Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 17, 2009

یرقان

زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے۔ مقام دلی ہے۔ وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے۔ سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے۔ پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں۔ دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔ انگریز عورتیں گھڑ سواری کو نکل گئی ہیں۔ سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے۔ کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔ دن کے ایک بجے سرمٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے۔ یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔ صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھاجس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔ اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار مہ جبینیں چہرہ، پائوں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے تلووں پر روغن زیتون مل رہا ہے۔ اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ایک ہی تھا۔ دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔
اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں۔ برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں۔ برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے۔ ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں۔ لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا۔ نواب سراج الدولہ پالکی پر سفر کر تے ہیں، بیگمات مع زیورات ساتھ ہیں، ہر چندکوس کے بعد آرام کیا جاتا ہے۔ لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے۔اب 2009ء میں آتے ہیں۔پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں۔ آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے۔ پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اورسنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں!
اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی۔ اسکا کوئی رشتہ دار نہیں۔ نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا۔ کلائیو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا۔ تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، مسلمان ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا۔ بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کا محبوب
ؐ
رات بھر یا تو پالیسی بناتارہا تھا یا سجدے میں پڑا رہا تھا! حیرت ہے ان حاطب اللیل دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ کیا سلطنتِ خداداد پاکستان اللہ کی رشتہ دار سے اور کیا سلطنت خداداد میسور اللہ کی دشمن تھی۔
اسلام آباد مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں یا صوبوں کے دفاتر یا نیم سرکاری ادارے۔ ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے۔ کتنے وزیر کتنے سیکرٹری کتنے انجینئر کتنے ڈاکٹر کتنے پولیس افسر کتنے ڈی سی او کتنے کلرک آٹھ بجے ڈیوٹی پر مجود ہوتے ہیں؟ کیا اس قوم کو تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے جس میں کسی کو تو اس لئے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ وہ دوپہر سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، اورکوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے۔ کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے جہاں شادی کے دعوت ناموں پر آٹھ بجے کا وقت لکھا جاتا ہے اور کھانا رات کے بارہ اور ڈیڑھ بجے پیش کیا جاتا ہے اور مہمانوں کی پیشانیوں پر شکن پڑتی ہے نہ میزبانوں کے چہروں پر شرم کی جھلک نظر آتی ہے۔ جانے قدرت کسی چیز کا انتظار کر رہی ہے! کیا قدرت کو امید ہے کہ ہم سیدھے راستے پر آجائیں گے؟
قدرت چاہے تو آصف علی زرداری کے ہاتھوں ''خاندانی'' سیاستدانوں کی پوزیشن خراب کردے! صدر زرداری نے عمرہ پر خرچ ہونیوالے دو کروڑ 49 لاکھ 78ہزار 437 روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیئے ہیں۔ مجھے اپنے اس عزیز دوست سے اختلاف ہے جس نے تجویز پیش کی ہے کہ آئندہ کی روک تھام کیلئے اسے قانون کی شکل دے دینی چاہئے۔ ہماری اکثر ذلتوں کا سبب فعل مستقبل (FUTURE-TENSE) ہے۔ خودکش حملے برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دی جائیگی! کیا کوئی سرجن ایسا بھی ہے جو پھوڑے کو جس میں پیپ پڑ چکی ہے چھوڑ دے اور یہ مشورہ دے کہ اسکے بعد کسی اور پھوڑے میں پیپ پڑ گئی تو نشتر لگائیں گے۔ مصر کے گورنر حضرت عمرو
ؓ بن عاص کے فرزند محمد نے ایک مصری کو تازیانے مارے اور کہا ''لے میں بڑوں کی اولاد ہوں''۔ مظلوم قاہرہ سے سیدھا مدینہ پہنچا۔ عمر فاروقؓ نے یہ نہیں کہا کہ ہم آئندہ ایسی حرکت برداشت نہیں کریں گے۔ اس زمانے میں جب ریگزار کی تیز ترین سواری اونٹ تھا، گورنر اور اسکے فرزند دونوں کو دارالحکومت میں حاضر کیا گیا۔ مجلس قصا ص میں دونوں پیش ہوئے۔ فاروق اعظمؓ نے مصری کے ہاتھ میں تازیانہ دیا اور حکم دیا کہ ''بڑوں کی اولاد کو مار'' مصری نے محمد بن عمروؓ بن عاص کو تازیانے مارنے شروع کئے، مارتا جاتا تھا اور فاروق اعظم کہتے جاتے تھے ''بڑوں کی اولاد کو مار'' پھر آپنے مصری کو کہا کہ اب گورنر کو مار، خدا کی قسم باپ کی حکومت کا گھمنڈ نہ ہوتا تو بیٹا ہرگز نہ مارتا۔ لیکن مصری نے کہا کہ جس نے مجھے مارا تھا، میں نے اس سے بدلہ لے لیا۔ نہیں…جناب…نہیں…ہرگز نہیں۔ مستقبل کیلئے قانون صرف اس وقت موثر ہوگا جب ماضی کے مجرم حساب دینگے۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم تھے تو لائو لشکر کو عمرے پر لے گئے۔ انہیں کہا جائے کہ وہ ایک کروڑ 67 لاکھ روپے کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائیں۔ وزارت خزانہ کہے یا قومی اسمبلی کہے یا وزیراعظم کا دفتر حکم دے۔ لوگوں کے پاس آٹے کے پیسے نہیں، بچے پیراسٹامول کا سیرپ نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں، آبادی کی اکثریت ذاتی مکانوں سے محروم ہے اور یہاں کروڑ پتیوں کو عوام کے خون پسینے سے عمرے کرائے جا رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے عمرے پر (بطور وزیراعظم) ایک کروڑ باون لاکھ روپے خرچ کئے۔ وہ ایک نرم دل شریف النفس انسان ہیں۔ انکے والد نے ہزاروں مستحقین کی خاموشی سے مدد کی اور مسلسل مدد کی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان جیسا رجلِ رشید سرکاری خزانے کو اس خطیر رقم سے محروم رکھے۔ رہے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز جنہوں نے اس ''عبادت'' پر ایک کروڑ ستاسی لاکھ روپے خرچ کئے اور جھوٹ بولا کہ یہ خرچ انہوں نے ذاتی جیب سے کیا ہے تو ان کا کیا ہی کہنا! انکی غربت کا تو یہ عالم ہے کہ انکے سسر انتقال کرگئے تو وہ ان کی موت پر بھی پاکستان نہ آئے۔ ٹکٹ کی رقم کہاں سے لیتے؟ شنید ہے کہ ایک پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل پر ناظرین کو اذیت دینے والے ''دانش ور'' نے دریائے ٹیمز کے کنارے معزول شدہ ڈکٹیٹر کے اعزاز میں مجلسِ عیش و عشرت برپا کی تو پلاسٹک کے وزیراعظم وہاں باقاعدہ موجود تھے! وہ ''ماہر اقتصادیات'' ہیں۔ انہوں نے حساب لگا رکھا ہے کہ اس دنیا میں ایک روڑ ستاسی لاکھ روپے کی ادائیگی مشکل ہے، لیکن ایک اوردنیا میں، جہاں انکے پاس کوئی کرنسی نہیں ہوگی، سولہ کروڑ عوام کے گناہ اپنے سر لینا آسان ہوگا، وہ سولہ کروڑ عوام جو اس ایک کروڑ ستاسی لاکھ اور کئی اور کروڑوں کے اصل مالک ہیں!!ابھی تو اس آڈٹ رپورٹ کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی جس میں بتایا گیا تھا اور سب اخباروں میں آیا تھا کہ جناب فاروق لغاری کے دور صدارت میںاس رقم سے جو وزارت حج میں حاجیوں کی امانت تھی، عمائدین اور امرا کو عمرہ (یا حج) کرایاگیاتھا۔ اس میں تھری پیس سوٹ اور نکٹائیاں تو تھیں ہی، دستاریں، عبائیں، تسبیحیں اور عمامے بھی تھے!…؎

بھرم کھل جائے ظالم! تیری قامت کی درازی کا
اگر اس طُرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
حساب ایک ایک پیسے، ایک ایک پائی کا حساب! محلات، جاگیروں، کارخانوں کا حساب۔ ان کا بھی جو کروڑ پتی تھے لیکن پاکستان سے صرف اسلئے احرام باندھ کر نہیں جاتے تھے کہ جدہ میں سرکاری خزانے سے خریدا جائیگا حالانکہ میقات تو راستے میں ہے! نوے ریال کی چربی جرابوں کی رسید بھی کہیں پڑی ہوگی! اربوں کھربوں کے قرضے معاف کروانے والے اور ٹیکس نہ دینے والے سیاست دان ہیں یا قومی خزانے سے نسلیں سنوارنے والے سرکاری ملازم۔ جب تک ان سے ایک ایک پائی وصول نہیں کی جائیگی، تب تک یہ ملک نزع کی اسی کیفیت میں رہے گا جس میں ہے۔ جان لبوں پر ہے۔ نکلتی ہے نہ رکتی ہے۔ کوئی میثاق جمہوریت، کوئی دھرنا، کوئی شب بیداری۔ کوئی چلہ، کوئی ایوان بالا کا انتخاب، کوئی جیالوں کی بھرتی، کوئی متوالوں کی تالیفِ قلب، کوئی واسکٹ کوئی ڈیزائز سوٹ کوئی حجاز سے آیا ہوا زرد چار خانے کا رومال… کچھ بھی اس ملک کے کام نہیں آسکتا جب تک ادائیگیاں ماضی سے شروع نہیں ہوتیں۔ رہا چار خانے والا زرد رومال۔ تو یرقان کی آخری کیفیت یہ ہوتی ہے کہ رومال ہاتھ میں لیاجائے تو پیلا ہوجاتا ہے

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com