اے مسجدوں اور باغوں کے شہر ڈھاکہ!
آج مجھے ہم سے روٹھے پورے 37 سال ہوگئے۔ چار دہائیوں سے صرف تین سال کم! جب تونے تھک ہار کر ہم سے منہ موڑا تھا، ہم اس وقت مدہوش تھے، ہلاکت کے گڑھے میں تھے ہم پر عقل ماتم کر رہی تھی۔
آج چار دہائیوں کے بعد بھی افسوس! صد افسوس! ہم مدہوش ہیں، ہلاکت کے گڑھے میں ہیں اور آج نہ صرف یہ کہ عقل۔ بلکہ دنیا بھی ہمارے حال پر ماتم کناں ہے۔
37 سال پہلے جب تجھے ہمارے وجود سے کاٹ کر الگ کیا جا رہا تھا، اس وقت ایک ڈکٹیٹر ہماری تقدیر کا مالک تھا اور اس کے منافقت کا یہ عالم تھا کہ جب بھارتی فوجیں اپنے ناپاک قدم تیری پوتر مٹی پر رکھ رہی تھیں۔ ڈکٹیٹر کے سرکاری ریڈیو سے مسجدوں کا شہر ڈھاکہ زندہ باد کے نغمے گائے جا رہے تھے۔ تیرے سقوط کا علم تو اس بدبخت قوم کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ہوا تھا۔
یہ تیرے سقوط ہی کے بعد کا واقعہ ہے کہ کسی جرنیل کی تنی ہوئی چھاتی پر دمکتے ہوئے تمغوں (MEDALS) کی بھرمار دیکھ کر نواب زادہ نصر اللہ خان نے پوچھا تھا کہ ’’حضور! ان میں سقوط ڈھاکہ کا تمغہ کون سا ہے‘‘
ہم نے اس کے بعد کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تجھے ایک آمر کی نذر کرنے کے بعد ہم نے ایک اور آمر کو اپنے آپ پر مسلط کیا۔ وہ گیارہ سال تک ہمارے اداروں کے بخیے ادھڑتا رہا اور وہ سارے کام کرتا رہا جو تیری جدائی پر منتج ہوئے تھے۔ ہم نے اسی پر بس نہیں کیا، اس کے بعد ہم نے ایک اور ڈکٹیٹر کے آنے پر مٹھائیاں بانٹیں۔ یہ ڈکٹیٹر ہماری کھوکھلی مدقوق ہڈیوں کو نوسال چباتا رہا۔
مجھے یاد ہے ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں (جو پاکستان کی واحد لائبریری تھی جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی) جب میرے بنگالی کلاس فیلو پوچھتے تھے کہ اگر پاکستان پر جرنیلوں کی حکومت ہی رہنی ہے تو مشرقی پاکستان کی باری کب آئے گی؟ تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
میں خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتا تھا جہاں املی اور لہچی کے پیڑ ہوا میں کانپ رہے ہوتے تھے۔ کاش ہم انسان نہ ہوتے درخت ہوتے کہ مستقبل کا سوچ کر کانپ تو اٹھتے!
ہم نے تجھے… کئی اور وجوہ کے علاوہ… اس وجہ سے بھی ناراض کیا تھا کہ اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا تھا حالانکہ کینیڈا میں دو اور سوئٹزر لینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں۔ لیکن مکافات عمل دیکھ کہ آج ملک کو بنے ساٹھ سال ہوگئے ہیں اور اردو اتنی ہی غریب الوطن اور اچھوت ہے جتنی پہلے دن تھی۔ آج بھی اسی کی عزت ہے جو جبڑوں کو مکروہ شکل میں ڈال کر انگریزی بولے، آج بھی مسائل کی موجودگی میں ناعاقبت اندیش افسر شاہی آپس میں انگریزی میں بات کرتی ہے تاکہ جس کے ٹیکس سے اس کی برہنہ سرین ڈھکی ہوئی ہے، وہی بات سمجھ نہ پائے!
فاعتبرو یا ادبی الابصار!
تو ہم سے اس لئے روٹھا تھا کہ مشرقی پاکستانی عوامی نمائندے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے تھے اور ہمارے نمائندے ان پڑھ، نیم خواندہ، جاگیردار، سردار، خان، وڈیرے اور چودھری تھے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی منشی کہہ کر تحقیر کرتے تھے۔ افسوس! ہم آج چار دہائیوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ہماری سیاست زراعت اور سماج پر وڈیرہ شاہی آج بھی اپنے مکروہ پنجے گاڑے ہوئے ہے۔
آج بھی لغاری مزاری جتوئی، چودھری میر، سردار اور خواتین پیران تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں پر سوار ہیں۔ آج بھی عوام کی ’’نمائندگی‘‘ وہی خاندان کرتے ہیں جوطاقت ور تھے اور طاقت ور ہیں۔
اے مسجدوں اور باغوں کے خوبصورت شہر! شاید ہمارے اعمال تیری لازوال خوبصورتی کے مستحق نہ تھے۔ تیرے میگنا اور بوڑھی گنگا کے پانی تیرے سندر بن کے بہشتی پرندے، تیرے سلہٹ میں بابا جلال کا مزار جس کے اوپر کی فضا آسمان تک روشن ہے۔ تیرا کاکس بازار جس کے قبائل کی عورتیں شہزادیوں سے زیادہ باوقار ہیں اور تیرے رانگامتی اور کپتائی کی جھیلیں جن کے پانیوں پر تیرتے کنول کے پھول ستاروں سے زیادہ روشن ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری قسمت میں نہ تھا۔
لیکن ماتم تو یہ ہے کہ تیرے جانے کے بعد جو کچھ ہمارے پاس رہ گیا ہے، اس کے بھی لالے پڑے ہیں۔ ہم نے اکبر بگتی کو ناحق قتل کرکے بلوچستان کے سرداری نظام کو نیا خون دے دیا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کی محلاتی سرگرمیاں خفیہ ہیں لیکن ان کی اہلیت ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما اپنے مفاد کیلئے سب کچھ فروخت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو سنجیدہ بات کریں تب بھی خلق خدا ہنسنے لگتی۔
ہمارے سرکاری اہلکار بنکوں کے ملازمین کی طرحTARGETS پورے کر رہے ہیں۔ ہمارے شاعر اور ادیب افسر شاہی کا ممبر بننے کے لئے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی طلسمی تحریروں سے متاثر ہونے والے اگر ان کی معیت میں چند گھنٹے گزار لیں تو اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ان کے ذوق کی پستی سے متنبہ کر جاتے ہیں، ہمارے جہادی طالع آزما دوسروں کے بچوں کو میدان جہاد میں بھیج کر شہید کروانا چاہتے ہیں لیکن ان کی اپنی اولادیں منافع بخش کاروبار کے آسمان پر کہکشائیں بن کر چمک رہی ہیں۔
ہم من حیث القوم اتنے عزت دار ہو چکے ہیں کہ امریکیوں نے برملا کہا ہے کہ پاکستانی ڈالروں کی خاطر ماں تک بیچ دیتے ہیں۔
ڈھاکہ! ہم شرمندہ ہیں۔ ہم نے تجھ کھو کر کوئی سبق نہیں سیکھا! ہم پہلے سے بدتر ہیں۔ ہم اسفل السافلین ہیں۔ ہم کھائی میں ہیں۔ ہم اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک ایک جیسی پستی میں ہیں۔
ہمارے غریب اگر بدقماش ہیں تو ہمارے امرا اوباش ہیں۔ ڈھاکہ! ہمارے لئے دعا کر۔ ہمارے ساتھ پھر کوئی حادثہ نہ رونما ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کسی اور حادثے کے کسی اور المیے کے۔ متحمل نہیں ہو سکتے!
آج مجھے ہم سے روٹھے پورے 37 سال ہوگئے۔ چار دہائیوں سے صرف تین سال کم! جب تونے تھک ہار کر ہم سے منہ موڑا تھا، ہم اس وقت مدہوش تھے، ہلاکت کے گڑھے میں تھے ہم پر عقل ماتم کر رہی تھی۔
آج چار دہائیوں کے بعد بھی افسوس! صد افسوس! ہم مدہوش ہیں، ہلاکت کے گڑھے میں ہیں اور آج نہ صرف یہ کہ عقل۔ بلکہ دنیا بھی ہمارے حال پر ماتم کناں ہے۔
37 سال پہلے جب تجھے ہمارے وجود سے کاٹ کر الگ کیا جا رہا تھا، اس وقت ایک ڈکٹیٹر ہماری تقدیر کا مالک تھا اور اس کے منافقت کا یہ عالم تھا کہ جب بھارتی فوجیں اپنے ناپاک قدم تیری پوتر مٹی پر رکھ رہی تھیں۔ ڈکٹیٹر کے سرکاری ریڈیو سے مسجدوں کا شہر ڈھاکہ زندہ باد کے نغمے گائے جا رہے تھے۔ تیرے سقوط کا علم تو اس بدبخت قوم کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ہوا تھا۔
یہ تیرے سقوط ہی کے بعد کا واقعہ ہے کہ کسی جرنیل کی تنی ہوئی چھاتی پر دمکتے ہوئے تمغوں (MEDALS) کی بھرمار دیکھ کر نواب زادہ نصر اللہ خان نے پوچھا تھا کہ ’’حضور! ان میں سقوط ڈھاکہ کا تمغہ کون سا ہے‘‘
ہم نے اس کے بعد کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تجھے ایک آمر کی نذر کرنے کے بعد ہم نے ایک اور آمر کو اپنے آپ پر مسلط کیا۔ وہ گیارہ سال تک ہمارے اداروں کے بخیے ادھڑتا رہا اور وہ سارے کام کرتا رہا جو تیری جدائی پر منتج ہوئے تھے۔ ہم نے اسی پر بس نہیں کیا، اس کے بعد ہم نے ایک اور ڈکٹیٹر کے آنے پر مٹھائیاں بانٹیں۔ یہ ڈکٹیٹر ہماری کھوکھلی مدقوق ہڈیوں کو نوسال چباتا رہا۔
مجھے یاد ہے ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں (جو پاکستان کی واحد لائبریری تھی جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی) جب میرے بنگالی کلاس فیلو پوچھتے تھے کہ اگر پاکستان پر جرنیلوں کی حکومت ہی رہنی ہے تو مشرقی پاکستان کی باری کب آئے گی؟ تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
میں خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتا تھا جہاں املی اور لہچی کے پیڑ ہوا میں کانپ رہے ہوتے تھے۔ کاش ہم انسان نہ ہوتے درخت ہوتے کہ مستقبل کا سوچ کر کانپ تو اٹھتے!
ہم نے تجھے… کئی اور وجوہ کے علاوہ… اس وجہ سے بھی ناراض کیا تھا کہ اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا تھا حالانکہ کینیڈا میں دو اور سوئٹزر لینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں۔ لیکن مکافات عمل دیکھ کہ آج ملک کو بنے ساٹھ سال ہوگئے ہیں اور اردو اتنی ہی غریب الوطن اور اچھوت ہے جتنی پہلے دن تھی۔ آج بھی اسی کی عزت ہے جو جبڑوں کو مکروہ شکل میں ڈال کر انگریزی بولے، آج بھی مسائل کی موجودگی میں ناعاقبت اندیش افسر شاہی آپس میں انگریزی میں بات کرتی ہے تاکہ جس کے ٹیکس سے اس کی برہنہ سرین ڈھکی ہوئی ہے، وہی بات سمجھ نہ پائے!
فاعتبرو یا ادبی الابصار!
تو ہم سے اس لئے روٹھا تھا کہ مشرقی پاکستانی عوامی نمائندے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے تھے اور ہمارے نمائندے ان پڑھ، نیم خواندہ، جاگیردار، سردار، خان، وڈیرے اور چودھری تھے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی منشی کہہ کر تحقیر کرتے تھے۔ افسوس! ہم آج چار دہائیوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ہماری سیاست زراعت اور سماج پر وڈیرہ شاہی آج بھی اپنے مکروہ پنجے گاڑے ہوئے ہے۔
آج بھی لغاری مزاری جتوئی، چودھری میر، سردار اور خواتین پیران تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں پر سوار ہیں۔ آج بھی عوام کی ’’نمائندگی‘‘ وہی خاندان کرتے ہیں جوطاقت ور تھے اور طاقت ور ہیں۔
اے مسجدوں اور باغوں کے خوبصورت شہر! شاید ہمارے اعمال تیری لازوال خوبصورتی کے مستحق نہ تھے۔ تیرے میگنا اور بوڑھی گنگا کے پانی تیرے سندر بن کے بہشتی پرندے، تیرے سلہٹ میں بابا جلال کا مزار جس کے اوپر کی فضا آسمان تک روشن ہے۔ تیرا کاکس بازار جس کے قبائل کی عورتیں شہزادیوں سے زیادہ باوقار ہیں اور تیرے رانگامتی اور کپتائی کی جھیلیں جن کے پانیوں پر تیرتے کنول کے پھول ستاروں سے زیادہ روشن ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری قسمت میں نہ تھا۔
لیکن ماتم تو یہ ہے کہ تیرے جانے کے بعد جو کچھ ہمارے پاس رہ گیا ہے، اس کے بھی لالے پڑے ہیں۔ ہم نے اکبر بگتی کو ناحق قتل کرکے بلوچستان کے سرداری نظام کو نیا خون دے دیا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کی محلاتی سرگرمیاں خفیہ ہیں لیکن ان کی اہلیت ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما اپنے مفاد کیلئے سب کچھ فروخت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو سنجیدہ بات کریں تب بھی خلق خدا ہنسنے لگتی۔
ہمارے سرکاری اہلکار بنکوں کے ملازمین کی طرحTARGETS پورے کر رہے ہیں۔ ہمارے شاعر اور ادیب افسر شاہی کا ممبر بننے کے لئے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی طلسمی تحریروں سے متاثر ہونے والے اگر ان کی معیت میں چند گھنٹے گزار لیں تو اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ان کے ذوق کی پستی سے متنبہ کر جاتے ہیں، ہمارے جہادی طالع آزما دوسروں کے بچوں کو میدان جہاد میں بھیج کر شہید کروانا چاہتے ہیں لیکن ان کی اپنی اولادیں منافع بخش کاروبار کے آسمان پر کہکشائیں بن کر چمک رہی ہیں۔
ہم من حیث القوم اتنے عزت دار ہو چکے ہیں کہ امریکیوں نے برملا کہا ہے کہ پاکستانی ڈالروں کی خاطر ماں تک بیچ دیتے ہیں۔
ڈھاکہ! ہم شرمندہ ہیں۔ ہم نے تجھ کھو کر کوئی سبق نہیں سیکھا! ہم پہلے سے بدتر ہیں۔ ہم اسفل السافلین ہیں۔ ہم کھائی میں ہیں۔ ہم اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک ایک جیسی پستی میں ہیں۔
ہمارے غریب اگر بدقماش ہیں تو ہمارے امرا اوباش ہیں۔ ڈھاکہ! ہمارے لئے دعا کر۔ ہمارے ساتھ پھر کوئی حادثہ نہ رونما ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کسی اور حادثے کے کسی اور المیے کے۔ متحمل نہیں ہو سکتے!
No comments:
Post a Comment