Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, April 27, 2011

Muddling the Issues


  • Article rank 
  • 27 Apr 2011
  • The Pak Banker
  • Muhammad Izhar ul Haq


  • Muhammad Izhar ul Haq is a free lance writer. www.izharulhaq.net
  • ________________________________________________________________________


The recent ban on the niqab (full face veil) in France has created a furor in almost entire Muslim world. Most of the reaction that has appeared in Print as well as electronic media has condemned the French enactment. It is unfortunate that the Muslim world, more or less, has lost the propensity to analyse issues in their true perspective. Reaction on ban on niqab is a typical example. France has, in fact, has banned niqab and not hijab (covering head with scarf). Full face veil has never been an uncontroversial issue among Muslims. Interestingly, during Haj and Umra (pilgrimage to Mecca) no Muslim woman is supposed to veil her. The ban on niqab should have provided food for thought to Muslims.

They should have analysed the reasons of their massive immigration to non-Muslim countries. I remember last year, Arab women organised a rally in Sydney. The speakers attacked on "flawed western secular values" and termed Australia too decadent for Muslims. The pitiable paradox is that not a single Muslim country, out of fifty-four, offers what the countries with "flawed secular values" provide to Muslim immigrants. The figures are eye opening: There are 36,500 Muslim immigrants in Australia, 28,000 in Belgium, 65,700 in Canada, 3,554,000 in France, 4,026,000 in Germany, 946,000 in Netherlands, 650,000 in Spain, 1,647,000 in the UK and 2,454,000 in USA. Millions are living in Italy, Greece, Scandinavia, Switzerland, Austria, Japan and New Zealand. Millions more are struggling to follow. There is hardly any Muslim country which is not witnessing long queues in front of embassies of western countries. The irony is that economic forces are not the only factor behind this great wave of transfer of population. Many have left their birthplaces in search of personal and intellectual freedom, democratic rule, law abiding society and better educational prospects for their next generations.

It is pathetic that there is lot of hue and cry against ban on niqab but there is no soul searching as to why Muslims are constrained to Blasphemy law, currently a major controversy in Pakistan, is yet another example of muddling the matters and obscuring the truth by confusing the issues. This law, introduced in Zia regime, requires no evidence if a person is accused of blasphemy. Scores of personal enmities are settled with this law. A medical practitioner declined to meet a representative of a pharmaceutical company. The agent barged in and thrust his visiting card. The doctor, obviously annoyed, threw the card away. He is now in jail because the card contained a sacred name. There are numerous examples of such high handedness. Many are rotting in jails without committing any blasphemy. Those who demand amendment in this law maintain that those who accuse falsely should also be punished. Unfortunately the man made law is defended by the bigots as if it is part of a divine revelation. It may not be out of place to emphasize that no Pakistani in general and no Muslim in particular can even think of disrespecting the sacred personalities of any religion.

Will Muslims ever analyse the factors behind their present degeneration and unenviable place in the area of science and technology?

Tuesday, April 26, 2011

یہ سب بھی معافی مانگیں

جاوید ہاشمی کی تقریر سے جتنی گرد بیٹھی، اتنی ہی اُڑی، صادق نسیم مرحوم کے بقول

وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہَوا کی طرح

دیے بُجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا

اُس نے درست کہا کہ باہر پیسہ رکھنے والے خود کو قوم کا لیڈر نہ کہیں۔ اس سے بحی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر دس ارب روپے سے صرف رائے ونڈ روڈ بنی تو باقی علاقوں کے لئے ترقّی کی رقم کہاں سے آئے گی ؟عمران کی ساری باتیں درست ہیں لیکن اُس نے صرف سیاست دانوں کو معافی مانگنے کا کہہ کر .... نادانستہ .... اُن ”معزز“ لوگوں کو محفوظ راستہ دے دیا جو قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے! اس کالم نگار کو سیاست دانوں سے کبھی حسنِ ظن نہیں رہا۔ اُنکا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے آپکو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں لیکن بات وہ کرنی چاہیے جو سچی ہو اور انصاف پر مبنی ہو۔

جاوید ہاشمی آمروں کا ساتھ دینے پر صرف سیاست دانوں پر کیوں گرفت کر رہے ہیں؟ صرف سیاست دان کیوں معافی مانگیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے شروع کے تین سالوں میں سیاست دان نہیں بلکہ غیر سیاست دان اُسکے ساتھ وابستہ تھے؟ آخر وہ پردہ نشین سامنے کیوں نہیں لائے جاتے اور اُنہیں معافی مانگنے کا کیوں نہیں کہا جاتا؟ سب سے بڑا ملزم تو پلاسٹک کا وزیراعظم شوکت عزیز ہے۔ اُسے واپس کیوں نہیں لایا جاتا؟ جاوید ہاشمی کا بڑا پن ہے کہ وہ ”ضیاالحق کابینہ کا حصہ بننے پر“ عوام اور ایوان سے معافی مانگ رہا ہے لیکن وہ لوگ جو آمریت کےلئے آکسیجن کا کردار ادا کرتے رہے، قوم سے معافی کیوں نہیں مانگتے؟ پوری قوم کو معلوم ہے کہ وہ کون سے صحافی  تھے جو فوجی آمروں کے کراماً کاتبین بنے رہے اور وزارتوں اور سفارتوں کے فیصلے کرتے اور کراتے رہے۔ کسی آمر کو بیورو کریٹ ملے اور ”عشرہ ترقی“ کے مشورے دیتے رہے۔ عشرے منانے سے ملک مضبوط ہوتے تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔کسی آمر کو صحافیوں نے گھیرے میں لے لیا، گیارہ سال تک مرضی کے فیصلے کراتے رہے اور ان گنت فائدے اٹھاتے رہے۔مجیب الرحان شامی صاحب نے تو خود  اعتراف کیا ہے کہ""جاوید ہاشمی کے لئے وزارت میں میری کوشش کا سو فی صد دخل تھا ""  کیا ہی اچھا ہو کہ جاوید ہاشمی ان حضرات کو بھی معافی مانگنے کا کہیں! پنجابی ماہیے کےمطابق جو لوگ خالص کھانڈ کے بنے ہوئے سفید مکھانے اور بتاشے کھاتے رہے، وہ اب سامنے تو آئیں! پاکستان کے جن سترہ امیر ترین افراد کے نام انٹرنیٹ پر پوری دنیا نے دیکھے اور آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ان میں سیاست دانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تو ہیں! ان میں ہر طرح کے سرکاری ملازم بھی ہیں اور وہ بھی جن کی بے پناہ دولت کے ڈانڈے کسی نہ کسی اوجڑی کیمپ سے جا ملتے ہیں۔

اہل سیاست سے ماورا بھی تو دیکھئے۔ وہ جس کے چودہ محلات بنے تھے وہ سیاست دان تو نہیں تھا۔ ایسے ایسے ”فقرا“ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے زرِ خالص سے بنے ہوئے جوتے بیٹی کو شادی پر تحفے میں دیے۔ ایک اور صاحب جن کی سفارت کے کاغذات ایک مغربی ملک نے یکسر نامنظور کر دیے تھے اور جو اس ملک کے کھرب پتیوں میں سرفہرست تھے سیاست دان تو نہیں تھے۔

یونس حبیب اور مہران بنک معاملے کے بانی مبانی بھی سیاستدان  نہیں تھے۔ ہمارے اہل سیاست اگر عقل اور علم رکھتے اور تھانے کچہری سے ذہنی طور پر باہر نکلتے تو اپنا کیس لڑتے اور اہل وطن کو بتاتے کہ پس پردہ رہ کر سب کچھ کرنےوالے کون تھے اور کیا تھے لیکن افسوس! اہل سیاست میں اتنا شعور ہی نہیں!
 زرداری سے لےکر نواز شریف تک، پرویز الٰہی سے لےکر یوسف رضا گیلانی اور شیخ رشید تک .... اکثر و بیشتر سیاستدانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن وہ جو نقاب اوڑھ کر بادشاہتیں کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں، ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ وہ غیر سیاستدان....جنکے پاس اتنا ہی، یا اس سے بھی زیادہ مال و دولت ہے، انہیں کوئی نہیں پوچھتا!

سیاست دان فرشتے نہیں، انکے گناہ ریت کے ذروں سے زیادہ ہیں، لیکن بات سچی کرنی چاہیے اور اصول یہ نہیں ہونا چاہیے کہ رسی اُس کے گلے میں ڈال دو جس کے گلے میں فِٹ آ رہی ہے، اور دوسروں کو چھوڑ دو۔ لیاقت علی خان سے لےکر بھٹو اور بے نظیر تک سیاست دان ہی خون میں نہاتے رہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مجرم کون تھے اور کون ہیں اور اس غریب ملک میں کس معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں! آج یہ ملک جس صورتحال سے دوچار ہے اُسکے ذمہ داروں کا تعین دیانت داری سے کرنا ہو گا۔ سیاست دان اپنے جرائم کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے پالیسیاں کون بناتا رہا اور کون بنواتا رہا؟ پلاننگ کمیشن پر کن کا قبضہ رہا، وزارت خزانہ میں گزشتہ ساٹھ برس میں کن کن بزر جمہروں نے اس ملک کےلئے کھائیاں کھودیں؟ بیرون ملک تعیناتیوں کےلئے سیاست دانوں کی دہلیزوں پر کون لوگ ماتھے رگڑتے رہے اور غلط مشورے دیتے رہے۔ زراعت اور خوراک کی اہم وزارت میں کون کون لوگ کام کرتے رہے اور سال کے بیشتر دن ملک سے باہر رہتے رہے۔ دور کیوں جاتے ہیں چند دن پہلے ڈاکٹروں کے معاملے میں کون ضد پر اڑا رہا۔ نوکر شاہی کے اس جونیئر رکن کی طاقت کا کیا راز تھا؟ خلقِ خدا کیا کہتی ہے؟ پھر مرکز میں کون اصل اختیارات کا مالک تھا؟ڈاکٹروں نے کس کے پتلے جلائے اور جھولیاں پھیلا پھیلا کر کس کو بددعائیں دیں؟ ریٹائرمنٹ کے بعد دس دس پندرہ پندرہ سال تک کون عیش و عشرت والی اسامیوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ آج بھی میاں نواز شریف کن لوگوں کے حصار میں ہیں اور کس کس کے خاندان .... پردے کے پیچھے رہ کر .... بے پناہ فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کی ابلہی کا یہ عالم ہے کہ وہ اُن لوگوں کی خاطر بدنامی مول لیتے ہیں جو کسی کے نہیں رہے اور نہ کسی کے ہوں گے!
ریلوے دم توڑ رہی ہے۔ واپڈا بجلی سے خالی ہو چکا ہے، پانی کی قلت بھیانک روپ دھارے سامنے آنےوالی ہے۔ کون ہیں اور کس گروہ کے ارکان ہیں جو ان سارے اداروں پر مسلط رہے، پالیسیاں بناتے رہے اور بصارت اور بصیرت سے محروم ہو کر فائل فائل کھیلتے رہے؟ آج ہم شیخ رشید کو اور محمد علی درانی کو مطعون کرتے ہیں لیکن وزارت اطلاعات میں آمر کا مستقل نمائندہ کون تھا جسے  وزیروں کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا!
جن سیاستدانوں کے نام جاوید ہاشمی نے گِنوائے ہیں وہ آمروں کا ساتھ دینے پر قوم سے ضرور معافی مانگیں اور وہ سیاست دان بھی جن کے نام جاوید ہاشمی نے نہیں لئے۔ لیکن بات سچی کرنی چاہیے اور انصاف پر مبنی آمریت کا اصل سہارا وہ تھے جو اونچی پشت والی کرسیوں پر دائیں بائیں گھوم کر ہلکورے لیتے رہے، کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور مغلوں کے تاریک دور کے سید برادران کی طرح بادشاہ گری کرتے رہے۔ یہ سب بھی معافی مانگیں۔

Tuesday, April 19, 2011

مگر مچھ، کینچوا اور قومی بچت کا ادارہ

ان دنوں یہ کالم نگار ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وزیر دفاع راﺅ سکندر مرحوم کا فون آیا۔ (وہ پیار یا معصومیت سے جنرل صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے) انہوں نے بتایا کہ انکے دوست اشرف سوہنا صاحب ممبر پنجاب اسمبلی تشریف لانا چاہتے ہیں۔ سوہنا صاحب آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک بوڑھی بے بس بیوہ کو (جو غالباً سوہنا صاحب کے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھتی تھی) کچھ لاکھ روپے مرحوم شوہر کے سرکاری واجبات کے طور پر ملے۔ اس سے ایک شخص نے یہ رقم کاروبار کا لالچ دے کر ہتھیا لی۔ اس شخص کا تعلق ہمارے محکمے سے تھا۔

اس شخص نے بے بس بیوہ کی رقم واپس کی یا نہیں یہ الگ کہانی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس نے رقم واپس کرنے کے بجائے ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل اور اسکے آفس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کر دیا کہ یہ لوگ اسکے ”ذاتی“ معاملے میں دخل انداز ہو رہے ہیں اور اپنی سرکاری پوزیشن کا ”ناجائز“ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ موضوع سے غیر متعلق ہے۔ کالم نگار یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ ہے وہ سلوک جو معاشرہ بوڑھی بے بس بیواﺅں کےساتھ روا رکھ رہا ہے۔ کہیں کاروبار کا لالچ دے کر رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ کہیں رقم ”ڈبل“ کرنے کے چکر میں لے لی جاتی ہے اور کہیں ”ہمدرد“ رشتہ دار رقم کو ”حفاظت“ سے رکھنے کےلئے سامنے آ جاتے ہیں۔ کواپریٹو سوسائٹیوں نے جو تباہی مچائی اسکی یاد ابھی تک پسے ہوئے عوام کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی۔ ایک اور ادارہ جو کلام پاک کی طباعت کا مقدس کام کرتا تھا، اس نے بھی حسن ظن رکھنے والے وابستگان کو کہیں کا نہ رکھا۔ اس صورتحال میں حکومت پاکستان کا قومی بچت کا ادارہ بوڑھوں اور بیواﺅں کا واحد سہارا ہے۔ آپ تصور کیجئے ستر سال کا ایک بوڑھا ہے یا بیوہ ہے جو ملازمت کے قابل ہے نہ کاروبار کے اسکے پاس زندگی بھر کی کمائی دس بیس یا تیس لاکھ روپے ہیں اس رقم سے ایک کمرے کا مکان تک نہیں خریدا جا سکتا۔ فرض کریں وہ خرید بھی لے اور کرائے پر چڑھا دے تو اس عمر میں کرایہ داروں سے کیسے نمٹے گا؟ ہر ماہ کرایہ وصول کرنے کےلئے دستکیں دیتا رہے گا۔ ایسے میں اس کا واحد سہارا نیشنل سیونگ (قومی بچت) کا ادارہ ہے۔ وہ اپنی زندگی بھر کی کمائی یہاں جمع کرا کے بے فکری سے زندگی کے باقی دن گذار سکتا ہے۔ ہر مہینے اسے یہ ادارہ جمع شدہ سرمایہ کے معاوضہ کے طور پر ایک معقول رقم ادا کرتا ہے۔ جس سے وہ اپنی زندگی کے مصارف پورے کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج ہوئے بغیر زندگی کی شام گذار سکتا ہے!
دوسری طرف یہ بوڑھے اور یہ بے بس بیوائیں حکومت پر احسان بھی کر رہی ہیں۔ قومی بچت کا ادارہ جمع شدہ رقوم اکٹھی کر کے اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔حکومت کو جب قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس ادارے سے قرض لیتی ہے اگر حکومت پرائیویٹ بنکوں سے قرض لے تو بنک بھاری شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔ اسکے برعکس قومی بچت کا ادارہ کم شرح پر قرض مہیا کر دیتا ہے۔

چاہئے تو یہ کہ حکومت اس ادارے کو مزید مضبوط بنائے اور اسکی بہبود اور صحت و سلامتی کا خیال رکھے لیکن بدقسمتی سے حکومت ہمیشہ مفاد پرست گروہوں کے ہاتھ میں کھیلتی ہے اور کھیلتی رہی ہے۔ کبھی چینی چرانے والے اور عوام سے اربوں روپے ناجائز منافع کے طور پر لوٹنے والے کابینہ میں براجمان ہوتے ہیں کبھی آٹے کی قلت پیدا کرنےوالے پالیسی سازی پر قابض ہوتے ہیں۔ کبھی سیمنٹ مہنگا کرنےوالے اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی جعلی دوائیں بنانے والے عوام کی گردنوں پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اب ایک اور مافیا قومی بچت کے محکمے کے درپے ہو رہا ہے۔ قومی بچت کے مراکز میں افراد کے علاوہ ادارے بھی اپنی بچتیں جمع کرا سکتے ہیں۔ یہ صورتحال نجی بنکوں کو کسی طرح قابل قبول ہوسکتی تھی؟ چنانچہ گذشتہ ہفتے بنکوں کے مافیا نے وزارت خزانہ کے ارباب قضا و قدر سے ایک انوکھا فیصلہ ”کرایا“ ہے۔ اس انوکھے فیصلے کی رو سے افراد تو قومی بچت کے مراکز میںرقوم جمع کرا سکتے ہیں لیکن اداروں کو اسکی اجازت نہیں ہو گی چنانچہ اب ادارے اپنی رقوم مجبوراً بنکوں میں جمع کرائینگے۔ بنک جمع کرانےوالوں کو تو معاوضہ برائے نام دینگے لیکن جب یہ جمع شدہ رقوم حکومت کو قرض کے طور پر دینگے تو کئی گنا زیادہ منافع لیں گے! اس انوکھے فیصلے کی رو سے بنکوں میں رقوم جمع کرانےوالے اداروں کو بھی نقصان ہو گا۔
قومی بچت کے ادارہ کو بھی نقصان ہو گا اور حکومت کو بھی نقصان ہو گا۔ فائدہ صرف ایک فریق کو ہو گا اور وہ فریق ہے نجی بنک!اسے کہتے ہیں اسی شاخ کو کاٹنا جس پر بیٹھا جاتا ہے! اس ملک میں عوام اور عوامی اداروں کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے اور خودکشی کی یہ روایت بدستور جاری ہے۔ قومی بچت کے ادارے کے سربراہ ظفر شیخ ایک منجھے ہوئے بنکار ہیں اور پوری قوت سے مفاد پرست گروہوں کی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن وزارت خزانہ ایک ایسا مگر مچھ ہے جس کے دانت بہت تیز ہیں۔ یہ مگر مچھ عوام کو ایک کینچوے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ تاہم اگر ورلڈ بنک سامنے آ جائے یا نجی بنک اس مگر مچھ کی دم پکڑیں تو یہ خود ایک بے ضرر کینچوے کی شکل اختیار کر لیتا ہے!

Tuesday, April 12, 2011

پسلیاں، سانس اور شُرطہ

بارش تھی اور ایسی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا۔ چھاجوں مینہ پڑ رہا تھا۔ اسکی کار کے شیشے پر وائپر تیزی سے چل رہا تھے لیکن بارش کی رفتار کہیں زیادہ تھی۔ کبھی کبھی تو سڑک نظر تک نہیں آتی تھی۔ وہ دوسرے شہر سے آ رہا تھا اور اُسے ڈر تھا کہ وقتِ مقررہ پر نہ پہنچا تو جن صاحب سے ملنا تھا، انتظار کر کے چلے نہ جائیں۔ کام بہت ضروری تھا۔ وقت کم تھا، گاڑی تیز چلانا ممکن نہ تھا۔ بارش اکیلی نہیں تھی تیز ہَوا بھی تھی۔ درخت یوں لگتا تھا زمین پر آ رہیں گے اس پر طرہ یہ کہ وہ اس علاقے میں پہلی بار آیا تھا۔ اس بارش میں سڑک پر کوئی نہ تھا جس سے وہ پتہ پوچھتا۔ گاڑی کھڑی کر کے موسلادھار بارش میں وہ ایک دکان میں جا گھسا لیکن دکاندار خود موجود نہ تھا، ملازم رہنمائی نہ کر سکا۔ پھر اُس نے ایک پراپرٹی ڈیلر کا دفتر ڈھونڈا۔ وہاں سے اُسے مدد ملی اور وہ مطلوبہ مکان تک پہنچ گیا۔ ساتھ ہی اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ صرف دو منٹ لیٹ تھا، گھنٹی بجائی، ایک عورت نے کھڑکی سے سر نکالا اور بتایا کہ ذوالفقار صاحب گھر پر نہیں ہیں، انہیں ایک ضروری کام سے کہیں جانا پڑ گیا۔

یہ افسانہ نگاری نہیں، سو فی صد سچائی ہے۔ بیان کرنے میں صرف اتنی خیانت ہوئی ہے کہ نام بدل دیا گیا ہے فسادِ خلق سے بچنے کیلئے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے! ہم میں سے نوے فی صد لوگ یہی کرتے ہیں۔ وقت طے کر کے پہنچتے ہی نہیں، پہنچیں تو گھنٹوں کی تاخیر کے ساتھ پہنچتے ہیں یا کسی دوسرے نے ہمارے پاس پہنچنا ہے تو ہم غائب ہوتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ آنےوالا کتنی دور سے آ رہا ہے، کس موسم اور کن حالات میں آ رہا ہے۔ اب تو موبائل فون کا زمانہ ہے۔ خواجہ سرائوں کے گھر بچہ پیدا ہوا تھا تو انہوں نے اُسے چوم چوم کر مار دیا تھا، پاکستانیوں کو موبائل فون ملے تو ایک ایک ”عقل مند“ نے چار چار سِم رکھی ہوئی ہیں، لیکن اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ جس سے وعدہ کیا ہوا ہے اُسے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا دیں۔ جن ”ذوالفقار“ صاحب کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ متشرع ہیں، ایک مذہبی تحریک کے باقاعدہ رکن ہیں، ایک مسجد کے منتظم ہیں، خوبصورت آواز سے نعتِ رسول پڑھتے ہیں، ہر سال عمرہ کرتے ہیں لیکن اُنکے اسلام میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ وہ وعدہ ایفا کریں۔ مجھے معلوم نہیں، لیکن میرا گمان ہے کہ انہوں نے نصیحت و وعظ کے طوفان میں بہتے ہوئے، لوگوں کو یہ ضرور بتایا ہو گا کہ اللہ کے رسول سے کسی نے کہا کہ آپ یہیں کھڑے رہیں، میں آتا ہوں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ نے وعدہ فرما لیا۔ وہ شخص بھول گیا۔ آپ تین دن اُس جگہ سے نہ ہلے، انتظار فرماتے رہے، یہاں تک کہ اُس شخص کو یاد آ گیا اور وہ واپس آیا!
 ہم مسلمان بالعموم اور ہم پاکستانی بالخصوص اس وقت جس اخلاقی زوال سے دوچار ہیں اُس کی شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ حالی نے جو کچھ 1889ءمیں کہا تھا آج بھی صحیح ہے

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

[کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ مسدسِ حالی اپنے بچوں کو سبقاً سبقاً پڑھا دیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ہم میں اور ترقی یافتہ قوموں میں کیا فرق ہے؟) ۔
ہم مسلمانوں کا طرز عمل حرمین شریفین میں کیا ہوتا ہے ؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کے لیے کہ جو کچھ حجر اسود کو ہاتھ لگانے اور چومنے کے لیے کیا جاتا ہے کیا وہ اسلامی یا اخلاقی لحاظ سے روا ہے ؟ گریبان پھٹ رہے ہیں۔ احرام کی چادریں اتر رہی ہیں۔ خواتین کی تذلیل ہو رہی ہے۔دھکم پیل سے سانس لینے میں دقّت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خدا کی قسم اگر وہاں وہ شرطہ نہ ہو تو مسلمان ایک دوسرےکو گرا کر ، اوپر پائوں رکھ کر حجر اسود کو چومیں اور پحر بھی یہی سمجھیں کہ نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ کسی ایک میں بھی اتنا ایثار نہیں کہ وہ دوسرے کو آگے جانے دے اس لیے کہ کسی مسلمان کو تکلیف دے کر حجر اسود چومنا یاہاتھ لگانا اسلام کا مطالبہ ہی نہیں۔


اب مدینہ منورہ آ جائیے۔ ریاض الجنہ مسجد نبوی کا وہ حصّہ ہے جو حیات مبارکہ کے دوران اصل مسجد تھا۔ اسے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے۔ آپ ذرا ہٹ کر کھڑے ہو جائیے اور دیکھیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جن کو جگہ مل گئی ہے ان میں اتنا شعور نہیں ہے نہ ایثار کہ کچھ نوافل ادا کر کے شائستگی اور وقار کے ساتھ باہر نکل آئیں اور اپنے کسی مسلمان بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ جانے کتنے گھنٹوں سے انتظار کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ موقع دیں۔ جنہیں جگہ نہیں ملی وہ وہاں بھی گھُسنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں انسان تو کیاچند انچ کی بھی گنجائش نہیں۔ ایک بار پھر پھر غور سے دیکھیے کوئی ایک فرد بھی سہولت کے ساتھ ، دلجمعی اور سکون کے ساتھ نوافل ادا نہیں کر پا رہا اس لیے کہ سجدہ کرنے کی جگہ ہے نہ رکوع کرنا ہی ممکن ہے۔ حالانکہ اگر اپنی جگہ کسی مسلمان بھائی کو دے دی جائے تو یقینا َ َ اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے جگہ دینے والے کو بھی نوازیں گے لیکن ایثار ، محبت اور شائستگی دور دور تک نظر نہیں آتی۔
پستی کی اس گہرائی میں گرنے کے باوجود نعرہ یہ ہے کہ ہمارے جیسا کوئی نہیں اور ہمارے علاوہ سارے گمراہ ہیں اور بدبخت ہیں! اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی تنقیص، بُرائی اور تضحیک ہمارا قومی شعار بن چکا ہے، حالانکہ دنیا نہ صرف مادی لحاظ سے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی ادیبہ ایک غیر مسلم ملک کا دورہ کر کے واپس آئی ہیں۔ دیکھئے، کیا کہتی ہیں

”ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ شہرِ  دہلی  کی ترقی، تزئین و آرائش اور نظام دیکھ کر ہم متاثر ہوئے اور رشک میں مبتلا ہو گئے کہ کاش! ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی کوئی نظام چلتا نظر آئے جس میں عوام کی سہولت اور آسانی کو ہی پیش نظر رکھا گیا ہو۔ ہمیں پہلے بھی آنے کا اتفاق ہو چکا ہے مگر اب کے پہلے کی نسبت شہر زیادہ قاعدے والا محسوس ہوا۔ تجاوزات کا نام و نشان نہ تھا۔ ہمیں میٹرو ٹرین (زیر زمین ریلوے) ، بس، آٹو رکشے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کرائے بہت ہی کم تھے، سب آرام چین سے سفر کرتے تھے، نہ دھکم پیل، نہ رش نہ بیزاری نہ کوفت، خواتین دن ہو یا رات بے فکری سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہیں موٹر بائیک چلاتی ہیں مگر انہیں کوئی ہراساں نہیں کرتا۔ اسکے برعکس ہمارے اسلامی معاشرے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہاں تو عورت کسی بھی عمر کی ہو کوئی لباس پہنے ہوئے ہو اُسے ہوس ناک نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دلّی  میں ہمیں کوئی سپیڈ بریکر، مورچہ، پولیس ناکہ یا سنگین بردار فوجی نظر نہیں آئے۔ یہ نعمتیں شاید صرف ہمارے ہی نصیبوں میں لکھی جا چکی ہیں۔ ہمسایہ ملک کے سکھ دیکھ کر ہمیں اپنے گھر کے دکھ بہت یاد آئے۔“



حالی ایک بار پھر یاد آ رہے ہیں :



سمجھے ہیں گمراہ جن کو مسلماں



نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں



نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں



نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں



وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں



سب آپس میں اک اک کے حاجت روا ہیں



اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں



طلب گارِ بہبودِ خلقِ خدا ہیں



عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو



جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو



مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو



انہیں برتر از آسماں دیکھتے ہو



یہ ثمرے ہیں ان کی جواں مردیوں کے



نتیجے میں آپس کی ہمدردیوں کے















Tuesday, April 05, 2011

پس ماند گاں

شہر کی دیواریں اشتہاروں سے اٹی پڑی تھیں۔ ’’ہم اپنے لیڈر کو ووٹ دینگے‘‘۔ لیڈر کی جیت ’’انتخابات‘‘ میں اتنی یقینی تھی کہ ’’فتح‘‘ کے بعد کے پروگراموں کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ ’’نوے فیصد ووٹ ہر حال میں ملیں گے‘‘۔ تین اپریل کو لیڈر حسبِ پروگرام جیت گیا۔ قزاقستان کے ’’منتخب‘‘ صدر نور سلطان کو مزید دس سال مل گئے۔ گذشتہ بائیس سالوں سے وہ قوم کی ’’قیادت‘‘ کر رہے ہیں۔

چھ سو افراد شہر کے سٹی ہال کے سامنے نعرے لگا رہے تھے ’’ہمیں آئینی اصلاحات چاہئیں۔ بدعنوانوں پر مقدمے چلائو‘‘۔ یہ چار دن پہلے کی بات ہے۔ ابھی یہ چھ سات سو لوگ نعرے لگا ہی رہے تھے کہ پچاس ساٹھ افراد اردن کے بادشاہ کی تصویریں لہراتے اُنکے مقابلے میں آ گئے۔ وہ بادشاہ کیساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر رہے تھے۔ سینکڑوں پولیس والے ’’ڈیوٹی‘‘ پر تھے۔ اور چار ہی دن پہلے قاہرہ اور سکندریہ میں ہزاروں افراد نے جلوس نکالے۔ ’’حسنی مبارک پر مقدمہ چلائو‘‘۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جلوس نکالنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن مسلح افواج کی سپریم کونسل لوٹ مار کرنیوالوں کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ لوٹ مار کرنیوالوں میں سرفہرست حسنی مبارک، اسکی بیوی اور دو بیٹے ہیں۔ یہ بڑے بڑے اسلامی ممالک ہیں۔ انہیں دنیائے اسلام کے رہنما ممالک بھی کہا جا سکتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے جب یورپ بھر کے متحدہ لشکر کو بیت المقدس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا تھا، اُس وقت اُس کا دارالحکومت قاہرہ ہی تو تھا!

عالمِ اسلام کے ان رہنما ممالک کے مقابلے میں اُن ملکوں کو دیکھئے جن کا نام سنتے ہی ہر مسلمان کا خون جوش میں آ جاتا ہے۔ برطانیہ، امریکہ، جاپان، سوئٹزرلینڈ، کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے سینوں پر گولیاں کھانی پڑتی ہوں۔ تین سال… یا زیادہ سے زیادہ دو بار انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ جتنے عرصہ میں ایک حسنی مبارک، ایک قذافی، ایک نور سلطان، ایک بشارالاسد، ایک ضیاء الحق اور ایک پرویز مشرف بھگتایا جاتا ہے، اتنے عرصہ میں مغربی ملکوں میں دس دس بار حکومتیں بدلتی ہیں۔ پرامن طریقے سے، ایک ضابطے کیساتھ، قاعدے قانون کی رُو سے۔ پھر یہ قذافی، یہ حسنی مبارک منوں اور ٹنوں کے حساب سے سونا اور جواہرات اکٹھے کر چکے ہوتے ہیں اور کسی دوسرے ’’مقدس‘‘ ملک میں بقیہ زندگی آرام سے گزارتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں مارگریٹ تھیچر ہو یا ٹونی بلیئر، انکے اثاثے ہر شخص کو معلوم ہوتے ہیں!

ہماری کٹ حجتی کا یہ عالم ہے کہ جب سائنس، ٹیکنالوجی، علم، آئیڈیاز اور جمہوریت کے میدانوں میں ہماری پسماندگی اور شکست خوردگی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ مغرب صنفی بے راہروی کا شکار ہے اور اخلاقی میدان میں پیچھے ہے۔ اگر خلط مبحث کی اجازت دے بھی دی جائے تو اسکے باوجود ہم بھول جاتے ہیں کہ صنفی بے راہروی ہمارے اپنے ہاں مغرب سے شاید ہی کم ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں سب کچھ چھُپ کر کیا جاتا ہے‘ جس ملک کی ہر دیوار پر ہر ریلوے اسٹیشن پر اور بادامی باغ سے پیرودھائی تک ہر بس سٹاپ پر جنسی بیماریوں کے نام واضح اور خوشخط لکھے ہوئے ہوں، لاکھوں ہاری عورتیں جاگیرداروں کی حویلیوں میں صنفی بربریت کا نشانہ بن رہی ہوں۔ گلبرگ، ڈیفنس اور حیات آباد کے ہر چوتھے گھر میں ’’کاروبار‘‘ ہو رہا ہو اور لاکھوں مزاروں پر اولاد ’’عطا‘‘ ہوتی ہو وہ ملک دوسروں کو اخلاقی برتری کا سبق دیتا ہے! اور ظلم یہ ہے کہ اسے اپنی خبر ہی نہیں! یا خبر تو ہے لیکن تکبر اجازت نہیں دیتا کہ سچ کو سچ مانا جائے۔

منافقت کا یہ عالم ہے کہ مدارس کو چھوڑ کر، سب سے زیادہ مذہب لوگ تاجروں اور دکانداروں میں ہیں، تبلیغ سے لیکر صدقہ خیرات اور چندے دینے تک، ہماری تاجر برادری، ہماری بزنس کلاس، سب سے آگے ہے۔ انکی اکثریت متشرع ہے اور صوم و صلوٰۃ کی پابند ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹ بھی اسی طبقے میں ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ، ناروا منافع خوری، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا، وعدہ خلافی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیکس چوری کرنا اور محکمہ ٹیکس کے اہلکاروں کو خوش رکھ کر ریاست کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانا اس طبقے کا ایسا عنوان ہے جو جلی حروف میں لکھا ہے اور جس کا انکار کوئی اندھا ہی کرے تو کرے!

مستقبل قریب میں ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے جو اس طرزِعمل کو بدلنے کی نشاندہی کرتے ہوں۔ اپنا محاسبہ کرنے اور میدانِ عمل میں کچھ کر دکھانے کے بجائے قومی سطح پر وتیرہ یہ بن گیا ہے کہ ہر الزام دوسروں کو دیا جائے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، سب کچھ سازش کا نتیجہ قرار دیا جائے تاکہ خود کچھ نہ کرنا پڑے۔ یوں لگتا ہے کہ پوری قوم مالیخولیا اور خفقان کی مریض ہے۔ جو کام ہم نے جان بوجھ کر، کرپشن کی وجہ سے،  نہ کیا ہو اس کا الزام بھی یہود و ہنود  کو دیا جاتا ہے اس لیے کی یہ آسان ترین کام ہے۔  یہی رویّہ انفرادی سطح  پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر تیسرے شخص کو یہ وہم بلکہ یقین ہے کہ اُس پر تعویذ کئے جا رہے ہیں، اُس پر جادو ہو رہا ہے، اُسے کسی کی نذر لگ گئی ہے، اُس پر آسیب کا سایہ ہے اور سب لوگ اُسکے دشمن ہیں۔ ناکامی، انفرادی ہے یا قومی، اُس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا، ایسے اسباب نہیں تلاش کئے جاتے جو کامیابی سے ہمکنار کریں اور انہیں اپنا لیا جائے، اس رویے کا نتیجہ یہ ہے کہ نجومیوں، فال نکالنے والوں، تعویذ فروشوں، خلافِ شریعت استخارے کی دکانیں لگانے والوں اور کالے جادو کا توڑ کرنیوالوں نے پوری قوم کو اپنے ناپاک پنجوں میں جکڑ رکھا ہے!

احساسِ کمتری اور ظاہری ٹھاٹھ کا یہ عالم ہے کہ ناموں کیساتھ سابق جرنیل، سابق وزیر، سابق ناظم، سابق ایم این اے، یہاں تک کہ سابق امیدوار بھی لکھنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ مدتیں گزریں ایک قبرستان میں ایک کتبہ دیکھا تھا جو آج تک بھولتا نہیں، مرحوم کے نام کیساتھ چیف انجینئرریلوے پورے طمطراق سے لکھا تھا۔ اب تو ای میل ایڈریسوں میں جرنیلی ڈالی جا رہی ہے۔ صائبؔ تبریزی نے ہمارے عہد ہی کیلئے کہا ہو گا …؎

پیش ازیں بر رفتگاں افسوس می خوردند خلق

می خورند      افسوس در  ایامِ ما  بر ماندگان

ایک زمانہ تھا کہ رفتگاں کا افسوس کیا جاتا تھا۔ آج وہ وقت آ گیا ہے کہ لوگ پسماندگان پر افسوس کر رہے ہیں۔
 

powered by worldwanders.com