Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 28, 2009

کسی مرد کو بلاؤ


اس حال میں بھی میرزا صاحب نے خاندانی وقار کا سودا نہیں کیا۔ پھٹی ہوئی قمیض‘ مفلر اور جرابیں سوراخوں سے اٹی ہوئی‘ لیکن ہمیشہ شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہوتے۔ مسکرا کر سلام کا جواب دیتے اور بیٹھک میں اگرچہ صرف تین چار پرانی وضع کی کرسیاں تھیں لیکن جو بھی آتا‘ چائے کی پیالی پئے بغیر جانے نہ دیتے۔



تنگدستی روایتی شیروانی ہی کے نیچے نہ تھی‘ گھر میں بھی یہی حال تھا۔ کھانے میں اکثر دال اور چٹنی ہوتی‘ کبھی وہ بھی نہ ہوتی۔ کئی بار بجلی کا کنکشن بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے کٹ گیا اور میرزا صاحب اور ان کے اہل خانہ اندھیرے میں راتیں گزارتے رہے لیکن کبھی کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ اپنی اُس خاندانی روایت کو نبھاتے چلے جا رہے تھے کہ مہمان کھانا کھانے لگے تو کسی نہ کسی بہانے چراغ بجھا دو تاکہ اسے معلوم نہ ہو گھر والے صرف منہ ہلا رہے ہیں۔ زرعی زمین کا آخری ٹکڑا انہوں نے بیٹی کی شادی پر فروخت کر دیا۔ کسی سے کبھی قرض مانگا نہ اپنی حالتِ زار سے پردہ اٹھایا۔ وہ اس خاندان سے تھے جس کے بڑے میر اور میرزا کہلواتے تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے اور نوبت بجتی تھی‘ خادماؤں اور ملازموں کے پورے پورے دستے حویلی کے طول و غرض میں پھیلے ہوئے ہوتے۔ یہ لوگ وادی فرغانہ کے شہر نمنگان سے چلے اور پٹنہ پہنچے۔ بہادری کے جوہر دکھائے‘ بادشاہوں سے خلعتیں اور جاگیریں پائیں۔ نجابت اس قدر کہ مقروض کو آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے کہ وہ شرمندہ نہ ہو‘ دستر خوان پر درجنوں کیا بیسیوں مہمان ہوتے اور جو رخصت ہوتا‘ تحفہ بھی لے کر جاتا۔ میرزا صاحب اس گئی گزری خاندانی شان و شوکت کو غربت میں برقرار رکھے ہوئے تھے …؎


بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں! کل جوش سے مل کر


ابھی  اگلی  شرافت  کے   نمونے   پائے  جاتے  ہیں


افسوس! صد افسوس! ہیہات! آج پاکستان کی حالت بھی میرزا صاحب جیسی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کرہ ارض پر سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ کراچی سے لے کر چٹاگانگ تک پھیلا ہوا یہ ملک جنت کا قطعہ تھا۔ اس میں مسجدوں کا شہر ڈھاکہ تھا۔‘ سلہٹ تھا جہاں بابا جلال کا مزار تھا۔ برما کی سرحد پر کاکسس  بازار تھا جہاں عورتیں شہزادیوں سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ کراچی امن کا گہوارہ تھا رات کے دو بجے چائے خانے اور کباب گھر کھلے ہوتے۔ کیا مجال کہ سوئی بھی کسی کی گم ہو جائے یا راہ چلتے کسی کو دھکا لگ جائے! اور پشاور ۔؟ پشاور کی کیا بات تھی۔ حُسن اور روایت کا ایسا امتزاج کہ وسط ایشیا اور خراسان بیک وقت اس میں سمائے ہوئے ہوتے۔ پشاور کے گلی کوچوں میں امن اور عافیت راہ چلتے ہوؤں کی بلائیں لیتی تھی۔ کھانے پینے کی افراط تھی۔ گندم تھی کہ چینی‘ پٹرول تھا کہ ڈیزل‘ کسی شے کی کمی نہ تھی۔ چہار دانگِ عام میں عزت تھی۔ پاکستان کے سرکاری ملازم نیلے رنگ کا سرکاری پاسپورٹ دکھاتے تو دنیا کے تین چوتھائی ممالک ویزے کے بغیر خوش آمدید کہتے لیکن آج ۔۔ میرزا صاحب کے جسم پر صرف شیروانی ہے جس میں سوراخ نہیں۔ امن و امان کا یہ عالم ہے کہ موت دروازوں پر دستک دے رہی ہے اور لاشوں کی گنتی ممکن ہی نہیں‘ جو گھر سے نکلتا ہے گھر والوں کو گلے مل کر اور وصیت لکھوا کر نکلتا ہے۔


لوگ فاقے کر رہے ہیں۔ پٹرول‘ ڈیزل‘ سی این جی زندگی سے زیادہ مہنگے ہو گئے ہیں‘ چینی غیرت کی طرح نایاب ہو گئی ہے اور آٹا حمیت کی طرح غائب ہے۔ شرفا دو وقت کی روٹی مشکل سے جوڑتے ہیں اور کونوں کھدروں میں منہ چھپائے دنیا سے اٹھ جانے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف سیاست دان‘ ریٹائرڈ جرنیل ‘ بیورو کریٹ‘ جاگیردار‘ سردار اور بڑی بڑی توندوں والے نام نہاد ’’عالم‘‘ ریشم و کمخواب میں لپٹے ہیں‘ محلات میں رہتے ہیں اور ان کے پالتو جانور‘ انسانوں سے بہتر خوراک کھاتے ہیں!


’’عزت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی روپیہ چیتھڑوں سے بھی ارزاں تر ہیں گذشتہ تین چار سالوں میں بے شمار ملکوں نے نیلے رنگ کے سرکاری پاسپورٹ کیلئے ویزا لازمی قرار دے دیا ہے۔ ہمارے جگر کے ٹکڑے اونٹوں کی دوڑ میں گوشت کی بوٹیوں کی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔ جن قیمتی پرندوں کا شکار پاکستانیوں کے لئے منع ہے۔ انہیں پکڑنے کیلئے مشرق وسطیٰ کے بادشاہ اور شہزادے اس طرح آتے ہیں جیسے یہ ملک ان کی جاگیر ہو۔ دو دن گزرے ایک معتبر اخبار نے خبر دی ہے کہ اپنی پسند کی شکار گاہ نہ میسر آنے پر گذشتہ سال ایک ’’برادر اسلامی‘‘ ملک نے ہماری یہ التماس قبول کرنے سے معذرت کی کہ تیل ادھار دیا جائے! ہم اتنے ’’غیرتمند‘‘ ہو چکے ہیں کہ پچھلی حکومت نے اسلام آباد کی قیمتی زمین سے چار (یا شاید آٹھ) کنال کا پلاٹ ایک دوست ملک کے سفیر کو بن مانگے پیش کیا۔ وہ تو اس سفیر کی شائستگی اور اصول پسندی تھی کہ اس نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا! کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوا ہے؟


بڑے بڑے قرضے ہڑپ کرنے والے‘ زنخوں کی طرح چھپ رہے ہیں۔ ایسے میں شور مچا کہ کسی مرد کو بلاؤ‘ آخری چارہ کار کے طور پر خواجہ سراؤں کی انجمن کی صدر الماس بوبی مرد بن کر نکلی ہے۔ اس نے ٹیلی ویژن پر آ کر ملک کی دولت لوٹنے والے مگر مچھوں کو غیرت کا طعنہ دیا ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا … ع


غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں


لیکن موجود ہی نہ ہو تو پھر۔؟

Tuesday, December 22, 2009

بیلٹ


’’یوسف رضا گیلانی نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور مجھے بیلٹ باندھنے کا حکم دے دیا۔ میں نے ہنس کر بیلٹ باندھی اور ساتھ ہی عرض کیا ’’آپ بھی اپنی بیلٹ پر نظر رکھیں‘‘ ۔ انہوں نے اپنی بیلٹ کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا اور ہنس کر بولے ’’ فکر نہ کریں۔ میں سیّد ہوں اور سید ہمیشہ اپنی بیلٹ کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔



یہ اقتباس ایک معروف کالم نگار (اور محترم دوست) کی تحریر سے ہے جو وزیراعظم کے ساتھ ہوائی جہاز میں تھے۔ جناب یوسف رضا گیلانی کا یہ فقرہ کہ … میں سید ہوں اور سید ہمیشہ اپنی بیلٹ کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ پرسوں سے رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔ میں نے جس وقت سے وزیراعظم کا وضع کردہ قاعدہ کلیّہ سنا ہے کہ ’’گرفتار کرنے والا گرفتار کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ اور جس وقت سے جناب بابر اعوان کو وزیراعظم کی یہ تلقین سنی ہے کہ …ع


’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘


اس وقت سے وزیراعظم کا یہ فقرہ جو انہوں نے جہاز میں اپنی بیلٹ کے بارے میں کہا تھا، سر پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہے۔ کیا قانون کے بارے میں اور احتساب کے بارے میں جناب وزیراعظم کا رویہ اتنا سرسری ہے؟ ۔


لیکن قانون اور احتساب کے بارے میں امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ، کا رویہ اس قدر سنجیدہ تھا کہ جب وہ مشکلات میں گھرے ہوئے تھے اور زندگی ان کے لئے کٹھن ہو چکی تھی، اس وقت بھی وہ اصولوں سے بال برابر انحراف کرنے کے لئے تیار نہ تھے!۔


یہ وہ زمانہ تھا جب مصر بھی آپ کی حدودِ خلافت سے باہر ہو چکا تھا۔ جو علاقے آپ کی امارت میں تھے، ان میں بھی امن اور سکون نہیں تھا۔ حالات غیر یقینی صورتحال اختیار کر چکے تھے جب حالات اتنے نازک ہوں تو حکمران اصولوں کی پرواہ کہاں کرتے ہیں ! ان کی تو کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ حمایتی اکٹھے کریں اور دام و درم سے وفاداریاں خریدنے کی کوشش کریں، لیکن خلیفۂ راشد اور عام حکمران میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا آسمان اور زمین میں ہوتا ہے۔ آپ کے مقرر کردہ بصرہ کے گورنر حضرت عبداللہ بن عباس نے جو آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے، بصرہ کے بیت المال سے اپنی ذات کے لئے کچھ رقم لی جس کی واپسی میں غیرمعمولی تاخیر ہوگئی، بیت المال کے افسر اعلیٰ ابو الاسود ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور مسلسل رقم کی واپسی کا تقاضا کر ہے تھے (غور کیجئے، صوبے کا افسرِ خزانہ، صوبے کے گورنر کا ماتحت نہیں بلکہ براہ راست خلیفہ کو جواب دہ ہے۔ مالیات اور انتظامیہ کی یہ تقسیم حضرت عمر فاروق نے کی تھی اور حضرت علیؓ نے اسے جاری رکھا۔ جب ابنِ عباسؓ نے رقم واپس نہ کی تو ابو الاسود نے امیر المومنین کو مراسلہ لکھا۔


امّابعد۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیانت دار ولی بنایا ہے۔ ہم نے آپ کی آزمائش کی اور آپ کو زبردست امین اور رعایا کا خیرخواہ پایا۔ رعایا کو آپ بہت کچھ دیتے ہیں اور خود ان کی دنیا سے اپنا ہاتھ روکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نہ ان کا مال کھاتے ہیں اور نہ ان کے معاملات میں رشوت سے آپ کا کوئی تعلق! آپ کے بھائی اور آپ کے گورنر آپ کے علم اور اطلاع کے بغیر وہ رقم کھا گئے جو ان کے ہاتھ میں تھی میں یہ بات آپ سے مخفی نہیں رکھ سکتا۔ خدا کا فضل آپ کے شامل حال رہے۔ ادھر توجہ فرمائیے اور مجھے اپنی رائے لکھیے۔ والسّلام !۔


آپ کا کیا خیال ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ، کو کیا کرنا چاہئے تھا؟ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک ایک فرد حضرت علی کرم اللہ وجہ، کے لئے قیمتی تھا تو پھر کیا آپ چشم پوشی کرتے؟ کیا آپ یہ فکر کرتے کہ کہیں باز پرس سے چچا زاد بھائی آزردہ خاطر نہ ہوجائے اور حمایت کرنا چھوڑ نہ دے؟ تو کیا آپ معاملے کو التواء میں ڈال دیں گے؟ کہ جب امن ہو گا اور حالات قرار پکڑیں گے تو افسر خزانہ کے سرکاری مکتوب پر غور کیا جائے گا؟۔


نہیں! جو امین ہو اور سچا ہو اور جو صرف زبانی دعوے کرنے والا نہ ہو اور جو آخرت کی باز پرس سے ڈرتا ہو وہ چشم پوشی نہیں کرتا، سرکاری خزانہ کسی کی جاگیر نہیں، نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے! امیر المومنین نے امیر خزانہ ابوا لاسود کو جواب لکھا… ’’امّا بعد! میں نے تمہارے خط کامطلب سمجھا۔ تمھارے جیساآدمی امت اور امام دونوں کے لئے خیر خواہ ہے، تم نے حق کی حمایت کی اور ناحق سے روگردانی کی! میں نے تمہارے صاحب کو اس بارے میں لکھا ہے اور تمہارے خط کا تذکرہ نہیں کیا، تمہاری موجودگی میں ایسی باتیں ہوں جن پر غور کرنے میں امت کی فلاح ہو تو مجھے ضرور مطلع کرنا۔ تمہیں یہی کرنا چاہئے اور یہی تمہارا فرض ہے! والسّلام


آپ نے اسی وقت بصرہ کے گورنر کو لکھا…‘‘ اماّ بعد! مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کا پتہ چلا ہے اگر وہ سچ ہے تو تم نے اپنے رب کو خفا کیا۔ اپنی امانت برباد کی اور اپنے امام کی نافرمانی کی اور مسلمانوں کے خائن بنے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے زمین کو بنجر کر دیا اور جو رقم تمہارے قبضے میں تھی وہ کھا گئے۔ پس میرے سامنے حساب پیش کرو اور جان لو کہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت ہے۔ والسّلام‘‘۔


سیاسی اور عسکری کشمکش عروج پر ہے۔ حمایتیوں کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن حضرت علیؓ کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ رب کی نافرمانی نہ کی جائے، امانت برباد نہ کی جائے اور مسلمانوں کے مال میں خیانت سے بچا جائے! لیکن ابنِ عباس نے جواب میں صرف یہ لکھا… امّا بعد! آپ کو جو اطلاع ملی وہ غلط ہے۔ اور میں اپنے زیر تصرف رقم کا اوروں سے زیادہ منتظم اور محافظ ہوں۔ خدا آپ پر مہربان ہو۔ آپ بدگمانوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ والسّلام!۔


ایسا گول مول جواب امیر المومنین کو کس طرح مطمئن کر سکتاتھا! آپ نے جواب میں لکھا… اما بعد۔ میں تم سے اس وقت تک درگزر نہیں کر سکتا جب تک تم مجھ کو یہ نہ بتا دو کہ تم نے جزیہ کی کتنی رقم کہاں سے لی اور کس مد میں اس کو خرچ کیا۔ اگر تم کو امانت سونپی گئی ہے تو اللہ سے ڈرو۔ میں نے تم سے اس کی حفاظت چاہی تھی یہ دولت جس کا بڑا حصہ تم نے سمیٹ لیا ہے حقیر ہے لیکن اس کی ذمہ داری بڑی سخت ہے! والسّلام۔


حضرت ابنِ عباس نے رقم واپس نہ کی اور مکہ مکرمہ چلے گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے انہیں پھر لکھا
… ’’امّابعد میں نے تم کو اپنی امانت میں شریک بنایا تھا۔ میرے گھر والوں میں تم سے زیادہ بھروسہ کے لائق کوئی آدمی نہ تھا جو میری ہمدردی کرتا۔ میری تائید کرتا اور امانت مجھے واپس کرتا لیکن تم نے دیکھا کہ اب بھائی کے وہ دن نہیں رہے۔ دشمن حملہ آور ہے۔ لوگوں کی دیانت خراب اور امت فتنوں سے دوچار ہو چکی ہے تو تم نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ چھوڑنے والوں کے ساتھ تم نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور بری طرح اس کو بے یارومددگار کر دیا۔ غداروں کے ساتھ تم نے بھی مجھ سے بے وفائی کی۔ نہ ہمدردی کی نہ امانت واپس کی گویا جہاد میں تمہارے پیش نظر اللہ نہ تھا! تم کو اپنے خدا کی طرف سے کوئی رہنمائی نہ تھی یا پھر تم محمدﷺ کی امت کے ساتھ ان کی دنیا حاصل کرنے کے لئے چل چل رہے تھے گویا تم جنت کے مال سے لوگوں کی غفلت کے منتظر تھے اور جیسے ہی موقع ملا دوڑ پڑے۔ جست لگائی اور جس قدر دولت لے سکے، ایک لاغر بکری کو خون خون کر دینے والے تیز بھیڑیے کی طرح جھپٹ لیا۔ سبحان اللہ ! کیا قیامت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ اور کیا بعد میں بری طرح حساب نہیں ہوگا؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ ناجائز کھاتے ہو اور ناجائز پیتے ہو۔ اللہ سے ڈرو۔ قوم کا مال واپس کردو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو بخدا اگر مجھے موقع ملا تو میں تمہارا انصاف کروں گا اور حق حقدار تک پہنچاؤں گی ظالم کو ماروں گا اور مظلوم کا انصاف کروں گا۔ والسّلام۔


امیر المومنین نے ابن عباسؓ کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانے کے لئے کوئی جرگہ بھیجا نہ کوئی سیاست کھیلی! وہ اپنے مؤقف سے سرِ مْو نہ ہٹے۔ انہیں اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں تھی کہ ان کے طرف دار کم ہو جائیں گے۔ فکر تھی تو حشر کے دن کی اور اسی دن سے وہ اپنے چچا زاد بھائی کو ڈرا رہے تھے۔ وہ ہر حال میں قوم کا مال خزانے میں واپس لانا چاہتے تھے اور پھر برملا اعلان فرما رہے تھے کہ جب بھی موقع ملا وہ انصاف کریں گے۔


یہ تھا قانون اور احتساب کے بارے میں ایک ایسے حکمران کا رویہ جو مسلمانوں کے لئے سراپا اخلاص تھے لیکن یہ رویہ اس حکمران کا ہو سکتا ہے جو عید کے دن سوکھی روٹی کھا رہا ہو، جس کے لباس پر، پیوند ہوں اور جس کا دامن اقربا پروری اور لالچ سے پاک ہو۔


وہ جو قوم کے خون پسینے کی کمائی کو اپنا مال سمجھیں وہ قانون اور احتساب کے بارے میں ایسا رویہ کہاں رکھ سکتے ہیں! تعجب ہے کہ لوگ پھر بھی ان کے ساتھ تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں جو قوم کی ایک ایک پائی کے لئے خود کو جواب دہ سمجھتے تھے۔ اللہ کے سامنے جواب دہ اور لوگوں کے سامنے بھی جواب دہ!۔

Saturday, December 19, 2009

عزیزن


بیس سالہ عزیزن کو کوئی جا کر بتائے کہ ابھی ہم زیادہ اہم مسائل میں اْلجھے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس کا مسئلہ سنگین ہے۔ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا، پتھر بھی سنے تو پگھل جائے۔ فرشتوں کا بس چلے تو آسمان سے چٹانیں برسائیں لیکن انہیں حکم نہیں دیا جا رہا۔ حکم دینے والا رسی کو ڈھیل دے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ عزیزن کا مسئلہ سنگین ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کہیں اور پھنسے ہوئے ہیں۔



ہم فی الحال عالم اسلام کی قیادت میں مصروف ہیں۔ چیچنیا ہو یا عراق، افغانستان ہو یا فلسطین، سب ہمارے مسئلے ہیں۔ ہم نے ان سارے ملکوں کے مجاہدوں کو اپنے ہاں پناہ دینی ہے۔ ہمارے مدرسوں میں پوری دنیا کے طالبان علم نے آ کر پڑھنا ہے۔ سعودی عرب اور مصر کی ہمارے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ عالم اسلام کی زمام تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم فیصلہ کرینگے کہ جہاد کہاں ہونا ہے اور کہاں نہیں ہونا اور یہ اہم تر مسائل ہمیں اس قدر الجھا رہے ہیں کہ ہم ابھی عزیزن کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔


عزیزن اگر اس خوش فہمی میں ہے کہ اس ملک کے علماء کرام اسکے مسئلے کی سنگینی کی وجہ سے آسمان سر پر اٹھا لیں گے تو وہ بہت سادہ لوح ہے یہ درست ہے کہ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا، کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا یہ نہ صرف اسکے ساتھ بلکہ اسلام کیساتھ بھی ایک وحشیانہ بے ہودگی ارتکاب ہے لیکن افسوس! کہ ہمارے علماء کرام فی الحال فارغ نہیں۔ وہ ابھی بہت زیادہ مصروف ہیں۔ ابھی وہ یہ طے کر رہے ہیں کہ کون کون سے مسلمان کافر ہیں اور کن کن مسلمانوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ ابھی وہ اس مخمصے میں ہیں کہ پگڑی کا رنگ کیا ہونا چاہئے اور کرتے کی لمبائی کتنی ہونی چاہئے اور آمین بلند آواز سے کہنی چاہئے یا آہستہ، ابھی تو ہمارے علماء کرام اس پریشانی میں ہیں کہ انکی اولاد انکی زندگی میں کس طرح ان کی گدی پر براجمان ہو جائے اور جانشینی خاندان کے اندر کس طرح رہے اور وہ بیرونی دوروں پر کس طرح جائیں اور انہیں وزیروں والا پروٹوکول کس طرح ملے ابھی تو علماء کرام بم دھماکوں میں شہید ہونیوالے معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کے خونِ ناحق کو ’فتنہ‘ سے تعبیر کرنے میں مصروف ہیں اور اس فکر میں ہیں کہ کہیں انہیں سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے پر مجبور نہ کر دیا جائے۔ وہ تو ابھی خلق خدا کے قتل عام کو ’’فتنہ‘‘ قرار دیکر خاموش رہنے میں مصروف ہیں۔ خاموشی سے بہتر مصروفیت آخر ہو بھی کیا سکتی ہے! ابھی عزیزن کو کوئی جا کر سمجھائے کہ علماء کرام سے امید نہ رکھے۔ انکے پاس اسلام کی اس مظلوم بیٹی کیلئے ایک ثانیے کا ہزارواں حصہ بھی نہیں!۔


عزیزن اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ ملک کے سیاستدان اسکی فریاد پر لبیک کہیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے۔ انکے پاس اتنا وقت کہاں کہ اس اندوہناک ظلم پر توجہ دیں اور ملک کی ایک بیٹی کے ساتھ ہونیوالے شرم ناک واقعے کی زبانی ہی مذمت کر دیں۔ وہ تو ابھی این آر او کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ وہ تو ابھی اس فکر میں ہیں کہ کہیں انہیں ہڑپ کئے ہوئے قرضے نہ واپس کرنے پڑیں۔ ان میں سے کوئی تو اس پریشانی میں ہے کہ ایوانِ صدر یا ایوان وزیراعظم میں اپنا قیام کس طرح طویل سے طویل تر کرے اور کوئی اس جہاد میں مصروف ہے کہ کس طرح تیسری بار وزیراعظم بن جائے۔ کوئی اس جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے کہ اسکے صاحبزادے نے جو زمیناور جو رقم ہتھیائی ہے، اس کا حساب نہ ہو سکے اور کوئی اس پْخت و پْز میں ہے کہ اگلے انتخابات میں اس کا لخت جگر کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔ دن کے دو بجے بیدار ہونیوالے سیاستدان شام کی رنگینی میں اتنے ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو مقابلے کے بغیر اعلیٰ عہدوں پر پہنچانے کے علاوہ کسی کام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ عزیزن کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا مسئلہ کتنا ہی سنگین اور شرمناک کیوں نہ ہو۔ ہمارے سیاست دانوںکے پاس اس کیلئے کوئی وقت نہیں!۔


اور اگر زخم زخم عزیزن سول سوسائٹی سے امید لگائے بیٹھی ہے تو وہ اسے مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ سول سوسائٹی ابھی ماحولیات اور اس قبیل کے دوسرے زیادہ ضروری مقاصد کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ابھی تو سول سوسائٹی ان این جی اوز میں لگی ہوئی ہے جن کے عہدیدار خاندانوں ہی کے افراد ہیں اور جہاں جتنی گرانٹیں حکومت سے ملتی ہیں اور جتنے عطیات بیرون ملک سے آتے ہیں، سب اندر خانے ہی رہتے ہیں۔ سول سوسائٹی غریبوں کیلئے امیرانہ تقاریب کرنے میں مشغول رہے۔ ایک دور افتادہ گوشے میں رونما ہونیوالے المیے کیلئے سول سوسائٹی کے فیشن زدہ ارکان فی الحال کچھ کرنے سے قاصر ہیں!۔


بیس سالہ مسلمان عزیزن کشمور کے ایک گاؤں میں رہتی ہے۔ اسکے گاؤں کا نام بدانی بھٹو ہے۔ اس کے مرحوم باپ کا نام اللہ بخش بھٹو تھا۔ جس پچاس سالہ شخص نے بولی دیکر اسے خریدا ہے اس کا نام بلاول بھٹو ہے اور بولی لگا کر نیلام میں کامیاب ہونے کے بعد بلاول بھٹو نے عزیزن کیساتھ جن مولوی صاحب سے نکاح پڑھوایا ہے ان کا اسمِ گرامی نامِ نامی حضرت مولانا عزیز اللہ بھٹو ہے۔ بیس سالہ عزیزن کو کچھ عرصہ قبل طلاق دے دی گئی تھی کیونکہ اس پر کاروکاری کا الزام تھا! وہ دو بچوں کی ماں ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اسی بھائی نے اپنے گاؤں میں بہن کی فروخت کیلئے نیلامی کا انعقاد کیا ہے۔ یہ نیلام… نیلام عام تھا جسے فرنگی زبان میں اوپن آکشن کہتے ہیں! فرزندانِ اسلام نے بڑی تعداد میں اس نیلام میں دلچسپی لی۔ بولی پچاس ہزار روپے سے شروع ہوئی اور دو لاکھ ستر ہزار روپے تک جا کر ختم ہوئی۔ کامیاب بولی دینے والا بلاول بھٹو اسی گاؤں کا سپوت ہے۔ اس نے دو لاکھ دس ہزار روپے اسی وقت ادا کر کے اپنے کھرا ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کے بعد حضرت مولانا عزیز اللہ بھٹو۔ مد ظلہم العالی نے نکاح پڑھایا۔ بقایا ساٹھ ہزار روپے ادا کرنے کے بعد بلاول بھٹو اپنی خریدی ہوئی دلہن کو لے جا سکے گا۔


ڈول جائیں گے ترے بازو ترازو کی طرح


اور ہم نیلام ہو جائیں گے تیرے سامنے


لیکن ابھی آپ نے مکمل خبر نہیں پڑھی۔


نیلام برپا کرنیوالا بطلِ جلیل، عزیزن کا اکلوتا بھائی نہیں تھا! اسکے اور بھائی بھی ہیں۔ روزنامہ نیشن نے بھائیوں کی تعداد اور نام نہیں لکھے لیکن خبر کا حاصل یہ ہے کہ بہن کی نیلامی سے ملنے والی آمدنی سارے بھائیوں میں برابر تقسیم ہوئی! اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھائی کتنے انصاف پسند ہیں!۔


سادہ لوح عزیزن یہ سمجھ رہی ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنیوالی اس مملکت کے اس المیے پر درو بام لرز جائینگے۔ کہرام مچ جائیگا، مسلمانوں کی غیرت جوش مارے گی اور انصاف کا لمبا ہاتھ مجرموں کو گردن سے پکڑ لے گا لیکن جس ملک میں ونی، کاروکاری اور پنچایت کے آئے دن کے فیصلے عورتوں کی خریدو فروخت کر رہے ہوں۔ وہاں عزیزن کی نیلامی کون سی بڑی یا بری خبر ہے! یوں بھی ہم تو عالم اسلام کی قیادت میں مصروف ہیں۔ وہ دیکھیے۔ سامنے ٹیلی ویژن پر ٹاک شو ہو رہا ہے۔ ایک صاحب پورے کرۂ ارض پر جھنڈا لہرانے کا عزم کر رہے ہیں!

Tuesday, December 15, 2009

کیا مائی لارڈ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں گے


مملکتیں جہاں ادارے بے توقیر ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں! ایسی مملکتوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ نہ بین الاقوامی معاہدے، نہ کوئی قوتِ قاہرہ اور نہ مسلح لشکر۔ محفوظ تو کچھوا بھی ہوتا ہے لیکن اسے بچانے والی سخت کھال اتنی بھاری ہوتی ہے کہ وہ خطرے کے وقت بھاگ ہی نہیں سکتا اور وہی ’’بچانے‘‘ والی کھال اسے پکڑوا دیتی ہے! ملکوں کو ادارے بچاتے ہیں اور قوموں کو بین الاقوامی برادری میں عزت اس بنیاد پر ملتی ہے کہ ان قوموں کے ادارے کتنے مضبوط ہیں! اگر ذاتی پسند یا ناپسند اداروں کے انتظام میں دخل اندازی کرے اور سسٹم کوئی نہ ہو تو ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا بُری لگے، بات یہی ہے کہ ادارے تباہ ہو رہے ہوں تو یہ ملک کیلئے بدشگونی ہوتی ہے! کوئی ادارہ شاہ جہان اور اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد تخت نشینی کا فیصلہ کرنے والا ہوتا تو برصغیر کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو آج ہے!



پاکستان کے صرف دو ادارے ایسے ہیں جہاں بھرتی کے حوالے سے میرٹ کی حکمرانی ہے! ان میں سے ایک کاکول ہے جہاں بّری فوج کیلئے افسر تیار ہوتے ہیں( معاملے کو آسان رکھنے کیلئے ہم فضائیہ اور بحریہ کی اکیڈیمیوں کا ذکر الگ سے نہیں کر رہے ورنہ ہماری مراد تینوں مسلح افواج سے ہے) ایسی درجنوں اور بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کاکول میں غریب کسانوں، سپاہیوں، حوالداروں، پرائمری سکول کے ٹیچروں اور عام لوگوں کے بچے کامیاب ہوگئے اور جرنیلوں وزیروں سفیروں اور امیروں کے بچے داخل نہ ہوسکے۔ مجھے یاد ہے، میں کاکول میں فائنل پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھنے کیلئے مدعو تھا۔ بڑے گیٹ سے باہر آتے ہوئے میں نے دیکھا…اور یہ منظر میں کبھی بھول نہیں سکتا… کہ تہبند میں ملبوس ایک کسان اپنے کیڈٹ بیٹے سے محوِ گفتگو تھا! کاکول سے نکلنے کے بعد کوئی جرنیل بن جائے اور اٹھائے ہوئے حلف کی دھجیاں اُڑا کر فرعون ہو جائے تو یہ بعد کا معاملہ ہے اور اس میں کاکول کا کوئی قصور نہیں!


پسرِ نُوح با بدان بنشت


خاندانِ نبوّتش…گم شد


اس میں نوح علیہ السلام کا تو کوئی قصور نہیں تھا!


اب سوال یہ ہے کہ کاکول کا معیار کس طرح برقرار رکھا جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے مسلح افواج کے اندرونی معاملات میں اہل سیاست کا عمل دخل نہیں ہے اور جو درگت سول سروس آف پاکستان کی اقربا پروری، دوست نوازی اور میرٹ کو قتل کرنے کی وجہ سے بنی ہے، الحمد للہ افواج پاکستان ابھی تک اس سے بچی ہوئی ہیں۔ وہ جو بّری فضائی اور بحری افواج کیلئے افسروں کو منتخب کرتے ہیں، انہیں تربیت دیتے ہیں، انہیں سزا دیتے ہیں، نکال باہر کرتے ہیں یا کامیاب قرار دیتے ہیں، انہیں ایک نظام کے تحت اس اہم ذمہ داری کیلئے چُنا جاتاہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے اور اس عمل میں اہلیت کا…بالعموم…قتل نہیں ہوتا!


دوسرا ادارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے جو ہر سال مقابلے کا امتحان منعقد کرتا ہے اور اگلے 35 سال کیلئے فارن سروس، ضلعی انتظامیہ، پولیس، آڈیٹرجنرل، انکم ٹیکس اور دیگر محکموں کیلئے افسر بھرتی کرتا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کیلئے مقابلے کے امتحان منعقد کرنے کے علاوہ بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کئی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے، مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں کیلئے اساتذہ کا انتخاب کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کو ملازمتیں دیتا ہے اور سائنس دان بھرتی کرتا ہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سالوں میں ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا کہ گریڈ 16 سے نیچے کی بھرتیاں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کریگا۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جس نے سفارش کی بنیاد پر بھرتی کو ختم کردیا تھا لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے کمیشن سے یہ ذمہ داری واپس لے لی تاکہ سیاست دان بھرتیوں پر حسبِ سابق اثرانداز ہوتے رہیں… پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے زمانے میں وزیراعظم کا دفتر مختلف محکموںکو فہرستیں فراہم کرتا رہا۔ ان فہرستوں میں ’’خوش قسمت‘‘ امیدواروں کے نام ہوتے تھے!


بہرحال…فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کمال یہ ہے کہ عام لوگوں کے بچے مقابلے کا امتحان پاس کرکے کامیاب ہو جاتے تھے۔ آخر الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب، سرتاج عزیز، آغا شاہی، عزیز احمد اور بے شمار دوسرے بیوروکریٹ… جنہوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے ملک کی خدمت کی، عام خاندانوں ہی سے تو تھے اور یہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہی تھا جس نے میر ٹ اور اہلیت کی بنیاد پر انہیں چُنا تھا اور چُن کر حکومت کے سپرد کیا تھا۔ اب کچھ افسر اگر آغا شاہی اور سرتاج عزیز بننے کے بجائے کروڑ پتی بن گئے، کسی نے چودہ بنگلے بنا لئے، کسی نے (64) چونسٹھ پلاٹ ہتھیا لیے اور کوئی نیویارک میں جائیداد کا مالک بن بیٹھا تو اس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قصور تھا نہ مقابلے کے امتحان کا!


سوال یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر کس بنیاد پر منتخب ہو رہے ہیں؟ بدقسمتی سے یہ ادارہ ذاتی پسند اور ناپسند کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک پرائمری سکول چلانے کیلئے استاد کا انتخاب اور ڈاکخانہ چلانے کیلئے بابو کا انتخاب تو کسی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن جو ادارہ 35 سال کیلئے سرکاری افسروں کو چنتا ہے اس ادارے کے ممبر کسی بنیاد کے بغیر چُنے جارہے ہیں۔


جناب چیف جسٹس کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ معاملہ حد درجہ اہم ہے۔ یہ گڈ گورننس کا معاملہ ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے‘ اگر حکومت پاکستان فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ریٹائر افسرکو مقرر کرکے لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ دیتی ہے تو یہ تنخواہ قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ کس کو رکھا جا رہا ہے اور کس بنیاد پر؟ یہ بات کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی مرضی کے آدمی کا نام تجویز کرکے ایوان صدر کو بھیجیں، نہ آئین میں لکھی ہوئی ہے اور نہ کسی اور قانون میں۔گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازم فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر نہیں بنائے گئے، کس بنیاد پر نامنظور ہوئے؟ کیا ان کا حق نہیں کہ انکے ناموں پر بھی غور ہوتا اور انہیں نامنظور ہونے کی وجہ بتائی جاتی؟


اسی طرح فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل ایک اہم قومی ادارہ ہے۔ سرکاری ملازم حکومت کیخلاف یہاں مقدمے دائر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی تلافی کی درخواست کرتے ہیں۔ فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل کے ار کان کس بنیاد پر متعین اور منتخب ہو رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کویکسر نظرانداز کرکے گریڈ انیس بلکہ بیس کے ریٹائرڈ ملازموں کو ممبر لگایاجارہا ہے؟ خدا جانے یہ خبر غلط ہے یا صحیح لیکن سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ ممبر اتنے ’لائق‘‘ ہیں کہ فیصلے لکھنے کیلئے انہوں نے ’’ملازم‘‘ رکھے ہوئے ہیں! ہوسکتا ہے یہ غلط ہولیکن اصل سوال یہ ہے کہ ممبر متعین کرنے کا معیار کیا ہے؟


مائی لاڈ جناب واجب الاحترام چیف جسٹس! یہ ایک حساس معاملہ ہے۔یہ قومی اداروں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اس میں قومی خزانے کی خطیر رقم کا سوال ہے جو ہر ماہ ان ممبران کو تنخواہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ملازموں کی فہرست سے کچھ کو چُن لینا اور کچھ کو نظرانداز کرنا، قومی مفاد کے خلاف ہے۔ مائی لارڈ! کیا جناب والا حکومت کو ہدایت دیں گے کہ وہ اس کی وجوہ سے جناب والا کو اور پوری قوم کو آگاہ کرے؟ کیا مائی لارڈ اس حساس قومی معاملے کی خرابی کا ازخود نوٹس لیں گے؟

Thursday, December 10, 2009

سرخ پتوں والے درختوں کا شہر


کتنے ہی اقلیم دیکھے اور انکے رنگ رنگ کے بلد۔ ہر ایک کا سرما نرالا ہی جلوہ لئے ہوئے تھا۔ میں آج تک نہیں بھول پایا۔ دسمبر کی ایک رات تھی اور میں تاشقند میں تھا۔ برفباری ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد چاند نکلا تھا۔ میں نے دو سال کی پیلالا کو اٹھایا ہوا تھا اور شاہراہ پر چلتا، سرائے کی طرف واپس جا رہا تھا۔ روس سے آئے ہوئے ولایتی درختوں کی شاخوں پر برف یوں لگ رہی تھی جیسے آسمان سے کسی طاقت ور بازو نے ہر طرف چاندی چھڑک دی ہو۔



شبیں تھیں اطلس کی، دن تھے چاندی کے تار جیسے


بہشت اْترا   ہوا تھا   جیچوں   کے      پار      جیسے


میں نے بحرِ روم کے ساحلوں پر ناپولی کا سرما بھی دیکھا ہے اور سوادِ روم کا بھی۔ بارشوںاور دھند میں لپٹی ہوئی اداسی لیکن زندگی اسی تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی! ہسپانیہ کے دلکش، سحر طاری کر دینے والے شہر بار سلونا کا سرما بھی دیکھا۔ شہر کے وسط سے گزرتی ہوئی شاہراہ جسے رم لاس کہتے ہیں اور جس پر صرف پیدل چلا جاتا ہے۔ بحرِ مراد کے کنارے بیٹھ کر اْس پار سے نظر آنیوالے اسرائیل کا سرما بھی دیکھا۔ خوں رنگ اور سفاّک!


کتنے ہی اقلیم دیکھے اور انکے رنگ رنگ کے شہر۔ ہر ایک کا سرما اپنا ہی رنگ لئے ہوئے تھا۔ لیکن سرما جو دل گیر اداسی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہر طرف بکھیرتا ہے اسکی کوئی مثال کہیں نہیں دیکھی۔ شاہراہوں کے کناروں پر، پارکوں اور باغوں میں، گرین ایریا میں، ہر طرف سرخ پتوں والے درخت۔ جو خزاں زدہ ٹنڈ منڈ درختوں کے درمیان کھڑے ہیں اور دیکھنے والے کی نظر میں اپنی سرخی اتار دیتے ہیں۔ ان درختوں کے پتوں کا رنگ لہو جیسا ہے۔ سرخ لیکن یہ سرخی حنا کی نہیں ہے، اْس خون کی ہے جو ہر طرف بہہ رہا ہے!


سرما میں اسلام آباد ہر طرف اْداسی بکھیرتا ہے، ایسی اداسی جس کا کوئی علاج نہیں، ایسا زہر جس کا کوئی تریاک نہیں۔ دوپہر کی دھوپ میں تھوڑی دیر کیلئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تمازت سے آرام پہنچانے والی یہ دھوپ امن کی پیغام بر ہے لیکن جلد ہی سائے لمبے ہو جاتے ہیں۔ دھوپ ڈھلنے لگتی ہے۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں سرد ہوا، بڑھتا ہوا اندھیرا اور ہر طرف لگے ہوئے ناکے اس شہر کو مقتل بنا دیتے ہیں اور درختوں کے سرخ پتے وہ دہشت گرد لگتے ہیں جن کی پرورش کرنیوالے آج قیمتی سوٹ پہنے پردۂ سیمیں پر قوم کو اپنی مسکراہٹیں دکھاتے ہیں اور دنیا بھر کے موضوعات پر خیال فرمائیاں کر کے ہر وقت ’’اِن ‘‘ رہنے میں مصروف ہوتے ہیں!۔


یہ شہر کتنا عجیب ہے جو بنا تو سرکاری ملازموں کیلئے تھا لیکن آج اس میں سرکاری ملازم بے گھر اور در بدر ہیں۔ ان سرکاری ملازموں میں قصر ہائے شاہی کے وہ بلند مرتبہ داروغے شامل  نہیں جو گذشتہ حکومتوں میں آمروں کے گھٹنوں پر بیٹھے رہے، اپنے رومالوں سے آمروں کی مونچھوں پر لگی لسی صاف کرتے رہے اور آج مارگلہ روڈ سے لیکر ایف سکس تھری تک اور آئی ایٹ سے لیکر ایف ایٹ تک پھیلے ہوئے محلات میں متمکن ہیں کبھی اسلام آباد کے ماحول کا درد انہیں شاہراہوں پر لے آتا ہے اور کبھی مرحوم اقتدار کے خواب انہیں اخبارات کے صفحے کالے کرنے پر اْکساتے ہیں۔


یہ شہر جو سرکاری ملازموں کیلئے بنا تھا، آج سیاست دانوں اور جرنیلوں کے محلات سے بھرا ہوا عجائب گھر بن گیا ہے۔ وہ فہرست کب شائع ہوگی جس میں ان محلات کے طول و عرض میں سجے ہوئے نوادرات، ان میں رکھے ہوئے بیش بہا فرنیچر اور ظروف، اور ان میں برپا سرگرمیوں کی تفصیل ننگے بھوکے عوام کو بتائی جائے گی! یہ شہر جو سرکاری ملازموں کیلئے بنا تھا، آج اس میں سرکاری ملازم کئی کئی گھنٹے بسوں میں سفر کرکے پہنچتے ہیں‘ اس لئے کہ زمین اس شہر میں چار کروڑ روپے کنال ہے اور وہ ملتی ان خواص کو ہے جن کے پاس پہلے ہی محلات کی کمی نہیں۔


اس شہر میں ہر سیاستدان نے محل بنایا ہے۔ ایک سیاستدان نے چار سو کنال کا گھر تعمیر کیا ہے۔ سنا ہے اس میں کتے زیادہ اور ملازم کم ہیں۔ بھارت سے آئے ہوئے کھلاڑی (یا شاید فلمی ستارے) اس گھر کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے تھے۔اس شہر کی بھول بھلیاں اتنی پیچ دار ہیں اور اسکی شاہراہیں اتنی زِگ زیگ ہیں کہ اربوں کھربوں کے معاملات کرنے والے یہاں آ کر محفوظ ہوجاتے ہیں۔ یہاں میڈیا کے وہ فرشتے بھی اپنے نورانی پروں کیساتھ جلوہ گری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنکے بارے میں خبریں ملتی ہیں کہ فلاں کے اتنے لاکھ ڈالر باہر کے بینکوں میں محفوظ ہیں اور فلاں کی پروازثریا تک ہے۔ کیا شہر ہے یہ بھی جس میں سی ڈی اے پر حکومت کرنے والے یہ شاطر اپنی اگلی منزلوں پر پہنچ چکے ہیں اور مزید آگے جانے کیلئے کمر پر بندھی ہوئی پیٹیوں کو کس رہے ہیں اور اسلام آباد کے ناکوں پر دھکے کھاتے عوام جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں!۔


میں اس شہر کو جب بھی دیکھتا ہوں مجھے وہ پاکستانی دوست یاد آ جاتا ہے جس نے لندن میں مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا۔ اسکا گھر، گھروں کی ایک لمبی قطار میں واقع تھا جس میں سارے گھر ایک جیسے تھے۔ ان گھروں میں تین تین کمرے تھے۔ جن میں مشکل سے دو دو چارپائیاں بچھائی جاسکتی تھیں۔ جس ڈرائنگ روم میں ہم بیٹھے تھے، وہاں سے گزرنا بھی مشکل تھا۔ میرے دوست نے بتایا کہ گھروں کی اسی قطار میں خاکروب بھی رہتا ہے اور پارلیمنٹ کا ممبر بھی اور سارے گھر ایک جیسے ہیں اور اس شہر کو دیکھئے اور اس میں پارلیمنٹ کے ارکان کی رہائش گاہوں اور مراعات کو دیکھئے اور وزرا کی رہائشی کالونی دیکھئے اور بلوچستان ہاؤس، پنجاب ہاؤس اور دوسرے ہاؤسز کو دیکھئے، اور انکے روزانہ کے اخراجات کو دیکھئے۔ اور ان گاڑیوں کے سائز دیکھئے جن پر سوار ہو کر عوامی نمائندے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے آتے ہیں اور پھر وہ قطاریں دیکھیے جن میں ٹیکس ادا کرنے والے بوڑھے اور عورتیں گھنٹوں نہیں پہروں کھڑی ہو کر دو کلو آٹے اور ایک کلو چینی کیلئے بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلائے رکھتی ہیں۔ اپنے ہی وطن میں جیب سے قیمت ادا کرکے بھکاری! زکام کا علاج بیرون ملک سے کروا کر لاکھوں ڈالر خرچ کرنے والے وزیر اور عوامی نمائندے اسی شہر ہی میں گھومتے پھرتے ہیں! اور ضلعی شہروں میں جعلی دواؤں کی فیکٹریاں رات دن چلتی ہیں اور مگرمچھ دریا میں ہوں یا سمندر میں، یا دارالحکومت میں کبھی پکڑے نہیں جاتے!۔


مجھے برسوں پہلے پڑھی ہوئی وہ خبر آج تک نہیں بھولتی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہماری شمالی ’’آزاد‘‘ ریاست کے پارسا سربراہ کے بیرون ملک دانتوں کے علاج پر اٹھارہ لاکھ روپے خرچ ہوئے اور یہ اٹھارہ لاکھ حکومت نے ادا کئے۔ یہ اٹھارہ لاکھ اس وقت کے اٹھارہ لاکھ تھے جب لاکھ آج کا کروڑ تھا۔ اب تو بیٹا چھوڑ کر پوتا بھی سیاست میں آنے کی تیاری کر رہا ہے۔سیاست کیسی نفع آور صنعت ہے جس میں آمدنی ہی آمدنی ہے، کبھی کواپریٹو کمپنیوں کے ذریعے آمدنی! کبھی این آر او کے ذریعے آمدنی، کبھی معاف کرائے ہوئے قرضوں کے ذریعے آمدنی، کبھی ملازموں کے شناختی کارڈوں پر لئے گئے قرضوں کی آمدنی، کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کی آمدنی، کبھی زلزلوں پر باہر سے آئی ہوئی امداد کے ذریعے آمدنی اور پھر یہ آمدنی کبھی جرمنی کے دوروں میں دکھائی دیتی ہے اور کبھی دبئی جدہ لندن اور نیویارک کی جائیدادوں کی صورت میں جلوہ فرما ہوتی ہے!


سرما میں اسلام آباد کی شاہراہوں کے کناروں پر، اور پارکوں میں، درختوں کے سرخ لہو رنگ پتیوں کو کوئی غور سے دیکھے تو سہی۔ سب کچھ نظر آنے لگتا ہے۔

Wednesday, December 09, 2009

پھانسی


میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دونوں فریق ساڑھے گیارہ مرلے کے اس گھر میں اکٹھے ہوں گے جو کرائے کا ہے اور جہاں میری رہائش ہے۔ کوئی جانتا تھا کہ آگ اور پانی، شیر(طالبان) اوربکری، بھیڑیا (امریکہ) اور میمنا ایک جگہ پائے جائینگے اور وہ بھی اس حال میں کہ دونوں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو تقویت پہنچا رہے ہونگے۔



جیسا کہ ہر خاص و عام کو معلوم ہے، میں جب طے کر لوں کہ فلاں مسئلہ اب حل کرنا ہی کرنا ہے تو پھر اس عزمِ صمیم کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اگر بظاہر یہ ناممکنات میں سے بھی ہو تو ہر چہ بادا باد کہہ کر میں میدان عمل میں کود پڑتا ہوں۔


یہ جو ملک میں جھگڑا برپا تھا اور دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو گلے سے پکڑا ہوا تھا تو میں نے جھگڑا ختم کرانے کا فیصلہ کیا۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ جتنی مصیبتیں اس ملک پر ٹوٹ رہی ہیں ان کی ذمہ داری طالبان پر ہے۔ یہ اقتصادی پسماندگی، لاقانونیت، یہ پتھر کے زمانے کے رسم و رواج، یہ بھوک یہ ننگ یہ بدحالی، یہ واماندگی اور یہ خستگی سب کچھ اس لئے ہے کہ ہمارے درمیان طالبان پائے جاتے ہیں۔ انکی پگڑیاں، ان کی داڑھیاں، ان کی گھٹنوں سے اوپر شلواریں، انکی ٹوٹی ہوئی چپلیں اور انکے کاندھوں پر لٹکی کلاشنکوفیں ہمیں پیچھے دھکیل رہی ہیں۔ یہ عورتوں کی آزادی کے مخالف ہیں۔ لڑکیوں کو سکولوں میں نہیں پڑھنے دیتے، بچوں کو کتابوں سے اٹھا کر بندوق کے راستے پر لگا دیتے ہیں۔ماڈرن ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں۔ ہر وہ شے جو مغرب سے آئی ہوئی ہے، انکے نزدیک برائی ہے، خواہ انگریزی ہے یا کوکا کولا، مٹی کے کچے کوٹھوں میں رہتے ہیں، قصہ مختصر اس گروہ کا موقف یہ ہے کہ یہ جو ہم آج کھائی میں اُوندھے گرے ہوئے ہیں، تو اس کا واحد سبب طالبان ہیں۔ پھر طالبان کے ساتھ، اسی ہلّے میں، یہ گروہ مسجدوں، مدرسوں، علماء کرام اور دینی علوم حاصل کرنیوالے طالب علموں کو بھی مطعون کرتا ہے اور قوموں کی برادری میں پاکستان کی شرم ناک حیثیت کا سارا الزام ان لوگوں کے سر ڈالتا ہے۔


دوسرا گروہ پاکستان کی بدحالی کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک زکام سے لیکر تپ دق تک، ناخواندگی سے لیکر بھوک تک اور پٹاخے سے لیکر بم دھماکے تک، سب کچھ امریکہ کر رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ یہ گروہ بھارت اور سرائیل پر بھی اپنی مصیبتوں کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ کل ہی ایک بہت پارسا خاتون سمجھارہی تھیں کہ یہ جو بخار نزلہ اور فلو پھیلا ہوا ہے وہ اس لئے ہے کہ دشمن نے ہماری فضائوں میں بیماریوں کے وائرس چھوڑ دیئے ہیں۔


اس گروہ کے نزدیک ہمارے صدر سے لیکر وزیراعظم تک، فوجی سربراہوں سے لیکر وزیروں تک اور خزانہ اور منصوبہ بندی کے سیکرٹریوں سے لے کر سفیروں تک ساری تعیناتیاں واشنگٹن سے ہوتی ہیں اور صدر زرداری ہیں یا نوازشریف، الطاف حسین ہیں یا قاضی صاحب، اسفند یار ولی ہیںیا مولانا فضل الرحمن سب اسی زلف کے اسیر ہیں۔


قریب تھا کہ دونوں گروہ جھگڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کو ختم کردیتے (بالکل اس طرح جیسے دو بڑے سانپ کھلے میدان میں ایک دوسرے کو کھا چکے تھے اور میدان صاف ہوگیا تھا) کہ میں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لئے اور الزام لگانے والوں اور دفاع کرنے والوںکی باتیں سننے کے بجائے مناسب سمجھا کہ امریکہ اور طالبان کو ایک ساتھ بٹھا کر دونوں سے براہ راست بات کی جائے۔


سب سے پہلے میں نے صدر اوبامہ سے درخواست کی کہ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں۔ وہ رضامند ہوگئے تو باقی امریکی رہنمائوں کو منانا چنداں مشکل نہ رہا۔ ہلیری کلنٹن نے تو انکے ساتھ آنا ہی تھا، سابق صدر بش اور رمز فیلڈ نے بھی دعوت کو شرفِ پذیرائی بخشا اور اس قتالۂ جہاں، آفتِ زمانہ، سیم تن، زہر وش، حسنِ سیاہ، کونڈا لیزا رائس نے بھی میرے خاکداں کو خُلا کرنے کا عندیہ دے دیا اب میں نے طالبان کا رخ کیا۔ ملا عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر زمینِ ادب کو بوسہ دیا اور عرض مدعا کیا۔ آپ نے دستِ شفقت میرے سر پر رکھا اور کمال التفات کرتے ہوئے درخواست کو قبولیت بخشی۔ عالم بے بدل فاضل بے مثل حضرت مولانا فضل اللہ، ترجمان جہاں مسلم خان اور حضرت شاہِ دوراں نے بھی وعدہ فرمایا۔ احتیاطاً میں نے اپنے محلے میں واقع مدرسے کے مولانا صاحب کو بھی دعوت دے دی۔


وقتِ مقررہ پر یہ سارے مشاہیر، زعما اور مشرق و مغرب کے رہنمایانِ گرامی آئے اور اپنے اپنے حاشیہ برداروں اور مخالفوں کے سامنے تشریف فرما ہوئے۔ جب انہیں پاکستان کے جملہ مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا تو عجیب بات یہ ہوئی کہ دونوں نے تعجب کا اظہار کیا اور اپنے ملوث ہونے سے صریحاً انکار کیا۔ طالبان کے نمائندے نے اس الزام پر کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا سندھ اور بلوچستان میں جن عورتوں کو کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ان پر کتے چھوڑے جاتے ہیں اور زندہ دفن کیا جاتا ہے، کیا اسکے ذمہ دار طالبان ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا عورتوں پر کھلم کھلا ظلم کرنے والوں کو وفاقی کابینہ میں طالبان کے کہنے پر لیا گیا ہے؟


کیا باسٹھ سالوں میں بلوچستان میں اور وزیرستان میں طالبان کے کہنے پر سکول کالج اور یونیورسٹیاں نہیں بنائی گئیں؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ریستورانوں میں برتن مانجھنے والے، ورکشاپوں میں مشقت کرنے والے اور گھروں میں نوکر بن کر تشدد کا شکار ہونیوالے لاکھوں کم سن بچے طالبان کی وجہ سے اس ظلم اور بربریت کا شکار ہو رہے ہیں؟ آپ لوگوں کی اسمبلیوں میں اکثریت ان اصحاب کی ہے جو مختلف جرائم میں ملوث رہے ہیں اور جن پر ملکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، کیا طالبان اسکے ذمہ دار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ طالبان پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ لوگوں کو پتھر کے زمانے میں واپس لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا بگتی اور مری قبائل، سندھ کے ہاری اور جنوبی پنجاب کے مزارع جو درحقیقت پتھر کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں، طالبان کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں؟ کیا میرٹ کا خون کرکے تعیناتیاں، ترقیاں اور تبادلے طالبان کے کہنے پر کئے جارہے ہیں؟ اور کیا وزیراعظم کے گھر اور دفتر، ایوان صدر کے کروڑوں اربوں کے اخراجات کے ذمہ دار طالبان ہیں؟ اور جو لاکھوں بچے اسلامی مدارس سے ’’بچے ہوئے‘‘ ہیں اور گلیوں میں آوارہ پھررہے ہیں کیا انہیں طالبان کے کہنے پر سرکاری سکولوں میں داخل نہیں کیا جارہا؟


طالبان کو سارے مسائل کی جڑ قراردینے والے مبہوت ہو کر سن رہے تھے۔انکے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب امریکہ کا نمائندہ کھڑا ہوا۔ اس کا خطاب بہت مختصر تھا۔ اس نے کہا ’’اس ملک کیلئے سب سے زیادہ شرم کا مقام یہ ہے کہ بنکوں سے اربوں کھربوں کے قرضے معاف کرانیوالے اور پاکستانی قوم کی دولت ڈکارے بغیر شیرمادر سمجھ کر ہضم کرنیوالے مجرم بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں، کیا ان مجرموں کو امریکہ کے کہنے پر قرضے دیئے گئے تھے اور کیا امریکہ کے کہنے پر یہ قرضے معاف کئے گئے ہیں؟ اور کیا واشنگٹن نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے یہ قرضے معاف کرنے کی منظوری دی تھی انہیں پھانسی نہ دی جائے؟

Thursday, December 03, 2009

SHOE - HORN


کچھ باتیں، کچھ واقعات اور کچھ شخصیات … بچپن کے حوالے سے کبھی نہیں بھلائی جا سکتیں۔ ایک بزرگ آتے تھے انہوں نے پاؤں میں چرمی موزے پہنے ہوتے تھے۔ تہمند، چرمی موزے اور کْھسہ نما جوتے ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھے۔ ایک اور بزرگ تشریف لاتے تو بوٹ پہننے کیلئے جیب سے لوہے کا ایک ہموار چوڑا ٹکڑا نکالتے جسے وہ چمچ کہتے تھے۔ جوتا پہنتے وقت وہ اس چمچ کو جوتے کے پچھلے حصے کی دیوار کے اندر رکھتے تھے۔ ہینڈل انکے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جوتے کے آگے کے حصے میں پاؤں کا پنجہ ڈالتے تو ایڑی چمچ کے ساتھ پھسلتی ہوئی بڑی سہولت کے ساتھ خود بخود اندر چلی جاتی۔استعمال کرنے کے بعد وہ کبھی بھول کر بھی جوتے کے اس چمچ کو باہر نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ جیب میں ڈال لیتے تھے۔
تقریباً دو سال پہلے مجھے احساس ہوا کہ جوتے پہنتے وقت دقت ہوتی ہے۔ وہ بزرگ یاد آئے۔ مجھے جوتوں والے چمچ کی ضرورت محسوس ہوئی [کیا اس چمچ کا عمر کے ساتھ کوئی ربط  ہے  ؟  کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرطور میں نے کسی نوجوان یا جوان شخص کو یہ آلہ سہولت استعمال کرتے نہیں دیکھا۔]ایک دکان سے مجھے وہ چمچ مل گیا لیکن  خیال آیا کہ چمچ لمبے سائز کا ہونا چاہئے، یوں کہ جوتے پہنتے وقت جھکنا نہ پڑے۔ تلاش کی کہیں نہ ملا۔ پھر لاہور کراچی جانا ہوا تو وہاں بھی نہ ملا۔ واشنگٹن ڈی سی گیا تو تلاشِ بسیار کے بعد  ہینڈل والا چمچ ملا۔ تین ماہ پہلے کینیڈا میں تھا تو دو نئی قسم کے چمچ دیکھے۔ ایک ایسا تھا کہ ایک طرف سے جوتوں والی چمچ لگی تھی اور دوسری طرف سے" کْھر کو
"\(BACK- SCRATCHER)
 تھا جس سے پیٹھ اور کندھوں کے ان حصوں پر کْھجلی کی جاسکتی ہے جہاں ہاتھ نہیں پہنچتے۔ دوسرا تقریباً اڑھائی فٹ لمبا تھا اور بناوٹ ایسی تھی کہ کمال سہولت سے جوتا پہنا دیتا تھا۔ میں نے دونوں خرید لئے، آتے وقت کْھرکو والا تو آ گیا لیکن دوسرا وہیں رہ گیا۔

(Shoe- Horn)
کہتے ہیں۔
 ہارن کا لغوی معنی سینگ ہے۔ ابتداء میں شو ہارن سینگ سے بنائے جاتے تھے۔ یہ پندرہویں صدی عیسوی کی بات ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے یہ آلہ موجود نہیں تھا۔ چاندی، پیتل، تانبے ، ایلومینیم اور ہاتھی دانت کے شو ہارن بھی بنتے رہے۔ اسکے موجد کا نام تاہم نہیں معلوم۔ اگرچہ بل کے سینگوں سے بنے ہوئے شو ہارن اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں لیکن آجکل پلاسٹک اور دھات ہی کے زیادہ تر بن رہے ہیں۔ استعمال کرنیوالوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ کچھ لمبے ہینڈل والے چاہتے ہیں اور کچھ چھوٹے لیکن بہت مضبوط جو بھاری جوتوں کے ساتھ کام آ سکیں۔یہ بھی یاد رہے کہ سارے شو ہارن سستے یا عام نہیں ہوتے۔ رالف لارن مشہور ڈیزائن کمپنی ہے۔ اس کا بنا ہوا شو ہارن بیس ہزار روپے میں ملتا ہے۔ یہ نوادرات کے طور پر بھی پائے جاتے ہیں۔ انگلستان کے ایک صاحب کے پاس 1905 کا بنا ہوا شو ہارن ہے۔ اس کا دستہ خالص چاندی کا ہے اور انہوں نے کم از کم قیمت ساڑھے تین ہزار روپے رکھی ہے۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو یہ شو ہارن فروخت کر دیا جائیگا۔ بہت سے لوگ شو ہارن جمع کرتے ہیں اور یہ ان کا اس طرح کامشغلہ ہے‘ جیسے ٹکٹ جمع کرنیوالوں کا ہوتا ہے۔ اس وقت ایک شخص کے پاس جس کا نام جان موکلر ہے، دنیا میں سب سے زیادہ شو ہارن ہیں۔ ابتداء میں اس کا ارادہ تھا کہ ذاتی استعمال کیلئے ایک آدھ خریدے لیکن شوق کا کوئی مول نہیں اس کو شو ہارن جمع کرنے کی لت پڑ گئی۔ اب اس کے پاس آٹھ سو پندرہ شو ہارن ہیں۔ اس نے انہیں ترتیب سے رکھا ہوا ہے اور کیٹلاگ بنائے ہوئے ہیں۔ اس ذخیرے میں چاندی پیتل تانبے، سٹین لیس سٹیل، ایلومینیم، ہاتھی دانت، لکڑی، پلاسٹک اور کچھوے کی کھال سے بنے ہوئے شو ہارن شامل ہیں۔ یہ دنیا کے مختلف ملکوں کے بنے ہوئے ہیں۔

یہ ساری تمہید بے غرض نہیں۔ میں نے شو ہارن کی بناوٹ، طریقِ استعمال اور فوائد پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ شو ہارن کا آمریت کیساتھ گہرا تعلق ہے۔ آپ ایوب خان کا نام سنیں گے تو ساتھ ہی معاً آپکو الطاف گوہر یا قدرت اللہ شہاب یاد آ جائیں گے۔ ایوب خان نے جو ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا تھا، اسکے خالق الطاف گوہر ہی تھے لیکن آپ قائِداعظم یا لیاقت علی خان کا نام لیں گے تو کسی چمچے کسی شو ہارن کا نام آپ کو یاد آئے گا نہ کوئی ایسا آلہ وہ استعمال کرتے تھے۔ ضیاء الحق پاکستان پر حکومت کرنیوالوں میں چالاک ترین تھے۔ انہوں نے ایک دو شو ہارن پر اکتفا نہیں کیا۔ ان کے پاس درجنوں کیا بیسیوں چمچ تھے اور ہر قسم کے لمبے ہینڈل والے بھی ، مضبوط دستوں والے بھی اور ایسے بھی جو ایک طرف سے انہیں جوتے پہناتے تھے اور دوسری طرف سے ان کی پیٹھ بھی کھجلاتے تھے۔ ان میں سیاست دان بھی تھے، صحافی بھی اور عباؤں اور دستاروں والے بھی۔ امید ہے آپ کے ذہن میں ان کے نام آ گئے ہوں!۔
جنرل مشرف برسر اقتدار ہوئے تو انہوں نے بھی ضیاء الحق کی پیروی کرتے ہوئے مختلف متعدد اور متنوّع، شو ہارن اکٹھے کئے لیکن ان کا کمال یہ تھا کہ کچھ کو استعمال کرنے کے بعد پھینک بھی دیتے تھے۔ چنانچہ جن شو ہارنوں نے انہیں پہلے دن اقتدار کا جوتا پہنایا، وہ کچھ عرصہ بعد پس منظر میں چلے گئے۔ بیورو کریسی میں سے جو شو ہارن انہوں نے پہلے دن پکڑا، آخر تک اسی کو استعمال کیا اور اس نے بھی جوتے پہنانے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن ان کا اصل شو ہارن ایک سیاسی جماعت تھی اس نے ان کی تن من دھن سے خدمت کی۔ ہروقت انکی جیب میں رہتی۔ جب بھی انہیں جوتا پہننا ہوتا، یہ انکی جیب سے نکلتی، انکے جوتوں کے پچھلے حصے میں سر دیتی۔ ان کی ایڑھی کو اپنے سر سے گزارکر جوتے میں مقیم کرتی اور فوراً انکی جیب میں واپس چلی جاتی! اس سیاسی جماعت کا دستہ چاندی کا ہے۔ یہ نوادرات میں سے ہے۔ کبھی اس کا نام ری پبلکن پارٹی تھا‘ کبھی کنونشن مسلم لیگ! اور پھر قاف لیگ
آجکل یہ نادر شو ہارن برائے فروخت ہے لیکن کوئی بولی دینے والا میسر نہیں آ رہا! لیکن جنرل مشرف کا اصل کارنامہ ایک ایسا شو ہارن تھا جس کے دوسرے طرف کْھرکو لگا ہوا تھا۔ یہ ایک مذہبی رہنما تھے۔ جوتے بھی پہناتے تھے اور پیٹھ بھی کھجاتے تھے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، شو ہارن اور آمریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہماری سیاسی پارٹیاں جو جمہوریت کیلئے ’’جدوجہد‘‘ کرتی ہیں، اصلاً آمریت پر مبنی ہیں۔ ساری ون مین شو ہیں۔ ہر سربراہ نے کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ مددگار بطور منشی رکھے ہوئے ہیں۔ جو لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں۔ انگریزی میں تقریریں لکھ کر دیتے ہیں، منشور قسم کے تکلفات تصنیف کرتے ہیں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں یا غیر ملکی عمائدین سے ملاقات کے وقت سیٹھ صاحبان کی معاونت کرتے ہیں۔ کیا اس قبیل کے اصحاب کو شو ہارن کہنا چاہئے؟ مجھے نہیں معلوم! میں اس گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ شو ہارن سونے کا بھی ہو، پلاٹینیم کا بھی ہو، اس میں ہیرے کیوں نہ جڑے ہوئے ہوں، رہے گا وہ شو ہارن ہی، وہ جوتے کا مالک نہیں بن سکتا۔ پہنانے والا ہی رہے گا ، پہننے والا کبھی نہیں بنے گا۔ اگر آپ کو میرے اس نکتے سے اختلاف ہے تو آپ شوق سے اختلاف کریں لیکن میری پیٹھ پر کْھجلی ہو رہی ہے، ہاتھ وہاں پہنچ نہیں رہا، ازراہ لطف و عنایت یہ شو ہارن جو میں کینیڈا سے خرید کر لایا ہوں، اٹھائیے۔ اسکے ایک سرے پر کْھرکو لگا ہے، ذرا میری پیٹھ پر اس سے کھجلی کر دیجئے!۔
جوتے کے اس چمچ کو شو ہارن

Tuesday, December 01, 2009

نیلم کا لشکارا دیکھ کے خلق غلام ہوئی


یہ تو ہمیشہ سے اندازہ تھا کہ نوائے وقت کی مار دور تک ہے لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ کرہ ارض کے ہر گوشے سے ردعمل آئیگا اور ردعمل بھی ایسا شدید کہ اس کالم نگار کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔


ردعمل امانت ہوتا ہے اور اگر معاملے میں کالم نگار کے مفادات ملوث نہ ہوں تو یہ امانت قارئین کے پاس پہنچانی چاہیے۔ گزشتہ کالم (26 نومبر) جس میں ایم کیو ایم کو وقت ضائع کئے بغیر پنجاب کا رخ کرنے کی تلقین کی گئی تھی پڑھنے والوں کو پسند نہیں آیا اور اس ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں انہوں نے کسی قسم کا تکلف‘ لحاظ یا رعایت روا نہیں رکھی اور یہ ان کا حق تھا۔ اندرون ملک خاص کر کراچی اور لاہور سے اور بیرون ملک سے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھا رہا اور ای میلوں سے اِن باکس بھرتا رہا۔ شکایت کرنے والوں کے لہجے میں رنج تھا اور کرب‘ درد تھا اور دلسوزی اور رنجیدگی تھی اور دل گیری۔ کراچی سے ایک صاحب نے تو چیلنج کیا کہ آپ آ کر کراچی میں قربانی کریں اور پھر کھال نہ دے کر اپنا حشر دیکھیں۔ نیویارک سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے جس کی علمیت بلاشبہ قابل رشک ہے‘ مدلل ای میل بھیجی جس کا ایک حصہ یوں ہے :

’’شمالی ہند اور پنجاب کے رہنے والوں کے آپس میں شیر و شکر ہونے کی جو مثالیں آپ نے دی ہیں انکے علاوہ بھی بہت کچھ اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اردو کی خدمت بھی ان سب نے ملکر کی۔ اقبال‘ فیض اور راشد اردو کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر کے ساتھ عبداللہ حسین کھڑے ہیں۔ یہ سب درست ہے لیکن ایم کیو ایم کا ماضی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم‘ مولوی عنایت علی‘ محمد حسین آزاد‘ بیدل‘ تحریک مجاہدین‘ شبلی‘ سید سلیمان ندوی‘ محمد علی جوہر اور دوسرے زعما کی روایات کی امین ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! مجھے افسوس ہے کہ آپ کا کالم مجھے قائل نہیں کر سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد اور جرم کے حوالوں سے ایم کیو ایم کا کردار جاگیر داروں اور صنعت کاروں سے کم نہیں! اس وقت وطن عزیز کو شہری متوسط طبقے کی قیادت کی ضرورت ہے‘ ایسی قیادت جو جرائم‘ تشدد اور کسی بھی قسم کی نسلی اور لسانی گروہ بندی سے پاک ہو۔‘‘

ظاہر ہے ایک مختصر کالم قارئین کے خطوط کا متحمل نہیں ہو سکتا تاہم‘ ایم کیو ایم کے ضمن میں جو تحفظات سامنے آئے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے :۔

-1 تشدد اور جبر کی وارداتوں سے ایم کیو ایم کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا -2 12 مئی کے واقعات کی تحقیقات آج تک کیوں نہیں ہوئی۔ آخر اس المیے کا ذمہ دار کون ہے؟ -3 ایم کیو ایم تحریک کے قائد کی ملک کے اندر ضرورت ہے مگر وہ بدستور ملک سے باہر ہیں -4 ایم کیو ایم ایک عرصہ سے مرکز اور سندھ میں حکمران یا شریک حکمران ہے مگر اپنے دعوؤں کے برعکس ابھی تک اس نے زرعی اصلاحات کا کوئی ہلکا سا خاکہ بھی پیش نہیں کیا اور جاگیر دارانہ اور سرداری نظام کے خاتمے کیلئے کچھ نہیں کیا۔

ان تمام تحفظات کیساتھ ساتھ کالم میں پنجاب کے موجودہ اہل سیاست کے بارے میں جس ناامیدی کا اظہار کیا گیا تھا‘ قارئین نے اسکی بھرپور تائید کی اور اس خیال سے مکمل اتفاق کیا کہ پنجاب کی بساط سیاست پر جو شہسوار اور پیادے کھیل میں مصروف ہیں انکے دامن میں عوام کی حقیقی فلاح کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس کھیل میں بدقسمتی سے برادریوں ‘ قومیتوں اور عصبیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کبھی جاٹ نوازی کے مظاہرے دیدہ دلیری سے کئے جاتے ہیں‘ کبھی کشمیری برادری کو حاوی کیا جاتا ہے۔ میرٹ اور اہلیت نہیں دیکھی جاتی‘ اسکے بجائے اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ ارائیں کون ہے‘ اعوان کون ہے‘ راجپوت کون ہے‘ ککے زئیوں کا نمائندہ کون ہے؟ فلاں مغل ہے یا نہیں؟ اور کٹھڑ کون ہے اور گکھڑ کون ہے؟ جنوبی پنجاب کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ سرائیکی پٹی کے جاگیر داروں نے مختلف سیاسی پارٹیوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنی جاگیروں اور گدیوں کے زور پر چند خاندان پچھلے باسٹھ سال سے اقتدار پر قابض ہیں۔ لغاری‘ کھوسے‘ گیلانی‘ قریشی‘ کھر‘ مخدوم اور کچھ اور بالائی طبقات مڈل کلاس کو سامنے نہیں آنے دے رہے۔ اگر کوئی لبرٹی‘ مارکیٹ‘ گلبرگ‘ ماڈل ٹاؤن‘ شادمان اور ڈیفنس کو دیکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ سارا پنجاب ایسا ہی ہو گا تو وہ سخت غلط فہمی میں ہے۔ ذرا سرگودہا‘ جھنگ‘ میانوالی‘ اٹک‘ جہلم‘ راولپنڈی اور ساہیوال کے دیہات میں جا کر دیکھیں‘ خلق خدا تھانے کچہری کے جس جال میں پھنسی ہوئی ہے‘ اور اتنے عرصہ سے پھنسی ہوئی ہے اور تھانے جس طرح بااثر لوگوں کی مٹھی میں ہیں‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور یہ افسوس ناامیدی کے کندھے پر سوار ہے۔ پنجاب کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ عورتیں کالے رنگ کے تہبند باندھ کر کھیتوں میں غلاموں کی طرح مشقت کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل منڈی بہاؤالدین جانے کا اتفاق ہوا‘ پورا قصبہ گرد کے ایک گہرے بادل میں چھپا ہوا تھا اور مٹی اور دُھول نے پوری آبادی کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ تو پھر … ع

چیست یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟

کوئی مانے یا نہ مانے‘ کوئی ریت سے اپنا سر نکالے یا نہ نکالے‘ کوئی جاگتے میں خواب دیکھنا چھوڑے یا نہ چھوڑے‘ پنجاب کا نجات دہندہ کوئی ایک شخص کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک تحریک کا‘ ایک سیاسی جماعت کا کام ہو گا اور اکیلے آدمی کے بس کی بات نہیں۔ پنجاب کی نجات دہندہ وہ سیاسی جماعت ہو گی جو اپنے اندر انتخابات کرا کر ایک مضبوط قیادت کو اوپر لائے گی اور اس سیاسی قیادت کو برادری ازم سے مکمل طور پر بے نیاز کر دیگی۔ اس سیاسی قیادت کو دو ٹھوس پروگرام دینے ہونگے۔ اول : زرعی اصلاحات ۔ ان خطوط پر جن بھارتی پنجاب میں تقریباً 55 سال پہلے زرعی اصلاحات عمل میں لائی گئی ہیں۔ آج اگر بھارتی پنجاب‘ پاکستانی پنجاب سے رقبے میں چھوٹا ہونے کے باوجود پورے بھارت کو اناج مہیا کر رہا ہے تو یہ کوئی مافوق الفطرت جادو یا سنیاسیوں کا کمال نہیں ہے بلکہ زرعی اصلاحات کا نتیجہ

 ہے اور ملکیت زمین کے ڈھانچے
(Land - Ownership - Pattern)
کو تبدیل کرنے کا اثر ہے۔ دوم : پنجاب میں (بالخصوص دیہی آبادی میں) خواندگی کی شرح جلد از جلد زیادہ کرنے کا پروگرام… سارے سیاسی دعوؤں ‘ اشتہار بازی اور الیکٹرانک میڈیا پر شور و غوغا برپا کرنے کے باوجود ۔۔ تلخ سچائی یہ ہے کہ چند شہروں کو چھوڑ کر باقی پنجاب میں خواندگی کی سطح وہیں کی وہیں ہے جہاں تھی! کہانی ۔۔ گزشتہ کالم میں ایم کیو ایم سے شروع ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں اس وقت اگر کوئی غیر مذہبی سیاسی پارٹی متوسط طبقے پر مشتمل ہے تو وہ ایم کیو ایم ہی ہے لیکن ایم کیو ایم کو وہ دھبے مٹانے ہوں گے جنہوں نے اسکی تصویر کو آلودہ کر رکھا ہے۔ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔!

یہاں تاج اسکے سر پر ہوگا جو تڑکے شہر میں داخل ہو

یہاں   سایہ  ہُما کا  نہیں پڑتا‘  یہاں  کوہ قاف  نہیں  ہوتا

جس ملک میں سردار کے حکم پر جلتے انگاروں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑے‘ سائیں کے گستاخ نوکر کی ہڈیاں پانی میں ابال کر اونٹوں کو کھلا دی جائیں‘ ہاری کی منکوحہ زمیندار کے مستقل استعمال میں ہو‘ زرعی ملکیت کی کوئی حد نہ ہو اور اسکے باوجود چینی اور آٹا ناپید ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس ملک میں سیاسی جماعتیں زرعی زمین کی طرح موروثی ہوں‘ اس ملک میں وہی سیاسی جماعت نجات دہندہ ہو گی جس کی طرف خلق خدا کھنچتی چلی آئیگی اور یوں کھنچتی چلی آئیگی کہ اسے زمیندار روک سکے گا نہ برادری! اور ۔۔ زمیندار اور برادری دونوں سر پِیٹ پِیٹ کر کہیں گے …؎

اس کے ہاتھوں پر نیلم ہے‘ نیلم کا لشکارا

نیلم کا لشکارا دیکھ کے خلق غلام ہوئی

Thursday, November 26, 2009

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو



ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اس نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ اسے پیغام تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جب مریض کے حلق نے دوا آگے گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ قاصد کو تلقین کی گئی تھی کہ اس نے راستے میں کہیں نہیں رکنا بس چلتے جانا ہے۔ ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف‘ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی بستی کی طرف اور اگر رکنا بھی پڑے تو صرف روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹ پینے کیلئے رکے اور ایم کیو ایم کو جا کر پیغام دے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور اگر کھڑے ہوئے ہو تو چل پڑو!


ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ قاصد چاشت کے وقت روانہ ہو گیا تھا پھر دوپہر ہو گئی اور مریض کی حالت زیادہ بگڑنے لگی۔ سب کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔ لیکن جنوب سے کوئی نہ آیا‘ قاصد نہ کبوترنہ رقعہ! سہ پہر کو مریض کے حلق سے ڈرائونی آوازیں آنے لگ گئیں‘ جھاڑ پھونک کرنے والے آ گئے‘ عورتوں نے سروں پر پٹیاں باندھ لیں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے لگ گئیں۔ مردوں نے شملوں والی پگڑیاں اتار کر پھینک دیں اور چارپائیاں اور کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے جمع کرنے گلی گلی گھر گھر پھیل گئے۔ نوشتہ دیوار پڑھا جا رہا تھا‘ لیکن اب بھی امید تھی کہ کراچی والے پنجاب کو اس حال میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ امید اب بھی زندہ ہے‘ زندگی اور موت کے پیدا کرنے والے سے کچھ بعید نہیں کہ مردہ رگوں میں جان پڑ جائے۔ اس لئے ایم کیو ایم والے جب یہ سطور پڑھیں تو اگر بیٹھے ہوئے ہوں تو اٹھ کھڑے ہوں اور اگر کھڑے ہوں تو چل پڑیں۔

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ جب پٹنہ کے مولوی عنایت علی اور ان کے بھائی مولوی ولایت علی نے تحریک مجاہدین کی خاطر اپنی حویلیوں پر ہل چلوانا منظور کر لیا اور سید احمد شہید کی خاطر جانیں ہتھیلیوں پر رکھ لیں اور سرحد اور پھر بالاکوٹ کا رخ کیا تو اہل پنجاب ان کے ہم رکاب تھے۔
مولانا غلام رسول مہر نے ’’تحریک مجاہدین‘‘ میں بالاکوٹ کے شہیدوں کے جو نام تحریر کئے ہیں ان میں میانوالی کے اعوانوں اور پنجاب کے دوسرے علاقوں سے کئی نام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اعظم گڑھ کے سید سلیمان ندوی  افغانستان کے نظام تعلیم کو جانچنے گئے تو سیالکوٹ کے علامہ اقبال ان کے ساتھ تھے۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کو شاہ جہاں نے دہلی ہی میں تو سونے میں تلوایا تھا۔

میر تقی میر نے بہت پہلے ایم کیو ایم کو رقت بھرے لہجے میں بتایا تھا کہ …؎

چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا

ہم اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

عظیم آباد کے مرزا بیدل اور شہر سبز سے آئے ہوئے مرزا اسد اللہ غالب نے نائن زیرو کو سندیسوں پر سندیسے بھیجے  1857 میںدہلی میں اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو فرنگیوں نے پھانسی دی تو اس کا بیٹا مولانا محمد حسین آزاد‘ برسوں بعد‘ لاہور ہی میں علم کے موتی لٹانے آیا۔
حالت یہ تھی کہ محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف جہاں وہ پروفیسر تھے روانہ ہوتے تو راستے میں ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے شاگرد کتابیں کھولے‘ چلتے چلتے ‘ سبق لیتے جاتے۔
پٹنہ میں پیدا ہونیوالے سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے علی گڑھ میں تقریر کی تو پہلا فقرہ یوں آغاز کیا ’’برس دن ہوئے-‘‘ اور پھر پوری تقریر اسی طرح اردوئے معلی میں کی۔ میر تقی میر اور بیدل‘ پٹنہ کے مولوی برادران‘ سلیمان ندوی اور محمد حسین آزاد‘ شبلی نعمانی‘ اور حیدرآباد دکن کے بے مثال خطیب بہادر یار جنگ‘ سب ایم کیو ایم کو ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اگر بیٹھے ہو تو خدا کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جائو اور اٹھے ہوئے ہو تو ایک لخطہ تاخیر کئے بغیر چل پڑو!

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ پنجاب کا متوسط طبقہ زبان فرنگ میں جسے مڈل کلاس کہتے ہیں‘ خون کے آنسو رو رہا ہے وہ ایک طرف پشتینی جاگیرداروں کے تنے ہوئے نیزوں کا سامنا کر رہا ہے اور دوسری طرف برادری پر مبنی اندھا نظام اس کے برہنہ سر پر کوڑے برسا رہا ہے۔
پنجاب کے پڑھے لکھے لوگ جنہیں زبان فرنگ میں INTELLIGENTIA
 کہا جاتا ہے‘ ان دو مسلم لیگوں سے عاجز آ چکے ہیں جو ان پر باری باری حکومت کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو برملا کہتی ہیں کہ کل تمہاری باری تھی تو آج ہماری باری ہے! ایک مسلم لیگ قبل از اسلام کی جاہلیت کو سینے پر یوں سجائے ہے کہ اس نے ناظموں کی اکثریت جاٹ برادری سے نامزد کی۔ پرویز مشرف جیسے آمر کی حمایت ایم کیو ایم نے بھی کی تھی لیکن ایم کیو ایم نے کم از کم بیس بار یہ نہیں کہا کہ ہم وردی والے کو دس بار یا بارہ بار ’’منتخب‘‘ کرائیں گے۔ رہی دوسری مسلم لیگ تو وہ ایک نسلی گروہ سے باہر جانے کو تیار ہی نہیں۔ کیا لوگوں کو یاد نہیں کہ جنرل مشرف نے شب خون مارا تھا تو کسی آنکھ نے آنسو نہیں بہایا تھا کیوں؟ اس لئے کہ اخبارات کے صفحات دہائی دے چکے تھے کہ اسلام آباد اور لاہور میں کلیدی مناصب پر فائز تین یا چار درجن نوکر شاہی کے فرعون صفت نمائندے ایک خاص نسلی گروہ اور لاہور کی ایک خاص آبادی سے تھے!اہل پنجاب‘ لاہور سے عاجز ہیں اور لاہور‘ محلات سے عاجز آ چکاہے‘ محلات‘ محلات ہر طرف بکھرے ہوئے محلات‘ بابل کے معلق باغات لاہور کے محلات کے سامنے غلاموں کے جھونپڑے لگتے ہیں! پورے پنجاب کا بجٹ لاہور پر صرف ہو رہا ہے اور میانوالی سے اٹک تک اور بہاولپور سے خانیوال تک ‘ لوگ‘ دانتوں میں انگلیاں دبائے زندہ دلان لاہور سے پوچھتے ہیں" الیس من کم رجل رشید؟ "کیا تم میں کوئی انصاف پسند نہیں جو تکبر کی اس لہر کے آگے کھڑا ہو سکے؟

اٹک کے ایک گائوں نے خادم پنجاب کی خدمت میں فریاد کی کہ 2005ء میں ضلعی حکومت کی منظور شدہ ڈسپنسری ابھی تک بننی شروع بھی نہیں ہوئی اور یہ کہ ازراہ کرم وہ اہل دہ کو ان کا حق دلوائیں (نوائے وقت پندرہ ستمبر 2009ئ) لیکن خادم پنجاب ‘ پنجاب کے دور افتادہ دیہات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ان کا پنجاب رائے ونڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹائون  پر آ کر ختم ہو جاتا ہے 

جگر مراد آبادی نے انہی کیلئے تو کہا تھا…ع

میری داستاں غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے

ترے سنگ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک

رہے عمران خان تو جو شخص چار سو کنال کا گھر تعمیر کرواتا ہے اور اس میں رہتا ہے‘ اس کا
MiND SET
کیسا ہوگا! وہ تو قبائلی خواتین کو تخت پر بٹھانے والے جرگہ سسٹم کو پورے پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے‘ وہ اسلام کا سبق ان اسلامی رہنمائوں لے رہا ہے جنہیں اسمبلیوں میں بھیجنے کیلئے اپنی صاحبزادیوں اور اپنی بیگمات کے سوا اور کوئی خاتون نظر ہی نہیں آئی! تو کیا ایم کیو ایم پنجاب کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کو ان ’’مخلص‘‘ اور ’’عوامی‘‘ رہنمائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے آپ کو کراچی حیدرآباد اور سکھر کے گلی کوچوں میں بند کر لے گی؟ تو کیا ایم کیو ایم نے ابھی تک آواز نہیں سنی کہ بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور کھڑے ہو تو چل پڑو…؟؟

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اہل پنجاب کا جسم زخم زخم ہے‘ خون رس رہا ہے اور مرہم رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ان زخموں پر زہر چھڑک رہے ہیں‘ کوہ مری کے کسی ایک گائوں کو بھی سوئی گیس نہیں مہیا کی گئی لیکن وہاں جس علاقے میں خادم پنجاب کے فرزند ارجمند نے ’’مکان‘‘ بنوایا ہے‘ وہاں گیس کی پائپ لے جانے پر ستر کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں‘ ڈونگا گلی تک درختوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ انگوری ‘ نامبل مسیاری اور دوسری بستیاں‘ جہاں سے پائپ گزر رہی ہے‘ گیس سے محروم ہیں لیکن شاہی خاندان کو اپنے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا‘ ضابطہ پسندی اور میرٹ کی حرمت کا یہ عالم ہے کہ ایک جرنیل کو جو پنجاب سے نہیں ہے‘ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے‘ یہ وہی پنجاب پبلک سروس کمیشن ہے جس کا شاید ہی کوئی رکن لاہور سے باہر کا ہے

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اگر وہ پنجاب کی طرف بڑھ رہی ہے تو پنجاب کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی برادریوں کے جان لیوا پھندے سے اپنے آپکو بچائے‘ کھرب پتی کالم نگاروں سے با عزت فاصلہ رکھے ورنہ عزت سادات سے محروم ہو جائے گی! جو زرعی اصلاحات بھارت نے 1951ء میں نافذ کر دی تھیں‘ ان سے ملتی جلتی اصلاحات پنجاب میں نافذ کرنے کا نصب العین اپنے سامنے رکھے اور جلدی کرے جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں پر کاری ضرب لگانے کا حوصلہ لے کر آئے توپھر دیر نہ کرے۔بیٹھی ہے تو اُٹھ کھڑی ہواور کھڑی ہے تو چل پڑے
 (پس تحریر۔ اٹک‘ کیمبل پور کے علاقے میں مریض کی خطرناک حالت کے بارے میں اطلاع ان الفاظ کے ساتھ بھیجی جاتی ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ پڑو اور اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

Wednesday, November 25, 2009

تابوت


اس کوشش میں عرصہ ہی لگ گیا، اس اثنا میں جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کا منصب چھوڑتے وقت، اپنے جانشین کے طور پر جو تین نام تجویز کئے، ان میں سرفہرست اس فقیر کا نام تھا۔ ملک صاحب کی منطق یہ تھی کہ نفاذ اردو کیلئے زمین ہموار ہو چکی ہے اور اب مقتدرہ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہئے جو بیوروکریسی سے، کسی احساس کم تری کے بغیر بات کرسکے اور افسر شاہی کے اندر اور باہر کو بخوبی جانتا ہو، ظاہر ہے حکومت کا ظاہری مرکز اسلام آباد لیکن اصل مرکز ملتان تھا۔ پینل میں شامل ایک اور دوست ملتان سے تھے اور نظریاتی طور پر بھی وہ اربابِ حل و عقد کو زیادہ راس آسکتے تھے۔ میرا نام سرفہرست ہونے پر ذوالکفل بخاری کی مسرت کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ پی آر میں صفر ہونے کی وجہ سے میری کامیابی کا کوئی امکان نہیں، لیکن اس نے نظریاتی طور پر صف بندی کرلی اور میرے لئے کوششیں کرنے لگا۔ نظریاتی حوالے سے اپنے (اور میرے) کسی نہ کسی حوالے سے اسے مقتدرہ اور اوپر کے فیصلہ سازی کے مرکزوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں اور وہ مجھے معاملے کی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا۔ اس کی بے تابی سے بعض اوقات مجھے شبہ ہونے لگتا کہ مقتدرہ کے سربراہ کیلئے میرا نہیں، بلکہ اس کا نام زیر غور تھا! لیکن یہ محض اس کا خلوص، بے غرضی اور وہ بلند مقام تھا جس پر وہ شخصیت اور کردار کے حوالے سے فائز تھا! بعد میں یوں ہوا کہ اس فہرست میں سے وزیراعظم نے کسی کو بھی نہ چُنا اور قرعۂ فال ایک بار پھر دوستِ مکرم جناب افتخار عارف کے نام نکل آیا۔ ذوالکفل کو معلوم ہوا تو اس نے مجھے ٹیلی فون کیا۔ وہ بالکل بجھا ہوا اور خاموش سا تھا لیکن میں نے اسے یاد دلایا کہ اس میں ہمارے لئے ضرور کوئی بہتری ہوگی۔ اسے جب میں نے بتایا کہ جناب افتخار عارف کی تعیناتی میرے لئے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کیونکہ میرے ذاتی تعلق کے علاوہ ان کا جو گہرا اور والہانہ تعلق والد گرامیؒ سے رہا اور ہے، اس کے پیش نظر وہ میرے لئے بہت محترم ہیں اور میں اس محبت اور احترام کو ایک لمحے کیلئے بھی پس پشت نہیں ڈال سکتا جو جناب افتخار عارف کے باطن اور ظاہر میں والد گرامی کیلئے تھا۔ اس پر وہ لمحۂ یاس جو اس پر طاری تھا، گزر گیا۔



رواں سال کا کوئی ابتدائی مہینہ تھا۔ فروری یا مارچ، ٹھیک سے یاد نہیں، ذوالکفل کا فون آیا کہ وہ سعودی ویزے کے سلسلے میں اسلام آباد آرہا ہے۔ وہ کام سے فارغ ہو کر میری قیام گاہ پر آگیا۔ شام کو اس نے رخصت ہونے کی بہت کوشش کی لیکن میں نے جانے نہ دیا۔ اس رات وہ میرے پاس ٹھہرا۔ میری اہلیہ اپنی بیٹی اور نواسوں کو ملنے لاہور گئی ہوئی تھی اور مجھے قلق تھا کہ ذوالکفل کی کماحقہ خاطر مدارت نہ ہوسکے گی۔ ہر پوری شام باتیں کرتے رہے اور احساس ہی نہ ہوا کہ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو اسلام کی روح کو روحِ عصر کے حوالے سے سمجھ سکتے تھے۔ اس کے ایک عقیدت مند نے ایک ملازمت کی پیشکش جب صرف اس وجہ سے ٹھکرانا چاہی کہ وہاں انگریزی لباس پہننا پڑتا تھا تو ذوالکفل نے اسے منع کیا اور سمجھایا کہ صرف لباس کی وجہ سے نہ جا کہ بہت سے وہ کام کس طرح کئے جاسکیں گے جو ایک اچھا مسلمان ہی کرسکتا ہے۔


چند دن بعد اس نے مکہ یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے شمولیت کرلی۔ فون پر اس نے بتایا کہ اب وہ مکہ شریف میں رہائش پذیر ہے۔ خانوادہ آنے والا ہے اور یہ کہ میں اہل و عیال کے ساتھ آئوں تو خوب رونق رہے گی۔ اپریل میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں میرا جدہ جانا ہوا۔ میں عمرہ کیلئے حرم پہنچا تو ذوالکفل میر امنتظر تھا۔ عرب لباس میں وہ ایک وجیہہ شہزادہ لگ رہا تھا۔جتنی دیر میں عمرہ کرتا رہا، وہ مقررہ جگہ پر انتظار کرتا رہا۔ عمرہ ختم ہوا اور حجام کے پاس گئے تو اس کے حجام سے قینچی لے کر میرے بالوں کی ایک لٹ اپنے ہاتھوں سے کاٹی۔ اس نے فاسٹ فوڈ ریستوران سے ڈھیر سارا کھانا خریدا اور ہم حرم کے جوار میں بیٹھ کر، پہروں باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن شام گئے وہ جدہ پہنچ گیا اور گردش زمانہ سے کچھ وقت ہم نے پھر چھین لیا۔دو ماہ پہلے اس نے رمضان ملتان میں گزارا۔ فون پر بات ہوئی تو میں نے اصرار کیا کہ شاہ صاحب! اسلام آباد کو اپنے قدموں سے تھوڑی دیر ہی کو سہی، سرفراز فرما جایئے، لیکن ذوالکفل رمضان کے فوراً بعد مکہ مکرمہ واپس چلا گیا۔دس بارہ دن پہلے میں گھر کے لائونچ میں بیٹھا تھا۔ ایک طرف اخبارات کا پلندہ تھا اور دوسری طرف لیپ ٹاپ کھلا تھا۔ عجیب اداس اور پھیکی شام تھی۔ میں نے بیزار ہو کر سامنے پڑا ہوا ٹی وی بندکردیا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ حافظ صفوان تھے۔ مجھے اچنبھا ہوا۔ حافظ صاحب ای میل پر ہروقت رابطے میں رہتے ہیں لیکن فون پہلی بار آیا تھا۔ کاش نہ آتا! ذوالکفل شہرِ امن مکہ کی ایک گلی میں ٹریفک کے حادثے کی نذر ہوگیا۔ مجھے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کیا کروں، کس سے بات کروں، المیہ یہ تھا کہ رونا بھی نہیں آرہا تھا۔ ملتان خالد مسعود کو فون کیا معلوم ہوا وہ امریکہ میں ہے۔ امریکہ کا فون لیکر وہاں اس سے بات کی لیکن ہزار دوستوں سے بھی بات کرلینے سے سینے کے اندر جو آگ سی لگی ہوتی ہے، کہاں بجھتی ہے! میں ڈرائنگ روم میں چلا گیا، جس جگہ وہ بیٹھا رہا تھا، وہاں بیٹھ کر اندھیرے میں آنسو بہائے۔ شائستگی، شرافت، حلم اور محبت کا ایک پیکر تھا، جو رخصت ہوگیا۔ کیا رومی نے دیوانِ شمس تبریز کا یہ شعر ذوالکفل ہی کیلئے نہیں کہاتھا؟…؎


بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد


گماں مبر کہ مرا  فکرِ این و آں باشد

Thursday, November 19, 2009

سید برادران


چلئے مان لیا! آصف علی زرداری منصب صدارت سے ہٹ گئے لیکن صرف اتنا بتا دیجئے، آپ سید برادران کا کیا کرینگے؟

اکیس برس پہلے فوجی آمر کا تختِ رواں ہوا میں تحلیل ہوا اور بے نظیر بھٹو سربر آرائے حکومت ہوئیں تو بتایا گیا کہ وہ خرابی کی جڑ ہیں۔ یہ جڑ کاٹ دی گئی لیکن سید برادران وہیں کے وہیں رہے۔ پھر نواز شریف آئے، انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔ سید برادران قائم و دائم رہے پھر دوبارہ بے نظیر آئیں ایک بار پھر نواز شریف آئے، دونوں ہٹا دئیے گئے۔ سید برادران وہیں کے وہیں رہے، پھر پرویز مشرف نے شب خون مارا اور آٹھ سال سروں پر منڈلاتا رہا، ہمیں یقین دلایا گیا کہ وہی ساری مصیبتوں کا سبب ہے۔ اسے ہٹانے کیلئے کوشش کرنیوالوں نے کوشش کی، ایڑی چوٹی کا زور لگا، وہ ہٹ گیا تو معلوم ہوا کہ سید برادران کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب آصف زرداری کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مجھے آصف علی زرداری سے کوئی عقیدت ہے نہ ہمدردی! جس صدرِ مملکت کے شب و روز پراسراریت میں لپٹے ہوئے ہوں، اور جو بڑے بڑے سے بڑے حادثے پر کبھی نظر نہ آیا ہو اور جسکے آگے پیچھے ایسے لوگ ہوں، جیسے اب اسکے آگے پیچھے ہیں، اس صدرِ مملکت ک ساتھ کوئی اندھا ہی عقیدت رکھ سکتا ہے اور کوئی پاگل ہی ہمدردی رکھے گا، لیکن آصف علی زرداری ایوانِ صدر سے رخصت ہو بھی گئے تو مجھے خدا کیلئے کوئی سمجھائے، کوئی بتائے کہ سید برادران سے چھٹکارا کیسے ملے گا؟
سید برادران دو بھائی تھے ایک کا نام عبداللہ خان تھا اور دوسرے کا حسین علی تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات 1707 میں ہوئی۔ اورنگ زیب اپنے عہد حکومت کے آخری پچیس سال دکن سے نکل ہی نہ سکا اور اسکے زمانے میں جو عروج کہلا رہا تھا، دراصل زوال کا آغاز تھا۔ وہ مرہٹوں میں ایسا الجھا کہ باقی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے میں اسکی موت کے بعد دیر ہی نہ لگی۔ اس افراتفری، نفسا نفسی،
اس غدر اور اس
     Cut Throat
  میں سید برادران، بادشاہگر بن گئے۔ ان کا باپ سید میاں بیجاپور کا صوبیدار (گورنر) تھا۔ 1720ء تک سید برادران کی مرضی کے بغیر بے نظیر تخت آراء ہو سکتی تھی نہ نواز شریف اور نہ آصف علی زرداری!
اورنگ زیب عالمگیر کا بیٹا معظم، بہادر شاہ کے لقب سے تخت پر بیٹھا اصل اقتدار سید برادران کے ہاتھ میں تھا۔ بہادر شاہ مرا تو اس کے چار بیٹے پھر آپس میں لڑے۔ تین قتل ہوئے اور چوتھا جہاندار شاہ بادشاہ بنا، سید برادران وہیں کے وہیں رہے پھر اس کا بھتیجا فرخ سیر تخت پر بیٹھا۔ طاقت کا مرکز سید برادران ہی رہے ان میں سے ایک بھائی وزیر اعظم بن گیا اور دوسرا کمانڈر ان چیف یہ اس قدر طاقت ور تھے کہ دہلی کو اپنی مٹھی میں رکھنے کیلئے مرہٹوں کیساتھ مل گئے اور 1719 میں ان کیساتھ باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔ بادشاہ فرخ سیر نے ان کا ہر مطالبہ پورا کیا لیکن اسکے باوجود انہوں نے اسکی آنکھیں نکال لیں اور اذیتیں دے دے کر مارا۔ پھر اب انہوں نے رفیع الدرجات کو بادشاہ بنایا۔ لیکن اقتدار کا ایک ایک سرچشمہ، ایک ایک قلم دان سید برادران کے پاس ہی رہا۔ بادشاہ آتے رہے، جاتے رہے…؎
کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
لیکن اقتدار سید برادران ہی کا رہا وزیروں کی تعیناتیاں انکی مرضی سے ہوتی تھیں۔ گورنر وہ لگاتے تھے فوجی افسروں کی ترقیاں انکے ہاتھ میں تھیں۔ بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ اُنکے اشارہ ابرو سے ہوتی تھی۔!تو آپ آگے بڑھئے، دیر نہ لگائیے، آصف زرداری کو ہٹا دیجئے، نواز شریف کو لے آئیے، پھر اُسے ہٹا دیجئے، پھر کسی اور کو ایوان صدر میں کسی اور کو وزیراعظم کے محل میں داخل کردیجئے پھر اُسے بھی نکال دیجئے، لیکن ایک بات کا یقین کرلیجئے کہ اصل اقتدار سید برادران کے ناپاک ہاتھوں ہی میں رہے گا! چینی کے کارخانے انہی کے قبضے میں رہیں گے۔ آٹے پر انہی کا کنٹرول رہے گا۔ ملازمتیں یہی بانٹیں گے۔ فیکٹریاں اور ملیں اِ ن ہی کی ہوں گی، جاگیریں اِنکے پاس ہی رہیں گی۔ سنگ مرمر کی کانوں کے مالک یہی رہیں گے اور سرداریاں انہی کے سامنے دست بستہ کھڑی رہیں گی۔!
آپ خود سوچئے، آصف علی زرداری کے آنے جانے سے اور نواز شریف کے تیسری چوتھی یا گیارہوں بارہویں بار وزیراعظم بننے سے کیا فرق پڑیگا؟ کیا امین فہیم کی صاحبزادی کو…جو بغیر کسی امتحان کے بیرون ملک تعینات کی گئی ہے نکال کر کسی اور کو میرٹ پر رکھ لیا جائیگا؟ کیا چینی اور آٹے کے کارخانے کے مالکوں کو بھڑکتے تنوروں میں ڈال دیا جائیگا جس طرح سعودی بادشاہ عبدالعزیز نے روٹی کا وزن کم کرنے والے کو اپنے سامنے تنور میں ڈال دیا تھا اور پھر آج تک روٹی کا وزن کم ہوا نہ قیمت بڑھی! کیا زرداری اور نوازشریف کے جانے یا آنے سے اکبر بگتی کا بیٹا ملک کے طول وعرض میں یہ کہنا چھوڑ دیگا کہ سرداری نظام کے سوا کوئی اور نظام قابلِ قبول نہیں، اور یہ کہ جُھوٹے کو پکڑنے کیلئے اُسے دہکتے انگاروں پر چلانا ایک جائز فعل ہے۔ کیا میر علی بگتی کی نجی جیل ختم کردی جائیگی اور کیا ڈیرہ بگتی کے غریب سرکاری ملازموں کو تنخواہ عالی بگتی کی تجوریوں سے ملے گی۔
کیا زرداری کے جانے سے اور کسی کے آنے سے وعظ کرنیوالے اور مضامین لکھنے والے ریٹائرڈ جرنیلوں کے اثاثوں کا حساب ہو سکے گا اور کیا مرحوم جرنیلوں کی اولاد کے کھرب پتی ہونے کے راز سے پردہ اُٹھ سکے گا؟ کیا عورتوں کو جلانے اور گولیاں مارنے والے وزارتوں سے ہٹ جائیں گے؟ کیا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور وزارت میں میرٹ کے بغیر لاکھوں کی تنخواہوں پر نوکریاں لینے والے برطرف کر دئیے جائیں گے؟ کیا مونس الٰہی اور حمزہ شہباز شریف کی تخت نشینیاں رُک جائیں گی؟ کیا وسیم سجاد اور شریف الدین پیرزادہ جیسے چمکتے ستاروں سے قوم کی گلوخلاصی ہو جائیگی؟ کیا اپنے آپکو خدا سمجھنے اور ہرقانون سے بالاتر گرداننے والے ’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے آگے سرجھکالیں گے؟ کیا ملازمتیں سفارش کے بغیر ملنا شروع ہوجائینگی؟ کیا سرکاری مکان حق داروں سے چھین کر سفارش کے زور پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو دلوانے والے (جن کے نام ہاؤسنگ اور تعمیرات کی وزارت نے خود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں) کیفرکردار کو پہنچیں گے؟
کیا وزارت ِداخلہ سے پوچھا جائے گا کہ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی کمپنی سے بارود کی نقل حرکت کا لائسنس منسوخ کرکے دوبارہ کیوں جاری کیا گیا جبکہ اس کمپنی نے کروڑوں روپے کا بارود کہاں اور کس کو دیا؟ کسی کو معلوم نہیں! کیا چینی کے مجرم کارخانہ داروں کے حق میں خاموش رہنے والی کابینہ کے 72 وزراء کو برطرف کرکے نشان عبرت بنایا جا سکے گا؟ کیا صدر وزیراعظم وزیروں مشیروں اور صوبائی حکمرانوں سے وہ مراعات واپس لے لی جائینگی جو بھارت میں دی جاتی ہیں نہ کسی مغربی ملک میں! کیا سنگاپور، کینیڈا اور دوسرے مہذب ملکوں کی طرح ہماری کابینہ کی اکثریت بھی پی ایچ ڈی پر مشتمل ہوگی اور کیا اُن گاموں ماجھوں سے قوم کی جان چھوٹ جائیگی جو اس دھرتی پر بوجھ ہیں اور ملک کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں؟ اور کیا وفاداریاں بدل کر ہمیشہ اقتدار میں رہنے والوں اور رہنے والیوں کے چہروں پر کالک ملی جائیگی؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا اور اقتدار ’’سید برادران‘‘ کے قبضے ہی میں رہنا ہے تو مجھے اس سے کیا غرض کہ کون جاتا ہے اور کون آتا ہے؟
؎ میری بلا سے بُوم رہے یا ہُما رہے

Tuesday, November 17, 2009

شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں


آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ جناب سکندر خان کی خدمت میں یہ اطلاع نہایت ادب سے پیش کی جاتی ہے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو پہلے یہ اس کے پائوں کو ڈالا گیا، پائوں کی ہڈیاں تڑا تڑ ٹوٹ گئیں، پھر آہستہ آہستہ شکنجے کو اوپر سرکایا جاتا رہا، ہڈیاں ٹوٹتی گئیں، تڑ تڑ تڑ، ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو اس زمانے میں غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ شکنجہ خالد کے سر تک پہنچ گیا اور اس کا دم نکل گیا!



فرشتے آسمانوں پر حیران ہیں کہ جب چینی کے کارخانوں کے مالکوں کی طرف سے جناب سکندر خان مسابقتی کمشن میں پیش ہوئے اور نرم برتائو کی درخواست کی تو انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا جا رہا تھاکہ آسمان سے پتھر برسائیں! غضب خدا کا! چینی کی فیکٹریوں کے مالکان نے پہلے گٹھ جوڑ کیا اور کارٹل بنایا۔ کارٹل انگریزی میں اس مجرمانہ اکٹھ کو کہتے ہیں جو کارخانوں کے مالک بے بس صارفین کو اذیت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کارخانہ داروں نے سب کچھ کیا۔ ذخیرہ اندوزی کی حالانکہ اللہ کے آخری رسولؐ نے صاف صاف حکم دیا تھا کہ ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ پھر انہوں نے قیمتیں بڑھائیں یہاں تک کہ خدا کی مخلوق چیخ اٹھی۔ میں یہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب ایک بڑھیا جو قطار میں کھڑی کھڑی نڈھال ہو رہی تھی اور گرنے کے قریب تھی، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کارخانہ داروں کو بددعا دے رہی تھی، میں نے اوپر دیکھا، ایک بدلی فضا میں اٹکی ہوئی تھی اس کے قریب سے ایک پرندہ اڑ رہا تھا، کارٹل …؟ ایک کارٹل…؟ ایک ہزار… ایک کروڑ… ایک کھرب کارٹل…؟ بددعا کو فضا میں اٹکی ہوئی بدلی کے اوپر جانے سے کوئی کارٹل نہیں روک سکتا!


غضب خدا کا! ان کارخانہ داروں نے کارٹل بنا کر ہر وہ کام کیا جس سے صارفین کی زندگی جہنم بنی اور اب یہ کارخانہ دار مسابقتی کمشن کی خدمت میں یہ درخواست دے رہے ہیں کہ آرڈیننس کی شق 39 کی رو سے ان سے نرمی برتی جائے! یہ کیسا ملک ہے جس میں سب کے لئے قانون کوئی نہ کوئی نرمی ڈھونڈ لیتا ہے، کبھی این آر او کی شکل میں کبھی آمروں کیلئے نظریۂ ضرورت کی صورت میں اور اب اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنے والے مسابقتی کمشن سے نرمی کی درخواست کر رہے ہیں۔ یہ صرف عوام ہیں جن کے لئے کوئی این آر او ہے نہ کوئی نرمی!


چینی کے بحران کے ذمہ دار مشرف کی کابینہ میں تھے یا جناب یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں بیٹھے ہیں، قاف لیگ کے تخت پر متمکن ہیں یا نواز لیگ کے اقتدار کا حصہ ہیں یا پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر بادشاہی کے مزے لوٹ رہے ہیں، وہ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو اس کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ یہ خالد بن عبداللہ تھا جسے اموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک نے کوفہ کا گورنر بنایا اور پھر یہ پورے پندرہ سال 105 ہجری سے 120ھ تک عراق کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس کی ماں یورپ کی عیسائی عورت تھی اس لئے اسے ابن النصرانیہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس نے مسجدوں کے مینار منہدم کرا دیئے اور سبب یہ بتایا کہ موذن ان پر چڑھ کر لوگوں کے گھروں میں جھانکتے ہیں اور عورتوں سے تانک جھانک کرتے ہیں لیکن یہ وہ بات نہیں جو ہم خالد بن عبداللہ کے بارے میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔


مخلوق کو اذیت میں مبتلا کر کے دولت مند بننے والے حکمران پہلی بار نہیںظاہر ہوئے، ایسے عاقبت نااندیش پہلے بھی ہو گزرے ہیں لیکن ان کے انجام سے سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ خالد کے حکمران ہشام بن عبدالملک نے پایۂ تخت دمشق سے خالد کو خفیہ پیغام بھیجا کہ جب تک خلیفہ کا غلہ فروخت نہ ہو جائے کسی دوسرے کو غلہ فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ خالد نے غلہ یچنے پر پابندی عائد کر دی۔ گرانی پھوٹ پڑی، لوگ قطاروں میں کھڑے ہوگئے، غلے کی قیمت آسمان پر جا پہنچی۔ آج جناب سکندر خان لاکھوں کروڑوں عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، کاش وہ آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھیوں کو جمع کر کے انہیں یہ بتاتے کہ ایک نظام اور بھی ہے جو اس کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو اس نظام کی پرواہ نہیں کرتے ان کا انجام وہی ہوتا ہے جو خالد بن عبداللہ کا ہوا تھا!


عربی کے مشہور شاعر فرزدق نے اس کی ہجو میں کیا ہی زبردست شعر کہا


’’ارے اللہ اس سواری کی پشت کا برا کرے جو دمشق سے لڑ کھڑاتے ہوئے خالد کو ہمارے پاس لائی!‘‘


آج پیپلز پارٹی کے وزیر اپنے صاحبزادوں کی شادیوں پر کُنڈے لگا کر بجلی غصب کرتے ہیں اور لوگوں کو اندھیرے میں دھکیلتے ہیں تو یہ کون سی نئی بات ہے۔ خالد بن عبداللہ کے ایک ملازم طارق کے بچے کے ختنے کی تقریب تھی تو اس نے مالک کو ان گنت دوسرے تحائف کے علاوہ ایک ہزار غلام اور ایک ہزار لونڈیاں پیش کیں۔ خالد نے اپنے بھائی کو موجودہ افغانستان کا حکمران نامزد کیا جو ان دنوں خراسان کہلاتا تھا۔ بلخ (موجودہ مزار شریف) دارالحکومت تھا۔ عید پر اسے سونے کے محل کے ماڈل‘ طلائی لوٹے‘ چاندی اور سونے کے بادیے اور رکابیاں اور سونے کی بنی ہوئی بڑی بڑی گیندیں تحفے میں ملیں، پھر یہی خالد قید ہوا اور عراق کا نیا گورنر اسے ہر روز نئی سزا دیتا تھا اور چھپا ہوا مال اگلواتا تھا۔ چینی کے کارخانہ داروں سے ہماری دست بستہ گزارش ہے کہ خالد کے بارے میں (جس نے عراق میں غلے کی قلت بالکل اسی طرح پیدا کی تھی جس طرح آج پاکستان میں چینی کا مصنوعی قحط پیدا کیا گیا ہے) ابن خلکان کے یہ الفاظ پڑھیں اور ازراہِ کرم غور سے پڑھیں۔


’’اس نے (نئے گورنر نے) دو لکڑیوں کے درمیان اس کے پائوں رکھے اور ان کو نچوڑ دیا حتیٰ کہ وہ ٹوٹ گئے، پھر اس نے دونوں لکڑیوں کو اس کی پنڈلیوں تک بلند کیا اور ان کو نچوڑ دیا۔ حتیٰ کہ وہ بھی ٹوٹ گئیں پھر اس نے لکڑیوں کو اس کی رانوں تک بلند کیا پھر اس کی کمر تک، پس جب اس کی کمر ٹوٹ گئی تو وہ مر گیا…‘‘


بہت ہو چکی یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں، نہ کسی کے باپ کو وراثت میں ملا تھا! اس ملک کے مالک عوام ہیں اور یہ مالک کبھی آٹے کے لئے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مجرم کابینہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی یہ مالک چینی کے ایک ایک دانے کے لئے ترستے ہیں اور ساٹھ روپے فی کلوگرام لیتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مجرم پھر کابینہ میں بیٹے ہوتے ہیں، مرکز کی کابینہ میں، پنجاب کی کابینہ میں، سندھ اور سرحد کی کابینہ میں اور سیاسی پارٹیوں کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں نہیں! اب یہ ظلم مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملزم شکنجوں میں کسے جائیں ان کے پائوں‘ ان کی رانیں اور ان کی گردنیں ٹوٹیں اور لوگ آوازیں سنیں!


یہ عجیب تماشا ہے کہ پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ کلاس تک سبق پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں خالص شہد صرف آسٹریلیا کا پایا جاتا ہے دودھ نیسلے کا ہے اس لئے کہ ایک پائو دودھ میں ایک من پانی ملانے والے کیلئے بھی کوئی سزا نہیں ہے، آٹا ناپید ہے، چینی کا بدترین بحران ہے، گوشت پونے چار سو روپے کلو ہے، مرغی خریدنے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچتے ہیں اور مرغی کی خوراک بنانے والے اس میں ایسی ایسی غلاظت شامل کر رہے ہیں جو مہذب ملکوں میں کتے اور سور کو بھی نہیں کھلائی جاتی۔ چند ماہ پہلے چیف جسٹس نے مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کے اجزا شامل کرنے پر متعلقہ کارخانہ داروں کو شرم دلائی تھی۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے! شاید یہ محض اس لئے زرعی ملک ہے کہ جاگیردار اور زمیندار منتخب اداروں میں نسل در نسل اور پشت در پشت بیٹھے ہیں!


لیکن اب خلقِ خدا شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں سننا چاہتی ہے!!

Thursday, November 12, 2009

مسّلح افواج اور سول سروس… ایک تقابل


سرپر بال کسی زمانے میں ہوں گے، اب نہیں تھے جو جھالر کی صورت میں باقی تھے، سفید تھے۔ جُھریوں کا لشکر چہرے کی طرف ہر اول دستہ بھیج چکا تھا اور چہرے کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر چکا تھا۔ لہجے میں دُکھ تھا۔ بے پناہ دُکھ۔ احتجاج تھا، ایسا احتجاج کہ اگر اس کا بس چلتا تو شاہراہ دستور پر واقع طاقتور ’’اداروں‘‘ کو وہ ضرور تہس نہس کر دیتا۔



’’میں نے حکومت پاکستان کو اپنی زندگی کا بہترین حصہ دیا۔ اڑتیس سال۔ دیانت داری سے کام کیا۔ حکومت کے خزانے کے اربوں کھربوں روپے بچائے اور حکومت نے میرے ساتھ کیاکیا؟ ریٹائرمنٹ پر ایک پلاٹ دیا تاکہ میں گھر بنا کر سر چھپا سکوں لیکن ایسی جگہ جہاں اگلے دس سال تک گھر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہاں تو گائوں کے گائوں آباد ہیں۔ وہاں تو سڑک تک نہیں بنی اور وہ جو ساری زندگی ’’صحیح‘‘ طریقے سے ’’نوکری‘‘ کرتے رہے، انہوں نے راتوں رات اپنے پلاٹ ’’وی آئی پی‘‘ سیکٹروں میں ’’منتقل‘‘ کرا لئے، یہ ہے اس حکومت کا انصاف!‘‘


اُس کا سانس پھول چکا تھا۔ میں نے اُس کیلئے پانی منگوایا اور تسلّی دینے کی کوشش کی۔ ’’آپ کی شکایت حق بجانب ہے، لیکن ایسا تو بہت سے سرکاری ملازموں کے ساتھ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟‘‘ … ’’حل بہت آسان ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا ’’سول سرکاری ملازموں کے گھروں اور پلاٹوں کے منصوبے پاکستان آرمی کے سپرد کردیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی پلاٹوں پر تعمیر شروع کرنی ممکن ہو جائے گی!‘‘


وہ تو رو دھو کر، دل کا غبار نکال کر چلا گیا اور مجھے وہ خط یاد آنے لگے جو وقتاً فوقتاً اخبارات میں پڑھنے والوں کی طرف سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے کئی خطوط یاد آئے جن میں سرکاری ملازموں نے مطالبہ کیا تھا کہ سول حکومت کے رہائشی منصوبے فوج کے ذمے لگائے جائیں تاکہ وقت پر مکمل ہو سکیں۔


ملک کی تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ فوجی آمروں کے ہاتھ سے سیاہ ہو چکا ہے۔ کسی نے ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا اور کوئی نوے دن کے وعدے کو کھینچ کر گیارہ سال تک لے گیا اور کوئی قاف لیگ کے کندھے پر بیٹھ کر نوسال تک قوم کا منہ چڑاتا رہا، لیکن کیا فوج بطور ادارہ اسکی ذمہ دار ہے؟ نہیں! اور اگر ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہوں کیخلاف فوج نے بغاوت نہیں کی تو یہ بھی فوج کے محاسن میں سے ہے‘ اس لئے کہ جن ملکوں کی فوجیں تقسیم ہو کر آپس میں لڑنے لگتی ہیں اُن پر تاریخ رشک کرتی ہے نہ اُن کی ہم عصر دنیا!


اِس وقت پورے سرکاری سیکٹر میں مسلح افواج ہی وہ ادارہ ہیں جن کے تنظیمی ڈھانچے، اندرونی احتساب اور انٹرنل آڈٹ کا مقابلہ مغربی دنیا کے کارپوریٹ سیکٹر سے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں وقت کی پابندی ہے اور منصوبوں کو وقت پر ختم کرنے کی روایت جو برقرار رکھی جا رہی ہے۔ اسکے مقابلے میں سول حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایئے! ایک ہفتہ پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو متعلقہ وزارت نے خود بتایا کہ ستر سرکاری مکان سفارشوں کی بنیاد پر الاٹ کئے گئے ہیں۔ سفارش کرنیوالے ’’معززین‘‘ کے اسمائے گرامی بھی اخبار میں شائع ہوئے لیکن وزارتِ عظمیٰ کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی!


پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونیوالے فوجی افسروں کو بنے بنائے مکان دینے کا منصوبہ 1980ء میں شروع کیا۔ اس کا ایک طریق کار وضع کیا گیا، قوانین بنائے گئے، ملازمت کے دوران فوجی افسروں کے جی پی فنڈ سے مکانوں کی قیمت اقساط میں لینے کے فارمولے طے کئے گئے۔ اُس وقت سے لیکر آج تک یہ سکیم انصاف کیمطابق چل رہی ہے۔ الاٹمنٹ کے قوانین بھی وہی ہیں اور غالباً ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ کسی منظورِ نظر کو کسی عامی پر ترجیح دی گئی ہو۔ ہماری معلومات کیمطابق ریٹائر ہونیوالے کسی فوجی افسر کو بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی۔ اسکے مقابلے میں اسلام آباد کی ہائوسنگ فائونڈیشن کا حال دیکھئے۔ سول ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر بنے بنائے گھر دینے کا یہ منصوبہ 1988ء میں شروع ہوا‘ اب تک

 اسکے چار مرحلے
(PHASE) منظرِ عام پر آچکے ہیں اور ہر مرحلے 

میںالاٹمنٹ کا معیار بدل دیا گیا۔ صرف اس لئے کہ کچھ کو نوازا جاسکے اور کچھ کی تذلیل کی جاسکے۔ پہلے مرحلے میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بنے بنائے گھر دیئے جائینگے۔ یہ منصوبہ بُری طرح ناکام ہوا۔ بعد کے تین مرحلوں میں پلاٹ دیئے گئے اور ہر بار طریقِ کار نیا وضع کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ جن سرکاری ملازموں کو ریٹائر ہوئے دو دو سال ہو چکے ہیں وہ بھی جی۔14 میں گھر نہیں بناسکتے! یہاں مجھے سلیم بہادر خان یاد آرہے ہیں۔ 1988ء میں ہائوسنگ فائونڈیشن کے پہلا مرحلہ کا آغاز ہوا تو سلیم بہادر خان پاکستان ایئرفورس کے مالی مشیر تھے۔ مالی مشیر اور اُس کا محکمہ وزارتِ خزانہ کا حصہ ہوتا ہے۔ سلیم بہادر خان حافظ رحمت خان روہیلہ کے خاندان سے ہیں اور اُسی رکھ رکھائو، شرافت اور مہمان نوازی کی صفات سے آراستہ ہیں جو روہیل کھنڈ کے نوابوں میں پائی جاتی تھی۔ انہوں نے ایئرفورس کے کئی اصحابِ ’’قصا و قدر‘‘ کو برج کھیلنا سکھایا لیکن اپنے لئے کوئی جائز سہولت بھی نہ مانگی۔ اسلام آباد ہائوسنگ فائونڈیشن نے سرکاری ملازموں کو مکان دینے کا منصوبہ شروع کیا تو انہوں نے بھی طریق کار کیمطابق درخواست دی لیکن وزارت نے انہیں ’’آگاہ‘‘ کیا کہ چونکہ آپ پہلے سے ہی ایک مکان کے مالک ہیں اسلئے اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سلیم بہادر خان کو بذلہ سنجی سے بھی وافر حصہ ملا تھا۔ انہوں نے جواب لکھا کہ ’’میرا‘‘ یہ مکان جسے ہائوسنگ کی وزارت نے ’’دریافت‘‘ کیا ہے، جہاں کہیں بھی ہے، مجھے اس کا محلِ وقوع بتایا جائے تاکہ میں اس پر قبضہ کرسکوں۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ وزیر صاحب کسی ایسے منظورِ نظر کو نوازنا چاہتے تھے جو معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ اس کیلئے خان صاحب کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور دھاندلی کی یہ صرف ایک مثال نہیں!


اسلام آباد حکومت کی ’’سنجیدگی‘‘ کا اندازہ لگانا ہو تو سول افسروں کے دفتروں کی دیواروں پر لگے ہوئے لکڑی کے بورڈوں کا ’’مطالعہ‘‘ کیجئے۔ ان بورڈوں پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کون کون سے افسر کتنا کتنا عرصہ اس دفتر میں رہے۔ اگران تمام بورڈوں پر درج شدہ اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں تو ایک دلچسپ تجزیہ سامنے آئے گا۔ تین سالہ مقررہ میعادِ عہدہ پر عملدرآمد کا یہ حال ہے کہ کہیں تو دس دس سال تک ایک ہی شخص بیٹھا ہے اور کہیں چند مہینوں بلکہ چند ہفتوں بعد تبادلے کردیئے جاتے ہیں اور یہ انتظامی کارکردگی ان لوگوں کا کارنامہ ہے جو غریب عوام کی جیبوں سے کاٹے گئے ٹیکس کے روپے پر ہارورڈ اور دوسری یونیورسٹیوں سے انتظام عامہ (پبلک ایڈمنسٹریشن) کے کورس کرکے آتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں فوجی افسروں کے دفتروں میں لگے بورڈ بتاتے ہیں کہ مقررہ میعاد ہمیشہ اور ہر حال میں پوری کرنی ہے اور پوری ہو جائے تو اس کے بعد کوئی رہ بھی نہیں سکتا! آپ سول ملازمین کیساتھ کیے جانیوالے مذاق کا اندازہ لگایئے کہ جو بغیر تعیناتی کے ہیں انہیں کھلم کھلا بتایا جاتا ہے کہ کسی وزیر یا بڑے آدمی کی سپانسر شپ (سرپرستی) کا بندوبست کرو اور تعیناتی لے لو! بیرون ملک تعیناتیوں کا حشر اس سے بھی بدتر ہے۔ گزشتہ تیس سالوں کی فہرست اگر بنائی جائے تو معلوم ہوگا کہ راولپنڈی، لاہور، کراچی اور پشاور کے ڈپٹی کمشنر سب سے زیادہ بیرون ملک تعینات کئے گئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان ڈپٹی کمشنروں کو دن میں کئی بار ائیرپورٹ پر وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے استقبال کیلئے جانا پڑتا ہے اور جو سیاست دان ایک قلیل عرصہ کے دوران ستر سرکاری مکان حق داروں کے منہ سے چھین سکتے ہیں وہ اپنے منظور نظر سرکاری نوکروں کو بیرون ملک کیوں نہ تعینات کرائیں گے! اور جو اور بھی زیادہ خوش قسمت ہیں وہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بن جاتے ہیں اور پھر دھاندلی کی انتہا کرتے ہوئے اور وزرائے اعظم کی عاقبت ’’سنوارتے‘‘ ہوئے اپنی پسندیدہ

اسامیوں پرفائز ہو جاتے ہیں۔اس وقت ایشیائی ترقیاتی بنک فلپائن وفاقی محتسب،
، NEPRA،
ہر جگہ سابق پرنسپل سیکرٹری تعینات ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پانچ پانچ سال تک وزیراعظم کی ’’میرٹ‘‘ پالیسی کا مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کے دودھ پر پلنے والے یہ اژدہے عوام سے کئی نوری سالوں کے فاصلے پر اس معیار زندگی سےلطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا عوام تصور تک نہیں کرسکتے
ریٹائر ہونیوالے سرکاری ملازموں سے جو سلوک اسلام آباد کی حکومت کر رہی ہے اس کا مسلح افواج میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ مسلح افواج میں ہر ریٹائر ہونیوالے جرنیل کو دو سال کی ملازمت کی پیشکش کی جاتی ہے۔ جو وہ منظور کرلیتا ہے یا انکار کر دیتا ہے لیکن ہماری معلومات کے مطابق پیشکش ہر ایک کو کی جاتی ہے۔ اسکے مقابلے میں سول سروس میں بدترین قسم کا ’’امتیازی‘‘ نظام رائج ہے۔ جو ’’خوش قسمت‘‘ ہیں انہیں لاکھوں روپے ماہوار کی ’’تنخواہ‘‘ پر پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل میں ’’رکھا‘‘ جا رہا ہے اور جن کی رسائی وزیراعظم یا ایوان صدر تک نہیں ہوتی انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی دھاندلیاں اور ناانصافیاں مسلح افواج میں نہیں ہو رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ اسکی یوں تو متعدد وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ سیاست دانوں کی کوتاہ نظری ہے۔ بدقسمتی سے یہ کوتاہ نظری کور چشمی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ اپنے ذاتی فوائد کیلئے اور اقربا پروری اور دوست نوازی کے جنون ہیں سیاستدانوں نے سول سروس کے پورے نظام کو طاعون زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کی ترقیاں ہونی چاہئیں۔ وہ کونوں کھدروں میں پڑے سسک رہے ہیں اور جنہیں ٹکٹکی پر باندھا جانا چاہئے وہ ’’اوپر‘‘ جا رہے ہیں۔ سول سروس میں دیانت دار اور سرکاری ملازموں کا حال ضیا سرحدی کے بقول یہ ہے کہ …؎



ہم نے اقبال کا کہا مانا


اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے


جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں


ہم خودی کو بلند کرتے رہے


اہل سیاست نے سول سروس کو اس بری طرح اپنی کوتاہ نظری کی آماجگاہ بنایا کہ یاسین وٹو مرحوم جیسے ’’تابعدار‘‘ وزیر کو بھی اْس وقت کے وزیراعظم کے نام احتجاجی مراسلہ لکھنا پڑا کیوں کہ وزیراعظم نے ایک ایسے سرکاری ملازم کو ترقی دیدی تھی جس کو متعلقہ پروموشن بورڈ نے ایک سے زیادہ بار نااہل قرار دیا تھا! اْسی زمانے میں یہ بھی ہوا کہ ایف آئی اے میں تیس افراد بھرتی کئے گئے جن میں سے اٹھائیس کا تعلق ایک خاص نسلی گروہ سے تھا! اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ صوبوں میں چیف سیکرٹری اتنی تیزی سے بدلے جاتے ہیں کہ اس رفتار سے عرب شیوخ بیویاں بھی نہیں بدلتے۔


رہا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو اسکی حیثیت ایک داشتہ سے زیادہ نہیں۔ جسے پرسنل سیکرٹری کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو ایک ڈاک خانہ بن کر رہ گیا ہے جو سیاست دانوں، وزیراعظم اور ایوان صدر تک کے احکام کو آگے روانہ کر دیتا ہے۔ نوکر شاہی کا جو رکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سیکرٹری لگتا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی نوکری کے لالچ میں غلامی کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔ اسکی مثالیں واضح اور واشگاف ہیں۔ ایک صاحب جو اس اسامی سے سالہا سال پہلے ریٹائر ہوئے، اپنی ’’گونا گوں‘‘ ’’خدمات‘‘ کے عوض آج بھی ’’وظیفہ خوار‘‘ ہیں اور ’’شاہ‘‘ کے دعاگو ہیں!! یہ صورتِ حال خوش قسمتی سے مسلح افواج میں نہیں ہے۔ بّری فوج کی ایم ایس برانچ… جو افسروں کی ترقیوں اور تعیناتیوں کی ذمہ دار ہے۔ ایک ضابطے اور ترتیب سے کام کررہی ہے۔ فوج کا نظام سول سروس سے کئی گنا زیادہ شفاف ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام سیاستدانوں کی دست بْرد سے بچا ہوا ہے۔ ایک صاحب جو بہت تھوڑے عرصہ کیلئے وزیراعظم بنے، انہوں نے سب سے پہلے اپنے ایک اہم قبیلہ کو نوکری کی معراج پر پہنچایا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اسے جرنیل بنا دیتے۔ اہلِ سیاست کو یہی تو قلق ہے کہ وہ اپنے بھانجوں بھتیجوں کو تحصیل دار تو بنوا سکتے ہیں، بیرون ملک بھی تعینات کرا سکتے ہیں لیکن انہیں کرنل بریگیڈئر اور جرنیل نہیں بنوا سکتے۔ مسلح افواج کا یہ نظم و ضبط اور شفاف نظام امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور اس کا انکے نزدیک ’’علاج‘‘ یہ ہے کہ سیاست دانوں کو افواج کے معاملات میں دخلیل کر دیا جائے۔ یہ کام کیری لوگر بل کے ذریعے تجویز کیا جا رہا ہے۔ بل کے الفاظ پر غور فرمائے۔


An assessment of the extent to which the Government of Pakistan exercises effective civilian control of the military will be carried out regularly


یعنی کسی حد تک حکومتِ پاکستان ملٹری پر ’’سول‘‘ کنٹرول حاصل کر سکتی ہے؟ اس کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہے گا‘‘۔


کیری لوگر بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کے سینئر افسروں کی ترقیاں ’’سول‘‘ کے دائرہ اختیار میں لائی جائیں گی!


مسلح افواج کا سول کے معاملات میں عمل دخل یقیناً لائقِ تحسین نہیں ہے! تینوں افواج کے سربراہوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ساتھی ٹو سٹار اور تھری سٹار ساتھیوں کو سول محکموں میں ملازمتیں حاصل کرنے سے باز رکھیں کیوں کہ اس سے مسلح افواج بطور ایک ادارہ کے بدنام ہوتی ہیں۔ حال ہی میں اخبارات کی اطلاع کے مطابق ایک سابق جرنیل کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ان صاحب کو یہ عہدہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انکے علاوہ اور فرد اس کااہل نہیں تھا؟ اسی طرح سٹاف کالج لاہور، جہاں سینئر سول سرونٹ گریڈ اکیس کی ترقی کیلئے لازمی کورس اٹنڈ کرتے ہیں اور جو انتہائی اہم ہے، ایک عرصہ سے ایک جرنیل کے تصرف میں چلا آ رہا ہے۔ کیا پورے پاکستان میں کوئی سول افسر اس عہدے کا اہل نہیں رہا؟ اور کیا ملٹری اکادمی کاکول کے سربراہ کے منصب پر کسی سول افسر کو تعینات کیا جائیگا؟


اسی طرح دفاع اور دفاعی پیداوار کی وزارتوں کو جس طرح کلی طور پر مسلح افواج کے قبضے میں رکھ دیا گیا ہے، انتہائی غیر منطقی اور نامناسب ہے۔ اکثر و بیشتر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سیکرٹری دفاع مقرر کیا جاتا ہے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو پھر بھی بن جاتی لیکن صورتحال اس وجہ سے انتہائی غیر متوازن ہے کہ سیکرٹری کے نیچے تینوں ایڈیشنل سیکرٹری بھی فوج کے باوردی جرنیل ہیں۔ جن میں سے ایک نیوی سے ایک ائرفورس سے اور ایک بری فوج سے لایا جاتا ہے۔ اس کا موازنہ ذرا بھارت سے کیجئے۔ وہاں سیکرٹری دفاع ہمیشہ سول سرونٹ ہوتا ہے اور اس کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹری بھی سول ہی سے ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ بھارتی وزارت دفاع میں تینوں افواج کے نمائندے موجود ہیں لیکن سینئر ہونے کے باوجود ان کی حیثیت ’’ٹیکنیکل منیجر‘‘ سے بڑھ کر نہیں اور اسی نام سے انہیں پکارا جاتا ہے! بھارتی وزارتِ دفاعی پیداوار کو بھی سول ملازمین چلا رہے ہیں جب کہ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے!


جنرل اشفاق کیانی نے تحمل اور آہستگی سے مشرف دور کے اقدامات واپس لیکر افواج کا سول میں عمل دخل بہت کم کر دیا ہے لیکن اسکے باوجود ابھی فوج کے سربراہ کو بہت کچھ کرنا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا سول سروس اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے گی یا بدستور اہل سیاست کی کنیز بنی رہے گی؟؟۔
 

powered by worldwanders.com