یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے جدہ ائرپورٹ پر سپرمارکیٹ کے ساتھ' ہال کے ایک گوشے میں مسجد نما جگہ بنی ہوئی ہے میں وہاں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک عرب آیا سب سے اگلی صف میں اکیلا' بلند آواز سے نماز پڑھنے لگا۔ یوں جیسے نماز باجماعت کی امامت کرا رہا تھا پوری ایک رکعت اس نے اکیلے ادا کی جہری قرأت کیساتھ دوسری رکعت کے وسط میں ایک اور عرب آ کر اسکے ساتھ شریک ہوا۔ پھر ایک اور' جب اس نے سلام پھیرا تو پچھلی صف بھر چکی تھی۔
سعودیوں کی دو باتیں بھلی لگتی ہیں اور اپنے ہاں کے حوالے سے شدید احساسِ محرومی دیتی ہیں۔ انہوں نے نماز کو اپنی زندگیوں میں اس طرح رچا لیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہماری طرح مسئلہ نہیں بنایا۔ جوتے صاف ہوں تو انکے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ جرابیں ہوں تو ان پر مسح کر لیتے ہیں۔ گاڑی پر ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ جا رہے ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو روکتے ہیں۔ اترتے ہیں اور کار کیساتھ کھڑے ہو کر پڑھ لیتے ہیں۔ دو ہوں تو کبھی اکیلے نہیں پڑھتے۔ جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ مسجد جائیں تو تحیتہ المسجد نہ ادا کریں۔ مجھے یاد نہیں کہ جمعہ کے خطبوں میں ہمارے ''علمائ'' نے ان پہلوؤں کی بھی تلقین کبھی کی ہو۔ ہاں جھگڑے بے شمار ہیں۔ ذکر کیا تو شکایتیں ہوں گی۔ ایک غیر ملکی مسلمان تعجب کا اظہار کر رہا تھا کہ راولپنڈی سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر سفر کریں۔ یا پشاور سے اسلام آباد آئیں' خواتین کے نماز پڑھنے کا کوئی انتظام تو کیا تصور تک نہیں! کیا کسی عالمِ دین نے اس طرف توجہ دی ہے؟ یہاں ترجیحات ہی اور ہیں اور پھر بھی دعویٰ ہے کہ یہ اسلام کا قلعہ ہے!
آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے!
مکہ سے مدینۃ النبی کا سفر حسرتوں اور آرزوؤں کا سفر ہے۔ یادیں ہیں اور آنیوالے زمانوں کے خواب! کیسے کیسے کچے راستے اور پگڈنڈیاں ہونگی جن پر قافلے چلے ہونگے اور اللہ کے رسول کی سواری نے قدم رکھے ہوں گے۔ جو عقل مند تھے انہوںنے آنکھوں سے بینائی باہر نکال پھینکی اور رسول کی سواری نے جو گرد اڑائی تھی اسے آنکھوں میں بھر لیا۔ بے آب و گیاہ خشک پہاڑ آج تک بخت پر ناز کرتے ہیں۔ انہوں نے ان قدموں کی چاپ سنی تھی جن کے نشان آج تک سینوں پر موجود ہیں۔ اللہ کے رسولؐ کے ساتھی انکے قدم زمین پر پڑنے ہی کہاں دیتے تھے۔ یہ قدم تو وہ اپنی پلکوں پر اور سینوں کے اندر اتارتے تھے۔
لمبائی ستر ہاتھ' چوڑائی ساٹھ ہاتھ' چھت کی بلندی پانچ ہاتھ' پتھر کی بنیادیں کچی دیواریں کھجور کے تنے ستونوں کے طور پر اور چھت کھجور کی ٹہنیوں سے' یہ تھی وہ مسجد جو مدینہ میں آپؐ کی تشریف آوری کے بعد بنی اور کیا ہی خوش بخت عمارت تھی جس کی تعمیر میں اللہ کے رسولؐ خود شریک تھے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے گارا' اینٹیں اور پتھر اٹھاتے تھے!
کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی مسجدِ نبوی کیا مسجد تھی کہ اسکی اتباع میں آج پورے کرۂ ارض پر کروڑوں اربوں مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لیکر چلی' پیرو' فوجی اور ہوائی کے جزیروں تک شہروں' قصبوں' بستیوں اور قریوں میں شاہراہوں' ہوٹلوں سکولوں' کارخانوں' کھیتوں' دفتروں اور ہوائی اڈوں پر لاتعداد' ان گنت' مسجدیں کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی اس مسجد کی شان ہی کچھ اور ہے۔
اور کیا وسعت ہے جو مسجدِ نبوی میں ہے۔ یہ وسعت صرف جگہ اور مسجد کی لمبائی اور چوڑائی کے حوالے سے نہیں' ایک اور حوالے سے بھی ہے' اللہ کے رسولؐ کی مسجد ہر شخص' ہر مسلک' ہر لباس' ہر رنگ اور ہر حلئے کیلئے اپنا دروازہ کھولے ہوئے ہے' میں نے ایک سفید فام مسلمان دیکھا جس نے چٹیا (پونی) رکھی ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول کا دروازہ ہر شخص کیلئے کھلا تھا۔ کچھ نے لنگیاں پہنی ہوئی تھیں۔ کچھ نے چغے' کچھ پتلونوں میں ملبوس تھے۔ سوٹ اور نکٹائیوں والے بھی تھے اور وہ بھی جن کی شلواریں اور پاجامے صرف آدھی پنڈلیاں ڈھانکے ہوئے تھے۔ کاش دل کی یہ وسعت یہ برداشت یہ عالی ظرفی' یہ محبت اور یہ رواداری' مملکتِ خداداد کی مسجدوں میں بھی آ جائے اور انہیں بھی ہدایت نصیب ہو جو اللہ کے رسول کے اسلام کو اپنے علاقے کے مخصوص لباس میں قید کر دینا چاہتے ہیں۔
مدینہ بھی کیا شہر ہے اور کیا اس کی آب و ہوا ہے۔ اس شہر کی گلیوں میں خدا کا آخری رسولؐ چلتا پھرتا تھا۔ جدھر اسکی نظر اٹھتی تھی۔ ستارے چاند سورج اور کائنات کی تمام روشنیاں اسی طرف لپکتی تھیں۔ جدھر اسکے قدم اٹھتے تھے۔ فرشتے پر بچھاتے تھے۔ وہ سوتا تھا تو زمانے آنکھیں بند کر لیتے تھے۔ جاگ کر اٹھتا تھا تو وقت انگڑائی لیتا تھا! جن سے مخاطب ہوتا تھا ان کے اندر چاند ستارے کاشت کرتا جاتا جنہیں بلایا ان کی نسلیں بھی لبیک یا رسول اللہ کہہ کر اسکی طرف رواں ہیں! وہ خزانے لٹاتا لیکن اپنے ایک کمرے کے گھر میں صرف پانی کا پیالہ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ اور امت کا درد رکھتا۔ کھردری چٹائی پر سو جاتا۔ پاک جسم پر نشان پڑ جاتے لیکن مٹھی میں کرنیں ہوتیں! تاریخ اللہ کے رسول کی دربان تھی۔ کائنات اسکی چوبدار تھی۔ تقویم اس سے پوچھ کر ہفتے مہینے سال اور دن بناتی تھی۔ قیامت تک آنیوالے شہنشاہ اسکی جوتیاں اٹھانے کی حسرت دل میں پالتے رہیں گے۔ اللہ کے رسول کے مدینہ میں عجیب سحر ہے۔ اس سحر کا کوئی توڑ نہیں۔ اس شہر کی ہوا سرد ہے نہ گرم۔ مرطوب ہے نہ خشک' انسان کو جو ہوا سب سے زیادہ پسند ہو سکتی ہے اور انسانی زندگی کیلئے جو ہوا سب سے زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ یہی ہے' کیونکہ اسی ہوا میں خدا کے آخری رسولؐ کی سانسیں جذب ہوئیں۔ اسی شہر کی مٹی آنکھوں کیلئے سرمے سے بڑھ کر ہے' کیونکہ اسی مٹی پر نعلین مبارک پڑتے تھے' یہی تو وہ شہر ہے جس نے اللہ کے رسولؐ کیلئے اس وقت اپنی آغوش وا کی جب اس کا اپنا شہر اس کے خون کا پیاسا تھا اور جب اسی شہر کے لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس نہ چلے جائیں تو آپ نے انہیں یہ کہہ کر تسلی دی تھی… ''نہیں! تمہارا خون میرا خون ہے اور تم میرے اور میں تمہارا ہوں'' پھر جب آپ مکہ سے روانہ ہوئے تو یہی شہر ہے جس کے مکین ہر روز صبح سویرے شہر کے باہر جمع ہوتے۔ اپنی آنکھیں مکہ سے آنیوالے راستے پر ٹانک دیتے اور شام تک انتظار کر کے حسرت و یاس کیساتھ واپس لوٹ جاتے اسی شہر کی بچیوں نے دف بجا بجا کر طلع البدر علینا کا گیت گایا تھا۔ وہ گیت جو آج زمانوں اور جہانوں میں گونج رہا ہے۔ ذرا سوچئے مدینہ کا یہ گیت پندرہ صدیوں میں کتنے مردوں عورتوں بچوں اور بچیوں نے گایا ہو گا اور تصور کیجئے کہ اسرافیل کے صور پھونکنے تک یہ گیت گایا جاتا رہے گا! مسلسل ہر وقت' ہر موسم اور زمین کے ہر حصے میں' گویا آج تک اللہ کے رسول کا استقبال ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
مدینہ ہی کے باشندے تھے جنہوں نے مہاجرین اس شہر کے سنگریزے زمرد نیلم یاقوت مروارید' لوا کو اپنا بھائی بنایا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ ہمارے کھجور کے باغات ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجئے! پھر جب آپؐ نے مسجد بنانے کیلئے جگہ پسند فرمائی اور جگہ کی قیمت ادا کرنا چاہی تو اسی شہر کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم اسکی قیمت صرف خدائے بزرگ و برتر سے وصول کرینگے۔ آج بھی اس شہر کے رہنے والوں کے ماتھے کشادہ چہرے چمکدار اور طبیعتیں نرم ہیں۔ دل چاہتا ہے ساکنان مدینہ کے ہاتھ چومے جائیں اور انکے پیروں کے تلوے سہلائے جائیں' اور دل کیوں نہ چاہے' یہی تو اللہ کے رسولؐ کے شہر میں بستے ہیں! خدا کے رسولؐ کو مہمان بنانے والے آج بھی مہمان نوازی میں آسمان سے بلند تر ہیں جس نے اس مہمان نوازی کی جھلک دیکھنا ہو' رمضان کی ایک افطاری ہی مسجدِ نبوی میں کر کے دیکھ لے۔ وہ جو منظر دیکھے گا آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کہیں اور نہیں دیکھ سکے گا۔ خشکی پر بنے ہوئے راستے سمندروں میں چلتی رویں' فضاؤں میں تیرتے بادل' خلاؤں میں پر مارتے فرشتے سب اس شہر کی طرف رواں ہیں۔ اس شہر کی زمین کے اوپر کا تو ذکر ہی کیا' اسکی زمین کے نیچے دفن ہونا بھی خوش بختی ہے۔ لاکھوں کروڑوں اربوں دلوں میں اسکی ایک جھلک دیکھنے کی حسرت ہے۔ کھرب ہا کھرب انسانوں نے وہ بھی جو مر گئے اور وہ بھی جو زندہ ہیں۔ اس شہر کی طرف جانے میں اور واپس آ کر دوبارہ جانے میں اور بار بار جانے میں زندگیاں صرف کر دیں۔
طیبہ جاؤں اور آؤں' پھر جاؤں
عمر کٹ جائے آنے جانے میں
(حافظ محمد ظہور الحق ظہور)
اور وہ جو پیدا ہوں گے وہ بھی ایسا ہی کریں گے' اسی شہر میں ازل ہے' اسی میں ابد ہے' ہمارے جسموں کی مٹی اسی میں گوندھی گئی۔ روشنی' نیکی' توانائی اور محبت کے سارے چشمے اسی شہر کی مٹی سے پھوٹتے ہیں…؎
اے خوشا شہرے کہ آنجا دلبر است
Thursday, April 30, 2009
اے خوشا شہرے…
Tuesday, April 28, 2009
عذاب … مگر کن کیلئے
اب اگر لوٹ مار کرنیوالے چاہتے ہیں کہ انہیں روکنے والا بھی کوئی نہ ہو اور اگر ان کی لوٹ مار کا ردِ عمل ہو تو وہ بھی انکی مرضی کا ہو تو وہ ظالم ہونے کیساتھ ساتھ احمق بھی ہیں۔
ہے کوئی ایسا اندھیر جو مملکتِ خداداد میں ان باسٹھ برسوں میں نہ ہوا ہو۔
پلاسٹک کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے زمانے میں اٹھائیس ''بلٹ پروف مرسڈیز کاریں خریدی گئیں اور کیا آپ ظلم کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کابینہ ڈویژن ان عظیم ہستیوں کے نام نہیں بتا رہا جو ان کاروں کو اپنے استعمال کی عزت بخش رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کو کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری بتاتے ہیں کہ یہ کاریں کابینہ ڈویژن کے افسر استعمال کر رہے ہیں اور صحافی جب پوچھتے ہیں کہ کون سے افسر… تو سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں کہ نہیں یہ تو چھاپہ خانے کی غلطی ہے۔ ورنہ میرے افسر تو یہ کاریں استعمال ہی نہیں کر رہے۔ کون کر رہے ہیں…؟ منتخب نمائندوں کو کوئی بتانے کیلئے تیار نہیں!
اس ملک کے معاملات پر ہر دوسرے ملک کو اختیار حاصل ہے' سوائے اس ملک کے عوام کو ۔ پطرس نے مرزا کی بائسیکل کے بارے میں لکھا تھا کہ اسکی ہر شے بجتی تھی۔ سوائے گھنٹی کے ہزاروں انسانوں کے قاتل اور ملک کی آزادی بیچنے والے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں سعودی عرب کے بادشاہ اتنے فکرمند ہیں کہ وہ پاکستان کے کمانڈر ان چیف کو تلقین کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کو کوئی مسئلہ کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اس ملک کے معاملات کو دوسروں کے سپرد کرنیوالے یہ بھی چاہتے ہیں کہ ردِِّعمل انکی مرضی کیمطابق ہو۔ اور مکافاتِ عمل کو اُن سے پوچھ کر ترتیب دیا جائے۔ سورۃ القلم میں اللہ تعالیٰ مجرموں سے کہتے ہیں کہ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ سبق پڑھتے ہو کہ تمہیں وہی چیز ملے جو تم پسند کرتے ہو اور کیا تم نے قسم لے رکھی ہے کہ جس شے کا تم حکم کرو گے وہ تمہارے لئے حاضر ہو جائے گی! پاکستان کی ''اشرافیہ'' کا (لغت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اشرافیہ کے لفظ میں ''شرافت'' کا مادہ ہے) ایمان ہے کہ وہ جو چاہیں کریں گے' انہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو گا قانون ان کیلئے بھڑوے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں لیکن جب اندھیرا بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو پانی کو بھی آگ لگ جاتی ہے! باسٹھ سال قانون کو بھڑوا سمجھنے والی اس اشرافیہ کو خواب میں بیت اللہ محسود منگل باغ اور صوفی محمد کے چہرے نظر آتے ہیں تو ہڑبڑا کر اٹھ پڑتے ہیں۔ ریشمی سلیپنگ سوٹ پسینے میں تر ہو رہا ہوتا ہے' معدنی پانی پیتے ہیں اور خواب آور گولی کھا کر پھر سو جاتے ہیں۔
قبائلی علاقے سے بیت اللہ محسود پیدا نہ ہو تو کیا مل مالکان' فیکٹریوں کے کھرب پتی مالک' اور کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ''نمائندے'' پیدا ہوں گے۔ قبائلی علاقوں میں باسٹھ سال میں کیا کیا گیا ہے۔ کیا حکومت پاکستان بتائے گی کہ اس سارے عرصہ میں پولیٹیکل ایجنٹوں نے کتنا پیسہ تقسیم کیا ہے؟ اور قبائلی علاقوں کے کن ملکوں' خانوں اور موٹی اسامیوں کو دیا گیا ہے؟ کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ باسٹھ سال میں حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں کے صرف ان خوانین کی جیبیں بھری ہیں جو قبائلی علاقوں کے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ ابھی تو اس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں سے سینٹر بنانے کیلئے آٹھ ارکان اسمبلی نے ساٹھ کروڑ روپے ''فیس'' لی ہے۔ جو ساڑھے سات کروڑ روپے فی کس بنتی ہے تو کیا یہ اشرافیہ اس خیال میں ہے کہ رشوت' بدعنوانی اقرباء پروری حرام خوری اور دیدہ دلیری کا انعام انہیں بیت اللہ محسود کی صورت میں نہ ملے بلکہ قبائلی علاقوں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو ان کے سامنے رکوع میں جائیں' انکے تلوے سہلائیں اور حرام مال کھانے پرانکی قصیدہ خوانی کریں؟ نہیں! ہرگز نہیں! تم آگ بوؤ گے تو شعلے کاٹو گے! اگر تم اس غلط فہمی میں ہو کہ آگ بو کر گل و گلزار کاٹو گے تو تم ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی ہو!
جو کچھ تم کرتے رہے ہو اور کر رہے ہو' اسکی سزا میں صوفی محمد منگل باغ اور بیت اللہ محسود تو کچھ بھی نہیں! تم کابینہ میں بیٹھ کر چینی کا بحران پیدا کرتے' تم وزیر اعظم بنتے ہو تو یا گجرات کے خواص فائدے اٹھاتے ہیں یا ماڈل ٹاؤن کے رہنما نے ایک ''منتخب'' وزیر اعظم سے کہا کہ میرٹ پر کام کرنا تو ''منتخب'' وزیر اعظم نے بلاجھجک کہا کہ ہم خود کون سی میرٹ پر آئے ہیں' وزیر اعظم یہ کہتا ہے اور آسمان سے پتھر نہیں برستے اور زمین سے لاوا نہیں پھوٹتا۔ اس لئے کہ اللہ ظالموں کی رسی دراز کرتا ہے!
تم پارٹیاں اس طرح بدلتے ہو جیسے پارٹیاں نہ ہوں میلی بنیانیں ہوں۔ تم ہر دور میں وزیر بنتے ہو' تم ایک جہاز سے اترتے ہو تو دوسرے میں بیٹھتے ہو لیکن ٹیکس ادا کرتے وقت اور آمدنی کے گوشوارے بناتے وقت تم قلاش ہو جاتے ہو تم سرکاری ملازم ریٹائر ہوتے ہو لیکن کروڑوں میں کھیلتے ہو اور تقریروں اور تحریروں میں وعظ کرتے ہو اور یہ بھی نہیں بتاتے کہ تمہارے قائم کردہ تھنک ٹینک کہاں سے پیسہ لیتے ہیں' تم بیس کلو گرام آٹے کا تھیلا ساڑھے پانچ سو روپے بیچ رہے ہو اور تمہاری ملیں گندم اور آٹے سے اٹی پڑی ہیں اور تمہارے محلات دولت سے بھرے پڑے ہیں۔ اور تمہاری بیگمات امریکہ برطانیہ سوئٹزر لینڈ اور جرمنی اس طرح جاتی ہیں جیسے یہ سب ساتھ والے محلے ہوں۔ اور پھر تم شور مچاتے ہو کہ طالبان کیوں آ رہے ہیں؟
یہ مشہور واقعہ ہے کہ محمد خان جونیجو نے جب بڑے بڑے افسروں کو چھوٹی چھوٹی کاروں میں بٹھایا تو ایک فیڈرل سیکرٹری کا نائب قاصد' ہر روز پوچھتا کہ سیکرٹری صاحب کیلئے چھوٹی کار کب آ رہی ہے؟ ایک دن سیکرٹری کے پی اے نے نائب قاصد سے کہا کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تم اتنے بے تاب کیوں ہو؟ نائب قاصد نے جواب دیا کہ میں نے تو سائیکل پر ہی رہنا ہے' لیکن یہ بدبخت تو چھوٹی کار میں بیٹھے!
آٹے کیلئے قطار میں کھڑے رہنے والے کو طالبان سے کیا ڈر ہے؟ طالبان کا خوف تو انہیں ہے جنہوں نے باسٹھ سال قانون کو بھڑوا سمجھا ہے! طالیان نے دانائی سے کام لیا تو عوام کے بجائے ''خواص'' کیلئے خدا کا عذاب بنیں گے!!
Thursday, April 23, 2009
یہ فیصلہ اب امامِ کعبہ ہی کریں
جدہ سے مکہ کی طرف سفر کریں تو راستے میں خشک پہاڑ ہیں' سنگلاخ زمینیں' اور کہیں کہیں مختصر میدان جو دراصل ٹیلے ہیں۔ ان ٹیلوں پر اونٹ بھی چر رہے ہوتے ہیں اور سعودیوں کی کاریں بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ پکنک منانے کیلئے کسی خاص پکنک سپاٹ کی قید نہیں وہ شہر سے باہر کسی بھی جگہ قالین بچھا لیتے ہیں…؎
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت' خیمہ زد و بارگاہ ساخت
لیکن یہ خشک پہاڑ' یہ سنگلاخ زمینیں اور یہ ٹیلہ نما میدان' اہل پاکستان کی واحد پناہ گاہ ہیں۔ اس لئے کہ جس دلدل میں پاکستانیوں کو اتار دیا گیا ہے اور جس میں وہ مسلسل دھنسے جا رہے ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ جو برداشت حرم میں ہے' وہ برداشت پاکستان میں بھی اپنائی جائے۔ ان سنگلاخ زمینوں میں پتھر کھا کر دعائیں دینے والے پیغمبرؐ نے جو محبت' رواداری اور اکرامِ مسلمہ سکھایا پاکستان میں اسکی آج شدید ضرورت ہے۔ یہ Life Saving Drog یہ زندگی بچانے والی دوا اگر اس مریض کو فوراً مہیا نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ یہ جاں بلب بیمار تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا!
ہر رنگ کے پھول کی خوشبو بھی اپنی ہے۔ وہ دیکھئے کیرالہ کا مسلمان جا رہا ہے اس نے سفید رنگ کی لنگی سے ٹانگوں کو ڈھانپا ہوا ہے۔ چار خانے والی لنگی میں ملبوس شخص جو رو رو کر دعائیں مانگ رہا ہے انڈونیشیا سے ہے۔ عجیب و غریب چغہ پہنے یہ سیاہ فام مسلمان افریقہ سے ہے اور اس کے چغے پر' پیچھے کی طرف دونوں کندھوں کے نیچے کپڑے کی دو چادریں بھی لٹک رہی ہیں۔ یہ سفید فام مسلمان یورپ سے ہے' غالباً سیکنڈے نیویا سے اس نے نیلی جین پہنی ہوئی ہے۔ یہ ایرانی ہیں ان میں سے کچھ نے پاجامے پہنے ہوئے ہیں اور کچھ پتلونوں میں ملبوس ہیں۔ وہ دیکھئے' لکھنؤ کا مسلمان' اس نے خوبصورت کُرتا اور کھلا پاجامہ زیب تن کر رکھا ہے۔ وہ جو خشوع و خضوع سے نماز پڑھ رہا ہے وہ ترک ہے اس نے پتلون پہن رکھی ہے۔ ترکی کا سرخ جھنڈا اسکے کالر پر نصب ہے۔ اکثر ترکوں نے ایک ہی رنگ کی پتلون اور شرٹ پہنی ہوئی ہیں ان میں امارات اور قطر کے امراء اور مصر کے کسان (فلاحین) سب شامل ہیں۔ کچھ سر سے ننگے ہیں کچھ نے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں اور کچھ نے رومال پہنے ہوئے ہیں۔
رومال بھی دو قسم کے ہیں۔ کچھ سفید اور کچھ سرخ کچھ نے عقال (گول رسی نما چیز) رومالوں کے اوپر رکھا ہوا ہے۔ اِکا دُکا پگڑی بھی نظر آتی ہے۔ یہ سب مسلمان ہیں اور یہ سارے لباس اسلامی ہیں ان میں سے کسی لباس کو رد نہیں کیا جا سکتا نہ کسی کی مذمت کی جا سکتی ہے۔ اسلام جب انڈونیشیا میں اور مراکش میں اور وسط ایشیا میں پہنچا تو اس نے کسی کو یہ نہیں کہا کہ اپنا لباس ترک کر دو اور جو خوراک تم کھاتے ہو چھوڑ دو' اس نے صرف اصول بتایا کہ ستر کا خیال کرو اور وہ لباس نہ پہنو جو بے حیائی کی طرف لے جائے۔ خوراک میں اس نے حلال اور حرام کا بنیادی اصول بتا دیا۔ اب مسلمان خواہ پتلون پہنیں (جو ترکوں کی ایجاد ہے) خواہ شلوار قمیض پہنیں خواہ چغہ پہنیں خواہ تنگ پاجامہ پہنیں' سارے لباس مسلمانوں کے ہیں۔ وہ چاول کھائیں یا روٹی' مچھلی پسند کریں یا بیل کا گوشت یا سبزیاں اور پھل سب کھانے مسلمانوں کے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان راجستھانی پگڑی پہنتا ہے یا پنجابی شملے والی پگ یا پختونوں والی پگڑی یا سوڈانیوں والی پگڑی تو اسے پہننے کی آزادی ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ راجستھانی پگڑی یا پنجابی پگ یا پختون پگڑی کسی کیلئے لازمی قرار دی جائے یا ٹوپی والا پختونوں کا برقہ (شٹل کاک) مسلمان عورتوں کو پہننے پر مجوبر کیا جائے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ننگے سر والے کو یہودیوں کا پیروکار کہہ کر مسلمانوں کو مجبور کیا جائے کہ کوئی ننگے سر نہ رہے۔
اگر مسلمان حرمِ کعبہ میں اور مسجدِ نبوی میں ننگے سر آ سکتے ہیں' ننگے سر نماز پڑھ سکتے ہیں اور پتلون سمیت سارے لباس پہن سکتے ہیں تو کوئی مائی کا لال ہے جو اپنے علاقے کو یا اپنے دائرہ حکمرانی کو حرمین شریفین سے بھی زیادہ مقدس قرار دے اور مسلمانوں پر اپنی پسند کا لباس مسلط کرے' اگر کوئی ایسا کریگا تو وہ اسلام میں ایک نئی چیز داخل کرنے کا مرتکب ہو گا' امت میں فساد کا اور تقسیم کا باعث بنے گا اور مسلمانوں کو اُن مسائل میں الجھائے گا جو توجہ زیادہ اہم مسئلوں سے ہٹا دیں گے اور یہ بہت ہی بری بات ہو گی۔
پھر دیکھئے' حرمِ کعبہ میں مسلمان ان تمام مختلف طریقوں سے نماز پڑھ رہے ہیں جو اللہ کے رسول سے ثابت ہیں۔ کوئی ہاتھ جوڑ کر پڑھ رہا ہے اور ہاتھ چھوڑ کر پڑھنے والوں میں شیعہ ہی نہیں' مالکی سنی بھی شامل ہیں۔ کچھ بلند آواز سے آمین کہتے ہیں کچھ آہستہ کہتے ہیں کچھ پاؤں کھلے رکھتے ہیں کچھ قریب قریب رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو رکوع سے اُٹھ کر ربنا لک الحمد کہتے ہیں تو ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو نہیں باندھتے۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ حرمین کی حدود کے اندر تو کوئی غیر مسلم آ ہی نہیں سکتا۔
اللہ کے رسولﷺ نے گوہ کا کوشت تناول نہیں فرمایا اور اسکی وجہ بھی بتائی کہ انکے علاقے میں یہ نہیں کھایا جاتا اور وہ اسکے عادی نہیں ہیں۔ وہیں پر ایک صحابی نے پلیٹ اپنی طرف کی اور گوہ کا گوشت اللہ کے رسولؐ کے سامنے کھانے لگے۔ آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ آپکو کدو پسند تھا اور ایک صحابی کدو تو کیا کدو کی بیل سے بھی محبت کرتے تھے اس لئے کہ محبوبِ خدا کو کدو پسند تھا لیکن اگر کوئی کدو نہیں کھاتا تو کیا وہ کسی گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے؟ آپﷺ نے جو لباس زیب تن فرمایا وہ وہی تھا جو اس زمانے میں مکہ اور مدینہ کے سارے لوگ پہنتے تھے۔ آپؐ نے حکم نہیں دیا کہ قیامت تک آنے والے مسلمان پوری دنیا میں وہی لباس پہنیں جو آپؐ نے پہنا ہے!
روزِ جزا یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ تم نے پگڑی کون سی پہنی تھی؟ سرخ یا سیاہ یا سبز؟ اور برقع کون سا پہنا تھا؟ مراکش یا مصری یا پختون یا سوڈانی؟ وہاں تو یہ پوچھا جائے گا کہ تم کرتے کیا رہے؟ اور کیا خلق خدا کو تم سے فائدہ پہنچایا ہلاکت۔ اور کیا تم نے اللہ کے رسول کے احکام مانے یا اپنے مقامی تمدن کو اسلام کے نام پر چمکاتے رہے؟
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان کے مسلمان' متحد ہو کر امام کعبہ کی خدمت میں درخواست پیش کریں کہ اب اس کا فیصلہ امامِ کعبہ ہی کریں گے کہ جو لوگ ایک خاص وضع کا لباس پہننے پر مجبور کر رہے ہیں اور ایک خاص قسم کی شریعت بزورِ شمشیر مسلط کر رہے ہیں اور دلیل کے بجائے بندوق کی زبان میں بات کر رہے ہیں' وہ لوگ صحیح راستے پر ہیں یا افراط کا شکار ہو کر مسلمانو ںکیلئے اذیت کا باعث بن رہے ہیں؟
Thursday, April 16, 2009
افغانوں کا حق
ء1885 کا سال تھا اور مارچ کا مہینہ! افغانستان سرد تھا ' بالکل اسی طرح جس طرح زارِ روس اور برطانوی ہند کے تعلقات سرد تھے۔ روس جوں جوں جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا' خیوا' بخارا' سمرقند اور ترمذ کو اپنی باہوں میں جکڑنے کیلئے برصغیر پر قابض انگریز اتنے ہی خوف زدہ ہوتے تھے اور ان کی وہ مکاری اور عیاری بروئے کار آنے لگتی تھی جس میں شاید ہی اُن کا کوئی ثانی ہو اور ستم ظریفی دیکھئے کہ دو درندوں کے درمیان … بکریوں کی اس تقسیم کو … ''گریٹ گیم'' کا نام دیا گیا ہے !
مسلمانوں کے رہنما آج تک یہ سمجھنے سے اور سمجھانے سے قاصر ہیں کہ آخر وہ بکریاں کیوں تھے؟ وہ تر نوالہ کیوں تھے؟ روسیوں نے جب انہیں ہڑپ کیا تو بخارا اور خیوا کے …کن ''مشاغل'' میں ''مصروف'' تھے؟ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال اور بہار کی دیوانی لی تو مغل کیا کر رہے تھے؟ اور کانپور چھاؤنی میں جب توپیں پالش کی جا رہی تھیں نواب واجد علی کن ''کارہائے اہم'' میں سرتاپا غرق تھے اور نظامِ دکن کیا کر رہا تھا۔ ماسکو سے خیوا تک … آپ کو شاید معلوم نہ ہو … کرہِ ارض کی ہولناک ترین سردی پڑتی ہے۔ زمہر پر تو اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جب روسی فوجی مشقت کی انتہا پر تھے خیوا اور بخارا کے خوانین زیر زمین زندانوں میں قیدیوں پر ظلم کر کے تماشے دیکھ رہے تھے اور جب نواب اور مہاراجے جنسی تلذذ کے لئے ناقابل تحریر ''تجربے'' کر رہے تھے اور گڈے گڑیا کی شادیوں پر انگریز وائسرائے کے نمائندے مدعو کئے جا رہے تھے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر اور کرنل سنگلاخ پہاڑوں اور بے رحم صحرائوں میں گھوڑوں کی پشت پر ہفتوں بیٹھ کر … سلطنتِ برطانیہ کی وسعت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ آج تک ضلعی گزٹ اس طرح کے نہیں لکھے گئے جو انگریز لکھ کر گئے۔
تلخ نوائی کے لئے معافی … 1885ء کا مارچ تھا دریائے کشک کے مغرب میں افغان فوج کا پڑائو تھا اور مشرق میں روسی فوج کا … 29 مارچ کو روسی کمانڈر جنرل کو ماروف نے افغانوں کو وارننگ دی کہ اس جگہ سے ہٹ جائیں۔ افغانوں نے انکار کیا تو 30 مارچ صبح تین بجے روسیوں نے حملہ کر دیا اور افغانوں کو پل خشتی کے پار بھگا دیا۔ روسیوں کے چالیس اور افغانوں کے چھ سو جنگجو کام آئے۔ یہی وہ لڑائی تھی جس کے نتیجہ میں مرو کا تاریخی شہر روسیوں کے پاس چلا گیا۔ یہ صرف ایک مثال نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان بہادر ضرور ہیں لیکن انہوں نے شکستیں بھی کھائی ہیں۔ غالب و ظفریاب صرف اللہ کی ذات ہے اور تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ افغانستان پر دوسروں کا قبضہ کبھی نہیں رہا۔ افغانستان نامی ملک تو چند سوسال پہلے کا واقعہ ہے۔ جہاں تک اس علاقے کا تعلق ہے تو کیا اس پر سلجوقی حکمران نہیں رہے؟ بابر اور اس کے خانوادے نے پونے دو سوسال کابل پر حکومت کی۔ اس علاقے میں طاقت اور علوم و فنون اور تہذیب اور کلچر تو بلخ رہا یا ہرات یا نیشاپور … جنوب میں جنگوں کے علاوہ آخر تھا بھی کیا؟
تو کیا میں افغانوں کی … خدانخواستہ تنقیص کر رہا ہوں؟ نہیں … حاشا کلا … نہیں… میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ محلے کے چوک پر جو خوشحال لوگ دائرہ بنا کر تماشا کر رہے ہوتے ہیں اور درمیان میں جو دو لڑکے تار تار لباس پہنے' باہم دست و گریباں ہوتے ہیں تو وہ صرف اس لئے ایک دوسرے کو چیرنے پھاڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ دائرے میں کھڑے خوشحال لوگ ان کی بہادری کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ تو اتنا جری ہے کہ اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ افغانوں کے دشمن ہیں وہ لوگ جو یہ کہہ کر انہیں جنگ کی طرف دھکیلتے ہیں کہ افغان کبھی شکست نہیں کھاتے اور یہ کہ افغانستان پر کبھی کسی نے قبضہ نہیں کیا۔ نہیں ہیں اُن کے ساتھ مخلص وہ لوگ جو ہر وقت افغانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ منتقم مزاج ہیں' بدلہ لیتے ہیں' اور بہادر ہیں !
بہادری یہ نہیں کہ عورتیں' بچے اور بوڑھے دربدر ہو جائیں' اُن کے ٹھکانے خونریزی کی نذر ہو جائیں' ان کا حال تاریک ہو جائے اور ان کا مستقبل نہ ختم ہونے والے اندھیروں میں گم ہو جائے۔ اسلام آباد میں پشاور موڑ کے قریب ایک بازار ہے جس میں کچھ افغان نانبائی روٹیاں بیچتے ہیں۔ افغانوں کو بہادر اور منتقم مزاج کہہ کر ہمیشہ حالت جنگ میں رکھنے والے کبھی ان نان فروشوں کی دکانوں کے باہر جا کر دیکھیں افغان بوڑھی اور جوان عورتیں جس طرح روٹی کی خیرات کے انتظار میں وہاں پہروں بیٹھتی ہیں اسے کوئی صاحب دل دیکھ کر اپنے آنسو نہیں روک سکتا۔ کوئی صدقہ خیرات کرنے والا آتا ہے اور نان فروش کو ہزار دو ہزار روپے دے کر کہہ جاتا ہے کہ اس رقم سے سامنے بیٹھی ہوئی خلق خدا میں روٹیاں تقسیم کر دو۔ نہیں … ہرگز نہیں … یہ افغان… کے ساتھ دشمنی ہے۔ اگر افغان منتقم مزاج ہیں بھی تو یہ تو وہ کلچر ہے جسے اللہ کے رسولؐ نے ناپسند فرمایا تھا۔ تاریخ کے ورق اگر نہ الٹیں اور صرف وہ صفحہ پڑھیں جو سامنے کھلا ہوا ہے تو تیس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ افغان دربدر بھٹک رہے ہیں۔ کبھی ایران کے مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور کبھی پاکستان کے اطراف و اکناف میں بھٹکتے ہیں اور طعنے سنتے ہیں۔ ان کی عورتیں بیوہ ہو گئیں' بچے یتیم ہو گئے' نوجوان اپاہج ہو گئے اور بوڑھے ہانپ کر رہ گئے۔ ان کے شہر ویران ہو گئے قریے اور بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ شاہراہیں جنگلوں میں بدل گئیں' جنگل متحارب گروہوں کے پڑائو بن گئے۔ روئیدگی زاد ہو گئی اور پھر جل گئی۔ ثمربار اشجار' ٹنڈمنڈ ہو گئے' کھیت مقتل بن گئے' گھر قبرستان میں تبدیل ہو گئے۔ عالی شان تاریخی عمارتیں گولیوں راکٹوں اور بموں سے تباہ و برباد ہو گئیں۔ افغانستان ویرانے میں بدل گیا۔ وہ ملک جس نے دنیا کو بلخ' ہرات' نیشاپور' غزنی' قندھار اور بدخشاں کے تہذیبی مراکز دیئے تھے قوموں کی برادری میں بھکاری بن کر رہ گیا۔ گوری چمڑی والے خیرات بقچیوں میں باندھ کر آتے ہیں اور احسان جتا جتا کر روٹی کے چند نوالے' پانی کے چند قطرے اور کپڑوں کی چند دھجیاں بخشش میں دیتے ہیں۔ اناللہ وا انا الیہ راجعون۔ اللہ ہی کے ہیں ہم اور اُسی کی طرف ہم نے پلٹ کر جانا ہے!!
نہیں! یہ غلط ہے! یہ ظلم ہے! افغانوں کو ایک اچھی نارمل زندگی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایرانیوں اور عربوں کو ہے اور زندگی کی جائز سہولتوں سے تمتع اٹھانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا امریکیوں اور جاپانیوں کو ہے! افغان بچوں کو سکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہونا چاہئے۔ وہ البیرونی اور جمال الدین افغانی کے وارث ہیں۔ غلط ہیں وہ جو افغان بچوں کے خوبصورت ہاتھوں میں غلیلیں اور مضبوط کندھوں پر بندوقیں رکھ کر اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں۔ افغان خواتین کی بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی ایرانی' عرب' ترک اور پاکستانی عورتوں کی ہے۔ آخر افغان عورتیں کیوں خیرات کا انتظار کریں؟ کیوں دربدر ٹھوکریں کھائیں؟ کیا افغان بوڑھوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا بڑھاپا آرام سے گزاریں۔ جدید ہسپتالوں میں ان کا علاج ہو' اور ان کے پوتے اور نواسے شام کو انہیں پارکوں میں سیر کرائیں' سینکڑوں سال سے افغانستان کسی صنعت' کسی حرفت' کسی قسم کی مصنوعات' کسی برآمدات کیلئے معروف نہیں۔ اگر بنگلہ دیش کی بنی ہوئی قمیض' سری لنکا کے بنے ہوئے مارک اینڈ سپنسر کی پتلونیں اور لاہور اور کراچی کی بنی ہوئی نائکے کی ٹی شرٹیں عالمی منڈیوں میں فروخت ہو سکتی ہیں تو افغانستان سے بھی کپڑا' جوتے' مشینری' کاریں' ٹیلی ویژن اور ریڈیو برآمد ہونے چاہئیں اور یہ صرف اس وقت ہوگا جب افغانوں کے ہاتھ سے بندوق لے کر کتاب تھمائی جائے گی جب ان کی خواتین یونیورسٹیوں میں پڑھ کر لیکچر دیں گی جب وہاں کارخانے بنیں گے' لیبارٹریاں ہوں گی۔ ریل گاڑیاں اور تیز رفتار کاریں بدخشاں سے قندھار تک اور جلال آباد سے ہرات تک نقل و حرکت کریں گی!
کب تک …؟ آخر کب تک افغان صرف اپنے پہاڑوں' دروں اور صحرائوں پر فخر کرتے رہیں گے؟ کب تک قالینوں کا ذکر ہوگا؟
(اب تو ایرانی اور ترکمانی قالین اور غالیچے آگے نکل چکے ہیں) کب تک انتقام اور جنگوں سے بھرا حال اور ماضی ان کا سرمایۂ افتخار ٹھہرے گا؟ خدا کیلئے سوچیئے ! کتنا ظلم ہے کہ کراچی اور اسلام آباد کے عشرت کدوں میں بیٹھ کر افغانوں کی بہادری پر تقریریں کی جائیں اور مضامین لکھے جائیں اور تقریریں کرنے والوں اور مضامین لکھنے والوں کی اولاد بزنس کر رہی ہو' کروڑوں میں کھیل رہی ہو' دنیا کی ہر آسائش چک لالہ میں بھی موجود ہو اور کراچی میں بھی … اور افغان سردیاں غاروں میں گزاریں اور گرمیاں جنگلوں میں کاٹیں! نہیں! جناب یہ ظلم ہے اور افغانوں پر یہ ظلم ختم ہونا چاہتے۔
چند افغان سردار … چند افغان وار' لارڈ' اپنی انا کیلئے لاکھوں کو آگ کا ایندھن بنائیں کبھی اسلام کے نام پر کبھی انتقام کے نام پر اور کبھی اپنے اقتدار کے نام پر … ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ انتقام وہ نہیں ہوتا جو بندوق سے لیا جائے انتقام وہ ہوتا ہے جو یونیورسٹیوں' لیبارٹریوں اور رصدگاہوں میں لیا جاتا ہے۔ نظام الدین طوسی کے وارثوں کو تو ایسے ادارے بنانے چاہیں تھے جو آکسفورڈ اور ہارورڈ کا مقابلہ کرتے ! کاش افغان جنگجو اُن بہروپیوں کے اصل عزائم جان سکتے جو جدید ترین محلات میں بیٹھ کر … اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو کامیاب بزنس کروا کر افغان کی بہادری کے قصیدے پڑھتے ہیں اور افغانوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلتے ہیں!!
Wednesday, April 15, 2009
Life without Ijtihad
Miss Hanadi Zakariyya Al-Hindi has created history by being the first female pilot in Saudi Arabia. Prince Al-Waleed, a business tycoon, owner of The Kingdom Holding Company, has employed the pilot for next ten years through a lucrative contract. His company, The Kingdom Holding Company, is the proud owner of a full-fledged fleet of jet airplanes. Al-Waleed was genuinely concerned with the emancipation and uplift of Saudi women. He celebrated the commission of the first female pilot by publishing full-page supplements in the Kingdom's newspapers.
This all, however, did not go well will the hawks. They came down on the whole affair with heavy hands. The most thunderous was the voice of one Sheikh Yousuf Al-Ahmed, a professor of Islamic Law at Islamic University of Riyadh. The argument was that since a Muslim woman was not supposed to travel alone, unless accompanied by mahram (a male first relation like husband, father, brother etc) and since the pilot was a 'woman' without a mahram, the whole phenomenon was unlawful. The sheikh declared the entire publicity affair equally un-Islamic.
A place where even car driving by females is a crime, flying jets amounted, naturally, to height of audacity .It was in 1990 when late Sheikh Abdul Azeem Bin Baz, the Shariah-mentor of Saudi Royal Family, issued Islamic decree (fatwa) against car driving by females. In the same year 47 ladies demonstrated car-driving in Riyadh. They were thrown out of their jobs and were, along with their families, barred from leaving the country.Even a perfunctory look at the social history will reveal that travelling then and now is not the same activity. In early Islamic days camel and horse were the main modes of journey. People would form caravans and would move in flocks. They were, frequently, attacked, plundered and killed. It was humanly not possible to travel for a woman on her own. But the mode as well as circumstances now are different. Imagine millions of Muslim families living in America, Canada, Europe, Australia and elsewhere. Every week thousands of married girls travel back - all alone - to see their ailing, dying fathers and mothers. The question which a common Muslim asks: Is it possible for every old man to accompany his wife to Europe, America or Australia to attend their children? Is it feasible for every husband to take leave from his employer to accompany his wife back home?
Islam's supremacy over other religions lies in its flexibility. It desires compatibility with changed circumstances and creates ease and freedom from hardship as far as possible for its followers. In no circumstances Islam imposes something on its followers which creates hurdle in normal life. It wants its followers to participate fully in economic and social activities and never to lag behind others in any walk of life. It is high time scholars of Islam from all over the Muslim world meet and ponder over the issues like travelling of women unaccompanied by first relation and many other problems which need to be resolved.
It may not be out of place to mention here that Maulana Justice Taqi Usmani has been innovative enough to come out with some sort of Islamic Banking. He has suggested way out to those who - avoiding interest - were unable to buy even a simple housing unit, the bare minimum necessity. Paradoxically the ulema of his own school of thought have condemned him for this "audacious innovations." It is said that when he invited them to suggest alternative, they could offer nothing except cutting a sorry figure. Ostracization on the part of the religious scholars is proving a pitfall. The dichotomy in Muslim societies is turning more sharp edged. Polarisation is paving way for further intolerance. Civil war in countries like Pakistan is already at the threshold. There is complete lack of interaction between the madrassa and non-madrassa worlds. Colossal marginalisation of graduates of madrassa has pushed them to reactionary state of mind.
History testifies that Islam tolerated and imbibed all local cultures, including attire and other customs, from Atlantic to Indus and onward to Bali and Brunei but never allowed any local culture, including dress, to be declared as Islamic one. Country after country and nation after nation embraced Islam while holding back what they already had whether it was food, dress or other social traditions. Islam never went down to dictate at the micro-level. Its broad instructions in dress pertained to covering of sensitive parts of body and specification as to what was haram. Nothing else was specified. The present regimentation down to micro-level by so-called warring Islamists is not at all supported by Islam.
Tuesday, April 14, 2009
مُٹھی بھر مٹی
آذر بائیجان کا دارالحکومت باکو ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ گنجہ ساری دنیائے علم و ادب میں مشہور تھا۔ برصغیر کے علمی حلقوں میں گنجہ' نظامی گنجوی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ وہی نظامی جو اپنے ''خمسہ'' کی وجہ سے معروف ہے۔ اس نے پانچ مثنویاں لکھیں جو خمسہ کہلاتی ہیں۔ اُس کے جواب میں کئی شعرا نے خمسے لکھے لیکن تاریخِ ادب نے نظامی کے بعد عزت صرف دو کو بخشی۔ جامی اور امیر خسرو کو۔ لیکن گنجہ مہستی گنجوی کے لئے بھی مشہور ہے۔ فارسی کی شاعرہ جس نے اپنے علم اور شاعری سے ادب کی تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔ گیارھویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والی مہستی نے امیر احمد سے محبت کی اور برملا اظہارِ عشق کیا۔ رباعی کہنے میں وہ عمر خیام سے پیچھے نہیں۔
چشم چو بچشمِ خویش چشمِ تُو بدید
بی چشمِ تو خوابِ چشم از چشم رمید
ای چشمِ ہمہ چشم بچشمت روشن
چون چشمِ تو چشمِ من دگر چشم ندید
میری آنکھ نے جب اپنی آنکھ سے تمہاری آنکھ کو دیکھا تو تمہاری آنکھ کے فراق میں آنکھ سے' آنکھ کی نیند اُڑ گئی۔ تمہاری آنکھ ہی سے تو ساری آنکھوں کی آنکھ روشن ہے۔ میری آنکھ نے آج تک تمہاری آنکھ جیسی کوئی آنکھ نہیں دیکھی!
… مہستی سنجر بادشاہ کے دربار سے وابستہ ہو گئی۔ مجلسِ عیش برپا تھی۔ مہستی کسی کام سے باہر نکلی تو برف پڑ رہی تھی۔ واپس آئی تو سنجر نے پوچھا موسم کیسا ہے۔ مہستی نے فی البدیہہ رباعی کہی جس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہ کے گھوڑے کے پائوں خاک پر کیوں پڑیں؟ آسمان نے زمین پر چاندی کا فرش بچھا دیا ہے!درست ہے کہ یہ لوگ خوشامدی تھے' لیکن علم کا اور دانش کا ایک معیار تھا جس سے نیچے اُترنے کا حاکم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سنجر نے عید کا چاند دیکھا تو معزی نے کہا کہ ہلالِ عید ہے یا معشوق کا ابرو ہے یا بادشاہ کی کمان ہے یا سونے کا نعل ہے یا آسمان نے کان میں زیور پہنا ہوا ہے۔ سنجر نے گھوڑا اور نقد انعام دیا۔ معزی نے پھر فی البدیہہ کہا کہ میرے ترانے میں پانی کی روانی تھی۔ چنانچہ شاہ نے مجھے ہوا کی رفتار والی سواری مرحمت کی۔
سنجر پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرا تو شاعر نے برجستہ کہا کہ آسمان نے تو نظر لگا ہی دی۔ لیکن گیند کو بھی سزا دی جائے اور گھوڑے کی سزا یہ ہے کہ مجھے بخش دیا جائے۔ گھوڑا عنایت کر دیا گیا تو شاعر نے دوبارہ کہا
رفتم برِ اسپ تا بہ جرمش بکشم
گفتا کہ نخست بشنو این عذرِ خوشم
نے گائو زمینم کہ جہاں بر گیرم
نے چرخِ چہارمین کہ خورشید کشم
فارسی ادب کی دیومالا کے مطابق گائے نے زیرِ زمین سب کچھ سینگ پر اٹھایا ہوا ہے اور چوتھے آسمان پر سورج ہے' میں گھوڑے کو سزا دینے لگا تو اُس نے کہا پہلے میری بات سُن لو۔ میں گائے جتنا طاقتور ہوں نہ چوتھے آسمان جتنا' کیونکہ سنجر کو اٹھانا زمین اور سورج کو اٹھانے کے برابر ہے۔
یہ لوگ جو بادشاہوں' گورنروں اور وزراء اعظم کے اردگرد تھے' ولی تھے نہ دیانت و امانت کی قابلِ رشک مثال تھے۔ لیکن ان کے پاس علم تھا۔ تاریخ و ادب پر عبور تھا۔ تفریح بھی ایک مخصوص معیار سے نیچے نہیں ہوتی تھی۔
مگر یہ سب کچھ تاریخ میں دفن ہو گیا۔ زوال آتا ہے تو ہمہ گیر زوال آتا ہے۔ درباروں کی جگہ پہلے ریڈیو نے لی اور پھر سرکاری ٹیلی ویژن نے۔ مسخروں' بھانڈوں مداریوں اور ہزل گوئوں کی لاٹریاں نکل آئیں۔ شاعری کے نام پر جہلا کے ایک گروہ نے پردۂ سیمیں پر قبضہ کیا اور پھر یہ قبضہ ختم ہی نہ ہوا۔ ثروت حسین اور قمر جمیل جیسے شاعروں سے ناظرین اور سامعین محروم ہی رہے اور ایسے ایسے ''شاعر'' میڈیا کے ذریعے بلندی پر پہنچے جو وزن میں کہنا تو دُور کی بات ہے' وزن میں پڑھنے سے بھی قاصر تھے۔ نجی شعبے میں میڈیا کی اگلی نسل ہر اُس چیز سے دُور ہے جس کا علم و ادب اور فکر و دانش سے تھوڑا سا بھی تعلق ہے۔
لیکن اصل المیہ حکومتوں کا ہے۔ ہزاروں سال سے خوشامدی درباروں سے وابستہ چلے آ رہے ہیں۔ لیکن ایک وقت تھا جب مہستی گنجوی' معزی' فیضی' ابوالفضل اور غالب جیسے نابغے فنِ خوشامد سے وابستہ تھے۔ اب وہ وقت ہے کہ پست ترین لوگ حکمرانوں کے اردگرد روشنی کا نہیں بلکہ تاریکی کا ہالہ بنے ہوئے ہیں۔ ایوب خان کے عہد کو دیکھ لیں۔ اُسے مسلسل یقین دلایا جاتا رہا کہ وہ مقبولیت کی آخری حدوں کو چھُو رہا ہے۔ ''عشرۂ ترقی'' منانے پر کروڑوں روپے صرف کئے گئے۔ میگنا اور بُوری گنگا میں کشتیاں ڈوب رہی ہوتی تھیں لیکن اُن پر ''عشرۂ ترقی'' کے بینر نما بادبان لگے ہوئے ہوتے تھے۔ پھر ضیاء الحق کا دور آیا خوشامدیوں نے نکٹائیاں اتار کر تاریک کونوں میں پھینکیں' واسکٹیں پہنیں اور وضو کئے بغیر نمازوں کا اہتمام ہونے لگا۔ ''اسلام پسند'' ٹھیکوں اور مراعات کی خاطر ہر وقت پاکستان کے بدترین آمر کو یقین دلاتے رہتے تھے کہ وہ پہلے زمانے کے مسلمانوں سے کسی صورت کم نہیں۔ یہ خوشامدی ہی تھے جو جہالت مآب ہونے کے باوجود سرکاری خرچ پر' عوام کی خون پسینے کی کمائی سے' عمرے کرتے تھے' مشائخ کانفرنسیں ہوتی تھیں' تعلیمی پالیسیاں یہ کہہ کر جاری کی جاتی تھیں کہ دو سال میں خواندگی کا تناسب سو فیصد ہو جائے گا۔ پست ترین سطح کے مالک یہ خوشامدی دولت میں کھیلنے لگے اور ملک کی کھائی میں گرنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔
پھر قاف لیگ آئی اور خوشامد کا فن انتہا کو پہنچ گیا۔ اُن مشہور و معروف شخصیات نے… جن کا نام ہر پاکستانی کے دل کے اُس حصے میں نقش ہے جو اندھیرے میں رہتا ہے… ایسے ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ جہالت سر پیٹنے لگی۔ آج بھی صورتِ حال مختلف نہیں' ایوانِ صدر سے لے کر وزیراعظم کے عالیشان محل تک اور گورنروں کی وسیع و عریض سرکاری جاگیروں سے لے کر وزراء اعظم کے دفتروں تک فنِ خوشامد کے ماہرین مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے ہیں اور جس کو گُڑ سمجھتے ہیں وہ کچھ اور شے ہے۔
مرکز ہے یا کوئی صوبہ یا مقامی حکومتیں' اہلِ خوشامد جہاں بھی ہوں گے' مہلک ثابت ہوں گے' لیکن کچھ مقامات تو ایسے ہیں جہاں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں پتھر اور سونا برابر ہیں۔ مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ کی خدمت میں ضرور کچھ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس لئے کہ وہ خلوص کا جذبہ رکھتے ہیں اور ان کا اسلوبِ حکمرانی بتاتا ہے کہ وہ بنیادی تبدیلیوں کا… کم از کم نظریاتی طور پر… عملاً نہ سہی… ادراک ضرور رکھتے ہیں… اور فی الواقع کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس لئے بھی کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صُوبہ ہے۔ لیکن افسوس اُن کے گرد حصار قائم کرنے والوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کا علم و دانش سے تعلق ہو۔ کاش! انہیں کوئی بتانے والا ہوتا کہ پنجاب لاہور کا نام نہیں' اور نہ ہی سنٹرل پنجاب کا نام ہے۔ پنجاب میں میانوالی بھی ہے اور اٹک بھی… بہاولپور بھی ہے اور وہ علاقے بھی ہیں جو پنجاب کے ''مرکز'' سے دُور ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جن کے نام اسس وقت تو ضرور لئے جاتے ہیں۔ جب پنجاب کے رقبے اور آبادی کو بڑا ثابت کرنا ہو' لیکن دوسرے مواقع پر یہ نام کسی کو یاد نہیں رہتے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں کہاں کہاں کی نمائندگی مفقود ہے؟ وہ ریٹائرڈ حضرات جو قضا و قدر کے مالک بنا دئیے گئے کہاں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟ افسروں کا ایک گروہ جو مقتدر ہے' کیوں لافانی ہے؟
خطّاب کے بیٹے فاروقِ اعظم جُھکے۔ زمین سے مٹی مُٹھی میں بھری اور خوشامد کرنے والے کے منہ میں ڈال دی۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ مٹی خوشامد کرنے والے کے منہ میں نہ ڈالی گئی تو اُس چہرے کو میلا کر دے گی جس کی خوشامد کی جا رہی ہے! خوشامد کرنے والے وہی رہتے ہیں' حکمران آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اب یہ حکمران پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اردگرد مسخروں بھانڈوں نقالوں اور لطیفہ گوئوں کو جمع کرتا ہے یا اُن لوگوں کو جو اُسے بتائیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ سلطان علائوالدین خلجی کی تلوار اندھی تھی اور ہر وقت جلاد کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ بھرے دربار میں قاضی مغیث الدین… خدا اُن کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کرے… سلطان سے مخاطب ہوئے… بادشاہ سلامت! سرکاری خزانے کو آپ جس طرح اپنے ''حرم'' کی وسعت و زیبائش پر ضائع کر رہے ہیں' شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی! علائوالدین کا چہرہ سرخ ہو گیا' ''کیا تمہیں میری تلوار کا کوئی خوف نہیں؟''… قاضی مغیث الدین نے سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں… ''نہیں… میں صرف خدا کی تلوار سے خوفزدہ ہوں۔'' سکندر لودھی ابھی تخت پر نہیں بیٹھا تھا۔ ولی عہد تھا۔ وہ ایک ایسے تالاب کو مسمار کرنا چاہتا تھا جسے ہندو مقدس گردانتے تھے۔ علما کو بلا کر رائے لی گئی۔ سرکاری زمینیں الاٹ کرانے والے اور وزیروں کی مراعات کے لئے پائوں پڑنے والے نام نہاد ''علمائ'' نے وہی کچھ کہا جو شہزادہ سننا چاہتا تھا! میاں عبداللہ دربار میں موجود تھے۔ اُٹھے اور کہا کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کس طرح کی جا سکتی ہے؟ شہزادے نے الزام لگایا کہ تم بُت پرستوں کی حمایت کر رہے ہو' میں تمہیں قتل کرا دوں گا۔ میاں عبداللہ نے صرف ایک فقرہ کہا… ''اگر تمہیں شریعت کا لحاظ نہیں تو پھر میری رائے لینے کی کیا مجبوری تھی؟''
میاں عبداللہ اور قاضی مغیث الدین کا نام تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے لیکن وزیروں کا پروٹوکول لینے کے لئے عزت نیلام کرنے والے اُس کھائی میں گر کر ختم ہو چکے جس کے اُوپر تاریخ نے منوں مٹی ڈال دی ہے۔
بچو! حکومت کرنے والو… خوشامد کرنے والوں سے اپنے آپ کو بچائو۔ جھُکو… زمین سے مٹی کی مُٹھی لو اور ان کے منہ میں بھر دو!
Thursday, April 09, 2009
اجل ان سے مِل
کوئی جا کر سوات کے مولانا صوفی محمد کی خدمت میں عرض کرے کہ حضرت ! آپ نے فرمایا ہے کہ جمہوریت کفر ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جمہوریت واقعی کفر ہے تو آپ پاکستان کے غم میں دُبلے نہ ہوں۔ اس کفر کا پاکستان میں دور دور تک وجود نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں کوئی خطرہ ہے!
پاکستان میں جمہوریت…! کیسی جمہوریت…! اگر یہ سچ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ ہتھیلی پر بال اُگتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ بلی بچے نہیں انڈے دیتی ہے …!
کسی پڑھے لکھے سنجیدہ پاکستانی کو پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ سے کوئی امید ہے نہ قلبی تعلق۔ نون لیگ کو وہ لوگ بھی ووٹ دینے کیلئے پہلی بار نکلے جنہیں عدلیہ کے قتل کا دکھ تھا اور جو نوازشریف کے غیر مشروط اعلانِ جدوجہد سے متاثر تھے۔ نوازشریف نے عدلیہ کیلئے موقف اختیار کیا۔ اُس پر ثابت قدم رہے لیکن افسوس ! ان میں اتنی انقلابی فکر نہیں ہے کہ پارٹی کے اندر انتخابات کرانے والے پہلے پاکستانی سیاستدان بنیں!
کسی پڑھے لکھے سنجیدہ پاکستانی کو پیپلزپارٹی سے یا مسلم لیگ سے کیا اُمید ہو سکتی ہے اور کیا تعلق ہو سکتا ہے ! ایک ہوش مند باضمیر پاکستانی ہمیشہ یہ کہے گا کہ میں ایک خاندان کے اقتدار کیلئے اس پارٹی کو کیوں اپنا ووٹ … اپنا ا یمان … اپنا دل دوں؟ خاندانوں کا اقتدار ! چودھری ظہورالٰہی' شجاعت حسین' مونس الٰہی' سردار قیوم سردار عتیق اور سردار عتیق کا صاحبزادہ' ذوالفقار علی بھٹو' ان کی بیٹی ان کا داماد اُن کا نواسا' اُن کا پڑنواسا' نوازشریف' شہبازشریف' کپتان صفدر' شریف خاندان کے نئی نسل کے نوجوان … آخر کیوں … ایک ہوش مند باضمیر پاکستانی ہمیشہ یہ کہے گا کہ کیوں ؟ کیا میں خاندانوں کا غلام ہوں؟ کیا میں نے ہندو سے علیحدگی اس لئے حاصل کی تھی کہ ان سیاستدانوں کے بیٹوں' پوتوں' نواسوں' نواسیوں کو استحکام بخشوں؟
کوئی مولانا صوفی محمد صاحب سے کہے کہ حضرت ! خاطر جمع رکھئے۔ جمہوریت کے کفر سے یہ ملک مکمل طور پر محفوظ ہے۔ یہ کفر تو اُن کافروں کے نصیب میں ہے جو عوام کی اجازت کے بغیر ایک پائی نہیں خرچ کر سکتے' جو نوکر نہیں رکھ سکتے' جو ٹریفک نہیں رکوا سکتے' جو اپنے بیٹوں' پوتوں' بیٹیوں نواسیوں کو اسمبلیوں میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ! کہاں جمہوریت کا کفر اور کہاں پاکستان !
مسلم لیگ 62 سال میں اور پیپلزپارٹی 40 سال میں آزمائی جا چکی۔ یہ طے ہے کہ جس طرح سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو سکتا بالکل اسی طرح یہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں۔ صدر زرداری اور بلاول زرداری بھٹو لاکھ انتخابات جیتیں' نوازشریف حریف کے مقابلے میں 95 فیصد ووٹ لے لیں' سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کے انتخابات میں وہ جمہوری طریقے سے اوپر آئے یا نہیں۔ کیا مارگریٹ تھیچر' ٹونی بلیئر اور اوباما اپنی اپنی پارٹیوں کے خاندانی وارث ہیں؟ کیا فرانس کے صدر سرکوزی اور جرمنی کی خاتون چانسلر پارٹیوں کے انتخابات کے بغیر اوپر کی سطح پر آئے۔ جس طرح دودھ پر بالائی اوپر آتی ہے …؟
مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی آزمائی جا چکیں' امید کی پرورش کرنے والے بوڑھے اور خواب دیکھنے والے نوجوان عمران خان کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیا حسرتوں کا قافلہ عمران خان کی قیادت میں اُس موڑ تک پہنچ سکے گا جہاں امید کا دریچہ کھلا ہے اور دریچے میں چراغ جل رہا ہے؟ کیا عمران خان ہی وہ پہلا سیاستدان ہوگا جو اپنی پارٹی کے اندر سو فیصد جمہوریت لائے گا اور ملک کی سیاست میں انقلاب برپا ہو جائے گا؟ کیا عمران خان اُن ''جمہوری'' رہنمائوں کو دیوار کے ساتھ لگا دے گا جو اپنی اپنی پارٹیوں میں حافظ الاسد' بشارالاسد اور حسنی مبارک بنے ہوئے ہیں؟ تازہ ترین خبر ملاحظہ کیجئے:
''عمران خان کو تیرہ سال کے عرصہ میں دو بار چیئرمین چننے کے بعد تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی کے عہدہ داروں کے ہر تین سال بعد انتخابات کئے جائیں۔ تحریک انصاف کا دستور چیئرمین کی مدت کا تعین نہیں کرتا۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف بھی ایک ایسی جماعت ہے جو ایک شخصیت کے اِردگرد گھومتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ عمران خان کے اردگرد گھومتی ہے۔''
نہیں ! ابھی نہیں ! ابھی صبح بہت دور ہے' ابھی وہ ستارہ طلوع ہی نہیں ہوا جو پَو پھٹنے سے پہلے ہر حال میں دکھائی دیتا ہے۔ امید کی پرورش کرنے والے بوڑھوں اور خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو بتا دو کہ حسرتوں کے قافلے اُس دریچے سے بہت دور ہیں جس کے طاق میں چراغ جل رہا ہے۔
عمران خان اسی طرح تحریک انصاف کا مالک ہے جس طرح بھٹو خاندان پیپلزپارٹی کا' شریف خاندان نون لیگ کا اور چودھری خاندان قاف لیگ کا مالک ہے۔ جس طرح اسفندیارولی اے این پی کی جاگیر کا وارث ہے اور جس طرح الطاف حسین پارٹی انتخابات سے بلند اور مبرا ہیں ! بوڑھے اور نوجوان انتظار کریں۔ ابھی کسی تھیچر ' کسی سرکوزی' کسی اوباما کی کوئی امید نہیں۔ ہاں ! انتظار کیلئے دروازہ تھوڑا سا کھول دیں اور بستر پر نہ لیٹیں اور آدھے کھلے ہوئے دروازے اور بستر کے درمیان والی جگہ پر کھڑے ہو کر انتظار کریں۔ شدت کا انتظار…؎
شام ہی سے دیکھتا ہوں اَدھ کھلے در کی طرف
آنکھ بھر کر دیکھ بھی لیتا ہوں بستر کی طرف
ایک ایسی قوم جو جمہوریت سے اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میل دور ہے اور جسے یہ فکر ہے نہ علم کہ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں نوجوان مسجدوں کی امامت کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے اور جسے یہ معلوم ہی نہیں کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں ''جدید ترین'' نصابی کتب تین سو سال پرانی ہیں اور جسے اس المیے کا ادراک نہیں کہ گراں ترین انگریزی سکولوں سے فارغ ہونے والے طلبا دینی احساس اور پاکستانیت دونوں سے عاری ہیں اور جسے یہ نہیں معلوم کہ عام سرکاری سکولوں' کالجوں میں ''تعلیم'' پانے والے ہزاروں لاکھوں طلبہ کا اس ملک کی تعمیر میں کوئی حقیقی حصہ نہ ہوگا اور جس قوم کو یہ نہیں پتہ کہ ریٹائرڈ جرنیلوں اور افسر شاہی کے ارکان سے دولت کا حساب کس طرح لیا جائے اور جس قوم کی گردن پر کوئی شخص بھی پیر تسمہ پا بن کر سوار ہو سکتا ہے اُس قوم کو یہ احساس ہی کیوں کر ہو سکتا ہے کہ وہ جمہوریت سے کوسوں دور ہے! کاش! یہ قوم ایک سروے ہی کرا لیتی کہ وہ کون سے سیاسی اور مذہبی رہنما ہیں جن سے خلقِ خدا شدید ''محبت'' کرتی ہے؟ ان سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کیلئے … جن سے خلقِ خدا ٹوٹ کر ''محبت'' کرتی ہے ۔ ن۔م راشد نے کیا خوبصورت فیصلہ کیا تھا…؎
اجل ان سے مل
کہ یہ سادہ دل
×××××××××××××
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب
نہ اہلِ کتاب
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل ان سے مت کر حجاب
اجل ان سے مل
بڑھو تم بھی آگے بڑھو ۔ اجل سے ملو
بڑھو … نو تونگر گدائو
نہ کشکولِ دریوزہ گردی چھپائو
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنسائو
بڑھو بندگانِ زمانہ! بڑھو بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں' منفی زیادہ ہیں انسان کم
!ہو ۔ ان پر نگاہِ کرم
Tuesday, April 07, 2009
…عقل اگر بازار سے مل سکتی
عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ …امریکی ریاست منی سوٹا میں ایک چھوٹا سا قصبہ راچسٹر ہے جہاں دنیا کا مشہور ترین ہسپتال میو کلینک ہے۔ ایک روایت کے مطابق دنیا کا پہلا بائی پاس (دل کا آپریشن) وہیں ہوا تھا۔ مشرقی اوسط کے ایک بادشاہ نے (سعودی نہیں) وہاں علاج کرانا تھا۔ راچسٹر کے ایک بڑے ہوٹل کی کئی منزلیں خرید لی گئیں' پھر ان میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ جہاں پناہ کے ''معیارِ زندگی'' سے مناسبت پیدا ہو۔ ان بہت سی تبدیلیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ کمروں کے کنڈے تالے' چابیاں' غسل خانوں کی ٹونٹیاں اور وہ چیزیں جن کو ہاتھ سے چھونا پڑتا ہے' خالص سونے کی لگائی گئیں۔ نائن الیون کے بعد حالات بدل گئے' ہوٹل والوں نے یہ چیزیں نیلام میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن امریکیوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس لئے کہ زندگی کو آرام دہ بنانے میں انکا کوئی کردار نہیں تھا۔
عقل اگر بازار میں مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ 27 سالہ سعودی خاتون کپتان ہنادی ذکریا ہندی نے ہوا بازی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پہلی سعودی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا شہزادہ الولید بن طلال بہت بڑا بزنس مین ہے۔ اسکی کمپنی کنگ ڈم ہولڈنگ کمپنی کے پاس جیٹ ہوائی جہازوں کا پُورا بیڑہ ہے۔ کمپنی نے ہنادی ذکریا سے دس سالہ معاہدہ کیا اور اسے اپنا پائلٹ بنا کر اسکی مزید تربیت شروع کر دی۔ کمپنی کی شامت اُس وقت آئی جب شہزادہ الولید نے اظہار مسرت کیلئے اخبار میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے سعودی خواتین کو ترقی کا ایک سنگ میل عبور کرنے پر مبارکباد پیش کی۔
عقل اگر بازار سے مل سکتی تو سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ ان اشتہارات سے آگ بھڑک اُٹھی۔ عورت اور وہ بھی مسلمان عورت ۔ اور ہوائی جہاز چلائے …! پارسائی کے اجارہ داروں نے ویب سائٹوں پر قیامت برپا کر دی۔ ان آوازوں میں نمایاں ترین آواز پروفیسر شیخ یوسف الاحمد کی تھی۔ آپ بہت بڑے ماہر فقہ ہیں اور ریاض کی اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ دلیل یہ تھی کہ عورت کا تنہا سفر کرنا جائز نہیں ہے اور محرم کا ساتھ ہونا لازم ہے اور جہاز اڑاتے وقت محرم ساتھ نہیں ہوگا اس لئے یہ سارا سلسلہ ہی غیر شرعی ہے اور اشتہارات بھی شریعت کے منافی ہیں!
یہ 1990ء کی بات ہے جب شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم نے فتویٰ دیا کہ عورتیں کار نہیں چلا سکتیں۔ اُسی سال 47 باغی عورتوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں آدھ گھنٹہ تک کاریں چلائیں۔ آدھ گھنٹہ اس لئے کہ انہیں زبردستی روک دیا گیا۔ ان خواتین کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا اور انکے اور انکے اہل خانہ کے ملک سے باہر سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ اب آپ ریاض کے مسائل کو وہیں چھوڑ دیں اور میرے ہمراہ لاہور چلیں یہ دسمبر کی بات ہے جب راجہ اصغر صاحب کے داماد نے شکاگو سے فون کیا۔ بچے کی ولادت قریب ہے۔ داماد کی امی نے آنا تھا لیکن وہ سخت بیمار ہو گئیں۔ اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ اور آنٹی فوراً پہنچیں۔ راجہ اصغر بیگم کو لیکر امریکی سفارت خانے آئے۔ بیگم کو تین دن میں ویزہ مل گیا لیکن راجہ اصغر صاحب کے نام کے اردگرد امریکی کمپیوٹر نے دائرہ لگا دیا۔ یہ نام کچھ ایسے ناموں کیساتھ خلط ملط ہو رہا تھا جو مشکوک ہیں جب تک معاملات واضح نہیں ہوتے راجہ اصغر صاحب کو ویزہ نہیں ملے گا۔ واقفِ حال لوگوں نے بتایا کہ اس میں ایک ماہ بھی لگ سکتا ہے اور چار ماہ بھی! اب راجہ صاحب کی بیگم کیا کریں؟ محرم کو ویزہ نہیں مل رہا۔ بیٹی کے ہاں شکاگو میں ولادت ہونیوالی ہے' اُسکے پاس کوئی بھی نہیں۔ کیا کیا جائے؟ اگر بغیر محرم کے سفر کریں گی تو شیخ یوسف الاحمد فتویٰ جاری کر دینگے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے!
راجہ اصغر صاحب کی بیگم شکاگو جا سکیں یا نہیں؟ اس مسئلے کو یہیں چھوڑئیے اور ذرا زحمت کر کے میرے ہمراہ سڈنی چلئے۔ نسیمہ اپنے شوہر کیساتھ سڈنی میں رہ رہی ہے۔ نسیمہ کے والدین ڈھاکہ میں ہیں۔ ڈھاکہ سے فون آتا ہے نسیمہ کے والد ہسپتال میں داخل ہیں۔ بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ ہوش آتا ہے تو ایک ہی سوال کرتے ہیں ''نسیمہ کہاں ہے؟ کہ میرے پاس وقت کم ہے۔'' نسیمہ رو رہی ہے۔ بچپن سے لیکر اب تک کے واقعات اُسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ اُسکے والد نے مزدوری کی۔ صحت کو قربان کر دیا لیکن بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور نسیمہ کی اس طرح پرورش اور تربیت کی کہ اُسے اپنے والد سے زیادہ عظیم شخصیت دنیا میں کوئی نہیں دکھائی دیتی۔
وہ شوہر کو کہتی ہے کہ خدا کیلئے میرے ڈھاکہ جانے کا انتظام کرو۔ شوہر فوراً کمپنی کے جی ایم سے بات کرتا ہے۔ جی ایم معذرت کرتا ہے۔ قانون چھٹی کی اجازت نہیں دیتا۔ نوکری شروع کئے چند ہفتے ہوئے ہیں کمپنی کے پاس اس کا نعم البدل بھی ان دنوں نہیں ہے۔ آپکا کیا خیال ہے؟ نسیمہ کو کیا کرنا چاہئے؟ شیخ یوسف الاحمد کیا مشورہ دیتے ہیں؟ کیا وہ بغیر محرم کے سفر کرے؟ تاکہ سڈنی سے ڈھاکہ پہنچ سکے اور مرتے ہوئے باپ کے سینے سے لگ کر دل گیر حسرتوں کی آگ پر پانی کے چھینٹے مارے اور جنت کے دریچوں کو کھلتا ہوا دیکھے جن سے اُس کا اکل حلال کھانے اور کھلانے والا باپ گزرنے والا ہے' یا بغیر محرم کے سفر نہ کرے' سڈنی ہی میں رہے' روئے' غش کھائے…؎
اسیرو! کچھ نہ ہوگا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے
اور زندگی کے آخری لمحے تک باپ کا چہرہ نہ دیکھنے کا ماتم کرتی رہے ! جب کہا گیا تھا کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے تو یہ وہ زمانہ تھا جب سفر اونٹوں اور گھوڑوں پر ہوتا تھا۔ قافلے لٹتے تھے' راستے میں کھانا پینا' سامان کی حفاظت' اپنا دفاع اور ضروری امور نمٹانے کیلئے محرم کا ساتھ ہونا ضروری تھا لیکن کیا آج سفر کے حالات وہی ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ باپ بیٹی کو لینے کیلئے کراچی سے لاس اینجلس جائے؟ شوہر ملازمت کو خیرباد کہہ کر بیوی کو سڈنی سے ڈھاکہ لائے پھر وہاں انتظار کرے اور اسے واپس لیکر جائے؟ امام ابوحنیفہ نے بغداد میں جو تحقیقی مرکز قائم کیا تھا وہاں انکے ہونہار شاگرد اور اس وقت کے جید علما اس کام پر مامور تھے کہ ہزاروں لاکھوں فرضی مسائل جو مستقبل میں پیش آ سکتے ہیں … سامنے رکھ کر غور کریں' تحقیق کریں' بحث کریں' قرآن و سنت' صحابہ کے اعمال و اقوال اور اہل علم کی آرا سب پر غور کریں اور اجتہاد کریں کہ کون سی صورتحال میں کیا کرنا ہوگا۔ آج حج کے دوران شیطان کو کنکر مارنے کیلئے وہاں کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے اس لئے کہ ایک لاکھ مسلمان جب خدا کے رسولؐ کے ہمراہ آخری حج میں شریک تھے تو صورتحال مختلف تھی اور آج چالیس لاکھ مسلمان ایک مختل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں معلوم ۔ آپ خود کوشش کر کے معلوم کر لیجئے لیکن میں تو یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جب تک اجتہاد نہیں ہوگا اور علماء کرام اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرینگے۔ سوات میں غیر محرم کیساتھ گھر سے نکلنے والی لڑکی کو کوڑے لگتے رہیں گے لیکن جن عورتوں کو بلوچستان میں زندہ دفن کیا گیا اُنکے مجرموں کو کیا سزا دی گئی؟ انہیں زندہ دفن کرنے کا دفاع کرنیوالے کو تو مرکزی کابینہ میں وزیر کا عہدہ دیا گیا اور جس شخص نے 'جرگے' کی صدارت کر کے کم سن بچیوں کو تاوان میں دینے کا حکم دیا وہ بھی وزیر بنایا گیا۔ سوات میں بچی کو کوڑے مارنا یقیناً ظلم ہے۔ ہم اسکی مذمت کرتے ہیں لیکن فیوڈل بن کر ظلم کیا جائے تو کیا وہ ظلم۔ ظلم نہیں رہتا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ عقل بازار میں دست یاب نہیں !!
Thursday, April 02, 2009
جمہوریت … نسل در نسل
''میرے مرنے کے بعد سوائے میری لڑکی کے کوئی جانشینی کے قابل نہیں۔''
جمہوریت کا یہ پہلا بیج میری تاریخ میں سلطان شمس الدین التمش نے بویا تھا۔ شمس الدین التمش تو دل و جان سے چاہتا تھا کہ جمہوری روایات کے عین مطابق اہل ترین فرد تخت پر بیٹھے خواہ وہ شاہی خاندان سے نہ ہو … خواہ وہ خاکروب ہی کیوں نہ ہو … لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ رضیہ سلطانہ کے علاوہ اور کسی میں اہلیت تھی ہی نہیں۔ چنانچہ عین جمہوری طریقے کے مطابق باپ کے بعد بیٹی نے تاج پہنا۔
پھر علائوالدین خلجی نے جب اپنے محسن جلال الدین خلجی کو قتل کیا تو جمہوریت کا ایک اور بیج بویا گیا۔ خود علائوالدین تخت نشین ہوا۔ پھر غیاث الدین تغلق بادشاہ بنا۔ بنگال کی بغاوت فروکر کے دارالحکومت واپس آیا تو اس کے فرزند جوناخان نے استقبال کیلئے لکڑی کا محل بنوایا۔ ''اتفاق'' دیکھئے کہ چھت گر گئی اور حضرتِ والا دب کر مر گئے۔ جمہوریت پھر بروئے کار آئی اور جونا خان نے محمد تغلق کے نام سے قوم کیلئے قربانی دینے کا عزم کیا۔ رخصت ہوا تو اپنے چچا زاد فیروز تغلق کو جمہوری طریقے سے جانشین بنوا گیا۔
پھر بہلول لودھی آیا۔ لودھی خاندان کا ارادہ بالکل نہیں تھا کہ سلطنت کو اپنے خاندان تک محدود کر دے لیکن دو مسئلے پھر آڑے آئے۔ ایک تو لودھی خاندان سے باہر کوئی شخص ان صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا جو حکومت کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لودھی خاندان نے جمہوریت کیلئے قربانیاں بہت دی تھیں چنانچہ بہلول لودھی کے بعد مجبوراً سکندر لودھی کو اور اس کے بعد ابراہیم لودھی کو یہ بھاری بوجھ اٹھانا پڑا؎
زار رونا چشم کا کب دیکھئے
دیکھے ہیں لیکن خدا جو بھی دکھائے
جمہوریت کی گاڑی اچھی بھلی برصغیر میں پٹڑی پر چل رہی تھی کہ ایک نئی افتاد آن پڑی۔ ظہیر الدین بابر جمہوریت کا لودھی خاندان سے بھی بڑا دلدادہ تھا۔ وہ سچی جمہوریت کی تلاش میں فرغانہ سے نکلا اور قربانی پر قربانی دیتا کابل پہنچا۔ وہاں اُس نے جمہوریت کو اپنے قبضے میں لیا اور دس سال تک اسے مانجھتا رہا' صیقل کرتا رہا جب چمک گئی تو اس نے اسے برصغیر میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ 1526ء میں پانی پت کے میدان میں دونوں خاندانوں کی قربانیوں کا جائزہ لیا گیا۔ بابر کا پلہ بھاری نکلا چنانچہ مسلمانانِ برصغیر کی جمہوریت کی قیادت اُس نے سنبھال لی۔
جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتارنے کی نئی سازش اُس وقت سامنے آئی جب پھر دو خاندان آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔ لاڑکانہ اور رائے ونڈ نہیں' معاف کیجئے گا' سہسرام کا شیرشاہ سوری اور آگرہ کا ہمایوں۔ دونوں نے جمہوریت کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہوئی تھیں کسی کے محلات دبئی میں تھے اور کسی کے جدہ میں۔ کسی کے سنٹرل لندن میں اور کسی کے لندن کے نواح میں۔ مقابلہ سخت تھا۔ شیرشاہ سوری فاتحِ جمہوریت قرار پایا۔ اس کے بعد سکندر سُوری جمہوریت کا وارث ہوا۔ اتنے میں ہمایوں ایران سے لشکر لے کر آیا۔ دس سال تک سگے بھائیوں سے لڑائیاں لڑیں۔ فائدہ یہ تھا کہ جمہوریت خاندان کے اندر ہی رہی' ایک بار پھر مغل' جمہوریت کو سُوریوں سے واپس لینے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر یوں ہوا کہ جمہوریت دامادوں کے نرغے میں آ گئی جہانگیر کا ایک بیٹا شہریار نورجہاں کا داماد تھا۔ دوسرا بیٹا خرم نورجہاں کے بھائی آصف خان کا داماد تھا۔ جہانگیر کو جب شاہدرہ میں دفن کیا جا رہا تھا تو نورجہاں نے اپنے داماد شہر یار کو آگرہ سے لاہور طلب کیا اور بادشاہ بنا دیا۔ خرم اس وقت دکن میں تھا۔ اُس کے سسر نے بھی اسے طلب کیا۔ دیکھئے' دونوں ایک ہی خاندان کے تھے لیکن جمہوریت ایک خاندان کے اندر رہ کر بھی محفوظ نہ تھی اور دونوں اسے اپنی اپنی جیب میں ڈال کر محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ بالآخر خرم جیت گیا اور بادشاہ بن کر شاہ جہان ہوا۔ شہریار کو جمہوریت کی خاطر آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اندھا کر دیا گیا۔ لیکن جمہوریت کی جو خدمت خاطر شاہ جہان کے بیٹوں نے کی اس کی برصغیر کی پوری تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ دارالشکوہ' مراد' شجاع' اور اورنگ زیب نے ایک دوسرے کے گریبان پھاڑے اور بالآخر گلے کاٹ دئیے۔ جمہوریت کی دیوی کی ہر بھائی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ چار بھائی کا مطلب ہوا چار خاندان … ہر خاندان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے جمہوریت کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ اس دعوے پر غور کیجئے کیونکہ بالآخر یہی دعویٰ پاکستان میں بھی بنیادی کردار ادا کرے گا۔ یعنی کس خاندان نے جمہوریت کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں! اورنگ زیب کے ایک بیٹے کو بھی جمہوریت سے عشق ہو گیا تھا۔ وہ باپ کے مرنے کی دعائیں کیا کرتا تھا۔ اورنگ زیب کو معلوم ہوا تو اُسے خط لکھا۔ اقبال نے پیام مشرق میں اس خط کو فارسی میں نظم کیا ہے۔ اورنگ زیب نے لکھا کہ تم جس سے میرے مرنے کی دعا مانگ رہے ہوں اُس نے بہت سے دردناک نالے سنے ہیں لیکن اس نے یعقوب علیہ السلام کی دعا قبول کی نہ ایوب علیہ السلام کی ؎
پندار آن کُہنہ نخچیر گیر
بدامِ دُعائی تو گردد اسیر
تُو یہ نہ سمجھنا کہ وہ تیری دعا کے دام میں آ جائے گا!
پاکستان بننے تک یہ اصول طے ہو چکا تھا کہ اصل جمہوریت وہی ہے جو خاندان کے اندر رہے بلکہ پاکستان بننے کے بعد اس تصور نے مزید جلا پائی اور خاندان کے بجائے جمہوریت فرد کے اندر رہنے لگی۔ ایوب خان نے جمہوریت دوستی میں خلجیوں' تغلقوں' لودھیوں' سُوریوں' مغلوں غرض سب کو تاریخ کی گواہی میں عبرت ناک شکست دی اور گیارہ سال تک جمہوریت کو اپنے خاندان کے اندر تو خیر رکھا ہی اپنی ذات سے بھی باہر نہ جانے دیا۔ یہی حال ضیاء الحق کا تھا۔ گیارہ سال جمہوریت کی ذاتی طور پر خدمت کی۔ پھر ایک اور جرنیل آیا اور اُس نے جمہوریت کو آٹھ سال تک مشرف کیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد خاندانوں نے پارٹیوں کی شکل اختیار کر لی۔ ہر پارٹی پر ایک ایک خاندان نے قبضہ کر لیا ا ور پھر خاندانوں کی قربانیوں کے وہی باہمی مقابلے ! جو ہماری ہزار سالہ تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی بنائی بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے تاریخی فقرہ کہا کہ بھٹو پیدا ہی حکومت کرنے کیلئے ہوئے ہیں۔ بھٹو صاحب کے بعد پارٹی کی جمہوریت اُن کی صاحبزادی کے حصے میں آئی۔ وہ شہید ہوئیں تو اُن کے شوہر نے پرچم پکڑا۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں نوجوان بلاول نے جو بیان دیا اس سے واضح ہو گیا کہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر درست انداز میں چل رہی ہے اور سلطان شمس الدین التمش نے جو سنہری اصول جمہوریت کا طے کیا تھا ۔ (میرے مرنے کے بعد سوائے میری لڑکی کے کوئی جانشینی کے قابل نہیں۔) ہم بال برابر بھی اُس سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ اُس کے خاندان نے جمہوریت کیلئے ان گنت قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اُس کا ساتھ دوں گا جو میرے والد کا ساتھ دے گا۔'' انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط تر کرنے کیلئے کام کرتے رہیں گے۔
دوسرے خاندان بھی جمہوریت کیلئے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی اپنے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی کو جمہوریت کیلئے تیار کر رہے ہیں جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے اُن کے سگے بھائی سے زیادہ اہل کوئی نہیں تھا۔ وہ جیل میں گئے تو پارٹی کی زمام بیگم صاحبہ نے ہاتھ میں لی۔ دیکھئے مستقبل میں نون لیگ کی قیادت خاندان کے اندر ہی رہتی ہے یا جاوید ہاشمی' چودھری نثار علی' احسن اقبال' راجہ ظفرالحق یا کوئی اور اس قیادت کا مستحق ثابت ہوتا ہے۔ اے این پی سے لے کر پیپلزپارٹی تک اور نون لیگ سے لے کر قاف لیگ تک اور جے یو آئی سے بگتی کی جمہوری وطن پارٹی تک … ہر جگہ جمہوریت پھل پھول رہی ہے اور خاندانوں کے اندر اس طرح محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں کے اندر زبان۔
لیکن ہماری اس تابناک تاریخ پر درمیان میں ایک داغ لگ گیا اور یہ داغ ہمارے جمہوری دامن پر بابائے قوم حضرت قائداعظم نے لگا دیا۔ افسوس! انہوں نے اُس اصول کی خلاف ورزی کی جو سلطان التمش نے ہمیں دیا تھا اور جس پر ہم آج تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ قائداعظم نے ستم یہ کیا کہ جمہوریت کا پرچم اپنی بیٹی کے ہاتھ میں دیا نہ اپنی بہن کے ہاتھ میں۔ انہوں نے بی بی کو پارٹی کا کوئی عہدہ دیا نہ حکومت کا … یہی سلوک انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح سے کیا۔ کاش! قائداعظم بھی جمہوریت کو اپنے خاندان کے اندر ہی رکھتے! ہمارا ہزار سالہ ریکارڈ تو خراب نہ ہوتا!!