Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, May 29, 2009

محبت پاس سے گزرے تو کُہنی مار دینا

دن کی آخری نماز پڑھ کر میں مسجد نبوی سے رخصت ہوا تویک دم احساس ہوا کہ دوپہر کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ ایک پاکستانی سے البیک فاسٹ فوڈ کا پوچھا تو اس نے پندرہ منٹ کا فاصلہ بتایا جسے میں نے احتیاطاً آدھا گھنٹہ سمجھا اور یہی ہوا‘ البیک تک پہنچتے پہنچتے آدھ گھنٹہ لگ گیا حالانکہ میری رفتار اتنی آہستہ بھی نہیں تھی۔ البیک‘ فاسٹ فوڈ کا ایک سلسلہ CHAIN ہے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس کا مالک کوئی مصری ہے یا کم از کم اس کا صدر دفتر قاہرہ میں ہے اور اس نے امریکی فاسٹ فوڈ کی دکانوں کو سعودی عرب میں لوہے کے چنے چبوا دئیے ہیں۔ جدہ میں میں نے دیکھا کہ البیک پر خلق خدا کا ہجوم تھا اور اس کے برابر میں کے ایف سی والا مکھیاں مار رہا تھا! مسجد نبوی سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ البیک جس میں میں کھڑا تھا گاہکوں سے چھلک رہا تھا اتنے بڑے ہال میں ایک میز بھی خالی نہیں تھی۔ میں دوسرے ہال میں داخل ہوا تو کھانا خریدنے کا سسٹم دیکھ کر خوش ہوا۔ قطار بنی ہوئی تھی یا اللہ! تیرا شکر ہے مسلمانوں نے قطار بنانا سیکھ لی ہے۔ میں بھی اس میں کھڑا ہوگیا۔ اپنی باری پر میں نے برگر اور کوکا کولا کا آرڈر دیا۔ قیمت ادا کی اور ایک ٹوکن نما کاغذ لے کر قطار سے نکل آیا۔ وہ جو چند منٹ پہلے قطار دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا تھا اس پر جلد ہی جھاڑو پھر گیا۔ جہاں ٹوکن دیکر کھانے کی ٹرے لینی تھی وہاں قیامت کا سماں تھا۔ مشرق بعید سے تعلق رکھنے والے لڑکے کاونٹر پر پرچیاں (ٹوکن) لے کر کھانا دے رہے تھے لیکن ان تک پہنچنا انہیں ٹوکن تھمانا اور پھر کھانے کی ٹرے حاصل کرنا کم از کم میرے جیسے کم ہمت کیلئے ناممکن لگ رہا تھا۔ آپ نے تصویروں میں دیکھا ہوگا کہ جنگ یا زلزلے کے متاثرین روٹی یا کمبل لینے کیلئے کس طرح بازو لمبے کر کے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے ہیں بس یہی منظر تھا میں نے ایک پاکستانی سے کہا کہ یہ کیا سسٹم ہے اور یہ تو بہت گڑبڑ ہے۔ اس نے مسکرا کر جواب د یا کہ سسٹم ہے یا گڑبڑ ہے‘ بس یہی ہے اور آپ کو دھکے دے کر اور لوگوں کو کہنیوں سے ہٹا کر آگے جانا ہوگا مجھے کہنی پر اپنا شعر یاد آیا…؎سنے ہیں تذکرے اس کے مگر دیکھی نہیں ہے محبت پاس سے گزرے تو کہنی مار دینا لیکن کہنی کا جو استعمال یہاں بتایا جا رہا تھا اسے میرا ذوق لطیف گوارا نہ کر سکا۔ میں ایک طرف کھڑا رہا اور دیکھتا رہا اور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ اس لئے نہیں کہ مجھے بھوک لگی تھی اور میں کھانا ’’حاصل‘‘ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ میں اس لئے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور میرے پیٹ میں رہ رہ کر مروڑ اس لئے اٹھ رہے تھے اور میری اندر کی آنکھوں سے آنسو اس لئے بہہ رہے تھے کہ میں نے سنگاپور سے لے کر وینکووور تک اور منیلا سے لیکر میکسیکو سٹی تک‘ دنیا کے بے شمار شہروں میں برگر خریدے اور قیامت کا یہ منظر مجھے ڈھاکہ ہی میں یا لاہور ہی میں یا سعودی عرب ہی میں نظر آتا ہے! مجھے یاد آگیا جب میں سنگا پور میں پہلی دفعہ سنگاپور ائر لائن کے دفتر میں داخل ہوا تو ہجوم دیکھ کر ٹھٹھکا لیکن ایک ثانیے میں معلوم ہوگیا کہ یہ ہجوم نہیں‘ یہ گاہکوں کا منظم گروہ ہے۔ مجھے ایک ٹوکن دیا گیا۔ 104 نمبر‘ میں ایک طرف پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ مجھے سامنے دیوار پر 98 لکھا ہوا نظر آیا جو تھوڑی دیر کے بعد 99 ہوگیا اور جب 104 ہوا تو کسی سے ایک لفظ کہے بغیر میرا کام میری باری پر ہوگیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے انسان کو انسان کی احتیاج سے بچا دیا ہے…؎ آنکہ شیراں راکند روبہ مزاج احتیاج و احتیاج و احتیاج ایمسٹرڈم کا ہوائی اڈہ یورپ کے بڑے ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے آپکو کسی سے کچھ بھی نہیں پوچھنا پڑتا۔ جادو یہ ہے کہ آپ کے دل میں خیال آیا کہ آپ نے چائے پینی ہے‘ سامنے یا دائیں بائیں دیکھئے۔ ریستوران کا بورڈ نظر آ جاتا ہے اور راستے کی ر ہنمائی بھی‘ آپ نے عبادت کے کمرے میں جانا ہے۔ طہارت کیلئے جانا ہے‘ نیم دراز ہو کر آرام کرنا ہے ‘ آپ ادھر ادھر دیکھے‘ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں‘ رہنمائی موجود ہے۔ لندن کی زیر زمین ریل کے پچیدہ نظام میں آپ کسی سے کچھ پوچھے بغیر ہر جگہ جا سکتے ہیں‘ آپ کو صرف نقشہ سمجھنا ہے‘ وہ نقشہ جو آپ کو مفت ملتا ہے! سنگاپور ائر لائن کے دفتر میں دیوار پر 104 لکھا ہوا نظر آیا اور بغیر سفارش کے میرا کام ہوگیا تو مجھے یاد آیا کہ میں اپنی قومی ائر لائن کے دفتر میں قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک خطرناک مونچھوں والا آدمی آگے بڑھا۔ اس نے مونچھیں خالص گھی سے چوپڑی ہوئی تھیں اور میں اپنی مکمل جسامت کے ساتھ اس کے نصف کے برابر تھا۔ وہ سیدھا کھڑکی پر گیا اور انتہائی بلند اور پاٹ دارآواز میں کہا کہ … صاحب نے بھیجا ہے۔ ٹکٹ چاہئے اور قطار میں کھڑے ہوئے بے وقعت بے بضاعت حقیر کپڑوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے خالص گھی میں چوپڑی ہوئی مونچھوں کو سب سے پہلے ٹکٹ دیا گیا۔ مجھے کوالالمپور کا واقعہ یاد آیا جب میں اپنے اس عزیز کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا جس کے والد کشمیر کے تھے اور والدہ ملائشیا کی تھیں۔ اس کے والد ہمارے گائوں میں آئے‘ میرے دادا جان سے فارسی ادب پڑھنے دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ رخصت ہوئے تو استاد نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ کشمیری نوجوان کوالالمپور میں آباد ہوگیا شاہی خانوادے میں شادی ہوئی اور بیٹے بیٹیاں حد سے زیادہ لائق اور خدمت گار نکلیں اور اس کا یہ ایمان تھا کہ جھنڈیال والے بابے نے دعا کیلئے جو ہاتھ اٹھائے تھے وہ کارگر نکلے بہرطور میں نے ملاایشین ائر لائن کے دفتر سے اسلام آباد کا ٹکٹ خریدا۔ کاونٹر پر بیٹھی بی بی نے فون کا رابطہ پوچھا تو میں نے ایک ا دائے بے نیازی سے اپنے میزبان کے گھر کا فون نمبر لکھا دیا۔ ائر لائن اور فون کرے؟ ناممکن۔ رات گئے خالد کی ملایشین بیگم نے مجھے فون پکڑایا بھائی آپ کیلئے کال ہے۔‘ ائرلائن سے کوئی بتا رہا تھا کہ ہم نے کراچی تک کی پرواز کنفرم کر دی ہے۔ لیکن کراچی سے اسلام آباد تک کیلئے کئی ٹیلکس کراچی روانہ کئے ہیں۔ وہاں سے کوئی جواب نہیں آ رہا‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دل میں کہا کہ کراچی سے جواب آئے گا بھی نہیں‘ میں نے پی آئی اے سے اس وقت سفر شروع کیا تھا جب میں 19 برس کا تھا اور ایم اے کرنے کیلئے ڈھاکہ گیا تھا۔آج میں ساٹھ برس کا ہوں۔ ان اکتالیس 41 برسوں میں میں نے کتنی ہی بار قومی ائر لائن سے سفر کیا ہوگا۔ ہر بار فون نمبر پوچھے گئے اور لکھے گئے۔ پہلے صرف دفتر میں فون کی سہولت تھی پھر گھر میں فون لگ گیا۔ پھر موبائل آگیا پروازیں موخر ہوئیں منسوخ ہوئیں ان کتالیس برسوں میں ایک بار بھی قومی ائر لائن سے کسی نے فون پر اطلاع دے کر زحمت سے بچانے کی کوشش نہیں کی اور پچھلے چار پانچ سال میں جو تجربے ہوئے وہ تو عبرت ناک تھے‘ اب تو بیٹے بیٹیاں کھانے کو پڑتی ہیں کہ ’’قومی‘‘ ائر لائن سے آپ سفر کرتے ہی کیوں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کانفرنس میں ملک کی نمائندگی کرنے میکسیکو جا رہا تھا جو سلوک نیویارک ائرپورٹ پر ہوا جس طرح رات گزاری‘ جو ’’حسن گفتگو‘‘ کاونٹر والی بی بی نے دکھایا اور مقامی منیجر نے۔ جس نے یقیناً سفارش سے نیویارک میں تعیناتی کرائی ہوگی۔ جس طرح ’’تعاون‘‘ کیا اس کا تذکرہ نہ کرنا ہی دانش مندی ہے۔ چند دن بعد ہم تین افراد ملک کی نمائندگی کرنے واشنگٹن جا رہے تھے‘ لندن ائرپورٹ پر ہمیں جب اتارا گیا تو واشنگٹن والے جہاز کا صرف دھواں باقی تھا۔ ہم نے کسی طرح پاکستان فون کر کے قومی ائر لائن کے لندن والے ’’افسروں‘‘ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کس طرح رات ہوٹل میں بسر کی اور وہ ہوٹل کیسا تھا۔ یہ سب بھی نہ ہی بیان کیا جائے تو عقل مندی ہے۔ ہاں یہ طے ہے کہ لندن والے نے بھی اپنی تعیناتی سفارش سے کروائی ہوگی تو پھر تعجب کیا ہے اگر سنگاپور ائر لائن اور متحدہ امارات کی ائرلائن اپنی ’’استاد‘‘ ائر لائن سے میلوں نہیں کوسوں نہیں‘ کئی نوری سال آگے بڑھ گئی ہیں اور ہماری قومی ائر لائن والے صرف یہ بیان کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے یہ ائر لائنیں شروع کی تھیں اور ہم نے انہیں سب کچھ سکھایا ہے۔ ہماری قومی ائر لائن والوں نے فراق گور کھپوری کا نام ہی نہیں سنا ہوگا…؎ جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلہ سود و زیاں ہے کہ جو تھا ویسے قومی ائرلائن کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ جہاز میں فضائی میزبان خواتین کو دیکھ کر مسافروں کو اپنی وہ ساری ماسیاں پھپھیاں یاد آتی ہیں جنہیں رخصت ہوئے زمانے ہوگئے اور میزبان مرد اتنے بزرگ ہوتے ہیں کہ ان سے پانی یا کھانا لیتے ہوئے ندامت ہوتی ہے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ ہماری قومی ائر لائن میں مختلف شعبوں میں بھرتیاں کسی اشتہار کسی مقابلے کسی میرٹ کے بغیر کتنا عرصہ ہوتی رہیں؟ اس سوال کا جواب آپ خود معلوم کیجئے لیکن جواب جو بھی ہو‘ پندرہ سال کے عرصہ سے زیادہ ہی کا ہو گا۔ بات البیک سے اور قطار بنانے اور نہ بنانے سے چلی تھی‘ دور نکل گئی اور نوائے وقت نے اس کالم کیلئے جتنی جگہ مخصوص کی ہوئی ہے‘ اس سے تجاوز ہو چکا ہے۔ ورنہ میں بتاتا کہ البیک کے ہال میں جہاں کوئی میز خالی نہیں تھی‘ مجھے تین عرب لڑکوں نے بیٹھنے کی جگہ دی۔ ان میں سے دو یمنی اور ایک سوڈانی تھا۔ تینوں سعودی عرب کے پیدائشی تھے‘ میں بتاتا کہ انکے جذبات کیا تھے‘ وہ کس قسم کے سلوک سے شاکی تھے اور بتاتا کہ سعودی نظام تعلیم میں ان تین نوجوانوں کو کوئی غیر ملکی زبان نہیں آتی تھی اور انٹرنیٹ ان کیلئے اب بھی عجبوہ تھا اور بتاتا کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ’’کفیل‘‘ کیا ہوتا ہے اور غلامی کے قدیم سلسلے کا جدید لباس کیا ہے۔ لیکن …؎اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا

Tuesday, May 26, 2009

کھدائیاں‘ کھنڈر اور مؤرخ

صرف ایک دن کی خبریں‘ زیادہ نہیں… صرف ایک دن کی خبریں پڑھ کر… اندازہ لگائیے کہ کیا ہو رہا ہے اور مستقبل کیلئے کیا کیا جا رہا ہے؟ گڑھا کھودا جا رہا ہے‘ اس کے اوپر درختوں کی ٹہنیاں رکھی جا رہی ہیں‘ ان کے اوپر مٹی ڈالی جا رہی ہے‘ گڑھا چھپایا جا رہا ہے‘ وقت یہاں سے گزریگا‘ مملکت خداداد کا… اور پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ جاننے کیلئے غیب کا علم چاہئے؟ نہیں‘ سب کو معلوم ہے‘ ہاں‘ خوش گمانی اور بے حسی کا کوئی علاج نہیں۔ چند فقرے ہیں‘ جو یہاں کے ارباب حل و عقد کے تکیہ ہائے کلام ہیں۔مٹی پائوتو کیا ہواسب چلتا ہےبادشاہ اس طرح کرتے رہتے ہیں۔ سب توڑ رہے ہیں‘ ہم نے قانون توڑ دیا تو کیا ہوا؟ ایک دن کی خبریں… صرف ایک دن کی خبریں… لیکن ٹھہریے‘ اس سے پہلے حقدار کو حق دے دیا جائے‘ پہلی دفعہ اس ملک میں یہ ہوا ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ نے اپنے وزیر کی دھاندلی کا نوٹس لیا ہے اور اسے کام کرنے سے روک دیا ہے۔ پنجاب کے ایک وزیر لاہور کے ہوائی اڈے پر کسی عزیز کے استقبال کو گئے اور مبینہ طور پر کسٹم والوں کی ا یسی تیسی کر دی۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک مرحوم وزیر اعلیٰ تھانے گئے تھے اور مجرم کو اٹھا کر گھر لے گئے تھے۔ ان کا یہ فقر جو انہوں نے اس موقع پر کہا تھا‘ اس ملک کی بدقسمتی کی تاریخ میں نمایاں حروف سے لکھا جائے گا… ’’چل پتر‘ گھر چلئے‘‘ تُف ہے اس ملک کی اشرافیہ پر‘ اشرافیہ جو عوام کے ٹکڑوں پر پل رہی ہے!!شہباز شریف سے شکوے تو بہت ہیں‘ پنجاب صرف لاہور نہیں ہے‘ عین ان کی ناک کے نیچے پنجاب پبلک سروس کمیشن میں پنجاب کے غیرترقی یافتہ سرحدی اضلاع کی کوئی نمائندگی نہیں‘ مرکزی پنجاب کا تسلط سو فیصد ہے لیکن ایئرپورٹ پر قانون ہاتھ میں لنیے والے وزیر کیخلاف جو انکوائری وہ کرا رہے ہیں اور جس طرح وزیر کو کام کرنے سے روک دیا ہے‘ اس کی تحسین نہ کرنا تعصب ہو گا۔ وزیر صاحب کو بچانے کیلئے ’’اشرافیہ‘‘ جو کچھ کر رہی ہو گی‘ خدا کرے وزیراعلیٰ پر اس کا کچھ اثر نہ ہو۔ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ ٹوٹی تو ٹوٹا ہوا ایک حصہ اچھل کر نواز لیگ میں آگرا اور نواز لیگ نے اسے چمکا کر… دھو دھا کر کارنس پر سجا لیا ہے۔ اس کے باوجود نواز شریف کے ایک اقدام کی تعریف نہ کرنا ناروا ہو گا۔ ان کے ایم این اے نے ایف اے پاس کرنے کے شوق میں کمرہ امتحان میں اپنے بھتیجے کو بھیج دیا۔ نواز شریف نے ایم این اے سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ خدا کرے یہ استعفیٰ منطقی نتیجے تک پہنچ جائے کیونکہ… ’’اشرافیہ‘‘ حرکت میں آچکی ہے لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی پارٹی کے سربراہ نے دھاندلی کرنے والے ایم این اے کو باہر جانے کا دروازہ دکھایا ہے! کاش یہ یہاں کا معمول ہو جائے۔ زیادہ نہیں… صرف ایک دن کی خبریں پڑھ کر جو سمجھتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل روشن ہے‘ وہ یا تو خوش فہمی کے آسمان پر رہتا ہے یا ’’دارو‘‘ پی کر دنیا و مافی ہا سے بے خبر ہے! پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بتایا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارت عظمٰی کے زمانے میں ملائشیا سے پام آئل کے بیجوں کی ٹیکنالوجی منگوائی تاکہ پاکستان میں کارخانہ لگایا جائے اور کروڑوں اربوں روپے کی درآمدات سے جان چھوٹے۔ دس سال ہو گئے ہیں‘ پاکستان آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ (Pakistan Oil Seed Development Board) نے ابھی تک کارخانہ نہیں لگایا۔ پبلک اکائوٹنس کمیٹی کو بتایا گیا کہ بورڈ پر دس سال کے عرصہ میں ڈی ایم جی کے افسر مسلط رہے‘ جنہیں نہ تیل کا پتہ ہے نہ مراعات کے سوا کسی اور چیز کا۔ حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے ایک سٹاف افسر سے جان چھڑانا تھی تو اسے اسی بورڈ کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔ کیا پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کبھی سوچا ہے کہ جو شخص وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری بنتا ہے‘ وہ بغیر کسی سسٹم کے بہترین پوسٹ پر پانچ دس سال کیلئے کیوں لگتا ہے‘ ایک صاحب جو پلاسٹک کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے‘ وہ پانچ سال کیلئے وفاقی محتسب لگ گئے۔ ایک اور صاحب پرنسپل سیکرٹری تھے‘ وہ پانچ سال کیلئے ایک اتھارٹی کے سربراہ بن گئے۔ ایک اور صاحب پرنسپل سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بیرون ملک پاکستان کی نشست پر جا بیٹھے۔ کیا پبلک اکائونٹس اس بندر بانٹ کا نوٹس نہیں لے سکتی؟ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز نے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اٹھائیس ایکڑ زمین امریکیوں کے حوالے کی‘ کیا آپ جانتے ہیں کس قیمت پر بازار میں اس کی قیمت دو لاکھ بائیس ہزار فی مربع گز تھی۔ شوکت عزیز نے پندرہ ہزار روپے فی مربع گز پر دی لیکن خبر کا دلچسپ ترین حصہ یہ نہیں اور تھا‘ پڑھیے اور سر دھنیے۔’’جب شوکت عزیز کا یہ سکینڈل پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بتایا جا رہا تھا تو مکمل سناٹا تھا۔ اس وقت شوکت عزیز کی کابینہ کے دو سابق وزیر اور قاف لیگ کے چھ ایم این اے تشریف فرما تھے اور یہ سب پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان ہیں اور انہوں نے شوکت عزیز کو وزیراعظم بننے کیلئے ووٹ دیئے تھے۔‘‘ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے اربوں کھربوں روپوں سے چیک شہزاد میں جو محلات بنائے ہیں‘ ان کی بجلی کے بل رعایتی نرخوں سے وصول کئے جا رہے ہیں اور یہ فرق ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں روپوں میں ہے۔ سوال صرف ایک ہے… اور مستقبل کا مورخ صرف اس سوال کے جواب میں دلچسپی لیتا ہے۔ سزا…؟ ان سب جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا کیا دی گئی؟ دس سال تک جس ادارے کے سربراہوں نے پام آئل ٹیکنالوجی کی درآمد کے باوجود ایک کارخانہ تک لگایا نہ لگنے دیا … انہیں کیا سزا دی جا رہی ہے؟…پھانسی؟ …جیل؟ جرمانہ؟… برطرفی…؟ اور کیا پبلک اکائونٹس کمیٹی وزیراعظم کو تنبیہہ کر رہی ہے کہ پرنسپل سیکرٹریوں کو سالہا سال تک قوم پر مسلط نہ کریں‘ انہیں گھر جانے دیں اور انہیں تاحیات عوام کے ٹیکس پر بادشاہی کرنے کا شوق ہے تو کھلے مقابلے میں حصہ لیں۔ اور کیا پرویز مشرف اور پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے محلات کو رعایتی نرخوں پر بجلی کے بل بھیجنے والے افسروں اور اہلکاروں کو سزا دی جا رہی ہے؟… جیل…‘ برطرفی؟… جرمانہ؟ جب کھدائیاں ہوتی ہیں‘ کھنڈر نکلتے ہیں‘ زیر زمین شہر برآمد ہوتے ہیں تو مستقبل کا مورخ صرف ایک فقرہ لکھتا ہے…’’اس شہر… اس ملک میں جرم کرنے والوں کو سزا نہیں دی جاتی تھی کیونکہ جرم کرنے والے اشرافیہ میں سے ہوتے تھے‘‘۔ کھدائیاں … کھنڈر … اور مورخ

Friday, May 22, 2009

علماء کرام دو راہے پر


لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر مشتاق بیگ کو میں اُس وقت سے جانتا تھا جب وہ کرنل تھے۔ دیندار تو وہ ہمیشہ سے تھے۔ بریگیڈیئر بننے کے بعد انہوں نے وضع قطع بھی متشرع کر لی۔ پھر وہ میجر جنرل بنے‘ شعبۂ چشم پوشی کے سربراہ تو وہ ہسپتال میں تھے ہی‘ آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بن کر تینوں مسلح افواج کے شعبہ ہائے طب کے سربراہ بنے اور سرجن جنرل کہلائے۔ میرے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جس اخبار میں میرا کالم شائع ہوتا وہ ضرور لگواتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ آپ اخبار کیوں بدل لیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ اخبار ہی بدلتا ہوں نا‘ دوست تو وہی رہتے ہیں۔ یہ فقرہ انہیں اس قدر پسند آیا کہ جب بھی ملتے ضرور دہراتے۔ شاید ہی انہیں کسی نے غصے میں دیکھا ہو۔ مریضوں کے ہجوم اور سرکاری ذمہ داریوں کے دبائو میں بھی مسکرا کر ہی بات کرتے۔ اگر وہ وردی میں نہ ہوتے تو ایک اجنبی کو بالکل عالم دین دکھائی دیتے۔ علما کرام سے‘ طلبہ سے‘ اساتذہ سے اور بے شمار دوسرے لوگوں سے فیس نہیں لیتے تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی شہادت کے دو تین دن بعد جمعہ تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ہمارے محلے کی مسجد کے مولانا نماز کے بعد جنرل ڈاکٹر مشتاق بیگ کیلئے دعا کرائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ چند دن پیشتر فوج کے نوجوانوں کے جو سوات کے شدت پسندوں کی قید میں تھے‘ سر قلم کئے گئے ہیں۔ سوات کے شدت پسند ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے انتہا پسندانہ خیالات اور اقدامات اُس مکتبِ فکر کے کھاتے میں جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُس مکتبِ فکر کے علماء کرام کا اس سارے قضیے میں کیا کردار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج عوام … بالخصوص وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں اور مذہب کا علم رکھتے ہیں۔ اُس مکتبِ فکر کے علما کرام کی طرف دیکھ رہے ہیں جس مکتبِ فکر کا دعویٰ طالبان کے روپ میں سوات کے شدت پسند کر رہے ہیں۔ ان معزز اور موقر علما کرام کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہو جائیں اور ذہن میں صرف ایک بات رکھیں کہ یہ لوگ جیسے بھی ہیں‘ جو کچھ بھی ہیں اور جو کچھ بھی کر رہے ہیں ہمارے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ہرحال میں ان کی حمایت کریں گے اور ان کے نظریات کو اپنے مکتبِ فکر کے نظریات کا درجہ دیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس مکتبِ فکر کے علما کرام فرقہ وارانہ اور گروہی تعصب سے بالاتر ہو کر انکے طرز عمل کا جائزہ لیں اور پھر جہاں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ افراط و تفریط کا شکار ہو رہے ہیں‘ نشان دہی کریں۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جو ان علماء کرام کے سر پر وقت نے آن ڈالی ہے۔ آج عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس مکتبِ فکر کے علما کرام کے وہی نظریات ہیں جو مقامی طالبان کے ہیں یا معاملہ مختلف ہے؟ کیا اس مکتبِ فکر کے نزدیک گھر سے باہر جانیوالی خواتین کا قتل جائز ہے؟ کیا اس مکتبِ فکر کے نزدیک سکول نذر آتش کر دینے کا عمل اسلام سے مطابقت رکھتا ہے؟ یہ جو پشاور کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ پتلون پہننا چھوڑ دیں ورنہ نتائج کیلئے تیار ہو جائیں‘ کیا یہ اس مکتبِ فکر کے علما کا مطالبہ ہے؟ اس مکتبِ فکر کے علما کرام میں مولانا جسٹس تقی عثمانی صاحب کی علمی خدمات اُنکے مقام کو نمایاں کرتی ہیں۔ لال مسجد کے بحران کے دوران جید علما کرام میں سے وہ واحد عالم دین تھے جنہوں نے برملا کہا تھا کہ فلاں صاحب عالم دین نہیں ہیں۔ اسلامی بینکاری کے ضمن میں انہوں نے قابل ذکر فکری خدمات سرانجام دی ہیں اور اُن ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی دستگیری کی ہے جو مغربی ممالک میں سود سے بچنے کیلئے گھر تک نہیں خرید سکتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اُنکے اپنے مکتبِ فکر کے علما ہی نے انکی مخالفت بھی کی۔ روایت یہ ہے کہ ایک مجلس میں جب جسٹس تقی عثمانی نے مخالفت کرنیوالے ان علما کرام سے کہا کہ اگر اسلامی بینکاری کے بارے میں میرا موقف غلط ہے تو اس سلسلے میں آپ کوئی نعم البدل تجویز کیجئے تو جواب میں معترضین کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ سنجیدہ حلقے جسٹس صاحب سے بجا طور پر یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اس نازک وقت میں اپنا موقف واضح طور پر بیان کرینگے اور دیگر علماء کرام کو بھی قائل کرینگے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب سے بلند تر ہو کر سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہیں اور ان سوالات کے واضح جوابات سے عوام کے ذہنوں کو مطمئن کریں۔ آج اگر اس مکتبِ فکر کے علما کرام بوجوہ خاموش رہتے ہیں اور اپنے واضح موقف کا اظہار نہیں کرتے تو کل جب یہ لوگ ساری دنیا میں اس مکتبِ فکر کی علامت بنیں گے تو وہ اس پر اعتراض نہیں کر سکیں گے۔ انہیں اعتراض کرنے بھی کوئی نہیں دیگا۔ انکے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے ہرگز اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے ہی مکتبِ فکر کے علما کو ان کا جائز مقام دینگے۔ مولانا صوفی محمد ان علما کرام پر اپنے خوفناک اعتراضات کر چکے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے معروف اینکر پرسن نے کچھ ہفتے پہلے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ سوات میں تبلیغی جماعت کے ارکان کو ان لوگوں نے ’’بہنوں‘‘ کا خطاب دیا کیونکہ بندوقیں نہ پکڑنے والے مرد اُنکے نزدیک بھائی نہیں‘ بہنیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قال اللہ اور قال الرسول پڑھنے اور پڑھانے والے معزز او جید علما کرام کو … جو بندوقوں کے بجائے‘ پوری پوری عمر قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ یہ لوگ بہنوں کا درجہ دیں گے یا بھائیوں کا یا انہیں بزرگ سمجھیں گے لیکن اس سے پہلے کہ حد سے زیادہ تاخیر ہو جائے‘ علماء کرام عوام کی رہنمائی فرمائیں اور اپنے واضح موقف کا اعلان کریں۔

Monday, May 18, 2009

Back to the tents

Life for non Arabic speaking expatriates in the Holy Kingdom is harder because of the communication drawback.
The Bangladesh Today

It was long after dusk when I came out of prophet's Mosque after offering fifth, last of the day, prayer. It was then that I realized that I could eat a horse. A Pakistani guided me to Al- Baik, the popular fast food chain in Saudi Arabia which has eclipsed its American counter parts. The place was thriving and there was hardly any table available. I was impressed by the queue in front of the counter which was taking money and issuing vouchers containing numbers allotted to the customers. But the delivery counter was quick to make me realize that my gladness was premature. It was a complete chaos here. Customers were thronging, without any symptom of queue, around a narrow counter. Anybody who could elbow out others and reach the counter and was successful in "handing over" his voucher was lucky to get a tray of food. Elders like me and too frail to venture the struggle were standing far behind. After a long time, one of the countermen, a pleasant looking Far Eastern, perhaps taking pity on my grey hair, handed over to me my burger and coke.

The turmoil put me in my place otherwise I would have boasted in this column that Muslims too have learnt to run their day to day affairs in an organized manner!There was no vacant table available in the vast dining hall. I sought permission from three young men to share their table as one of the four chairs was un-occupied. They were large hearted enough to accommodate me and also invite me to join their feast of nuggets, roasted chicken, French fries and what not. One of these mid twenties was from Sudan and two from Yemen. My curiosity was quick to find out that none of them was at home in English Language and internet was Greek to them. One who was "interpreting" others, told in his floundering English that they, all three of them, were born and brought up in the kingdom but were not privileged enough to be bestowed with citizenship.

Life for non Arabic speaking expatriates in the Holy Kingdom is harder because of the communication drawback. Many foreigners have picked up colloquial language but their imperfect accent ushers them into unwelcome chambers. For higher education, these expatriates have to send their children back home or onward to eastern or western banks of Atlantic.

But the most interesting institution in Middle East in general and in Saudi Kingdom and Qatar in particular, vis-à-vis- non locals is to have a "guarantor "who must be a local. Every foreigner has to have a guarantor (kafeel in Arabic) who actually owns the business and all the documents pertaining to the business are held in his custody. The kafeel, or sponsor, acts as a sort of guardian as well as guarantor and must undertake all administrative and paper work on behalf of the foreigner including applying for a work and residence visa, opening a bank account and signing a rental accommodation contract. So far so good. But the actual practice deviates and deviates substantially. Barring a small group of foreigners who are highly qualified technocrats and are sponsored by major companies, mostly American, Europeans and Japanese, rest of non locals are, virtually, hostages to these kafeels (guarantors). In one of these kingdoms, there have been instances where expatriates who have been contributing towards the local development for forty years, were deprived of their business and sent to prison. Nothing belongs to you except your passport which you have to keep attached with your body whether you are making tawaaf around Kaaba, or jogging or taking a bath. You purchase a taxi to earn a living; its ownership papers contain name of the guarantor (kafeel), not yours, and you have to pay in tribute (protection money?) a considerable portion of your hard earned income. You rent a shop, the tenant, in the papers, is the person who does not pay a penny as rent. His only qualification is that he is 'local' and his guarantee is indispensable for a non local to rent a shop. Generally the view held by the foreigners working in these kingdoms is that the guarantor (kafeel) system is a euphemism for the slavery existing in this part of the world at the time of advent of Islam. The slave would work and was bound to give portion of his earning to his master. Then came Islam and, though not drastically and explicitly, introduced a number of measures which improved the lot of slaves and concubines. These were in addition to a lot of acts in which, as atonement, slaves were set free.

But there is a relentlessness in the neo-slavery system currently prevailing in the Middle East. You may have worked hard for half a century and contributed substantially for the betterment of the state but it does not mean that the guarantor, finding the slightest opportunity, will not pounce upon you and will not strip you off whatever you own. Worst hit are the un-educated ones. They are abused by their guarantors for the errands which are not part of their laid down description of duties and do not bring any compensation or remuneration.Paradoxically, the non Islamic "enemy" countries like USA, Britain, Canada and Australia not only protect rights of non-locals, including Muslim, but offer sanctuaries of asylum and citizenship also. Look at the comfort and confidence provided to millions of Muslim immigrants by these "un-Islamic" countries. Jobless and incapacitated are enjoying privileges of social security also. It is interesting that the hard core "Islamic" countries do not allow citizenship even to third or fourth generations living there. I can not forget the impression of being second rate subjects writ large on the faces of the two Yemeni and one Sudanese young men, born and brought up there, who offered me a seat in jam packed Al-baik dining hall.

As already stated, their English was not at all enviable. Saudi Arabia has her own system of education, which, whatever it might be, does not make one capable or qualified enough to go elsewhere for advanced education. No foreign language is taught. But why to exert when educated people can be leased? An aero plane full of white-skinned corporate technocrats used to land in UAE every two hours before the current recession which has pricked a thorn in the inflated belly of the gulf state known for prestigious mega projects. Staging a come back to the tent, along with the camel, is always an open option.

Thursday, May 14, 2009

شکر ہے پاکستان بچ گیا

خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔
ہمارے محبوب وزیراعظم نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ ایسا فیصلہ جو قوم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کیلئے ازحد ضروری تھا۔ اگر خدانخواستہ (میرے منہ میں دھول‘ مٹی‘ کنکر) ‘ وہ یہ جرأت مندانہ اقدام نہ اٹھاتے تو آج پاس کی ایک لہر بحیرۂ عرب سے لیکر پامیر تک اور درہ خنجراب سے لیکر ماکلی کے تاریخی قبرستان تک چھا چکی ہوتی‘ ہمارا حال غرقاب ہو چکا ہوتا اور ہمارا مستقبل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہوتا۔
آپکا کیا خیال ہے‘ یہ عظیم فیصلہ کون سا ہے؟ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ بلوچستان کے بارے میں ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب ہیں۔ بغاوت کا عالم ہے۔ غیر ملکی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں صورتحال کو خراب تر کر رہی ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق زہر گھول رہی ہے‘ لیکن میں وزیراعظم کے جس بروقت فیصلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں‘ اسکا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں۔
تو کیا قبائلی علاقوں کا مسئلہ ہے؟ جسکے ضمن میں یہ انقلابی فیصلہ وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہوا ہے؟ قبائلی پٹی اتنی اہم ہو چکی ہے کہ لندن سے لیکر واشنگٹن تک‘ اس پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے‘ باسٹھ سال تک حکومت پاکستان قبائلی خوانین کو رشوتیں دیتی رہی۔ اب بھی قبائلی ممبران قومی اسمبلی نے سینٹ کے امیدواروں سے کروڑوں روپے لئے ہیں۔ باسٹھ سال … وہاں ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔ عام آدمی کی طرف سے دیکھا تک نہیں گیا‘ اب لوگوں نے بندوقیں اٹھا لی ہیں اور حکومت پاکستان کے طرف دار خوانین کو یوں قتل کر دیا جاتا ہے جیسے وہ دشمن ہوں۔ افغانستان سے دراندازی ہو رہی ہے‘ امریکی ڈرون حملوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ہمارے صدر وہاں تشریف لے جاتے ہیں نہ وزیراعظم وہاں کا دورہ کرتے ہیں‘ قبائلی علاقوں سے اٹھتا ہوا کالا دھواں متقاضی ہے کہ وزیراعظم وہاں کے بارے میں اہم فیصلے کریں لیکن یہ فیصلہ جو وزیراعظم نے دو دن پہلے کیا ہے اور عظیم الشان ہے‘ قبائلی علاقوں کے بارے میں نہیں ہے۔
آپ کا یعنی یہ کالم پڑھنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ خواتین و حضرات خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے‘ آپ نے اس کالم کا پہلا فقرہ (خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا) پڑھا‘ آپ اپنی سوچ کی خوبصورت طلسمی قالین پر بیٹھے اور قالین اڑاتے ہوئے سوات پہنچ گئے۔ آپ نے سوچا کہ سوات کے ناسور سے جو پیپ بہہ رہی ہے‘ وزیراعظم نے اسکی طرف دھیان دیا ہو گا‘ وہاں کا عالم یہ ہے کہ مینگورہ پر طالبان قابض ہیں‘ فوج عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کیلئے جانوں کی قربانی دے رہی ہے۔ لاکھوں عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے‘ نہتے جوان‘ مہاجر کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ہزاروں ان کیمپوں کی طرف لٹے پٹے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے ذہن میں فرض کر لیا کہ وزیراعظم نے یقیناً سوات کے آتش فشاں کو خاموش رکھنے کیلئے کوئی فیصلہ کیا ہو گا لیکن ایسا نہیں‘ آپ جس قدر سرعت سے خوابوں کی دنیا کو خیرآباد کہہ دیں‘ اتنا ہی آپ کے حق میں بہتر ہے۔
اس ملک میں نظام تعلیم جنگل کا منظر پیش کر رہا ہے‘ کہیں او لیول اور اے لیول کے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں‘ کہیں عام سرکاری سکولوں کا جھاڑ جھنکار ہے جو پا برہنہ بچے اپنی عمروں کے ساتھ چن رہے ہیں‘ کہیں مدرسوں کے کٹے پھٹے ندی نالے ہیں جن میں ’’پڑھنے‘‘ والے طلبہ کی اکثریت‘ قلاش ترین طبقوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں جس فیصلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں‘ آپ اسے نظام تعلیم میں انقلاب کی نوید سمجھ رہے ہیں؟ نہیں‘ ہرگز ایسا نہیں‘ گمان غالب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم نے مسند حکومت پر متمکن ہونے کے بعد ابھی تک اس بکھیڑے کی طرف اپنی گرانقدر توجہ کی مبذول نہیں کی۔ یوں بھی پاکستانی اہل سیاست تعلیم و تعلم کی سطح سے بلند تر ہیں۔ بس ہر سیاسی پارٹی میں ایک آدھ پڑھا لکھا شخص کافی ہوتا ہے جو ’’مُنشیانہ‘‘ قسم کے کام سرانجام دیتا ہے۔ ایک آدھ اعتزاز احسن‘ ایک آدھ مشاہد حسین اور ایک آدھ صدیق الفاروق یا احسن اقبال‘ باقی ہر طرف سبزہ ہے اور گلزار ہے اور ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔
خوابوں میں رہنے والے کچھ خوش فہم اس قسم کی بے معنی باتیں کرتے بھی پائے گئے ہیں کہ بھارت میں 1951ء ہی میں زرعی اصلاحات نافذ کر دی گئی تھیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارتی پنجاب جو رقبے میں کم ہے‘ ہمارے پنجاب سے کہیں زیادہ اناج پیدا کر رہا ہے‘ چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہاں بھی زرعی اصلاحات لائی جائیں اور سرداروں اور جاگیرداروں کو رخصت کیا جائے‘ جب میں نے کہا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا تو ان خوش فہم حضرات کا ذہن طلسمی گھوڑے پر بیٹھ کر اس طرف چلا گیا لیکن نہیں! ابھی باسٹھ سال ہی تو ہوئے ہیں‘ کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا‘ میرا اشارہ ہرگز زرعی اصلاحات کی طرف نہیں۔
خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔
ہمارے وزیراعظم نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ قوم کے بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ عورتیں‘ وہ بھی جو ضعف کے مارے لاٹھی ٹیک کر چلتے ہیں اور وہ بھی جو لڑکپن میں ہیں اور چھلانگیں لگاتے ہیں‘ سب کی جان میں جان آئی‘ ہوا رکی ہوئی تھی‘ چلنے لگی‘ پرندے پتھرا گئے تھے‘ چہچہانے لگے‘ درختوں پر بُور آ گیا‘ ریوڑوں میں خراماں خراماں چلتے مویشیوں کے گلوں میں گھنٹیاں یوں بجنے لگیں جیسے دور کے دیس سے قافلے آئے ہوں اور اطلس و کم خواب کے تھان‘ ترکی گھوڑے اور دمشق کے انجیر لائے ہوں۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے وزیراعظم سے یہ بروقت فیصلہ کروایا اور ہماری عزت رہ گئی‘ بین الاقوامی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بگڑ رہی تھی۔ دنیا بھر کی نظریں اس مسئلہ پر لگی تھیں‘ ٹوکیو سے لیکر نیویارک تک اور ماسکو سے لیکر سڈنی تک پھیلے ہوئے سٹاک ایکس چینج اسلام آباد کی شاہراہ دستور کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سمندروں میں سفر کرتی بحری رویں ٹھہر گئی تھیں‘ بحر اوقیانوس میں بحری جہاز ڈگمگانے لگے تھے‘ بحرالکاہل میں پڑے ہوئے فِجی اور ہوائی کے جزیرے ایک نئے سونامی سے خوفزدہ ہو رہے تھے‘ من موہن سنگھ تھا یا ابامہ‘ سعودی بادشاہ تھا یا جرمنی کی چانسلر… سب بار بار گھڑی دیکھتے تھے اور اپنے معاونین سے پوچھتے تھے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے اس سلگتے مسئلے کو سلجھایا ہے یا نہیں؟ فرشتے خلاؤں میں پَر پھڑپھڑاتے تھے اور بے تابی میں پہلے آسمان سے ساتویں تک اور واپس ساتویں سے پہلے کی طرف آتے تھے۔ پرندے اور جانور بھانپ گئے تھے کہ کچھ ہونیوالا ہے اور اگر اب بھی نہ ہوا تو افق افق اندھیرے چھا جائیں گے اور آندھیاں زمین و آسمان کے درمیان اس طرح چلیں گی کہ سورج کی شعاع اور چاند کی کرن کرۂ ارض تک نہیں پہنچ پائے گی۔
خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ روزنامہ نوائے وقت کی خبر کیمطابق جناب وزیراعظم نے وفاقی وزیر سیاحت کو قواعد و ضوابط میں ’’نرمی‘‘ کر کے پراڈو (بڑی گاڑی) استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سلسلہ میں کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کو لکھا تھا کہ پراڈو گاڑی پرتعیش گاڑیوں کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا یہ گاڑی کسی وزیر کا استحقاق نہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے (جو منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے) وزیر صاحب کے زیراستعمال پراڈو گاڑی واپس لینے کی ہدایات دی تھیں جس کے بعد یہ گاڑی واپس لے لی گئی تھی لیکن اب وزیراعظم نے کابینہ ڈویژن کے مشورے کو رد کرتے ہوئے اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ الحمدللہ۔
ظاہر ہے کہ جناب وزیراعظم قانون کی خلاف ورزی کا اور کسی کے ذاتی مفاد کیلئے قانون کو بالائے طاق رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ لیکن جو نازک ملکی اور بین الاقوامی صورتحال اوپر بیان کی گئی ہے‘ اسکے پیش نظر ملکی مفاد میں وزیراعظم کو ایسا کرنا پڑا۔
خدایا! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔

Tuesday, May 12, 2009

سگِ دیوانہ کا زہر

ہندو زادی وہ کام کر گئی جو اہلِ پاکستان میں سے کسی رجلِ رشید کو کرنا چاہئے تھا!ارن دھتی رائے‘ بھارتی قلم کار اور سوشل ورکر‘ کراچی آئی اور گذشتہ ہفتے سچ بول کر گئی‘ خواہ وہ سچ پاکستان کو کڑوا لگے یا بھارت کو…ہم جیسے بے بضاعت اور بے نوا فقیر دہائیوں سے چیخ رہے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی کے وارثوں سے جان چھڑائو‘ غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنانے والی اشرافیہ سے ملک کو پاک کرو‘ اور اب بھِک منگوں‘ ہاریوں‘ غریبوں اور بیروزگاروں نے کاندھوں پر بندوقیں اٹھا لی ہیں اور تھیلوں میں بارود بھر لیا ہے‘ کوئی انہیں طالبان کہے یا عسکریت پسند‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ جو انہیں ’’بھرتی‘‘ کرتے ہیں‘ مقاصد تو ان کے ہیں‘ بھرتی ہونے والے کو چند ہزار روپے ماہوار مل جاتے ہیں جو مملکتِ خداداد کی ریاست نہیں مہیا کر سکتی‘ اور افسوس… صد… افسوس… اقتدار کی راہداریوں میں مٹر گشت اُنہی کا جاری ہے جنہوں نے یہاں تک پہنچایا ہے!’’… کوئی بھی شخص ہتھیار اُس وقت اٹھاتا ہے جب معاشرہ اُسے انصاف نہیں دے پاتا‘‘… یہ ہے وہ بات جو ارن دھتی رائے نے کہی۔ اور کیا ہی خوبصورت نکتہ بتایا اس ہندو زادی نے کہ وہ نوجوان جو عورتوں پر پلاسٹک کے تھیلوں کی طرح پابندی لگانا چاہتا ہے‘ وہ بھی کسی فیکٹری میں تیار ہوا ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح پلاسٹک بیگ کسی فیکٹری میں تیار ہوتا ہے! سوال یہ ہے کہ یہ فیکٹری کہاں ہے اور اسے کون چلا رہا ہے؟ ارن دھتی کی منطق سیدھی سادی تھی۔ ’’جب آپ کہتے ہیں طالبان‘ تو آپ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ کیا اس سے مراد عسکریت پسند ہے؟ یا اس سے مراد کوئی نظریہ ہے؟ دونوں سے لڑنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ ارن دھتی نے واضح الفاظ میں کہا کہ جنگ سے یہ چیزیں ختم نہیں ہو سکتیں اور یہ کہ دہشت پسندی کیخلاف جو جنگ لڑی جا رہی ہے‘ اُس نے دنیا کو پہلے سے بھی زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے!سوال یہ ہے کہ اگر ارن دھتی رائے کو معلوم ہے کہ بندوق اٹھانے والا‘ بغیر کسی سبب کے بندوق نہیں اٹھاتا تو کیا یہ بات پاکستان میں کسی کو معلوم نہ تھی؟ اور اگر معلوم تھی تو آخر کسی نے اُٹھ کر شور بھی مچایا ہے؟ کیا کوئی چیخا ہے؟ اور کیا کسی نے پہاڑ پر چڑھ کر پالیسی سازوں کو بتایا کہ ہوش کرو… پہاڑ کی دوسری طرف جو کچھ ہو گا‘ اُس سے ڈرو!اس ملک میں غریبوں کا کبھی کوئی والی وارث رہا ہے؟ نہیں‘ کبھی نہیں! خدا کی قسم! مسخرے مالک و مختار رہے! ماضی میں جب سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کیلئے پے اینڈ پنشن کمیٹی تشکیل دی گئی تو صرف ایک رکن نے کہا کہ اساتذہ کی تنخواہیں دوسروں سے الگ اور زیادہ رکھو … اور اُس ایک شخص کو سب نے اس طرح دیکھا جیسے وہ دنیا کی سب سے بھیانک بکواس کر رہا ہے۔ اسی کمیٹی کے اجلاس میں جب زرعی اصلاحات اور فیوڈل ازم کی بات ہوئی تو سرکاری ’’ماہر‘‘ معیشت نے اچھل کر کہا کہ نہیں اب تو کسان کہتے ہیں… میں ہونڈا لَیساں‘ یہی وہ ماہرِ معیشت تھا جو دوسروں کی تنخواہیں بڑھتے وقت افراطِ زر کی شرح کچھ اور بتاتا تھا اور جب اسکی اپنی تنخواہ (ایم پی سکیل) بڑھانے کا وقت آیا تو اس نے مختلف شرح بتائی!کاش! طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا‘ افسوس! وہ جس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں‘ اُس مکتبِ فکر کے علما لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ لال مسجد کا قصہ چلا تو اُس وقت جسٹس مولانا تقی عثمانی‘ واحد عالمِ دین تھے جنہوں نے بغیر کسی خوف اور جھجک کے برملا کہا کہ فلاں شخص عالمِ دین ہی نہیں ہے! کاش جسٹس تقی عثمانی آج طالبان کو بتاتے کہ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں پہنا جانے والا لباس‘ بندوق کے زور پر تبدیل کرانے سے اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہو گی! کاش آج علمائ‘ طالبان کو بتاتے کہ وہ اقدامات اٹھائو جو اِس ظالمانہ معاشرے میں غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر ہونے سے روک سکیں۔ اگر طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو وہ انہیں ضرور بتاتا کہ امام شاطبی اپنی مشہور تفسیر جامع احکام القرا میں لکھتے ہیں کہ… ’’مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اگر زکوٰۃ اور بیت المال کافی نہ ہوں تو امیروں کے ذاتی مال سے حکماً دولت لی جا سکتی ہے۔‘‘آخر عمر فاروقؓ نے ایک جائز معاشی سرگرمی کو کیوں روک دیا؟ ایک تاجر نے مدینہ میں بہت سے گھوڑے جمع کر لئے‘ حضرت عمرؓ نے اُسے منع کیا اور پھر اجازت دی لیکن اِس شرط پر کہ وہ گھوڑوں کیلئے چارہ مدینہ سے باہر سے منگوائے۔ اُس نے یمن سے چارہ منگوانے کا بندوبست کیا۔ کیا شریعت میں مدینہ سے چارہ خریدنا منع تھا؟ نہیں! لیکن جب امیرالمومنین نے دیکھا کہ یہ امیر تاجر مدینہ کا سارا چارہ خرید لے گا اور عام شہری پریشان ہو گا تو انہوں نے ایک جائز کام کو ناجائز قرار دے دیا!طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو انہیں سمجھاتا کہ اسلامی معاشیات میں ایک قانون‘ قانونِ تحدید بھی ہے‘ اس کا اصول یہ ہے کہ فرد کا مفاد اجتماعی مفاد پر قربان ہو گا اور انفرادی ملکیت کو اِس حد تک کھلی چھٹی نہیں دی جا سکے گی کہ عوام دب کر رہ جائیں۔ حد (CEILING) مقرر کرنا پڑیگی‘ خواہ کاروں کے سائز پر خواہ مکانوں کے سائز پر‘ آج لیبیا میں ایک خاندان (کنبہ) صرف ایک رہائشی مکان کا مالک ہو سکتا ہے! اور کوئی خاندان ایسا نہیں جو ایک گھر کا مالک نہ ہو!طالبان کا کوئی تھنک ٹینک ہوتا تو انہیں بتاتا کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ’’… اللہ نے مالدار لوگوں کے مال میں غریبوں کا اتنا حصہ رکھا ہے جو غریبوں کیلئے کافی ہو۔ اب اگر یہ لوگ بھُوکے یا ننگے رہیں یا مشقت میں مبتلا ہوں تو اس کا سبب یہی ہو سکتا ہے کہ مالدار لوگ نہیں دے رہے پھر اللہ تعالیٰ کیلئے ضروری ہو گا کہ ان مالداروں کا محاسبہ کرے اور انہیں سزا دے‘‘اللہ کے رسولؐ نے حضرت معاذ بن جبل سے پڑوسی کے بارے میں فرمایا… ’’اُسے اپنی ہانڈی کی خوشبو سے پریشان نہ کرو یا اس کا حصہ نکالو۔ اگر تم نے پھل خریدا ہو تو اس میں سے اسے بھی تحفہ بھیجو ورنہ چھپا کر لائو۔ ایسا نہ ہو کہ اس میں سے تمہارے بچے کچھ لے کر باہر نکلیں اور اس کے بچوں کو غم و غصہ میں مبتلا کریں…‘‘اللہ کے رسولؐ کو معلوم تھا کہ دولت کی نمائش… غم و غصہ پیدا کریگی… آج اِسی نمود و نمائش نے اتنا احساسِ محرومی پیدا کیا ہے کہ بھوکوں نے بندوق اٹھا لی ہے!طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو انہیں مشہور فقیہہ ابنِ خرد کی یہ رائے ضرور بتاتا کہ… ’’ہر ملک کے مالدار لوگوں پر فرض ہے کہ اپنے غریب لوگوں کی کفالت کریں۔ اگر ز کوٰۃ اور سارے مسلمانوں کی فَے اس کیلئے کافی نہ ہو تو سلطان ان کو ایسا کرنے پر مجبور کریگا اور ان غریبوں کیلئے اتنے مال کا انتظام کیا جائیگا جس سے وہ بقدر ضرورت غذا حاصل کر سکیں اور اس طرح جاڑے اور گرمی کا لباس اور ایک ایسا مکان جو انہیں بارش کی گرمی دھوپ اور راہگیروں کی نظروں سے محفوظ رکھ سکے۔ لیجئے…! جاڑے اور گرمی کا لباس اور کم از کم ایک مکان…! یہ ہے ریاست کی کم از کم ذمہ داری! بشرطیکہ ریاست کو منتخب نمائندوں کے الائونس اور مراعات بڑھانے سے فرصت ملے! اور وزیروں کی فوج ظفر موج کی پرورش سے وقت ملے!اور اگر طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو انہیں بتاتا کہ اسلامی اقتصادیات میں ایک قانون‘ قانونِ حجر بھی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا جا سکتا ہے! اور دو اصطلاحیں اسلامی اقتصادیات میں ’’رُشد‘‘ اور ’’سفیہہ‘‘ کی ہیں۔ اہلِ رشد وہ ہے جو تبذیر نہ کرے اور سفیہہ وہ کمینہ دولت مند ہے جو مال خرچ کرنے میں تبذیر کا مرتکب ہوتا ہے! حنفی فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ کے مطابق سفیہہ پر حجر کیا جائیگا۔ یعنی اُسے گناہ کے کاموں پر دولت خرچ کرنے سے حکماً روک دیا جائیگا۔ جب کوفہ کا شہر بسایا گیا تو بانس کے مکان بنائے گئے‘ انہیں آگ لگ جاتی تھی۔ فاروق اعظمؓ نے اینٹوں کے مکان بنانے کی اجازت دی لیکن اس شرط پر کہ کوئی شخص تین مکانوں سے زیادہ مکان نہیں بنائے گا۔ انہوں نے اونچائی کی بھی حد مقرر کر دی! یعنی مسلمانوں کی حکومت دولت خرچ کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے اور ملکیت کی حد مقرر کر سکتی ہے! اور اگر طالبان کا تھِنک ٹینک ہوتا تو اور کچھ نہیں تو شاہ ولی اللہ کی یہ تحریر‘ حجتہ اللہ البالغہ سے نکال کر طالبان کو ضرور دکھاتا۔ ’’جب شہر کے اہلِ ثروت‘ رقص و سرور اور عورتوں کے بنائو سنگھار‘ اونچی عمارتیں بنانے اور کپڑوں اور جواہرات میں عجیب و غریب صنعتیں نکالنے میں روپیہ صرف کریں گے تو اسی قدر شہر کی دیگر مصلحتوں میں کمی ہو جائیگی! اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو لوگ ضروری پیشے کرتے ہیں مثلاً کاشتکار وغیرہ‘ ان پر تنگی ہو گی اور ان پر زیادہ ٹیکس لگایا جائیگا اور اس میں شہر کیلئے بڑا ضرر ہے جو اسکے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچ کر تمام شہر کو گھیر لے گا اور دیوانے کُتے کے زہر کی طرح اس میں پھیل جائے گا!‘‘دیوانے کُتے کا زہر! تو کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دیوانے کُتے کا زہر پھیل چکا ہے!!

Friday, May 08, 2009

A day in Pakistani Baluchistan

Pashtoon, Baluch, Hazara, Barahvi, and many more. Pakistan which is binding all the components together is a blessing for heterogeneous Baluchistan.
The Bangladesh Today

It is an entirely different world. As if I have landed in another arena of Time. Men are wearing black turbans. Some of them are with caps which are of every hue. Their trousers (shalwars) are sloppy. Almost all of them are clad in sheets to withstand the cold weather. Those who are not clad, carry sheets on their shoulders. Women, seen very few, are with long shirts almost all of scarlet color. It is dust everywhere. The town consists of mud houses, very few with bricks and there is hardly any double story building. It is a fairly large town but there is no bookshop, no decent restaurant, and probably no chemist- not to speak of a plaza or shopping mal.

I shake my head and pinch myself but it is not hallucination. I am in Pakistan, it is 2008 and this is Kachlak, the first town you come across after leaving Quetta's northern outskirts.

The Persian speaking, soft spoken, Yahya Tajik and veteran journalist Maqbool Zafar are accompanying me. We keep on driving. The mud houses are spread over miles and miles. "These are Afghan refugees but almost all with computerized Pakistani I.D. cards!" My companions tell me. They can differentiate between a refugee and a local because of style of turbans. "These refugees will never go back. Most of them are from Qandhar. Pakistan is Dubai for them."

We hit an intersection. The road on left leads to Pasheen, and onward to D. I. Khan. We turn right. This is Ziarat road. For miles there is no habitation. Earth is red. Mountains are stark barren. The landscape is all wilderness. It frightens.
Suddenly Maqbool Zafar orders the driver to stop. We get down. There is a huge crack on the road, the aftermath of recent earthquake. We see another gigantic crack far away at the peak of a mountain. Had the population been dense, loss of human life would have been more colossal.

"Why Baluchistan is Sickman of Pakistan?" I ask my companions and they open a floodgate. What the intelligentsia at Quetta sees and foresees is horrendous. The area wise biggest province is the center of modern Great Game. All regional and international players are striving here. There are currents, countercurrents and crosscurrents, proxies and ambushes, traps and waylays, both tactical and political and the only sufferer is common man of Baluchistan.

Isn't it tragic that Sardar Akbar Bugti has been killed but the anachronistic Sirdari system is intact. The murder of this pro-federation old chieftain has supplied a new lifeline to the centuries old socio-economic set up which is depriving common Baluch of basic facilities of health , hygiene and knowledge . How strong this set-up is can be imagined by having a glimpse of chief ministers of the province during last three decades. But the non-Sirdar politicians have been equally indifferent to the woes of common man. The turbans and robes of Moulavies turned politicians also can not claim any radical change in the milieu to their credit. Instead they stabbed the voter in his back by making bargain to support the notorious 17th amendment!
The word "Kachlak", basically, is used for a permanently inhabited settlement". Maqbool Zafar educates me. This is in contrast to "Elagh" which means a village which is populated during the season and then deserted for a certain part of the year. But the influx of Afghan refugees has changed everything. Many temporary settlements are no more temporary. There is no going back to war-ridden devastated Afghanistan. The demographic imbalance created by this influx is ignored by the locals because language is bond stronger than many other considerations. The Baluch of southern part of the province have no linguistic affinity with Punjabis and Memons who, they apprehend, would disturb the existing demography of Gawadar if the port is developed. What a paradox . India, America, Iran and UAE feel threatened by Gawadar and so is a Baluch!

We leave the dusty town of Kachlaak. "Either a miracle is needed to change hundreds of towns like Kachlaak or we have to wait for centuries , whatever is earlier." I say in a tone of soliloquy .

Alamdar Road is a pleasant contrast to Kachlaak. We tread this longest road of Quetta. Dominated by members of Persian speaking Hazara the vicinity speaks of affluence but not of ostentation. I always visit this road to shop "dawaween" (anthologies) of classical and modern Persian poets fabulously printed in Iran. "Will all of these books be sold here?" I ask the Persian speaking shopkeeper pointing to stacks of Irani books. "No. But we export them to Afghanistan." I browse voluminous Shahnama Firdosi avariciously . It is published in extra large size with fantastic large paintings and miniatures and only in two thousand Rupees. If a book of this size, volume and standard is imported from a western country, the price would not be less than twenty thousand rupees. I recall having inquired about Brown's Literary History of Persia in an Islamabad bookstore. Four volumes of normal size with no illustrations and photos. The store owner, a friend, asked for twenty five thousand rupees!

We eat a typical Hazara lunch at a restaurant of Alamdaar Road. Aash, made of homemade spaghettis with soup of cheese. Strange combination- as strange as Baluchistan itself . Pashtoon, Baluch, Hazara, Barahvi, and many more. Pakistan which is binding all the components together is a blessing for heterogeneous Baluchistan.

Thursday, May 07, 2009

جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

اللہ کے بندو! اب تو اس لاش پر رحم کرو!
یہ ملک اس لاش کی طرح ہو چکا ہے جسے ہر طرف سے کھایا جا رہا ہے! کوئی سر کی طرف سے بھنبھوڑ رہا ہے' کوئی پیروں کو کھانے کی کوشش کر رہا ہے' کوئی بدبخت پسلیوں کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس کی آنکھوں میں چھری کی نوک مارے جا رہا ہے اور دعویٰ سب کا یہ ہے کہ وہ علاج کر رہے ہیں۔
اللہ کے بندو! اب تو عام آدمی کو انصاف دو! اب تو سرداروں' چودھریوں' وزیروں اور میروں کو عوام کی گردن سے اتارو! یہی تو تمہارا طرز حکومت ہے جس سے لوگ تنگ آ کر طالبان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خدا کیلئے ہوش کے ناخن لو! قانون کو سب کیلئے برابر کرو… ورنہ جو ہو گا وہ تمہارے تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔
وزیر دو رہائشی مکانوں پر قابض ہو جاتا ہے' غیر قانونی حکم نہ ماننے پر ماتحتوں کو سزاؤں پر سزائیں دیتا ہے' یہ سب کچھ اخبار میں شائع ہوتا ہے' اس اخبار میں جو سرکاری محلات میں پڑھا جاتا ہے' لیکن کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ آخر وزیراعظم ایسا کیوں نہیں کر سکتے کہ کسی وزیر کی ذرا سی غیر قانونی حرکت کا بھی نوٹس لیں اور عوام کو باور کرائیں کہ وہ ''اشرافیہ'' کے نمائندے نہیں' قانون کے محافظ ہیں۔ بیسیوں ریٹائرڈ سرکاری ملازموں میں سے کسی ایک کو وہ کس بنیاد پر الگ کر کے ٹھاٹھ والی شاندار نوکری دے دیتے ہیں؟ کیا ان کیلئے سب برابر نہیں؟ اگر ایسا وہ کسی کی سفارش پر یا کسی کی درخواست پر کرتے ہیں تو انہوں نے خود ہی تو کتاب لکھی ہے۔ آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا … تو وہ کیوں نہیں سوچتے کہ ع
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت!
سیدزادے کو حشر کے دن جواب تو خود دینا ہو گا۔
پلاسٹک کے وزیراعظم جناب شوکت عزیز بھی تو یہی کرتے تھے۔ ایک وزیر کے صاحبزادے نے کراچی ائرپورٹ پر شریف شہری کو مار مار کر لہولہان کر دیا' پلاسٹک کے وزیراعظم کیلئے یہ خبر… کوئی بات ہی نہیں تھی۔ الٹی گنگا یوں بہائی کہ جس خاتون افسر نے وزیر کا غلط حکم ماننے سے انکار کیا' اس خاتون افسر پر فرد جرم عائد کر دی۔ عباس تابش نے خوب کہا ہے…؎
اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اللہ کے آخری رسولؐ کی عزیز از جان دختر نیک اختر کے شوہر' امیرالمومنین علی ابن طالبؓ کے اس فرمان پر اشرافیہ کے ارکان کیوں نہیں ایمان لا رہے کہ ''کفر کی حکومت باقی رہ سکتی ہے' ظلم کی نہیں۔'' اللہ کے بندو! ظلم کرنا بند کرو۔ کلرک' پٹواری' سکول ٹیچر' نائب قاصد' ویگن ڈرائیور اور کھوکھے والے کو سزا دیتے ہیں لیکن وزیر اور امرا اور عمائدین اور رؤسا اور زمیندار اور محلات تک رسائی رکھنے والے دولت مندوں کو قانون پامال کرنے پر کچھ نہیں کہتے۔ خدا کیلئے ہوش کے ناخن لو۔ قانون کو سب کیلئے برابر کرو… ورنہ جو ہو گا وہ تمہارے تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔
بیسیوں گواہ اس واقعہ کے راولپنڈی شہر میں موجود ہیں۔ چکوال سے بچہ اغوا ہوتا ہے۔ اغوا کرنیوالے منگل باغ کے علاقے میں پائے جاتے ہیں' بچے کے متعلقین منگل باغ کے ڈیرے پر جا کر فریاد کرتے ہیں۔ وہ مجرموں کو پکڑتا ہے اور ایک پائی… ایک کھوٹا سکہ لئے بغیر بچہ والدین کو واپس کرواتا ہے' کیا اس واقعہ میں نشانیاں موجود نہیں؟ کیا دیوار پر لکھا ہوا پڑھا نہیں جا رہا؟ تم اشرافیہ کے ارکان ' خدا کی قسم … اس جُوں کی مثال ہو جس کی بھوک مٹتی ہی نہیں تھی۔ جُوں اور مرغ دوست تھے اور سفر پر نکلے تھے۔ دونوں کے پاس سات سات روٹیاں تھیں' جُوں نے ایک ایک کر کے اپنی ساتوں روٹیاں کھا لیں' پھر مرغ کی کھا گئی' پھر بھی بھوک ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اپنے ہم سفر مرغ کی پہلے ایک ٹانگ' پھر دوسری اور پھر سارا مرغ کھا گئی' بھوک سے جُوں کا برا حال تھا' اسے بھیڑ نظر آئی' اس نے بھیڑ کو بتایا کہ وہ اسے کھانا چاہتی ہے' بھیڑ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اپنے آپ کو دیکھو اور میرا حجم دیکھو' لیکن جُوں نے کہا کہ
''سات روٹیاں اپنی کھا چکی ہوں
سات مرغ کی کھا چکی ہوں
اس مرغ کو جو اذان دیتا تھا' چٹ کر چکی ہوں' تو تمہیں کیسے چھوڑ دوں؟''
وہ بھیڑ کو کھا جاتی ہے' پھر اسے بکری نظر آتی ہے۔ یہ سارا مکالمہ بکری سے دہراتی ہے اور اسے بھی چٹ کر جاتی ہے۔ اسی طرح گائے بھینس' گھوڑا اور اونٹ ملتے ہیں اور ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جاتی ہے' اب اسے پیاس ستاتی ہے وہ دریا کو دھمکی دیتی ہے کہ میں تمہارا سارا پانی پی کر تمہیں خشک کر دوں گی۔ دریا ہنستا ہے اور اسے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے لیکن جُوں اسے بتاتی ہے کہ میں نے سات اپنی اور سات مرغ کی روٹیاں کھائیں' اذان دینے والا مرغ ہڑپ کیا' بھیڑ' بکری' گائے' بھینس' ہنہناتا گھوڑا اور بلبلاتا اونٹ سب کو کھا چکی ہوں' تم کیا چیز ہو' وہ دریا کا پانی ایک سانس میں چڑھا جاتی ہے' اس کا پیٹ پھول کر کرۂ ارض جتنا ہو جاتا ہے' وہ آرام کرنے درخت کے نیچے لیٹتی ہے' اوپر سے خاردار پتہ گرتا ہے اور کانٹا چبھنے سے زوردار پٹاخہ چلتا ہے اور جُوں کا پیٹ پھٹ جاتا ہے۔
باسٹھ سالوں میں سب کچھ کھا لیا گیا' ہڑپ کر لیا گیا' چٹ کر لیا گیا' زرعی اصلاحات ہوئیں نہ موروثی گدیاں ختم ہوئیں' دادا کی جگہ منتخب اداروں میں پوتا براجمان ہے! سلطنتیں قائم ہیں' جاگیروں کا طول عرض ہی نہیں معلوم۔ یہ واحد ملک ہے جسکے سیاستدان … حکومتی ہوں یا غیر حکومتی … نجی دوروں پر یورپ اور امریکہ اس طرح جاتے ہیں کہ پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں۔ ٹیکس کوئی نہیں دیتا' کھرب پتیوں کے گوشوارے دیکھو' غربت دیکھ کر آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں' نوکریوں ملازمتوں پر میرٹ اور اہلیت کی بات مجذوب کی بڑ لگتی ہے' خلق خدا نے ہاتھ میں کانٹا لے لیا ہے اور جُوں کے پھولے ہوئے پیٹ میں چبھونے کیلئے تیار ہے۔
اللہ کے بندو! اس سے پہلے کہ پٹاخا چلے اور تمہارے کانوں کے پردے پھٹ جائیں' ضابطے اور ترتیب کو جاری کرو' دھاندلیوں والے احکام واپس لو' ظلم کرنیوالوں کو قانون کیمطابق سزا دو اور سزا دیتے وقت اسکا سماجی مرتبہ نہ دیکھو۔ یہ درست ہے کہ طالبان کا فہم اسلام ناقص ہے' یہ بھی درست ہے کہ وہ علاقائی تمدن کو اسلام کا نام دیتے ہیں' لیکن انصاف کیلئے ترستے عوام کو ان باریکیوں سے کوئی غرض نہیں' فقہ کی باریکیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی' اس سے پہلے کہ پٹاخہ چلے اور تمہارے کانوں کے پردے پھٹ جائیں' اللہ کے بندو! مادر پدر آزاد اشرافیہ کو ' قانون کے گلے پر پاؤں رکھنے والی اشرافیہ کو قانون کے دائرے کے اندر لے آؤ! خلق خدا نے ہاتھ میں نوکیلا کانٹا لے لیا ہے۔

Tuesday, May 05, 2009

سیاہ کو سفید کہنے سے انکار

استعمار اور آمریت دو جڑواں بہنیں تو نہیں' لیکن چھوٹی بڑی سگی بہنیں ضرور ہیں۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپکو برصغیر کی اور پاکستان کی تاریخ میں دلچسپ مماثلتیں نظر آئیں گی۔ آپ کو جنرل ایوب خان کی شخصیت میں لارڈ کلائیو کے کردار کی جھلکیاں دکھائی دیں گی۔ وہی فریب کاری وہی منہ میں ہڈی ڈال کر کام نکلوانا۔ جنرل ضیاء کو آپ ویلزلے کی بریکٹ میں ڈال سکتے ہیں۔ 1800ء سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں کے دلوں میں مقامی لوگوں کے خلاف نفرت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ ہندوستانی عورتوں سے شادیاں کرتے' مقامی لباس پہنتے اور گھل مل کر رہتے۔ ایسے انگریزوں کیلئے مشہور مصنف ولیم ڈال رمپل نے وائٹ مغل کی اصطلاح نکالی ہے لیکن 1800ء میں ویلزلے آیا تو اس نے انگریزوں پر واضح کیا کہ یہ محکوم ہیں اور تم حاکم ہو۔ اسکے بعد انگریز اور ہندوستانی کبھی دوست نہ بن سکے۔ ضیاء الحق نے ایک طرف تو واضح کیا کہ پاکستانی فوج اور پاکستانی سویلین سمیت حاکم اور محکوم رہیں گے' دوسرا کام اس نے استعمار کے تتبع میں یہ کیا کہ اقتدار کو طول دینے کیلئے مذہب کو بے تحاشا استعمال کیا اور اس بری طرح استعمال کیا کہ پاکستانی مارشل لا کے ساتھ ساتھ مذہب سے بھی بدظن ہو گئے۔ اس کارخیر میں ایک مذہبی (سیاسی) جماعت کے علاوہ ان ''اسلام پسند'' صحافیوں نے بھی ضیاء الحق کا پورا پورا ساتھ دیا جنہوں نے برآمدات کے ٹھیکے لئے اور کٹھ پتلی قسم کے ادارے قائم کرنے کیلئے سرکار سے زمینیں لیں اور پھر یہ سلسلہ انہوں نے شوکت عزیز کے زمانے تک جاری رکھا۔
رہے جنرل مشرف … تو آپ انہیں ماؤنٹ بیٹن سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔
یہ دو سگی بہنیں … استعمار اور آمریت … اپنی یادگاریں ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔ ایچی سن کالج اور مسلم لیگ کے لباس میں یونیسٹ پارٹی … یہ استعمار کی یادگاریں ہی تو ہیں۔ پاکستان کی پولیس انگریزی عہد کی سب سے بڑی یادگار ہے' بعض اوقات تو دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ پولیس کے ہر سپاہی اور ہر افسر کے سینے پر جلیانوالہ باغ کا نشان آویزاں ہونا چاہئے۔ وکیلوں کی تحریک کے دوران ماشاء اللہ پاکستانی پولیس نے جلیانوالہ باغ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ استعمار کی طرح آمریت بھی باقیات چھوڑ جاتی ہے۔ گذشتہ ہفتے دارالحکومت کے ایک ثقافتی ادارے میں ثریا ملتانیکر اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھی کہ ایک سابق سیکرٹری اطلاعات تشریف لے آئے۔ انہیں دیکھ کر حاضرین کو مشرف کی آٹھ سالہ آمریت یاد آ گئی۔ موصوف' تقریباً پورے آٹھ سال اطلاعات کے تخت پر آمر کا دیا ہوا تاج پہنے متمکن رہے۔ اب بھی آمریت کی خدمت کی فضا ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی تھی۔ کیا پاکستان ان لوگوں کیلئے بنا تھا؟ خدمت آمر کی اور مراعات ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے' اور کیا کبھی ان مراعات کا حساب بھی ہو گا؟ یا اہل پاکستان نے سب کچھ آخرت پر چھوڑا ہوا ہے؟
پاکستان کی تاریخ کا نصف سے زیادہ عرصہ فوجی آمروں کے منحوس پنجے میں نہ گزرتا تو آج ہمارے پاس ایسے سیاستدان نہ ہوتے جو ایف اے کا امتحان دینے یا نہ دینے کے سکینڈلوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اندازہ لگایئے! مملکت خداداد پاکستان کی بدبختی کا کہ قومی اسمبلی کا ممبر بارہویں جماعت کا امتحان دے رہا ہے اور پرچہ' کمرۂ امتحان میں اسکی جگہ کوئی اور دیتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ پکڑنے والا کہتا ہے کہ اسے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ نون لیگ نے جو کمیٹی بنائی ہے' اس نے ابھی اپنی رپورٹ دینی ہے۔ اسمبلی کے ممبر کا کہنا ہے کہ یہ اس کیخلاف سازش ہے۔ اصل حقیقت کا کسی کو علم نہیں۔ ہم یہاں بطور خاص اس واقعہ کا ذکر نہیں کر رہے اور صرف نون لیگ کے اس رکن اسمبلی کو کیوں مطعون کیا جائے؟ کیا باقی سیاستدان فرشتے ہیں۔ ہم تو ان سطور میں رونا ہی یہی رو رہے ہیں کہ آمریت اور مسلسل آمریت نے ہمارے اہل سیاست کی تربیت ہی نہ ہونے دی۔ وگرنہ مسلسل انتخابات ہوتے اور ہوتے رہتے تو ووٹ مانگنے والوں کی اور ووٹ دینے والوں کی بھی مسلسل تربیت ہوتی رہتی۔ ایک سیاسی عمل جاری رہتا اور دو نمبر سیاستدان صفحۂ سیاست سے مٹ جاتے۔
سیاسی عمل میں بار بار تعطل آنے کا پوری قوم کو تو نقصان پہنچا ہی ہے' سب سے زیادہ نقصان خود سیاستدانوں کو ہوا ہے۔ کیا اس سے بڑا نقصان اہل سیاست کو ہو سکتا ے کہ آج اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی بالخصوص اور متوسط طبقہ بالعموم سیاستدانوں سے نفرت کرتا ہے اور شدید نفرت کرتا ہے۔ متوسط طبقہ میں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں میں آخر کون لوگ شامل ہیں؟ ان میں پروفیسر ہیں اور ڈاکٹر' چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور سول سروس کے ارکان' سنجیدہ طالب علم ہیں اور بنکاری کے ماہرین' اصول پسند صحافی ہیں اور پیشہ ورانہ امور میں محنت کرنیوالے فوجی افسر… یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں میں سخت محنت کی ہے اور طویل دورانیے کے بعد ایک بلند مقام پر پہنچے ہیں۔ آپکا کیا خیال ہے کہ تیس سال رات دن محنت کرنیوالا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ' ڈاکٹر' بنکار' فوجی یا سول افسر… اس سیاستدان کی عزت کرے گا جو ہر بہار اور ہر خزاں میں پارٹی تبدیل کرتا ہے' جو ٹیلیویژن پر آ کر کمال دیدہ دلیری سے آمریت کا دفاع کرتا ہے' جو قانون کو پامال کرتا ہے' جو فوجی جرنیل کو دس بار ''منتخب'' کرانے کا اعلان کرتا ہے' جو ٹیکس چوری کرتا ہے جو مجرموں اور مفروروں کو پناہ دیتا ہے جو اس پنچایت یا جرگے کی صدارت کرتا ہے جو ونی' کاروکاری یا سوارہ کا حکم دیتا ہے' جو عورتوں کو زندہ دفن کرنے کے گھناؤنے جرم کا دفاع کرتا ہے' جو بڑے سے بڑے جرم پر مٹی ڈالنے کا مشورہ دیتا ہے! اور جو مذہب کے نام پر' ہر حکومت کا ساتھ دیکر مراعات کیلئے چار خانے والا رومال کندھے سے اتار کر زمین پر بچھاتا ہے اور بھکاری ہونے کے باوجود تاویل کا بادشاہ بن جاتا ہے۔
جس دن اس ملک میں سروے کرنیوالے اداروں نے اس بات کا سروے کیا کہ عوام اور خاص کر پڑھے لکھے پاکستانی کن لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں تو اس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ سیاستدان ان میں سرفہرست ہوں گے۔ ان میں اکثریت تو ان سیاستدانوں کی ہے جو تعلیم یافتہ نہیں' ذہنی طور پر ڈیروں کی سطح سے کبھی اوپر نہیں اٹھے اور ''مقرر'' اور ''حاضر جواب'' بننے کیلئے مسخرے بن کر رہ گئے ہیں' لیکن المیہ یہ ہے کہ کچھ ایسے سیاست دان بھی نفرت کی علامت بن گئے ہیں جو خود متوسط طبقے سے آئے تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس گروپ میں جناب مشاہد حسین سید کی شمولیت ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ شاہ صاحب اپنی محنت اور ذہانت سے مشہور ہوئے۔ نوجوانی میں انگریزی اخبار مسلم کے ایڈیٹر ہوئے' کالم ایسے لکھتے کہ ہم جیسے طالب علم ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے۔ ان کی بیگم کا تعلق سجاد حیدر یلدرم اور قرۃ العین حیدر کے خاندان سے ہے۔ یہ خاندان پوری اردو دنیا میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انکے سسر جناب جری احمد سید' سول سروس سے تھے اور راولپنڈی چھاؤنی میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس تھے لیکن جنرل مشرف کے نو سال مشاہد حسین سید نے جس طرح قاف لیگ میں گزارے' اس سے تعلیم یافتہ پاکستانیوں کے دل میں ان کا وہ مقام نہ رہا جو پہلے تھا۔ ہو سکتا ہے انکے پاس انکی اپنی VERSION ہو' اور یقیناً ہو گی' انکو اپنے سیاستدان بھائیوں اور پارٹیوں کے قائدین سے جائز شکایات بھی ہونگی لیکن اس سب کچھ کے باوجود … اس بات کا کوئی جواز نہیں تھا کہ مشاہد حسین سید جیسا ذہین اہل قلم … ان لوگوں کا نفس ناطقہ بن کر رہ جاتا جن کے پاس علم تھا نہ ذہانت اور جن کی واحد اہلیت ان کی بے پناہ دولت تھی۔
تو پھر ناخواندہ اور نیم خواندہ سیاستدانوں سے کیا شکوہ؟ لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کبھی محمد علی جناح' لیاقت علی خان' مولوی تمیزالدین اور حسین شہید سہروردی جیسے سیاستدان میسر آئیں گے؟ اور کیا ہمیں ڈان کے الطاف حسین اور نوائے وقت کے حمید نظامی جیسے صحافی ملیں گے؟ یہ کہیں گے کہ ''میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں'' اس دن ہمارے اہل سیاست بھی مٹی کے بجائے سونا ہو جائیں گے۔ آخر میں الطاف حسین بھی حکومت کو پیارے ہو گئے۔

 

powered by worldwanders.com