم کو للکارا ہے۔ مرحبا… لیکن سوال یہ ہے کہ اس خونخوار بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟؟
Thursday, July 09, 2009
ادارے۔ خدا کے لئے ادارے
آخر بادشاہی اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟
ہندوستان کے بادشاہ کو ابن بطوطہ پسند آ گیا تو اُسے اپنے ملک کی عدلیہ سونپ دی۔ کوئی چُوں بھی نہ کر سکا۔ حالانکہ اُس وقت ہندوستان میں جس پائے کے فقہا موجود تھے‘ پوری اسلامی دنیا میں اُن کے برابر کا کوئی نہیں تھا۔ پھر ابن بطوطہ مالکی تھا اور یہاں کے مسلمان احناف تھے۔ لیکن بادشاہی بادشاہی تھی۔ خود ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ وہ ملتان سے دہلی جا رہا تھا کہ راستے میں اس نے ایک زندہ آدمی کی کھال اترتے دیکھی۔ بادشاہ کا حکم تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ زمین میں چھوٹا سا گڑھا کھود کر ’’مجرم‘‘ کو اُوندھا لٹایا جاتا تھا اور منہ گڑھے پر رکھا جاتا تھا تاکہ سانس لے سکے۔ ’’مجرم‘‘ جس کی زندہ کھال اتاری جا رہی تھی‘ بار بار جلّاد کی منت کرتا تھا کہ تلوار سے ایک بار ہی میرا خاتمہ کر دو لیکن جلّاد جواب دیتا تھا کہ میں نے تمہاری کھال نہ اتاری تو میری اپنی کھال اتاری جائے گی۔
آخر بادشاہت اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ سوال یہ نہیں ہے کہ ڈی ایم جی کا وہ افسر جسے فرانس میں سفیر مقرر کیا جا رہا ہے‘ لائق ہے یا نہیں۔ یہ صاحب ضرور لائق ہوں گے۔ دیانتدار بھی ہوں گے‘ نابغہ بھی ہو سکتے ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں ہمیشہ بادشاہت رہے گی یا ادارے بھی مضبوط ہو سکیں گے؟ افسوس! ہمارے جو کالم نگار دوست (میں ان سب کا دل سے احترام کرتا ہوں) ہمیشہ یہ رونا روتے رہے کہ فردِ واحد کا حکم چلتا ہے اور یہ کہ ادارے تباہ و برباد ہو گئے‘ اِس تقرری کی حمایت میں طرح طرح کے دلائل دے رہے ہیں‘ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ اُن کی کارکردگی بطور ’’افسرِ تجارت‘‘ (کمرشل قونصلر) کامیاب رہی اس لئے انہیں سفیر مقرر کیا جانا درست ہے تو پھر اس اصول کی رُو سے کسی ڈیفنس اٹیچی یا کسی پریس قونصلر کو بھی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر سفیر لگنے کا حق حاصل ہو گا! جب آپ کوئی فیصلہ کرتے ہیں یا کسی فیصلے کی تائید یا تردید کرتے ہیں تو اِس کے نتیجہ میں کچھ اصول وضع ہوتے ہیں۔ تہذیب اور دانش کا تقاضا ہے کہ یہ اصول سب پر منطبق کئے جائیں!
مولانا مودودی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں ایک فقرہ کمال کا لکھا ہے (کیا آج کی جماعت اسلامی نے اس کتاب کا نام سنا ہے؟) انکارِ حدیث کے ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ اِس فتنے کا آغاز فلاں زمانے میں ہوا‘ پھر فلاں صاحب نے اس میں حصہ ڈالا اور پھر فلاں صاحب نے۔ اور پھر ہمارے زمانے میں غلام احمد پرویز نے اِس کام کو ذلالت کی انتہا پر پہنچا دیا۔ (کالم نگار کو ان کی تحریر حرف بہ حرف یاد نہیں)۔ آج جب ہم اداروں کی شکست و ریخت‘ اداروں کی تذلیل و تضحیک اور اداروں کی ذلت و رسوائی دیکھتے ہیں تو یہ فقرہ یاد آتا ہے۔ اداروں کی تذلیل و تضحیک کا کام ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں شروع ہوا اور پھر فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اِسے ذلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ جو شخص پسند آیا‘ اُسے پلاٹ دیدیا‘ جو اُردن میں تقرری کے دوران قریب سے بھی گزرا تھا‘ اُسے آسمان کی رفعتوں تک پہنچایا۔ ہر رمضان کی ستائیسویں کو غریبوں کے ٹیکس سے نچوڑے ہوئے خزانے کو باپ کا ورثہ سمجھ کر جہاز بھرے اور سعودی عرب پہنچا دئیے۔ وزارت ثقافت کے ایک سابق افسر بتاتے ہیں کہ انہیں رات کو حکم ملا کہ فلاں بھارتی گانے والی کو پاکستان آنے کا اجازت نامہ (NOC) جاری کیا جائے جبکہ وہ گانے والی ایوانِ صدر میں پہنچ بھی چکی تھی۔ ایک صاحب مسلسل نو برس تک سعودی عرب تعینات رہے۔ کوئی قاعدہ کوئی قانون کوئی ضابطہ کوئی آئین… کچھ بھی نہیں… ادارے ذلیل و خوار ہو گئے‘ آمریت اور ایسی آمریت کہ چنگیزی سے بھی کئی ہاتھ آگے‘ اور آج اُس کے نتیجے میں ملک خون تھوک رہا ہے۔ ہم کہیں کے نہ رہے۔ جو افسر آج انگریزی اور اردو پریس میں وعظ نما مضامین جھاڑ رہے ہیں‘ یہ اُس وقت وزارت داخلہ اور دوسری اہم جگہوں پر یس سر‘ یس سر کے وظیفے پڑھ رہے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران انگریزی حکومت کے وفادار مولویوں کے بارے میں ایک گیت عام ہوا تھا‘ وہ یاد آ رہا ہے۔
اُچّے اُچّے وعظ کریندا
اےمُلّا سرکاری اے
ڈی ایم جی کے جن صاحب کو فرانس میں سفیر مقرر کیا گیا ہے‘ وہ پہلے وہاں پانچ سال کمرشل قونصلر رہ چکے ہیں۔ کیا کسی نے پوچھا ہے کہ جب ایک باقاعدہ سروس‘ ’’کامرس اینڈ ٹریڈ‘‘ نام سے موجود ہے جو وزارتِ تجارت کا حصہ ہے تو ڈی ایم جی کے افسر کیوں کمرشل قونصلر لگائے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ ادارے ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے ہیں‘ ذرا اعداد و شمار معلوم کیجئے کہ پچھلے چالیس پچاس برسوں میں ڈی ایم جی کے کتنے افسر کمرشل قونصلر‘ اٹیچی اور منسٹر رہے ہیں اور راولپنڈی اسلام آباد کے کتنے ڈپٹی کمشنر باہر تعینات کئے گئے‘ اس لئے کہ جو ڈپٹی کمشنر دن میں دو بار ائرپورٹ پر صدر‘ وزیراعظم‘ صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کا استقبال کرے گا‘ وہ سب سے زیادہ لائق اور سب سے بڑھ کر اہل ہو گا!یہ بھی کہا گیا کہ صدر پاکستان جب فرانس گئے تو کسی نے انہیں وہاں اِس تقرری کی درخواست کی‘ کیا مہذب ملکوں کے صدر پاکستان آتے ہیں تو اپنی حکومت چلانے کے مشورے یہاں سے لے کر جاتے ہیں؟ غالباً امریکی صدر جانسن تھا جسے پشاور میں کسی قبائلی خان نے اپنے بیٹے کو تحصیلدار لگوانے کی درخواست کی تھی۔ اور پھر وہ تحصیلدار لگایا گیا!
؎بسی نادیدنی را دیدہ ام من
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
اس متنازعہ اور شور انگیز تقرری کے حق میں ایک دلیل شدومد سے یہ بھی دی جا رہی ہے کہ جب آغا شاہی‘ سیاستدان اور جرنیل فارن سروس میں آئے تو یہ لوگ کیوں خاموش رہے؟ یہ دلیل آدھی تو لاعلمی پر مشتمل ہے۔ انڈین سول سروس کے ارکان باقاعدہ عدلیہ اور فارن سروس میں ضم کئے گئے تھے۔ جیسے ایم آر کیانی اور آغا شاہی‘ رہے سیاست دان اور فوجی افسر‘ تو کیا ایک غلط روایت کی بنیاد پر آپ مزید غلط روایات قائم کرنا چاہتے ہیں؟ فوجی افسر تو خود اداروں کی تذلیل کا شکار ہوئے۔ رہی یہ بات کہ فارن سروس کے ارکان نے غلطیاں کیں یا بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے‘ تو یقیناً یہ بات درست ہو گی لیکن کیا اس سے یہ اصول وضع کر لینا چاہئے کہ یہ ادارہ ہی شکست و ریخت کا حقدار ہے؟ اس کالم نگار کا کوئی عزیز فارن سروس میں نہیں‘ لیکن معاف کیجئے گا‘ پتھر وہ مارے جس نے خود گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں‘ قدرت اللہ شہاب کی باقاعدہ دست بستہ تصویر اخبارات میں چھپی کہ ’’میں اس طرح ایوب خان کے سامنے کھڑا ہوتا تھا‘‘۔ الطاف گوہر آمریت کے معمار رہے۔ ایک اور صاحب نے بھٹو کی مخبری کی اور جنرل ضیا سے وہ انعامات پائے کہ بلند ترین چوٹیوں پر پہنچے۔ ’’پولیٹیکل ایجنٹ‘‘ کی پوسٹیں ہاتھ سے نکلیں تو ’’ٹرائبل ایریا گروپ‘‘ جو الگ سروس تھی‘ ڈی ایم جی میں شامل کر لیا گیا۔ اگر سفیر بھی ڈی ایم جی کے افسروں نے لگنا ہے‘ وفاقی محتسب بھی انہوں نے چلانا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی انہوں نے ناکام کرنا ہے تو اداروں کے ڈھکوسلوں کی کیا ضرورت ہے؟ ساری سروسز ختم کر دیجئے۔ کسٹم‘ انکم ٹیکس‘ پولیس‘ آڈٹ اکائونٹس‘ فارن سروس‘ سب کچھ ان کے سپرد کر دیجئے۔ کابینہ میں بھی ان کے ارکان بٹھا دیجئے۔ آج ملک جس گرداب میں پھنسا ہے اس کا ذمہ دار کبھی مسلح افواج کو ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی سیاستدانوں کو لیکن اصل مجرم ابھی تک بچا ہوا ہے۔ فوج برسرِ اقتدار تھی یا اہلِ سیاست۔ ایک گروہ ایسا بھی تھا جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے دونوں کو گمراہ کرتا رہا۔ ایوب خان اور ضیاء الحق کے دستِ راست کون تھے؟ اور وہ گروہ کون سا تھا جو اپنی تقاریب میں جنرل مشرف کو بلا کر رقص و سرود کی راتوں کو صبح کی روشنیوں تک کھینچتا رہا۔ سرکاری خرچ پر بنگلہ دیش سے مغنیہ بلائی جاتی رہی۔ عبداللہ یوسف تو رقص کر کے مفت میں قربانی کا بکرا بنا‘ محفلیں سجانے والے کون تھے؟جناب والا! اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کیا فارن سروس اور کیا ڈی ایم جی۔ پوتڑے سرِ بازار دُھلیں گے تو تعفن سے ناک پر رومال رکھنا پڑے گا۔ یہ قصہ رہنے ہی دیں۔ خدا کے لئے اس ملک کے اداروں کو زندہ رہنے دیں۔ یہ ادارے پہلے ہی آخری دموں پر ہیں‘ فارن سروس کو اپنا کام کرنے دیں‘ ڈی ایم جی کو اپنے دائرۂ کار کے اندر لیاقت دکھانے کا موقع دیں۔ پولیس اور مسلح افواج کو سیاسی یا نادر شاہی مداخلت کے بغیر اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے دیں‘ عربی کا محاورہ ہے لِکلِّ فنٍرجال’‘ ہر شعبے کے لئے تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ اداروں کو آزادی سے کام کرنے دیجئے۔ خدا کے لئے اداروں کو مزید تذلیل و تضحیک اور شکست و ریخت سے بچائیے‘؟ آخر بادشاہی اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟
Tuesday, July 07, 2009
قزاق
لکھنا تو اس انجام کے بارے میں تھا جس کی طرف قاف لیگ رفتہ رفتہ‘ لمحہ لمحہ‘ بڑھ رہی ہے لیکن راستے میں ایک اور سیاپا پڑ گیا ہے! قاف لیگ والے پڑھے لکھوں کو منشی نہ کہتے اور اربوں کھربوں کی دولت اور جاگیروں پر تکبر نہ کرتے تو اقبالؒ سے آگاہ ہوتے اور اقبالؒ سے آگاہ ہوتے تو اس کا یہ شعر بھی پڑھتے
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نئے حوادث قطرہ قطرہ ٹپکتے ہیں اور سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ شکیب جلالی نے کہا تھا…
کیا کہوں دیدۂ تر ! یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
قاف لیگ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسکے کھرب پتی ارکان جو مشرف تو مشرف تھا‘ پلاسٹک کے بنے ہوئے شوکت عزیز کے آستانے پر بھی سجدہ ریز رہے۔ اب باہم دست و گریباں ہیں۔ حصے بخرے ہونیوالے ہیں۔ وابستگیاں تبدیل کرنیوالے پھر پھدکنے کی تیاری میں ہیں۔کوئی پھدک کر اس طرف چلا جائیگا اور کوئی اس طرف‘ ان کھرب پتیوں‘ ان صنعت کاروں اور ان وڈیروں نے پہلے بھی یہی کیا تھا۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سب قوم کے محسن ہیں ! معزز ترین لوگ ہیں اور پاکستانی عوام ان کی بے پناہ عزت کرتے ہیں اور دل سے کرتے ہیں
…؎لغت میں ہجر کا معنیٰ بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت ہے
لیکن ہم قاف لیگ کو اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں اور یہیں چھوڑ جاتے ہیں اور خود شرقِ اوسط کی طرف روانہ ہوتے ہیں!
آپ نے سنا اور پڑھا ہے کہ صومالیہ کے بحری قزاق جہاز اغوا کرتے ہیں اور لوٹ لیتے ہیں لیکن ایک ہفتہ پہلے جس قزاق نے ایک جہاز لوٹا‘ وہ کوئی فرد نہیں تھا‘ وہ حکومت تھی‘ وہ ایک ملک تھا‘ 30 جون 2009ء کو اسرائیل کی بحریہ نے بین الاقوامی حدود میں داخل ہو کر قبرص سے آنیوالے جہاز کو جس
کا نام سپرٹ آف ہیومینٹی
spirit of humanity
تھا‘ اغوا کر لیا۔ جہاز کا عملہ 21 افراد پر مشتمل تھا جو گیارہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاز امدادی سامان لیکر غزہ کی طرف جا رہا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس کی سابق رکن سنتھیا میکنی بھی سوار تھی اور آئرلینڈ کیلئے بین الاقوامی خدمات سرانجام دینے والی‘ نوبل انعام یافتہ خاتون مے ریڈ مے گوئر بھی تھی۔ آخری خبر آنے تک یہ سب لوگ اسرائیل کی قید میں ہیں۔
غزہ دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے۔ اسے آپ کھلا قید خانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ پندرہ لاکھ فلسطینی جنہیں امریکہ کی آشیرباد سے اسرائیل نے زبردستی اپنے گھروں‘ کھیتوں‘ باغوں اور بستیوں سے نکالا‘ غزہ میں بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ یہ جہاز دو ہفتے پہلے قبرص کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھا۔ قبرص کے حکام اسے غزہ کے سفر کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اسرائیل غزہ کے بے یارو مددگار مہاجروں کو ’’دہشت پسند‘‘ کہتا ہے اور یہ موقف رکھتا ہے کہ ’’دہشت پسندوں‘‘ کو امداد پہنچانے والوں کو گرفتار کر لیا جائیگا‘ آخر کار جہاز کے سوار مسافروں نے قبرص کو عہد نامہ لکھ کر دیا کہ ان کے پکڑے جانے کی صورت میں قبرص پر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں ہو گی۔ صدر ابامہ نے کہا تھا کہ غزہ کے مکینوں کو امداد بہم پہنچائی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپرٹ آف ہیومینٹی جہاز کی حفاظت پر امریکی بحریہ کے چند نوجوانوں کو مامور نہیں کیا جا سکتا تھا؟کیا اس میں کوئی شک ہے کہ امریکہ اسرائیل کی مٹھی میں ہے اور اسرائیل کے سامنے اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی ریاست کی ہے کیا آپ یقین کرینگے کہ امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ یعنی ’’ایوانِ صدر‘‘ میں جو شخص چیف آف سٹاف کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے وہ نہ صرف اسرائیلی شہری ہے بلکہ اسرائیل کی مسلح افواج کا سابق ملازم بھی ہے !
پال کریگ رابرٹس کوئی غیر معروف امریکی نہیں۔ ریگن کے عہدِ صدارت میں رابرٹس مالیات کا نائب وزیر رہا۔ وہ ایک مشہور کالم نگار ہے اور وال سٹریٹ جرنل جیسے چوٹی کے اخباروں میں لکھتا رہا ہے اور لکھ رہا ہے ! رابرٹس نے یونیورسٹی آف ورجینیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور 1993ء میں اسے امریکہ کے چوٹی کے سات صحافیوں میں شمار کیا گیا۔ اسی امریکی صحافی پال کریگ رابرٹس نے اسرائیل کو ’’بحرِ روم کا قزاق‘‘ قرار دیا ہے۔ رابرٹس برملا کہتا ہے کہ جس طرح امریکیوں نے سترھویں اٹھارویں اور انسیویں صدی میں ریڈ انڈین کی زمینیں چرا کر‘ لوٹ کر‘ اور چھین کر امریکیوں کو آباد کیا تھا بالکل اسی طرح اسرائیل‘ فلسطینیوں کی زمینیں چرا کر‘ ڈاکے مار کر اور چھین کر‘ یہودی آبادکاروں کے حوالے کر رہا ہے۔ پال رابرٹس ایک اور دلچسپ موازنہ کرتا ہے۔ کیلی فورنیا کی امریکی ریاست دیوالیہ ہو گئی ہے لیکن امریکہ کی واشنگٹن ڈی سی میں بیٹھی ہوئی مرکزی حکومت نے کیلی فورنیا کو ٹھینگا دکھا دیا ہے اور کسی قسم کی مالی امداد دینے سے معذرت کر لی ہے لیکن عین اس وقت جب کیلی فورنیا کو ٹھینگا دکھایا جا رہا تھا واشنگٹن ڈی سی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اسرائیل کو پونے چار ارب ڈالر دیئے جا رہے تھے۔ اسرائیل واحد ملک ہے جسے اجازت دی گئی ہے کہ وہ امریکی وزارتِ دفاع کو درمیان میں لائے بغیر اسلحہ سازوں سے براہِ راست رابطہ کر سکتا ہے۔ ان اسلحہ سازوں اور اسلحہ فروشوں کے ڈانڈے امریکی کانگریس سے ملتے ہیں۔ اسرائیل سے مزید بزنس آرڈر لینے کی غرض سے امریکی کانگریس میں اسرائیل کی خوب خوب ہم نوائی کی جاتی ہے اور ایران کیخلاف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
اسرائیل بچوں پر ظلم ڈھانے کے معاملے میں بھی دنیا بھر میں سرِفہرست ہے۔ لاتعداد بچوں کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ رہا ہونے کے بعد یہ بچے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا یہ عہد کب تک رہے گا؟ فلسطینی بچے اسرائیلی جیلوں میں کب تک گلتے سڑتے رہیں گے اور کب تک نفسیاتی مریض بنتے رہیں گے؟ کشمیری کب تک بھارت کے غلام رہیں گے؟ عراق اور افغانستان پر امریکہ کی حکومت کب تک رہے گی؟ اور امریکی سیکشن افسروں اور کلرکوں کو پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کب تک سر آنکھوں پر بٹھاتے رہیں گے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں! کسی بھی روز اخبارات کا مطالعہ یہ سوال ذہن میں رکھ کر کیا جائے تو اسکا جواب فوراً مل جاتا ہے۔ تین دن پہلے کے اخبار میں سے صرف دو خبریں ملاحظہ فرمایئے۔ ’’اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ بن حسین نے اپنے پندرہ سالہ صاحبزادے پرنس حسین کو اپنا ولی عہد اور اردن کا مستقبل کا حکمران نامزد کر دیا ہے‘‘۔
’’رکن اسمبلی کے تعلیمی سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے‘ اس نے ایف اے کا امتحان دیئے بغیر اپنے ہم نام کی سند استعمال کر کے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ رپورٹ کیمطابق فراڈ ثابت ہونے پر سپیکر اسکی کی رکنیت معطل کر سکتے ہیں‘‘۔
آپکو اس سوال کا جواب تو مل گیا ہو گا کہ مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کب تک رہے گی لیکن شومیٔ قسمت کہ ایک اور سوال دہلیز پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اسرائیل قزاق ہے اور اپنے مفاد کیلئے مسلمانوں پر ڈاکے ڈال رہا ہے لیکن مسلمان‘ تو مسلمانوں ہی پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں ایک پندرہ سالہ شہزادے کے سوا حکومت کرنے کا اہل کوئی نہیں اور جو قانون سازی کیلئے منتخب ہوئے تھے وہ بی اے بھی نہیں! اور بی اے کرنے کیلئے بھی جعل سازی کے مرتکب ہو رہے ہیں ! تو بتایئے بڑا قزاق کون ہے؟
Thursday, July 02, 2009
مرگ بر امریکہ
بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے
وہ جو خوشی سے رقص میں تھےپا بدست دگری‘ دست بدست دگری اور اس امید میں تھے کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج کو اس مقابلے کے درمیان اخلاقی مدد نہیں مل سکے گی‘ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے
اس ملک کا قیام معجزہ تھا۔ اس کی اب تک کی سلامتی اس سے بھی بڑا معجزہ ہے اور جو معجزے اب رونما ہو رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر یہ یقین پختہ تر ہو جاتا ہے کہ مملکتِ خداداد کی حفاظت انسان نہیں‘ کوئی اور کر رہا ہے۔ اس فقیر کا شعر ہے…؎
چہار جانب سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہوں
کوئی محافظ تو ہے جو اب تک بچا ہوا ہوں
اس سے پہلے کہ فرقہ واریت کا زہر ہمارے چہروں کے رنگ زرد کر دیتا ہے۔ صدائے غیب بلند ہوئی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں‘ سرگوشیاں‘ کنکھیاں‘ سب شکست کھا گئی ہیں۔یہ ملک سب کا ہے۔ کوئی پنجابی ہے یا پٹھان‘ کشمیری ہے یا بلوچی‘ سندھی بولتا ہے یا اردو‘ بلتی سمجھتا ہے یا شینا‘ براہوی ہے یا ہزارہ‘ وہ جو کوئی بھی ہے‘ اس ملک کا باشندہ ہے تو اس کے وسائل پر برابر کا حق ہے۔ اسی طرح بانی پاکستان کے فرمان کے مطابق مندروں میں جانے والے اور مسجدوں کا رخ کرنے والے سب پاکستانی ہیں۔ کوئی دیوبندی ہے یا بریلوی‘ شیعہ ہے یا اہلحدیث آزاد خیال ہے یا قدامت پسند‘ پاجامہ پوش ہے یا تہمد باندھتا ہے‘ شلوار قمیض پہنتا ہے یا تھری پیس سوٹ‘ ٹخنے ڈھانکتا ہے یا آدھی پنڈلیاں ننگی رکھتا ہے‘ عمامہ باندھتا ہے یا برہنہ سر رہنا پسند کرتا ہے‘ برقع پہنتی ہے یا ننگے سر رہتی ہے‘ خاتون خانہ ہے یا مزدوری کرتی ہے‘ ہسپتال میں کام کرتی ہے یا تعلیمی ادارہ چلاتی ہے‘ یہ ملک سب کا ہے اور برابر کا ہے۔ یہاں کوئی حاکم ہے نہ محکوم‘ کوئی مقہور ہے نہ قاہر‘ کوئی پست ہے نہ بالا‘ یہ ملک سب پر اپنا سایہ کئے ہوئے ہے۔ اس کی ہوائیں اس کا پانی‘ اس کی خاک سے پیدا ہونے والا غلہ اس کی بیلوں پر لگے انگور اور اس کے درختوں پر بہار دکھاتے شہتوت اور سیب‘ سب کا ان پر حق ہے
۔لیکن کچھ عرصہ ہوا کچھ راہ گم کردہ لوگ تلوار بدست اور بندوق بدوش نکلے اور اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے لگ گئے۔ انہوں نے پاکستانیوں کے گلے اس طرح کاٹے جیسے سربیا کے غیر مسلموں نے بوسنیا اور کسووو کے مسلمانوں کے کاٹے تھے۔ بکروں کی طرح لٹا کر گلے پر چھری پھیر کر۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا‘ لڑکیوں کے سکول جلا دئیے اور اعلان کیا کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے محنت مزدوری کے لئے گھر سے نکلنے والی عورتوں کو جان سے مار دیا۔ پھر انہوں نے حجاموں کی دکانوں کو بم دھماکوں سے اڑانا شروع کیا اور بے شمار معصوم جانیں آگ اور خون کی اس ہولی میں ضائع ہوئیں۔ پھر وہ آخری حد سے بھی آگے گئے۔ میتیں قبروں سے نکالیں‘ ان کی بے حرمتی کی اور انہیں درختوں پر لٹکایا
۔کچھ نادان انہیں اسلام کا علمبردار سمجھے اور کچھ طالع آزما‘ جو مفادات کے اسیر تھے‘ ان کے حق میں رطب اللسان ہونے لگے لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان لوگوں کو ایک خاص مکتب فکر کا نمائندہ قرار دیا گیا۔چاہئے تو یہ تھا کہ اس مکتب فکر کے چیدہ علما اپنا موقف کھل کر بیان کرتے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرتے لیکن انہوں نے اظہار حق کے بجائے کتمانِ حق سے کام لیا۔ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ ان سے سوال پوچھا جاتا تو بغلیں جھانکنے لگتے‘ ابھی چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک مذہبی سربراہ سے پوچھا گیا کہ گلے کاٹنے اور سکول جلانے کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے‘ ان کا جواب تھا کہ ڈرون حملوں کا کیا جواز ہے؟ حالانکہ کوئی پاکستانی ایسا نہیں جو امریکہ کی مذمت نہیں کرتا ۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا ہر ڈرون حملہ ہماری سالمیت اور خودمختاری پر حملے کے مترادف ہے۔ مرگ بر امریکہ اور ہزار بار صد ہزار بار مرگ بر امریکہ لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ڈرون حملوں کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے گلے کاٹو‘ بچیوں کے سکول جلائو‘ عورتوں کو کوڑے مارو‘ خودکش دھماکے کرکے مسلمانوں کا خون بہائو۔ تو یا تو وہ خود بے وقوف ہے یا دوسروں کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ یا تو وہ خوف کا شکار ہے اور سچ بولتے ہوئے ڈرتا ہے
۔بات یہ ہو رہی تھی کہ اس خاص مکتب فکر کے اصحاب قضا و قدر کو چاہئے تھا کہ اپنا موقف پیش کرتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ وحدت خطرے میں پڑنے لگی۔ دوسرا مکتب فکر بھی متحد ہو کر اپنے اجتماعات منعقد کرنے لگا۔ مولانا سرفراز نعیمی کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ سنگین تر ہونے لگا لیکن پاکستان اور اہل پاکستان پر اللہ کی رحمت دیکھئے کہ یہ گلے کاٹنے والے‘ سکول جلانے والے اور دھماکے کرنے والے لوگ جس مکتب فکر کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے تھے‘ اس مکتب فکر کے ہیڈ کوارٹر نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ انیس جون کو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا اسلم قاسمی نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے وقت لگی لپٹی رکھے بغیر اس گروہ سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مدارالمہام نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ’’طالبان کو دیوبند جماعت سے منسوب کرنا درست نہیں‘‘ انہوں نے فرمایا حجام کی دکانوں تعلیمی اداروں اور مزاروں کو بم دھماکوں سے اڑانا غیر شرعی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان خواتین جدید تعلیم سمیت ہر طرح کی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ اس کی مخالفت کرنا جہالت کی بات ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور جمہوریت کو کفر کہنا جہالت ہے۔ مولانا اسلم قاسمی نے کہا کہ طالبان میں علم کم اور جہالت زیادہ ہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت اسلامی نہیں تھی!غیر جانبدار اور سنجیدہ اہل علم کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ طالبان نے بہت سی چیزیں مقامی تمدن سے لیں اور ان پر اسلام کا لیبل لگا دیا۔
مولانا اسلم قاسمی نے جو دارالعلوم دیوبند کے عظیم بانی حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے پڑپوتے ہیں۔ یہ انکشاف بھی کیا کہ مولانا قاسم نانوتوی انگریزی زبان سیکھنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن انہیں موقع نہ ملا۔ اس کالم نگار نے چند ہفتے پیشتر یہ لکھا ہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی نے مدراس میں اپنے مشہور خطبات دیتے وقت علماء پر انگریزی سیکھنا فرض قرار دیا تھا! کیا یہ آج علماء کرام کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟
دارالعلوم دیوبند سے جو اس مکتب فکر کا صدر مقام ہے اس وضاحت کا جاری ہونا اہل پاکستان کے لئے اللہ کی رحمت سے کم نہیں! طالبان کی وجہ سے دو بڑے مکاتب فکر کے درمیان جو خلیج وسیع سے وسیع تر ہو رہی تھی‘ یہ وضاحت اسے پاٹ دے گی۔ پاکستانی قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی! اس لئے کہ بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)