Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 30, 2008

پروفائل

آخر استاد اتنے یقین کے ساتھ کیسے پیش گوئی کر دیتا ہے کہ اُس کا فلاں شاگرد بُری طرح فیل ہوگا اور فلاں طالب علم امتیازی پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہوگا ! باپ ان پڑھ بھی ہو تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کون سا بیٹا کس پیشے کیلئے موزوں ہے اور کس کو کون سا شعبہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ آخر کیوں ؟
اس لئے کہ شاگرد یا بیٹے کا ماضی سامنے ہوتا ہے۔ اُس کی عادات‘ خصائل‘ ذہانت‘ مستقل مزاجی‘ … سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ ذہن میں اُس کی شخصیت کے سارے اجزا موجود ہوتے ہیں۔ ان اجزا کی مدد سے اُس کا آئندہ کا رویہ اور مستقبل کی کارکردگی کے بارے میں ٹھوس پیشگوئی کر دی جاتی ہے !
امریکیوں نے اس عمل کو باقاعدہ سائنس بنا دیا ہے اور اس کا نام پروفائلنگ (Profiling) رکھا ہے یعنی کسی شخص کے طرز عمل کا مطالعہ کرنا اس کے نفسیاتی رجحانات کا تجزیہ کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر پیشگوئی کرنا کہ مستقبل میں اس کا رویہ کیا ہوگا یا کسی خاص حوالے سے یہ کیا کچھ کر سکے گا۔ یوں تو اس ضمن میں طویل عرصہ سے تحقیقی اور تجرباتی کام ہو رہا تھا لیکن جان ڈگلس (John Douglas) وہ شخص ہے جس نے اس میدان میں انقلاب برپا کیا۔ اُس نے 1970ء میں ایف بی آئی میں ملازمت شروع کی۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے پورے امریکہ میں سیریل قاتلوں کے انٹرویو کئے اور جیلوں میں جا کر عادی مجرموں کے حالات زندگی مرتب کئے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ قتل کی وارداتوں میں جب پولیس تھک ہار کر بیٹھ جاتی اور قاتل کا سراغ نہ ملتا تو جان ڈگلس کو بلایا جاتا‘ وہ موقعۂ واردات کا غور سے جائزہ لیتا اور مجرم کا پروفائل بنانا۔ یعنی اُس کی شخصیت کی تصویر کھینچتا۔ وہ یہاں تک بتاتا کہ مجرم حبشی ہے یا سفید فام‘ عمر کے کس حصے میں ہے‘ شادی شدہ ہے یا مجرد‘ فوج سے بھاگا ہوا ہے یا کچھ اور کرتا ہے‘ بسا اوقات وہ یہ بھی بتاتا کہ اس کے پاس کس قسم کی گاڑی ہوگی اور وہ اخبار کون سا پڑھتا ہوگا۔ وہ اس کا آئندہ کا لائحہ عمل بھی بتاتا۔ پولیس اس پروفائل کی مدد سے مجرم تلاش کرتی اور تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ اُس نے کئی مشہور مجرم پروفائلنگ کی مدد سے پکڑے اور پکڑوائے۔
پروفائل بنانے کیلئے مختلف مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں جائے واردات سے جو کچھ میسر آتا ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مقتول کی شخصیت اور مشاغل دیکھے جاتے ہیں اور گواہوں کو سنا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجرم ’’منظم‘‘ تھا یا ’’غیر منظم‘‘۔ منظم مجرم‘ جرم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مقتول سے تعلقات یا واقفیت قائم کرتا ہے اور جائے وقوعہ پر کم ہی نشان چھوڑتا ہے۔ غیر منظم مجرم اچانک مشتعل ہو کر کارروائی کرتا ہے۔ اگلے مرحلے میں جرم واقع ہونے کی تفصیل طے کی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مجرم نے اپنی تسکین کس طرح کی اور ’’فتح‘‘ کی خوشی کیسے منائی۔ ان سارے مراحل کے بعد یہ سوچا جاتا ہے کہ مجرم … جو چھپا ہوا ہے لیکن حالات سے باخبر ہے … اب کیا کر رہا ہے۔ اخبار پڑھ کر اور ٹی وی دیکھ کر اُس کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ پولیس کو دھوکہ دے رہا ہو اور رابطہ کر کے تفتیش کرنے والوں کو غلط سمت لے جانے کی کوشش کر رہا ہو۔ جان ڈگلس کی پروفائل تکنیک ساری دنیا میں مشہور ہوئی۔ ریٹائر ہونے کے بعد ترقی یافتہ ملکوں نے اسے بلا کر اپنی افرادی قوت کو تربیت دلوائی۔ اس نے بے شمار لیکچر دئیے اور کئی کتابیں لکھیں۔
مجرموں اور قاتلوں کو پکڑنے کے لئے جان ڈگلس کا وضع کردہ ’’نظریہ پروفائل‘‘ (یا پروفائلنگ) عام زندگی میں ایک تعلیم یافتہ فرد کے بہت سے مسائل حل کر سکتا ہے۔ ہم ایک ہی شخص سے بار بار دھوکے کھاتے ہیں یا زخم سہتے ہیں اور سہتے چلے جاتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس شخص کے ماضی کو سامنے رکھ کر اس کا پروفائل بنایا جائے اس کی شخصیت کی تصویر کھینچی جائے اور پھر اندازہ لگایا جائے کہ اس کا آئندہ کا رویہ کیا ہوگا۔ پروفائل کی مدد سے ہم طے کر سکتے ہیں کہ ہمارا اپنا طرزِ عمل اس شخص کیساتھ کیسا ہو۔ ہم اس سے کس حد تک امیدیں باندھیں اور کس حد تک مایوس ہو جائیں۔ پروفائل کی مدد سے ہم ٹھیک ٹھیک تعین کر سکتے ہیں کہ فلاں کی شخصیت میں فیصلہ کن کردار حسد کا ہے یا نیکی کا ہے۔ بے غرضی کا ہے یا تجارتی رویے کا ہے۔ حسد نے یا نیکی نے یا بے غرضی نے یا تجارتی رویے نے ماضی میں اس سے کیا کچھ سرزد کرایا ہے؟ ظاہر ہے کہ کل طلوع ہونے والی صبح اس شخص کو یکسر تبدیل نہیں کر سکتی۔ شخصیت کے یہ اجزا‘ شخصیت سے باہر نہیں نکالے جا سکتے۔ ہم اپنے دوستوں عزیزوں ماتحتوں‘ ساتھ کام کرنیوالوں‘ دشمنوں حریفوں سب کیساتھ پروفائلنگ کی مدد سے ایسا برتائو اختیار کر سکتے ہیں کہ ہمیں صدمے نہ اٹھانا پڑیں۔ دھوکے نہ کھاتے رہیں‘ شرمندہ نہ ہوتے رہیں اور کف افسوس نہ ملتے رہیں۔ ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ تعلقات کی نوعیت کیا ہو اور کس کے کتنا قریب اور کس سے کتنا دور رہیں۔
آخر ہم سیاست دانوں سے بار بار کیوں دھوکے کھاتے ہیں؟ کیا اُن کا ماضی ہمارے سامنے نہیں ہوتا؟ ہم انہیں بیس بیس سال سے جانتے ہیں پھر بھی ہم اُن کے بیانات پر یقین کر لیتے ہیں ! اُن کے پروفائل اخبارات سے لے کر ہماری یادداشت تک ‘ ہر جگہ بنے ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اب تک کیا کیا‘ قاضی حسین احمد کا طرزِ عمل کیا تھا؟ چودھری پرویزالٰہی کا رویہ کیسا تھا؟
ہم ان سب کے پروفائل بنا سکتے ہیں۔ ہم تھوڑی سی محنت کریں تو جان سکتے ہیں کہ اعجازالحق اور گوہر ایوب کی مستقبل کی تصویر کیا ہے‘ ظفراللہ جمالی کیا کریں گے۔ جان ڈگلس‘ میر تقی میرؔ کے زمانے میں موجود ہوتا تو میرؔ یقینا اُس کی پروفائل تھیوری سے فائدہ اٹھاتے اور اُسی عطار کے ’’لونڈے‘‘ سے دوسری بار دوا نہ لیتے جس نے انہیں بیمار کیا تھا!

Friday, December 26, 2008

واحد راستہ

ٹھیک ہے خلقِ خدا بے بس ہے۔ مان لیا اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں انصاف نہیں ہے اور کبھی تھا بھی نہیں، لیکن طاقت ور، قانون کو پیروں تلے روندتے وقت یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹے گی اور مرے ہوئے عزیز سامنے نظر آ رہے ہوں گے، اس وقت دھاندلیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا!۔
نوے کی دہائی تھی۔ قومی ائر لائن میں۔ جہاں سالہا سال تک چور دروازے کْھلے رہے۔ دو خواتین ڈاکٹر تعینات کی گئیں۔ ایک وقت کے طاقت ور وزیراعلیٰ کی صاحبزادی تھیں، اور دوسری بھی ایک مقتدر شخصیت کی بیٹی تھیں۔ نہ مدعی نہ شہادت۔ نہ اشتہار نہ مقابلہ، ملک کی سینکڑوں بیٹیاں بہتر ریکارڈ کے باوجود ایسی تعیناتی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
پھر طاقت ور وزیراعلیٰ ملک سے باہر چلا گیا۔ پھر چشمِ فلک نے ایک اور تماشہ دیکھا۔ وہ طاقت ور شخص ملک میں واپس آیا لیکن اس کرسی پر بیٹھا تھا جس کے نیچے پہیے لگے ہوئے ہیں۔ کینسر نے اسے ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل دیا تھا۔
ٹھیک ہے خلق خدا اس خداداد ملک میں بے بس ہے، مگر دھاندلی کرنیوالے وہ وقت یاد کریں جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹے گی اور جھاڑ پھونک کرنے والے کچھ نہ کر سکیں گے۔ مرے ہوئے عزیزوں کیساتھ قوم کے وہ بیٹے اور بیٹیاں نظر آئیں گی جن کے حق میں ڈاکے ڈالے گئے۔ آج بھارت کے مسلمان پوچھتے ہیں کہ کیا تم نے اس لئے الگ ملک بنایا تھا کہ طاقت وروں کی بیٹیاں چْن لی جائیں اور میرٹ، قاعدہ، قانون، ضابطہ ایسی لاشوں کی شکل اختیار کرلیں جن کے سرہانے گدھوں کی فوج بیٹھی ہو۔
آج پھر ایک مقتدر شخصیت کی صاحبزادی کو قوانین پامال کرکے سول سروس کے تخت طاؤس پر متمکن کیا گیا ہے اور آج ہی کا کیا ذکر اس سے پہلے جرنیل بھی یہی کچھ کرتے رہے۔ اپنے بیٹوں کو فوج کے مقدس پیشے سے نکال کر سول سروس میں داخل کراتے رہے اور سینکڑوں کپتان اور میجر جو زیادہ لائق تھے، اس سہولت سے محروم رہے۔ ان جرنیلوں میں دستار پوش جرنیل بھی تھے۔ اسلام ظاہر سے عبارت نہیں! اسلام تو امتحان ہے۔ جب آپ طاقت ور ہیں اور اپنے بیٹے کو دوسروں پر فوقیت دلوا سکتے ہیں اس وقت آپ اعلان کریں کہ نہیں! میرا بیٹا اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے گا! لیکن یہ اصل اسلام۔ مشکل اسلام ہے۔ آسان اسلام یہ ہے کہ آپ ظاہری وضع قطع اور لباس پر زور دیجئے اور کیجئے وہی کچھ جو سب کر رہے ہیں! اسی لئے تو قرآن پڑھ کر رو پڑنے والے شاعر نے کہا تھا …؎
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دائم مشکلاتِ لاالٰہ را
وہ تو کہیے کہ اس ملک پر خدائے برتر کا احسان ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور کاکول اور رسالپور کی ملٹری اکیڈمیوں جیسے ادارے موجود ہیں جن کے طفیل لائق اور غریب پاکستانی مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر سول سروس میں آتے ہیں اور جرنیلوں کے بیٹے ناکام ہو جاتے ہیں اور کسانوں اور حوالداروں کے بچے کمیشن حاصل کرلیتے ہیں۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے بعد، اکیڈمی کے بڑے دروازے کے پاس تہمد میں ملبوس ایک کسان اپنے کیڈٹ بیٹے سے باتیں کررہا تھا۔ اب اگر کوئی جرنیل حلف سے دغا کرتے ہوئے آئین کو پامال کرتا ہے تو اس میں کاکول کا کوئی قصور نہیں اور اگر کوئی ناخلف، سول سروس میں آنے کے بعد ناموس کا گلا گھونٹتا ہے اور بادہ و ساغر کو سیڑھی بنا کر اوپر جاتا ہے یا پرنسپل سیکرٹری کے طور پر اپنی پوزیشن سے ناروا فائدہ اٹھاتا ہے تو اس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کوئی قصور نہیں۔
آج اگر بیرون ملک تعیناتیاں اور PEMRA، اور NEPRA اور دوسری اتھارٹیوں میں تقرریوں کا کام فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سپرد کر دیا جائے تو میرٹ کی حفاظت بہتر طور پر انجام دی جاسکے گی۔ تعیناتیوں کا کام مہذب ملکوں میں ادارے کرتے ہیں۔ بھلا وزیراعظم کا ان معمول کے کاموں سے کیا تعلق! اگر فرسٹ سیکرٹری کا تقرر ملک کے وزیراعظم نے کرنا ہے تو وزیراعظم پالیسی سازی کا کام کس وقت کریں گے؟
ہماری حالت یہ ہے کہ امن وامان تہس نہس ہو چکا ہے، گرانی عوام کے سینے پر بیٹھ کر گلا دبا رہی ہے۔ امریکہ اور بھارت ہمیں نرغے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روزنامہ نیشن (Nation) نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں ایشیاء ٹائمز کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے What is in store for Muslim States? پاکستان کے بارے میں یہ ایشیائی اخبار اس مضمون میں کیا لکھتا ہے، دیکھئے۔
’’آدھا ملک ناخواندہ ہے اور ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کی رو سے تین چوتھائی کا گزارہ دو ڈالر روزانہ سے کم آمدنی پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں نوجوان، علاقے کے دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ تعداد میں میسر ہیں اور ارزاں بھی! بے حد غریب اور ان پڑھ نوجوان… جن کی تعلیم صرف مدرسوں میں ہوئی ہے۔ جنگجو کارروائیوں کیلئے بہت آسانی کے ساتھ ہاتھ آ جاتے ہیں‘‘۔
آگے چل کر اخبار پاکستان کو صومالیہ کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے اور صومالیہ میں بیروزگار نوجوانوں کی تعداد پاکستان سے بہت کم ہے! ایک طرف ہماری یہ حالت ہے اور دوسری طرف ہمارے رہنماؤں اور زعما کی ترجیحات ملاحظہ ہوں۔
ایک ہفتہ قبل راولپنڈی کے ایک سیاست دان کا… جو گذشتہ انتخابات میں دو نشستوں سے ہارے ہیں… بیان شائع ہوا ہے، جس میں، اخبارات کے مطابق انہوں نے اس خواہش کا یا حسرت کا اظہار کیا ہے کہ اگر نوازشریف ق لیگ کے لیڈروں کو معاف کردیں اور دونوں لیگیں ضم ہو جائیں تو مسلم لیگ ایک بار پھر چھا جائے گی!
آپ اندازہ لگایئے، جاگیردارانہ نظام، سرداری سسٹم، بلوچستان کے مسائل، تعلیم کی ڈوبتی کشتی، لیکن اہل سیاست کو ان مسائل کا ادراک ہے نہ فکر۔ ان کی کوتاہ نظر مسلم لیگ کے چھا جانے سے پرے کچھ دیکھ ہی نہیں سکتی۔ کیا یہ رویہ تعلیم کی کمی کا نتیجہ ہے یا تربیت کے فقدان کا شاخسانہ ہے یا Vision نہ ہونے کا کرشمہ ہے؟ کیا گذشتہ آٹھ سال مسلم لیگ چھائی نہیں رہی؟
جب وزیر قانون کے صاحبزادے کراچی ائرپورٹ پر مسافروں کی بدستِ خود دھنائی کر رہے تھے تو کیا مسلم لیگ چھا نہیں گئی تھی؟ جب صوبے کے وزیراعلیٰ وردی کو دس بار ظفریاب کروانے کا اعلان کر رہے تھے اور لال مسجد کے قتل عام کے وقت وزیراعظم قلفیوں کی دکان بذریعہ حکم کھلوا رہے تھے کیا مسلم لیگ چھائی ہوئی نہیں تھی؟ اسی مسلم لیگ کے بطن ہی سے تو شوکت عزیز جیسا بطلِ جلیل پیدا ہوا‘ جس کے آستانے پر راولپنڈی کے اس سیاست دان سمیت سب سجدہ ریز تھے!۔
آج قانون وہ بچہ ہے جو پنگوڑھے میں پڑا بلک بلک کر رو رہا ہے اور دونوں بازو ہوا میں اٹھائے سیاست دانوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آج اگر اہل سیاست… قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان… قانون پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کرلیں تو فوج اور بیورو کریسی کی مجال نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کریں۔
ملک کی قیادت عساکرکے پاس ہے نہ افسر شاہی کے پاس وہ تو ماتحت ہیں۔ قیادت تو سیاست دانوں کے پاس ہے اور انہی کو قیادت کا حق حاصل ہے۔ حکمرانی منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی ہونا چاہئے لیکن منتخب نمائندے قانون پر تو چلیں۔
ہمارے رہنماؤں کے طور اطوار ایسے ہیں جیسے کسی زمانے میں وائسرائے کے تھے۔ وہ اپنی کاروں پر امتیازی نمبر پلیٹیں لگواتے ہیں اور سفارشوں اور مداخلتوں سے میرٹ کا راستہ روکتے ہیں۔
یہاں تو یہ بھی ہوا کہ جہاز پر سوار ہوتے وقت اسلحہ لے جانے پر اصرار کیا گیا اور ائرپورٹ کے جس فرض شناس اہلکار نے اعتراض کیا ، اسے فوراً تبدیل کر دیا گیا!۔
جو جانتا ہے۔ وہ تو جانتا ہی ہے۔ جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ جس دن منتخب نمائندے فیصلہ کرلیں گے کہ وہ بال برابر بھی قانون شکنی نہیں کریں گے اور اپنے بیٹوں، صاحبزادیوں، کنبوں خاندانوں اور قبیلوں کے لئے دوسروں کا حق نہیں ماریں گے اور غلط کام کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ اس دن اس ملک کی خاکی اور سول بیورو کریسی کا بگاڑ درست ہو جائے گا اور یہ ملک… مہذب ملکوں میں شمار ہونے لگے گا!۔

Tuesday, December 16, 2008

ڈھاکہ! ہم شرمندہ ہیں

اے مسجدوں اور باغوں کے شہر ڈھاکہ!
آج مجھے ہم سے روٹھے پورے 37 سال ہوگئے۔ چار دہائیوں سے صرف تین سال کم! جب تونے تھک ہار کر ہم سے منہ موڑا تھا، ہم اس وقت مدہوش تھے، ہلاکت کے گڑھے میں تھے ہم پر عقل ماتم کر رہی تھی۔
آج چار دہائیوں کے بعد بھی افسوس! صد افسوس! ہم مدہوش ہیں، ہلاکت کے گڑھے میں ہیں اور آج نہ صرف یہ کہ عقل۔ بلکہ دنیا بھی ہمارے حال پر ماتم کناں ہے۔
37 سال پہلے جب تجھے ہمارے وجود سے کاٹ کر الگ کیا جا رہا تھا، اس وقت ایک ڈکٹیٹر ہماری تقدیر کا مالک تھا اور اس کے منافقت کا یہ عالم تھا کہ جب بھارتی فوجیں اپنے ناپاک قدم تیری پوتر مٹی پر رکھ رہی تھیں۔ ڈکٹیٹر کے سرکاری ریڈیو سے مسجدوں کا شہر ڈھاکہ زندہ باد کے نغمے گائے جا رہے تھے۔ تیرے سقوط کا علم تو اس بدبخت قوم کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ہوا تھا۔
یہ تیرے سقوط ہی کے بعد کا واقعہ ہے کہ کسی جرنیل کی تنی ہوئی چھاتی پر دمکتے ہوئے تمغوں (MEDALS) کی بھرمار دیکھ کر نواب زادہ نصر اللہ خان نے پوچھا تھا کہ ’’حضور! ان میں سقوط ڈھاکہ کا تمغہ کون سا ہے‘‘
ہم نے اس کے بعد کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تجھے ایک آمر کی نذر کرنے کے بعد ہم نے ایک اور آمر کو اپنے آپ پر مسلط کیا۔ وہ گیارہ سال تک ہمارے اداروں کے بخیے ادھڑتا رہا اور وہ سارے کام کرتا رہا جو تیری جدائی پر منتج ہوئے تھے۔ ہم نے اسی پر بس نہیں کیا، اس کے بعد ہم نے ایک اور ڈکٹیٹر کے آنے پر مٹھائیاں بانٹیں۔ یہ ڈکٹیٹر ہماری کھوکھلی مدقوق ہڈیوں کو نوسال چباتا رہا۔
مجھے یاد ہے ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں (جو پاکستان کی واحد لائبریری تھی جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی) جب میرے بنگالی کلاس فیلو پوچھتے تھے کہ اگر پاکستان پر جرنیلوں کی حکومت ہی رہنی ہے تو مشرقی پاکستان کی باری کب آئے گی؟ تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
میں خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتا تھا جہاں املی اور لہچی کے پیڑ ہوا میں کانپ رہے ہوتے تھے۔ کاش ہم انسان نہ ہوتے درخت ہوتے کہ مستقبل کا سوچ کر کانپ تو اٹھتے!
ہم نے تجھے… کئی اور وجوہ کے علاوہ… اس وجہ سے بھی ناراض کیا تھا کہ اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا تھا حالانکہ کینیڈا میں دو اور سوئٹزر لینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں۔ لیکن مکافات عمل دیکھ کہ آج ملک کو بنے ساٹھ سال ہوگئے ہیں اور اردو اتنی ہی غریب الوطن اور اچھوت ہے جتنی پہلے دن تھی۔ آج بھی اسی کی عزت ہے جو جبڑوں کو مکروہ شکل میں ڈال کر انگریزی بولے، آج بھی مسائل کی موجودگی میں ناعاقبت اندیش افسر شاہی آپس میں انگریزی میں بات کرتی ہے تاکہ جس کے ٹیکس سے اس کی برہنہ سرین ڈھکی ہوئی ہے، وہی بات سمجھ نہ پائے!
فاعتبرو یا ادبی الابصار!
تو ہم سے اس لئے روٹھا تھا کہ مشرقی پاکستانی عوامی نمائندے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے تھے اور ہمارے نمائندے ان پڑھ، نیم خواندہ، جاگیردار، سردار، خان، وڈیرے اور چودھری تھے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی منشی کہہ کر تحقیر کرتے تھے۔ افسوس! ہم آج چار دہائیوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ہماری سیاست زراعت اور سماج پر وڈیرہ شاہی آج بھی اپنے مکروہ پنجے گاڑے ہوئے ہے۔
آج بھی لغاری مزاری جتوئی، چودھری میر، سردار اور خواتین پیران تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں پر سوار ہیں۔ آج بھی عوام کی ’’نمائندگی‘‘ وہی خاندان کرتے ہیں جوطاقت ور تھے اور طاقت ور ہیں۔
اے مسجدوں اور باغوں کے خوبصورت شہر! شاید ہمارے اعمال تیری لازوال خوبصورتی کے مستحق نہ تھے۔ تیرے میگنا اور بوڑھی گنگا کے پانی تیرے سندر بن کے بہشتی پرندے، تیرے سلہٹ میں بابا جلال کا مزار جس کے اوپر کی فضا آسمان تک روشن ہے۔ تیرا کاکس بازار جس کے قبائل کی عورتیں شہزادیوں سے زیادہ باوقار ہیں اور تیرے رانگامتی اور کپتائی کی جھیلیں جن کے پانیوں پر تیرتے کنول کے پھول ستاروں سے زیادہ روشن ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری قسمت میں نہ تھا۔
لیکن ماتم تو یہ ہے کہ تیرے جانے کے بعد جو کچھ ہمارے پاس رہ گیا ہے، اس کے بھی لالے پڑے ہیں۔ ہم نے اکبر بگتی کو ناحق قتل کرکے بلوچستان کے سرداری نظام کو نیا خون دے دیا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کی محلاتی سرگرمیاں خفیہ ہیں لیکن ان کی اہلیت ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما اپنے مفاد کیلئے سب کچھ فروخت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو سنجیدہ بات کریں تب بھی خلق خدا ہنسنے لگتی۔
ہمارے سرکاری اہلکار بنکوں کے ملازمین کی طرحTARGETS پورے کر رہے ہیں۔ ہمارے شاعر اور ادیب افسر شاہی کا ممبر بننے کے لئے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی طلسمی تحریروں سے متاثر ہونے والے اگر ان کی معیت میں چند گھنٹے گزار لیں تو اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ان کے ذوق کی پستی سے متنبہ کر جاتے ہیں، ہمارے جہادی طالع آزما دوسروں کے بچوں کو میدان جہاد میں بھیج کر شہید کروانا چاہتے ہیں لیکن ان کی اپنی اولادیں منافع بخش کاروبار کے آسمان پر کہکشائیں بن کر چمک رہی ہیں۔
ہم من حیث القوم اتنے عزت دار ہو چکے ہیں کہ امریکیوں نے برملا کہا ہے کہ پاکستانی ڈالروں کی خاطر ماں تک بیچ دیتے ہیں۔
ڈھاکہ! ہم شرمندہ ہیں۔ ہم نے تجھ کھو کر کوئی سبق نہیں سیکھا! ہم پہلے سے بدتر ہیں۔ ہم اسفل السافلین ہیں۔ ہم کھائی میں ہیں۔ ہم اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک ایک جیسی پستی میں ہیں۔
ہمارے غریب اگر بدقماش ہیں تو ہمارے امرا اوباش ہیں۔ ڈھاکہ! ہمارے لئے دعا کر۔ ہمارے ساتھ پھر کوئی حادثہ نہ رونما ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کسی اور حادثے کے کسی اور المیے کے۔ متحمل نہیں ہو سکتے!
 

powered by worldwanders.com